ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

3 اگست، 2011

روزہ افطار کروانا

روزہ افطار کروانا



عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الجُهَنِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا»[سنن الترمذي : 3/ 162رقم 807وقال:«هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ» وھو کذالک]۔
زیدبن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی روزہ دارکو افطارکروایا تواس شخص کوبھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا ثواب روزہ دار کے لئے ہوگا،اورروزہ دارکے اپنے ثواب میں‌ سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔

اس حدیث میں‌ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ افطار کرانے کی فضیلت بیان کی ہے اوراس کا فائدہ یہ بتلایا ہے کہ روزہ افطار کرانے والے کوبھی اتنا ثواب ملتاہے جتنا روزہ افطارکرنے والے کو ملتاہے۔

اس حدیث سے متعلق چند باتوں کو سمجھ لینا چاہے:

اولا:
پہلی بات یہ ہے کہ اس حدیث میں‌ روزہ افطار کرانے کا جوثواب بتلایا گیا وہ اسی صورت میں حاصل ہوگا جب افطار حلال کمائی سے کرایا جائے، چنانچہ اس سلسلے میں ایک صریح روایت میں یہ شرط بھی ہے ’مِنْ كَسْبٍ حَلَالٍ ‘‘ یعنی حلال کمائی سے لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ تفصیل کے یہ لنک دیکھیں۔
تاہم دیگرعمومی آیات واحادیت سے یہ بات مستند ہے۔

ثانیا:
اس حدیث سے متعلق دوسری بات یہ کہ اس میں مطلقا کسی بھی شخص کو افطار کرانے کی بات کہی گئی ہے ،اس کے لئے غرباء ومساکین کی تخصیص نہیں ہے، اس لئے اس حدیث‌ میں مذکورہ ثواب حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف غرباء ومساکین ہی کو افطار کرایا جائےتبھی مطلوبہ ثواب ملے گا، بلکہ اگر مالدار اورامیرشخص کوافطار کروادیں تب بھی یہ ثواب حاصل ہوجائے گا، شیخ بن باز رحمہ اللہ کا بھی یہی فتوی ہے۔

تاہم بہتریہی ہے کہ افطارکروانے کے لئے غرباء ومساکین ہی کا انتخاب کیا جائے کیونکہ اس میں دو فائدہ ہے ایک تو افطار کرانے والے کو ثواب مل جاتاہے اوردوسرا غریب ومسکین کا بھلا بھی ہوجاتاہے، لیکن اگر غرباء ومساکین نہ ملیں تو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اب اس حدیث پر عمل کرنے کا موقع ہی نہ رہا بلکہ ایسی صورت میں کسی کو بھی افطار کرا کریہ ثواب حاصل کیا جاسکتاہے۔

 
ثالثا:
بعض حضرات اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اگر ہم نے کسی دوسرے کے یہاں افطار کرلیا تو ہمارے روزے کا ثواب افطارکرانے والے کو مل جائے گا یہ سراسر غلط فہمی بلکہ جہالت ہے کیونکہ اس حدیث میں افطار کرانے والے کے لئے جس ثواب کی بات کہی گئی ہے وہ ثواب اسے الگ سے ملے گا، اس کے لئے افطار کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
حدیث میں باقائدہ اس چیز کی صراحت ہے ’’غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا‘‘ یعنی افطار کرنے والے روزہ دارکے ثواب میں کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔


رابعا:
جو شخص کسی کے یہاں افطار کرے تو افطار کے بعد اسے درج ذیل دعاپڑھنی چاہئے:
أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ [سنن أبي داود:3/ 367رقم 3854 واسنادہ
صحیح]۔




0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں