پہلی بات یہ ہے کہ اس حدیث میں روزہ افطار کرانے کا جوثواب بتلایا گیا وہ اسی صورت میں حاصل ہوگا جب افطار حلال کمائی سے کرایا جائے، چنانچہ اس سلسلے میں ایک صریح روایت میں یہ شرط بھی ہے ’’مِنْ كَسْبٍ حَلَالٍ ‘‘ یعنی حلال کمائی سے لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ تفصیل کے یہ لنک دیکھیں۔
تاہم دیگرعمومی آیات واحادیت سے یہ بات مستند ہے۔
اس حدیث سے متعلق دوسری بات یہ کہ اس میں مطلقا کسی بھی شخص کو افطار کرانے کی بات کہی گئی ہے ،اس کے لئے غرباء ومساکین کی تخصیص نہیں ہے، اس لئے اس حدیث میں مذکورہ ثواب حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف غرباء ومساکین ہی کو افطار کرایا جائےتبھی مطلوبہ ثواب ملے گا، بلکہ اگر مالدار اورامیرشخص کوافطار کروادیں تب بھی یہ ثواب حاصل ہوجائے گا، شیخ بن باز رحمہ اللہ کا بھی یہی فتوی ہے۔
تاہم بہتریہی ہے کہ افطارکروانے کے لئے غرباء ومساکین ہی کا انتخاب کیا جائے کیونکہ اس میں دو فائدہ ہے ایک تو افطار کرانے والے کو ثواب مل جاتاہے اوردوسرا غریب ومسکین کا بھلا بھی ہوجاتاہے، لیکن اگر غرباء ومساکین نہ ملیں تو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اب اس حدیث پر عمل کرنے کا موقع ہی نہ رہا بلکہ ایسی صورت میں کسی کو بھی افطار کرا کریہ ثواب حاصل کیا جاسکتاہے۔
بعض حضرات اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اگر ہم نے کسی دوسرے کے یہاں افطار کرلیا تو ہمارے روزے کا ثواب افطارکرانے والے کو مل جائے گا یہ سراسر غلط فہمی بلکہ جہالت ہے کیونکہ اس حدیث میں افطار کرانے والے کے لئے جس ثواب کی بات کہی گئی ہے وہ ثواب اسے الگ سے ملے گا، اس کے لئے افطار کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
جو شخص کسی کے یہاں افطار کرے تو افطار کے بعد اسے درج ذیل دعاپڑھنی چاہئے:
أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ [سنن أبي داود:3/ 367رقم 3854 واسنادہ
صحیح]۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں