ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

21 اگست، 2011

آخری عشرہ کی فضیلت اورلیلۃ القدر


آخری عشرہ کی فضیلت اورلیلۃ القدر

 
الحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الامیین محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین : وبعد :

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت اوراطاعت پوری کوشش سے کیا کرتے تھے جوباقی مہینوں کی بنسبت زيادہ ہوا کرتی تھی اس کا بیان احادیث میں کچھ یوں ملتا ہے :

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ :

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اتنی کوشش کیا کرتے تھے جتنی دوسرے دنوں میں نہيں کرتے تھے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1175 ) ۔

اوراس کوشش میں یہ شامل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے اوراس میں لیلۃ القدر کی تلاش کیا کرتے تھے ۔ دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1913 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1169 ) ۔

اورصحیحین میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ :

جب آخری عشرہ شروع ہوجاتا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر بیدار رہتے اور اپنی کمرکس لیتے اوراپنے گھروالوں بھی بیدار کرتے تھے
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1920 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1174 ) مسلم کی روایت میں جد کے الفاظ زيادہ ہیں ۔

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے الفاظ " شد مئزرہ " عبادت کی تیاری اورعادت سے زيادہ عبادت کی کوشش سے کنایہ سے ، اوراس کا معنی عبادت میں تیزی ہے ۔

اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ یہ عورتوں سے علیحدگي اورجماع ترک کرنے سے کنایہ ہے۔

عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا قول " احیا اللیل " کامعنی ہے کہ رات کونماز وغیرہ کے لیے بیدار رہا کرتے تھے ۔

ایک اورحدیث میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے بھی ثابت ہے کہ وہ بیان کرتی ہیں :

مجھے یہ علم نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید پڑھا ہو یا پھر صبح تک قیام ہی کرتے رہے ہوں ، اوررمضان المبارک کے علاوہ کسی اورمکمل مہینہ کے روزے رکھے ہوں
 سنن نسائي حدیث نمبر ( 1641 ) ۔

 
لھذا ان کے قول احیااللیل یعنی رات بیدار رہا کرتے تھے کواس پر محمول کیا جائے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کا اکثر حصہ بیدار رہتے تھے ، یا پھر اس کا معنی یہ ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عشاء اورسحری وغیرہ کو نکال کر ساری رات قیام کرتے تھے ، تواس کا معنی یہ ہوگا کہ رات کا اکثر حصہ بیدار رہتے تھے ۔

قولھا : " وایقظ اھلہ " یعنی قیام اللیل کے لیے اپنی ازواج مطہرات کو بھی بیدار کیا کرتے تھے ، یہ تومعلوم ہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھروالوں کو سارا سال ہی جگایا کرتےتھے ، لیکن یہ صرف رات کے کچھ حصہ میں قیام کےلیے ہوتا تھا ۔

صحیح بخاری میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات بیدار ہوئے اورفرمانے لگے :

( سبحان اللہ آج رات کیا فتنے اتارے گئے ! کیاخزانےنازل کیے گئے ہيں ! ان کمروں والیوں کوکون جگائے گا ؟ دنیا میں بہت سی لباس والیاں آخرت میں بے لباس ہونگی ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1074 ) ۔

اورایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب وتر پڑھنا چاہتے ہوعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کوبیدار کیا کرتے تھے ۔ دیکھیں صحیح بخاری حدیث نمبر ( 952 ) ۔

لیکن رمضان کے آخری عشرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گھروالیوں کو باقی سارے سال کی بنسبت زيادہ جگایا کرتے تھے ۔

نبی صلی اللہ علیہ کا یہ فعل اپنے رب کی اطاعت اوراوقات کا لحاظ اورفضیلت والے دنوں کے اہتمام پر دلالت کرتا ہے ۔

لھذا مسلمان پرضروری ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اورپیروی کرے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے لیے آئڈیل اورقدوہ و اسوہ ہیں اورمسلمان کواللہ تعالی کی عبادت میں کوشش اوراہمتام کرنا چاہیے ، اوراسے چاہیے کہ وہ ان دنوں اور راتوں کے اوقات کوضائع نہ کرے ، اس لیے کہ کسی بھی شخص کو یہ علم نہیں کہ دوبارہ یہ دن اسے نصیب ہونگے یا نہيں ؟

ہوسکتا ہے آئندہ رمضان سے قبل ہے لذتوں اورراحتوں کو ختم کرنے والی موت آدبوچے جو سب جماعتوں کے بکھیر کررکھ دیتی ہے ، اورپھریہ بات تو یقینی اوراظہرمن الشمس ہے کہ جب کسی شخص کی زندگي ختم ہوجائے اوراس کا وقت آپہنچے تواسے موت آدبوچتی ہے ، اورپھر اس وقت کسی بھی قسم کی کوئي ندامت کام نہیں آتی ۔

اس عشرے اور دنوں کی فضیلت اورخصوصیت اورباقی دوسرے دنوں سے امتیازی حیثیت یہ بھی ہے کہ اس میں ایک ایسی رات پائي جاتی ہے جوہزار مہینوں سے بھی زيادہ بہتر اورافضل ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کا ذکر کچھ یوں فرمایا ہے :

{ حم ، اورکتاب مبین کی قسم ، یقینا ہم نے اس ( قرآن ) کو بابرکت رات میں نازل فرمایا ہے ، یقینا ہم ڈرانے والے ہیں ، اس رات میں ہرحکمت والے امر کا فیصلہ کیاجاتا ہے ، ہماری جانب سےہی حکم ہوتا ہے ، یقینا ہم ہی رسول بھیجنے والے ہیں ، تیرے رب کی رحمت ہے بلاشبہ وہ اللہ سننے والا اورجاننے والا ہے } الدخان ( 1 - 6 ) ۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید کوایسی رات میں نازل فرمایا جسے رب العالمین نے بابرکت فرمایا اوراسے برکت والی رات کانام دیا ہے ، سلف صالحین کی ایک جماعت جن میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما ، قتادہ ، سعید بن جبیر ، عکرمہ اورمجاھد وغیرہ رحمہم اللہ جمیعا شامل ہيں سے یہ صحیح طور پر منقول ہے کہ جس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا وہ لیلۃ القدر ہی ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان : { اس میں ہرحکمت والاامر کی تقسیم ہوتی ہے } کامعنی ہے کہ : یعنی اس رات میں مخلوق کی پورے سال کی مقادیر مقدر کی جاتی ہیں ، لھذا یہ لکھا جاتا ہےکہ اس سال میں کسے موت آئے گي اورکون پیدا ہوگا ، کون ہلاکت سے دوچارہوگا اورکسے نجات اورکامیابی ملے گی ۔

کون سعادت مندوں کی شامل ہوگا اورکسے شقاوت وبدبختوں میں شمولیت ملے گی ، کون ہے جسے عزت و مرتبہ ملے گا اورکون ہے جسے ذلت ورسوائي کا سامنا کرنا ہوگا ، قحط اورخشک سالی بھی لکھی جاتی ہے اوراس سال میں جوکچھ اللہ تعالی چاہے سب کچھ مقدر کردیا جاتا ہے ۔

لیلۃ القدر میں مخلوق کی تقدیر لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ( واللہ اعلم ) کہ لیلۃ القدر میں لوح محفوظ سے اسے منتقل کیا جاتا ہے ۔

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کا قول ہے :

دیکھا جاتا ہے کہ ایک شخص بستر اورچٹائي بچھا رہا ہے اور کھیتی باڑي میں مصروف ہے حالانکہ وہ توفوت شدگان میں شامل ہے ۔

یعنی لیلۃ القدر میں یہ لکھا جاچکا ہےکہ یہ شخص فوت شدگان میں سے ہے ، اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ اس رات مقادیر فرشتوں کے لیے واضح ہوجاتی ہیں ۔

اور لیلۃ القدر کا معنی قدر اور تعظیم والی رات ہے یعنی ان خصوصیتوں اورفضیلتوں کی بنا پر یہ قدر والی رات ہے ، یا پھر یہ معنی ہے کہ جوبھی اس رات بیدار ہوکر عبادت کرے گا وہ قدروشان والا ہوگا ، قدر کا معنی تنگی بھی کیا گيا ہے ، یعنی اس کی تعیین کاعلم خفیہ رکھا گیا ہے ۔

خلیل بن احمد کا کہنا ہے : لیلۃ القدر کوقدر والی رات اس لیے کہتے ہیں کہ : اس رات فرشتوں کی کثرت کی وجہ سے زمین تنگ ہوجاتی ہے ، یعنی قدر تنگی کے معنی میں ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ اورجب اللہ تعالی اسے آزمائش میں ڈالتا ہے تواس پراس کے رزق کو تنگ کردیتا ہے } الفجر ( 16 ) ۔

تویہاں پر قدر کا معنی ہے کہ اس کا رزق تنگ کردیا جاتا ہے ۔

اورایک قول یہ بھی ہے کہ : لیلۃ القدر القدر کے معنی میں ہے یعنی دال پر زبر ہے جس کا معنی تقدیر ہے ، وہ اس لیے کہ اس رات میں پورے سال کے احکام کی تقدید لکھی جاتی ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

{ اس رات میں ہر حکمت والے کام کی تقسیم ہوتی ہے } اوراس لیے بھی کہ اس رات میں تقادیر لکھی اوربنائي جاتی ہیں ۔

تواللہ تعالی نے اس رات کی جلالت اورقدرومنزلت اورمقام مربتہ کی بنا پراس کانام لیلۃ القدر رکھا کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں اس رات کی بہت قدر منزلت اورمرتبہ ہے اوراس میں کثرت سے گناہ بخشے جاتے ہیں اورعیوب پرپردہ ڈالا جاتا ہے ، لھذا یہ رات مغفرت کی رات بھی ہے ۔

جیسا کہ صحیحین کی حدیث میں ہے ، ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جوبھی لیلۃ القدر میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے قیام کرے اس کے پہلے سارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ) ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1910 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 760 ) ۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے اس رات کوکچھ خصوصیات سے نوازا ہے :

1 - لیلۃ القدر ميں قرآن مجید کا نزول ہوا ، جیسا کہ اوپر بیان بھی کیا جاچکا ہے ، ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما وغیرہ کہتے ہیں : اللہ سبحانہ وتعالی نےقرآن مجیدیکبارگی اورمکمل طورلوح محفوظ سے آسمان دنیا پربیت العزۃ میں نازل کیا گيا ، پھر اس کے بعد نبوت کی تئيس سالہ زندگي میں حسب ضرورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل فرمایا گیا ۔

دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 4/ 529 ) ۔

2 - اللہ تعالی نے اس کا وصف بیان کیا ہے کہ یہ رات ہزار مہینہ سے بھی بہتر ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ قدروالی رات ایک ہزار مہینہ سے بہتر ہے } القدر ( 3 ) ۔

3 - اللہ تعالی نے اسے بابرکت رات بھی قرار دیا ہے :

فرمان باری تعالی ہے :

{ یقنا ہم نے اس قرآن مجید کوبابرکت رات میں نازل فرمایا ہے } الدخان ( 3 ) ۔

4 - اس رات میں فرشتے اور روح نزول کرتے ہیں : یعنی اس رات کی کثرت برکت کی بنا پر فرشتوں کی کثیر تعداد نزول کرتی ہے ، اورپھر فرشتے توبرکت اوررحمت کے نزول کے ساتھ نازل ہوتے ہيں ، جیسا کہ قرآن مجید کی تلاوت کے وقت بھی فرشتے اتر کروعظ ونصیحت اورقرآن پڑھنے والوں پرحلقہ بنا لیتے ہيں اورسچے طالب کے لیے تعظیما اپنے پر بچھاتے ہیں ۔

دیکھیں : تفسیر ابن کثیر ( 4 / 531 ) اورروح جبریل امین علیہ السلام کے ساتھ خاص ہے اوران کے شرف مرتبہ کی بنا پرصرف انہيں ذکر کیا ہے ۔

5 - اللہ تعالی نے اس رات کوسلامتی کا وصف بھی دیا ہے ، یعنی یہ رات شیطان سے سلیم رہتی اورشیطان اس میں کچھ بھی اذیت پہنچانے اوربرائي کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ، جیسا کہ امام مجاھد رحمہ اللہ تعالی کابھی یہی قول ہے دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 4 / 531 ) ۔

اسی طرح اس میں سزا اورعذاب سے بھی سلامتی کثرت سے ہوتی ہے کیونکہ بندہ اللہ تعالی کی اطاعت میں مشغول رہتا ہے ۔

6 - اس رات میں ہر حکمت والا کام تقسیم ہوتا ہے : الدخان ( 4 )

یعنی ہرکام لوح محفوظ سے لکھنے والے فرشتوں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے کہ سارے سال میں اموات اوررزق اورجوکچھ سال کے آخر تک ہوگا وہ سب لوح محفوظ سے منتقل ہوجاتا ہے ، اورہرامر محکم ہوتا ہے اس میں کسی بھی قسم کا تغیر وتبدل نہيں ہوتا ۔ دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 4 / 137 - 138 ) ۔

اوریہ سب کچھ پہلے ہی اللہ تعالی نے لکھا ہوا ہے اوراس کا علم بھی پہلے سے ہی اس کے پاس ہے ، لیکن جوکچھ وقوع پزیر ہونے والا ہے وہ فرشتوں پر ظاہر ہوجاتا ہے اوراللہ تعالی انہیں اسے سرانجام دینے کا حکم دیتا ہے اورفرشتوں کا کام بھی یہی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکامات پرعمل کریں ۔

دیکھیں : شرح صحیح مسلم للنووی ( 8 / 57 ) ۔

7 - لیلۃ القدر میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے قیام کرنے والے شخص کےپچھلے تمام گناہ اللہ تعالی معاف فرما دیتاہے ، جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں بھی اس کا ثبوت پایا جاتا ہے :

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جس نے بھی ایمان اوراجروثواب کی نیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ، اورجوشخص بھی لیلۃ القدر میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے قیام کرے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ) متفق علیہ ۔

قولہ : ( ایمانا واحتسابا ) یعنی اللہ تعالی کے وعدہ اجروثواب کی تصدیق اوراجرحاصل کرنے کے لیے قیام کرے ، نہ کہ کسی اورغرض اوریا پھر ریاءوغیرہ کے لیے ۔ دیکھیں فتح الباری ( 4 / 251 ) ۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے اس رات کی شان میں ایک سورۃ نازل فرمائي جوقیامت تک پڑھی جاتی رہے گی ، اس سورۃ میں اللہ تعالی نے اس رات کی قدرومنزلت اورشان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :

{ یقینا ہم نے اسے قدر والی رات میں نازل فرمایا ہے ، توکیا سمجھا کہ قدر والی رات کیا ہے ؟ قدر والی رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اس میں ہرکام کوسرانجام دینے کے لیے فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے اترتے ہیں ، یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اورفجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے} القدر ( 1 - 5 ) ۔

لھذا اللہ تعالی کا فرمان : { توکیا سمجھا کہ قدروالی رات کیا ہے } اس رات کی عظمت اورشان بیان کرنے کے لیے ہے ۔

قولہ : { قدر والی رات ایک ہزار رات سے بہتر ہے } یعنی اس رات میں کی گئي عبادت تراسی 83 برسوں کی عبادت سے بھی زيادہ بہتر ہے ، یہ بہت ہی بڑا فضل ہے جس کی قدر صرف اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے ۔

اوراس میں مسلمان کے لیے اس رات کی عبادت کرنے میں ترغیب اوراس میں قیام کرنے پرتشجیع بھی ہے کہ وہ اللہ تعالی کی رضا کے لیے عبادت کرے ، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاص کراس رات کوبہت زيادہ تلاش کیا کرتے تھے ، اوروہ خیروبھلائي میں سبقت لےجانے والے اوراپنی امت کے لیے قدوہ و اسوہ اورآئڈیل تھے جنہوں نے اعتکاف کرکے اس رات کوتلاش کیا ۔

اس رات کو رمضان اورخاص کراس کے آخری عشرہ میں تلاش کرنا مستحب ہے ، اس کا ذکر حدیث میں بھی ملتا ہے :

ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے پہلے عشرہ کا ایک ترکی قبے ( خیمہ اورگول عمارت کوقبہ کہا جاتا ہے )میں اعتکاف کیا اورپھردوسرے عشرے کا اعتکاف کیااس کے دروازے پرچٹائي تھی ۔

ابوسعید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے چٹائي پکڑ کرقبے کے کی ایک طرف کی اوراپناسرنکال کرلوگوں سے کلام تولوگ ان کے قریب ہوئے توآپ نے فرمایا :

( میں نے یہ رات تلاش کرنے کے لیے پہلا عشرہ اعتکاف کیا پھر درمیانہ عشرہ بھی اعتکاف کیا پھرمیرےپاس نیندمیں گئي اورکہا گيا یہ رات آخری عشرہ ميں ہے ، لھذا تم میں سے جوبھی اعتکاف کرنا چاہے وہ اعتکاف جاری رکھے تولوگوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ سلم کے ساتھ اعتکاف کیا ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے یہ طاق رات میں دکھائي گئي ہے اورمیں اس رات کی صبح پانی اورکیچڑ میں سجدہ کرہا ہوں ، اکیسویں رات صبح تک قیام کرتے رہے اورآسمان سے بارش بھی نازل ہوئي تومسجدٹپکنا شروع ہوگئي ، میں نے پانی اورکیچڑ دیکھا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نمازفجر سے فارغ ہونے کے بعد نکلے توان کی پیشانی اورناک پانی اورکيچڑ میں لتھڑا ہوا تھا ، اوریہ آخری عشرہ میں اکیسویں رات تھی ) صحیح مسلم حدیث نمبر (1167)

اورایک روایت میں ہے کہ ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں :

( اکیسویں رات ہم پربارش برسی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھانے والی جگہ سے مسجد ٹپکنے لگی ، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر پڑھا کرنکلے تومیں میں آپ کا چہرہ مبارک پانی اورکيچڑ میں لتھڑا ہوا دیکھا ) متفق علیہ ۔

اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے عبداللہ بن انیس رضي اللہ تعالی عنہ بھی ابوسعید رضي اللہ تعالی عنہ جیسی حدیث ہی روایت بیان کی ہے لیکن اس میں وہ کہتے ہیں کہ : ( ہم پر تئیسویں رات بارش برسی ) ۔

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی حدیث میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اسے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں تلاش کرو ،باقی نو رہ جائيں تو، باقی سات رہ جائيں ، باقی پانچ رہ جائيں تو ) صحیح بخاری ( 4 / 260 ) ۔

لیلۃ القدر آخری عشرہ میں ہی آتی ہے جیسا کہ اوپروالی حدیث میں بیان ہوا اوراسی طرح عائشہ اورابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما کی حدیث میں بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( رمضان المبارک کے آخري عشرہ میں لیلۃ القدر تلاش کرو ) ۔

دیکھیں حدیث عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا صحیح بخاری ( 4 / 259 ) اور حدیث ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما صحیح مسلم ( 2 / 823 ) اورمندرجہ بالا الفاظ حدیث عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے ہيں ۔

اورآخری عشرہ میں بھی طاق راتوں میں یقینی ہے کیونکہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( آخری عشرہ کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر تلاش کرو ) صحیح بخاری ( 4/ 259 ) ۔

اوربالذات طاق راتوں میں یعنی اکیسویں ، تئیسویں ، پچیسویں ، ستائسویں ، اورانتیسویں رات ، صحیحین میں حدیث وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اس رات کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1912 ) اور ( 1913 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1167 ) اور ( 1165 ) ۔

اورحدیث ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، باقی نو رہ جائے تو، باقی سات رہ جائيں تو، باقی پانچ رہ جائیں تو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1917 - 1918 ) ۔ لھذا لیلۃ القدر کا طاق راتوں میں پایا جانا زيادہ یقینی اورلائق ہے ۔

اورصحیح بخاری میں عبادہ بن صامت رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لیلۃ القدر کا بتانے نکلے تومسلمانوں میں سے دو شخص تنازع کرنے لگے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( میں توتمہيں لیلۃ القدر کا بتانے نکلاتھا لیکن فلاں فلاں شخص تنازع اورجھگڑا کرنے لکے تویہ اٹھا لی گئي ، اورہوسکتا یہ تمہارے لیے بہتر ہو ، لھذا تم اسے نویں ، ساتویں ، پانچویں میں تلاش کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1919 ) یعنی طاق راتوں میں تلاش کرو ۔

اوراس حدیث میں تنازع اورجھگڑے کی نحوست کا بیان ملتا ہے ، اورخاص کردین کے معاملہ میں تنازع کرنا ، اوریہ خیروبھلائي میں کمی اوراس کےاٹھ جانے کا سبب ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

( لیکن طاق ماضي کے اعتبار سے ہوتواس طرح اکیس ، تئيس ، پچیس ، ستائيس اورانتیس کی رات بنے گی ، اوربقیہ کے اعتبارسے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( نوباقی رہنے ، سات باقی رہنے ، پانچ باقی رہنے ، تین باقی رہنے میں ) ۔

تواس بنا پراگر مہینہ تیس کا ہوتویہ راتیں طاق کی بجائے دھائی والی راتیں ہونگی اوربائيسویں رات نوباقی بچنے ميں ہوگي اورسات باقی بچنے میں چوبیسویں رات بنے گی ، ابوسعید خدری رضي اللہ تعالی عنہ نےصحیح حدیث میں یہی تفسیر کی ہے ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مہینہ میں ایسے ہی قیام کیا لھذا جب معاملہ ایسا ہی ہو تومومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ لیلۃ القدر کو پورے آخری عشرہ میں ہی تلاش کرے ) شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے کلام کا مقصود ختم ہوا ۔

دیکھیں : مجموع الفتاوی الکبری ( 25 / 284 - 285 ) ۔

اورلیلۃ القدر کی آخری سات راتوں میں زيادہ امید کی جاسکتی ہے ، اسی لیے ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث میں ہے کہ کچھ صحابہ کرام کوخواب میں لیلۃ القدر آخری سات دنوں میں دکھائي گئي ، تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( میرے خیال میں آخری سات راتوں کے بارہ میں تمہاری خوابیں متفق ہیں ، لھذا جوبھی لیلۃ القدر تلاش کرنا چاہے وہ آخری سات راتوں میں تلاش کرے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1911 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1165 )

اورمسلم شریف کی روایت میں ہے کہ :

( اسے آخری عشرہ ميں تلاش کرو ، اگر تم میں سے کوئي ایک عاجز آجائے یا کمزور جائے تواسے آخری سات راتوں میں لازمی تلاش کرنی چاہیے ) ۔

اورستائسویں رات میں تواس کی اوربھی زيادہ امید کی جاسکتی ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے : امام احمد نے ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ اورامام ابوداود رحمہ اللہ تعالی نے معاویہ رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( لیلۃ القدر ستائسویں رات ہے ) مسند احمد ، سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1386 ) ۔

اکثر صحابہ اورجمہور علماء کرام کا مذھب یہی ہے کہ لیلۃ القدر ستائسویں رات ہی ہے ، حتی کہ ابی بن کعب رضي اللہ تعالی عنہ استثناء کے بغیر حلفا کہا کرتے تھے کہ لیلۃ القدر ستائسویں رات ہی ہے ، زر بن حبیش رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ میں نے کہا اے ابومنذر آپ ایسے کس وجہ سےکہتے ہیں ؟

وہ کہنے لگے : اس نشانی اورعلامت کی بنیاد پرجونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائي تھی ، وہ یہ ہے کہ : اس دن سورج طلوع ہوگا تواس میں شعاع اور تمازت نہيں ہوتی ۔ اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے دیکھیں صحیح مسلم ( 2 / 268 )

ستائیسویں کی تعیین میں بہت ساری مرفوع احادیث مروی ہيں :

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما نے بھی یہی کہا ہے کہ : ( یہ ستائیسویں رات ہی ہے ) اورکچھ امور سے ایک عجیب وغریب استنباط کیا ہے ، بیان کیا جاتا ہے کہ عمررضي اللہ تعالی نے صحابہ کرام کوجمع کیا اوران کے ساتھ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہم کوبھی جمع کیا جوکہ ابھی بچے یعنی چھوٹی عمر کے تھے تو صحابہ کرام کہنے لگے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ توہمارے بچوں کی طرح ہے آپ اسے ہمارے ساتھ کیوں جمع کررہے ہیں ؟

توعمررضي اللہ تعالی عنہ نے جواب میں فرمایا :

اس نوجوان کا دل عقلمندوں کا اور زبان سوال والی ہے ، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لیلۃ القدر کے بارہ میں سوال کیا تو وہ سب کہنے لگے رمضان کے آخری عشرہ ميں ہے ، توعمررضي اللہ تعالی عنہ نے اس کے متعلق ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے پوچھا تو وہ کہنے لگے :

مجھے علم ہے کہ یہ کونسی ہے ، یقینا یہ ستائیسویں رات ہے ، توعمر رضي اللہ تعالی عنہ نے کہا آپ کو کیسے علم ہوا ؟

تووہ کہنے لگے : اللہ تعالی نے سات آسمان بنائے ، اورزمینیں بھی سات ہی بنائيں ، اور دن بھی سات ہی بنائے ، اورانسان کو بھی سات سے پیدا فرمایا ، اور طواف بھی سات چکر بنائے ، اورسعی بھی سات چکر ہی ہیں ، اوررمی جمرات بھی سات کنکریاں ہیں ۔

توان استنباطات کی بنا پرابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما یہی خیال کرتے تھے کہ لیلۃ القدر ستائيسویں رات ہی ہے ، اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے یہ بات ثابت ہے ۔

اوران امورمیں سے جن سے یہ استنباط کیا جاتا ہے کہ لیلۃ القدر ستائیسویں رات ہے وہ اللہ تعالی کے فرمان کا کلمہ ہے جس میں یہ ہے :

{ تنزل الملائکۃ والروح فیھا } اس میں فرشتے اورروح اترتے ہیں ۔ یہ سورۃ القدر کا ستائیسواں کلمہ ہے ۔

لیکن اس پرکوئي شرعی دلیل نہیں ، اس لیے اس طرح کے حسابات کی کوئي ضرورت نہيں ہے ، اس لیے کہ ہمارے پاس شرعی دلائل ہيں جوہمیں اس سے مستغنی کردیتے ہيں ۔

لیکن غالبا یہی ہے کہ ستائسویں رات لیلۃ القدر ہوتی ہے واللہ اعلم ، لیکن یہ مستقل نہيں بلکہ اس میں تبدیلی ہوتی ، بعض اوقات اکیسویں رات ہوتی ہے جیسا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی مندرجہ بالا حدیث میں ہے ۔

اور بعض اوقات تئيسویں رات ہوتی ہے جیسا کہ عبداللہ بن انیس رضي اللہ تعالی عنہ کی روایت میں ہے اس کا بیان ہوچکا ہے ، اورابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( لیلۃ القدر کورمضان المبارک کے آخری عشرہ میں تلاش کرو ، باقی نو رہ جائيں ، باقی سات رہ جائيں ، باقی پانچ رہنے پر ) صحیح بخاری ( 4 / 260 ) ۔

اوربعض علماء کرام نے تواسے راجح قرار دیا ہے کہ لیلۃ القدر ہرسال ہی کسی ایک معین رات میں نہیں ہوتی بلکہ منتقل ہوتی رہتی ہے ، امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

( اس میں صحیح احاديث کے تعارض کی بنا پر ظاہر ، صحیح اورمختار یہی ہے یہ منتقل ہوتی رہتی ہے ، اورانتقال کے بغیر احادیث میں جمع ممکن نہیں ) دیکھیں المجموع للنووی ( 6 / 450 ) ۔

اللہ سبحانہ وتعالی نے لیلۃ القدر کو چھپایا اورمخفی اس لیے رکھا ہے کہ اس کے بندے اسے تلاش کرنے کی تگ ودو کریں اور عبادت کرنے کی کوشش کریں ، جیسا کہ جمعہ کے دن اس گھڑی کوخفیہ اورپوشیدہ رکھا گيا ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے ۔

لھذا مسلمان پرواجب اور ضروری ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہوئے ان آخری دس دن اوررات لیلۃ القدر کی تلاش کے لے عبادت کریں اوراللہ تعالی سے دعا اوراس کی جانب التجائيں کریں ۔

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : اے اللہ تعالی کے رسول مجھےکیا کہنا ہے ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اللهم إنك عفو كريم تحب العفو فاعف عني ) اے اللہ تومعاف کرنے والا کرم والا ہے اورمعافی کوپسند کرتا ہے لھذا مجھے معاف کردے ۔

مسند احمد ، سنن ترمذی حدیث نمیر ( 3513 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 3850 ) اس کی سند صحیح ہے ۔

سوم : اس میں اعتکاف کی خصوصیت پائی جاتی ہے سال کے باقی دنوں میں نہ ہونے کے باعث اسےزیادہ فضیلت حاصل ہے ، اوراللہ تعالی کی اطاعت فرمانبرداری کے لیے مسجد میں ٹھرنے کا نام اعتکاف ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم تواس آخری عشرہ کااعتکاف بھی کیا کرتے تھے ۔

جیسا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی سابقہ حدیث میں ہے کہ : ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا پھر دوسرے عشرہ کا بھی اعتکاف کیا ، اورپھر انہیں بتایا کہ وہ لیلۃ القدر تلاش کررہے تھے ، اوریہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوآخری عشرہ میں لیلۃ القدر دکھائی گئي ہے ) ۔

اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ بھی فرمان ہے :

( جو میرے ساتھ اعتکاف کررہا تھا اسےچاہیے کہ وہ آخری عشرے کا اعتکاف بھی کرے ) ۔

اورعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے حتی کہ اللہ تعالی نے انہیں فوت کردیا ، پھر ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا ۔متفق علیہ ۔

اس کے علاوہ بخاری ومسلم نے ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما سے بھی اس جیسی حدیث بیان کی ہے ۔

عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کرنا چاہتے تو نماز فجر کے بعد اپنی خاص اعتکاف والی جگہ میں داخل ہوجاتے ۔ صحیح بخاری ومسلم ۔

آئمہ اربعہ وغیرہ رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ : نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم غروب شمس سے قبل داخل ہوتے تھے ، انہوں نے حديث کی تاویل یہ کی ہے کہ نمازفجر کے بعد داخل ہونے کا معنی یہ ہے کہ : وہ اپنے اعتکاف والی جگہ میں داخل ہوئے اورانقطاع اورخلوت اختیارکرلی ، یہ نہیں کہ اعتکاف کے وقت کی ابتداء ہے ۔ دیکھیں شرح مسلم للنووی ( 8 / 68 - 69 ) اورفتح الباری ( 4 / 277 ) ۔

اعتکاف کرنے والے کے لیے مسنون ہے کہ وہ اطاعات میں مشغول رہے ، اوراس پراعتکاف کی حالت میں بیوی سے جماع اوربوس وکنار کرنا حرام ہے اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اورتم عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جبکہ تم مسجدوں میں اعتکاف کی حالت میں ہو } البقرۃ ( 177 ) ۔

اوراعتکاف کرنے والے کوبغیرکسی ضرورت کے مسجد سے باہر نہیں نکلنا چاہیے اورضرورت بھی ایسی ہوجس کے بغیررہا نہ جاسکے ۔

لیلۃ القدر پہچاننے کی علامات اورنشانیاں :

پہلی علامت :

صحیح مسلم شریف میں ابی بن کعب رضي اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ لیلۃ القدر کی علامات میں یہ بھی ہے کہ اس صبح سورج طلوع ہو تو اس میں تمازت نہيں ہوتی ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 762 ) ۔

دوسری علامت :

صحیح ابن خزیمہ اورمسند طیالسی میں صحیح سند کےساتھ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( لیلۃ القدر معتدل نہ توگرم اورنہ ہی سرد ہوتی ہے ، اس دن صبح سورج کمزور اورسرخ طلوع ہوتا ) یعنی تمازت نہیں ہوتی ۔ صحیح ابن خزيمہ حدیث نمبر ( 2912 ) مسند الطیالسی ۔

تیسری علامت :

امام طبرانی نے حسن سند کے ساتھ واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث بیان کی ہے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( لیلۃ القدر روشن رات ہوتی ہے نہ توگرم اورنہ ہی سرد ہوتی اوراس میں کوئي ستارہ نہيں پھینکا جاتا ، یعنی شہاب ثاقب نہيں گرتا ) اسے طبرانی کبیر میں روایت کیا گيا ہے ، دیکھیں مجمع الزوائد ( 3 / 179 ) مسند احمد ۔

لیلۃ القدر کی نشانیوں میں یہ تین احادیث صحیح ہيں ، اس سے یہ لازم نہيں آتا کہ جس نے بھی لیلۃ القدر کوپالیا اوراس میں قیام کیا وہ اسے حاصل بھی گئي ہے ، بلکہ اس میں معتبرتواخلاص نیت اورکوشش ہے ، چاہے اسے علم ہو یا نہ ہو ، اوربعض اوقات ہوسکتا ہے کہ جنہیں اس کا علم بھی نہیں ہوسکا وہ اپنے اجتھاد اورکوشش کی بنا پر اللہ تعالی کے ہاں لیلۃ القدر کوجاننے والوں سے کئي درجہ افضل اور بہترہوں ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گوہیں کہ وہ ہمارے روزے اور قیام قبول منظور فرمائے ، اوراپنے ذکر وشکر اورحسن عبادت پر معاونت فرمائے ۔ آمین ۔

اوراللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے ، آمین یا رب العالمین

 

Ramadan kay Ahri hashray ki fazeelatore laila tul Qadr
Shab e qadr
importance of last 10 days in ramadan and lailatul qadar in the light of ahadith

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں