ٹیپو سلطان کا سفر آخرت
وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے
امیر المومنین کی چوکیداری
ایک دلچسپ واقعہ
مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں
زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔
پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟
میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔
داستان ایک متکبر کی
سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف
میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا
عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ
23 ستمبر، 2012
میڈیا کے ظالمو! تمہاری چیخیں آج ہی کیوں نکلیں؟
22 ستمبر، 2012
سنو للکارنے والو ! کسے للکارتے ہوتم ؟
20 ستمبر، 2012
17 ستمبر، 2012
عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور برداشت
وہ یہودی تھا اور اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا تھا‘ میری اس سے پیرس میں ملاقات ہوئی‘ پیرس میں دنیا کا بہت بڑا اسلامک سینٹرہے اوریہ سینٹر علم کا خزانہ ہے‘ فرانسیسی ماضی میں بے شماراسلامی ممالک کے حکمران رہے‘ یہ ان ممالک سے قلمی نسخے‘ قدیم کتابیں اور قدیم مکتوبات جمع کرتے رہے‘ پیرس لاتے رہے اور پیرس میں اسلامک سینٹر بنا کر یہ خزانہ اس میں رکھ دیا۔
یہ عمارت دریائے سین کے کنارے واقع ہے‘ عمارت وسیع بھی ہے‘ خوبصورت بھی‘ جدید بھی اور آٹھ دس منزلہ بھی۔ عمارت کی چھت پر چار شاندار کیفے اور ریستوران ہیں‘ آپ چھت پر بیٹھ کر کافی بھی پی سکتے ہیں‘ کھانا بھی کھا سکتے ہیں اور پیرس شہر اور دریائے سین کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ کا زیادہ تروقت اسی سینٹر میں گزرتا تھا‘ وہ سینٹر کے قریب رہتے تھے ‘ ان کی مسجد بھی سینٹر سے چند قدم کے فاصلے پر تھی‘ میں جب بھی پیرس جاتا ہوں۔
اس سینٹر کا چکر ضرور لگاتا ہوں‘ میں اسلام پر قدیم اور جدید کتابیں دیکھتا ہوں‘ شام کو سینٹر کی چھت پر بیٹھ کر کافی پیتا ہوں‘ اسلامی دنیا کی عقل پر ماتم کرتا ہوں اور یہ سوچتا ہوا لفٹ سے نیچے آ جاتا ہوں ’’اسلامی ممالک میں ایسا سینٹر کیوں نہیں؟‘‘ ہم نے علم کا یہ خزانہ کیوں جمع نہیں کیا اور ان لوگوں نے عیسائی ہونے کے باوجود اسلامی کتابیں کیوں جمع کر رکھی ہیں۔
وہ یہودی ربی مجھے اس سینٹر کی چھت پر ملا ‘ وہ اپنی نشست سے اٹھا‘ مجھے اسلام علیکم کہا اور عربی میں گفتگو شروع کر دی‘ میں نے اس سے معذرت کی اور عرض کیا ’’میں عربی نہیں جانتا‘‘ اس نے پوچھا ’’کیا آپ مسلمان ہیں؟‘‘ میںنے جواب دیا ’’الحمداللہ‘‘۔ اس نے حیرت سے پوچھا ’’پھر آپ کو عربی کیوں نہیں آتی‘‘ میں نے عرض کیا ’’میں پاکستانی مسلمان ہوں اور پاکستان میں بچوں کو عربی کے بجائے انگریزی پڑھائی جاتی ہے‘‘ اس کے ساتھ ہی اس نے بھی قہقہہ لگایا اور میں نے بھی۔ وہ مجھے مصری مسلمان سمجھ کر میرے پاس آیا تھا‘ یورپ اور امریکا کے عیسائی اور یہودی مصریوں کو بہت پسند کرتے ہیں‘ اس کی شاید دو وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ‘ مصری لوگوں میں ہمارے مقابلے میں زیادہ برداشت ہوتی ہے‘ یہ لوگ ہر قسم کی بات سہہ جاتے ہیں جب کہ ہم جلد بھڑک اٹھتے ہیں۔ دوسری وجہ‘ یہودیت اور عیسائیت دونوں نے اس خطے سے جنم لیا ‘ ماضی میں شام‘ لبنان‘ فلسطین اور اردن مصر کا حصہ ہوتے تھے چنانچہ یہودیت ہو یا عیسائیت ان کی بنیاد مصری علاقوں میں پڑی لہٰذا یہ لوگ مصریوں سے ڈائیلاگ میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔
مصری لوگ ہمارے مقابلے میں زیادہ پڑھے لکھے بھی ہیں‘ یہ دین‘ سائنس اور ادب تینوں شعبوںمیں مسلم ممالک سے آگے ہیں‘ یورپ اور امریکا کے دانشور انھیں پسند کرتے ہیں مگرمیں پاکستانی بھی نکلا اور مجھے عربی بھی نہیں آتی تھی لیکن اس کے باوجود کیونکہ وہ میرے پاس آ چکا تھا چنانچہ اس نے واپس جانا خلاف تہذیب سمجھا اور وہ میرے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے پوچھا ’’کیا آپ مسلمان ہیں؟‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’نہیں میں جارڈن کا یہودی ہوں۔
میں ربی ہوں اور پیرس میں اسلام پر پی ایچ ڈی کر رہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’تم اسلام کے کس پہلو پر پی ایچ ڈی کر رہے ہو‘‘ وہ شرما گیا اور تھوڑی دیر سوچ کر بولا ’’میں مسلمانوں کی شدت پسندی پر ریسرچ کر رہا ہوں‘‘ میں نے قہقہہ لگایا اور اس سے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کہاں تک پہنچی؟‘‘ اس نے کافی کا لمبا سپ لیا اور بولا ’’میری ریسرچ مکمل ہو چکی ہے اور میں اب پیپر لکھ رہا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’تمہاری ریسرچ کی فائنڈنگ کیا ہے؟‘‘ اس نے لمبا سانس لیا‘ دائیں بائیں دیکھا‘ گردن ہلائی اور آہستہ آواز میں بولا ’’میں پانچ سال کی مسلسل ریسرچ کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں مسلمان اسلام سے زیادہ اپنے نبی سے محبت کرتے ہیں۔
یہ اسلام پر ہر قسم کا حملہ برداشت کر جاتے ہیں لیکن یہ نبی کی ذات پر اٹھنے والی کوئی انگلی برداشت نہیں کرتے‘‘ یہ جواب میرے لیے حیران کن تھا‘ میں نے کافی کا مگ میز پر رکھا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا‘ وہ بولا ’’میری ریسرچ کے مطابق مسلمان جب بھی لڑے‘ یہ جب بھی اٹھے اور یہ جب بھی لپکے اس کی وجہ نبی اکرمﷺ کی ذات تھی‘ آپ خواہ ان کی مسجد پر قبضہ کر لیں‘ آپ ان کی حکومتیں ختم کر دیں۔
آپ قرآن مجید کی اشاعت پر پابندی لگا دیں یا آپ ان کا پورا پورا خاندان مار دیں یہ برداشت کرجائیں گے لیکن آپ جونہی ان کے رسولﷺ کا نام غلط لہجے میں لیں گے‘ یہ تڑپ اٹھیں گے اور اس کے بعد آپ پہلوان ہوںیا فرعون یہ آپ کے ساتھ ٹکرا جائیں گے‘‘ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولا ’’میری فائنڈنگ ہے جس دن مسلمانوں کے دل میں رسولؐ کی محبت نہیں رہے گی اس دن اسلام ختم ہو جائے گا۔
چنانچہ آپ اگر اسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کومسلمانوں کے دل سے ان کا رسول نکالنا ہوگا‘‘ اس نے اس کے ساتھ ہی کافی کا مگ نیچے رکھا‘ اپنا کپڑے کا تھیلا اٹھایا‘ کندھے پر رکھا‘ سلام کیا اور اٹھ کر چلا گیا لیکن میں اس دن سے ہکا بکا بیٹھا ہوں‘ میں اس یہودی ربی کو اپنا محسن سمجھتا ہوں کیونکہ میںاس سے ملاقات سے پہلے تک صرف سماجی مسلمان تھا لیکن اس نے مجھے دو فقروں میں پورا اسلام سمجھا دیا‘ میں جان گیا رسول اللہﷺ سے محبت اسلام کی روح ہے اور یہ روح جب تک قائم ہے اس وقت تک اسلام کا وجود بھی سلامت ہے‘ جس دن یہ روح ختم ہو جائے گی اس دن ہم میں اور عیسائیوں اور یہودیوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
ہم سب مسلمان جتنے بھی گناہگار‘ لبرل‘ ماڈرن اور برداشت کے چیمپئن ہو جائیں‘ ہم نبی اکرمﷺ کی ذات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے کیونکہ ہم میں سے ہر شخص کسی نہ کسی حد تک حضرت اویس قرنیؓ ہے۔ حضرت اویس قرنیؓ ایک آدھ بار کے علاوہ کبھی یمن سے باہر نہیں نکلے‘ آپ کی والدہ علیل تھیں چنانچہ آپ والدہ کی خدمت کرتے رہے اور رسول اللہﷺ کی ذات سے عشق۔ اللہ تعالیٰ کو یہ خدمت اور یہ عشق اس قدر بھایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اویس قرنیؓ کو آپؐ کے دیدار کے بغیر صحابی ڈکلیئر کر دیا‘ آپ رسول اللہﷺ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ آپ کو معلوم ہوا جنگ احد میں رسول اللہﷺ کا دانت مبارک شہید ہوگیا۔
آپ نے اپنے تمام دانت توڑ دیے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں آپؓ نے خلیفہ کو کوئی مشورہ دینا تھا‘ آپؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو مدینہ کی سرحد پر بلوایا‘ خود مدینہ کی حد سے باہر کھڑے رہے اور حضرت عمرؓ کو مدینہ کی حدود میں کھڑا کر کے مخاطب ہوئے‘ حضرت عمرؓ نے اس عجیب و غریب حرکت کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا ’’عمر! میں اس زمین پر کیسے پاؤں رکھ سکتا ہوں جس میں نبی اکرمﷺ آرام فرما رہے ہیں‘‘ ہم مسلمان حضرت ابودجانہؓ بھی ہیں‘ حضرت ابودجانہؓ احد کے میدان میں آپ ﷺ کی حفاظت کر رہے تھے‘ رسول اللہﷺ پر تیر برس رہے تھے‘ حضرت ابودجانہؓ نے محسوس کیا میں اگر لڑوں گا تو میری پشت آپﷺ کی طرف ہو جائے گی اور یہ بے ادبی ہو گی چنانچہ آپؓ اپنا سینہ رسول اللہﷺ کی طرف کر کے کھڑے ہو گئے اور آپؓ نے تمام تیر اپنی پشت پر سہے۔
ہم سب کے اندر بھی ایسا ہی جذبہ موجزن ہے‘ تیر لوہے کا ہو یا توہین کا ہم اسے اپنی پشت اور سینے دونوں پر سہتے ہیں لیکن توہین یا زیادتی کا کوئی تیر رسول اللہﷺ کی ذات کی طرف نہیں جانے دیتے۔ یورپ اور امریکا کو اگر یقین نہ آئے تو یہ پاکستان سے لے کر طرابلس تک پھیلی آگ دیکھ لے‘ یہ آگ ’’انوسینس آف مسلمز‘‘ نام کی اس فلم کے بعد بھڑکی جو ٹیری جونز جیسے بدبودار پادری کی تحریک پر سام باسیل جیسے یہودی ڈائریکٹر نے بنائی اور اس کے لیے سو متعصب یہودیوں نے 50لاکھ ڈالرز سرمایہ فراہم کیا۔
یہ فلم محض فلم نہیں بلکہ یہ توہین کا وہ گٹر ہے جس کا ڈھکنا متعصب یہودیوں اور عیسائیوں نے عالم اسلام کی برداشت دیکھنے کے لیے کھولا چنانچہ آج پوری دنیا میں امریکی اور یورپی سفارتکاروں کی زندگی دائو پر لگ گئی۔ آپ حد ملاحظہ کیجیے‘ لیبیا کے مسلمانوں نے اس بن غازی میں امریکی سفیر کو قتل کر دیا جس پر اس وقت امریکا کا قبضہ ہے جب کہ لیبیا‘ مصر‘ تیونس‘ لبنان‘ اردن‘ انڈونیشیا‘ ملائشیا‘ نائیجریا‘ مراکش‘ بنگلہ دیش اور پاکستان میں امریکی سفارتکار منہ چھپاتے پھر رہے ہیں‘ اہل مغرب کو ان واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے اور انھیں ٹیری جونز اور سام باسیل جیسے لوگوں کے خلاف قانون سازی کرنی چاہیے۔
انھیں فیصلہ کرنا چاہیے یورپ اور امریکا کا کوئی شہری ہمارے رسولﷺ کی توہین نہیں کرے گا ورنہ دوسری صورت میں جو لوگ رسول اللہﷺ کی محبت میں اپنے منہ کے سارے دانت توڑ سکتے ہیں وہ گستاخوں کے دانتوں کے ساتھ ساتھ جبڑے بھی توڑ دیں گے۔ آپ ہم سب کی برداشت کا امتحان لے لیں لیکن آپ ہمارے عشق کا امتحان نہ لیں کیونکہ ہم عشق رسولﷺ میں جان دینے والے لوگ ہیں‘ ہم گستاخیاں برداشت نہیں کریں گے۔
بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس ، 16۔ستمبر۔2012ء
14 ستمبر، 2012
ہارتا ہوا امریکہ
گزرجانے والی شب میں دیر تک سوچتا رہا کہ کھربوں ڈالر پھونک کر، لاکھوں افراد کا خون ناحق اپنی گردن پر لے کر، اپنے ہزاروں فوجی اس بے ننگ و نام بھٹی میں جھونک کر، امریکی نسلوں کو چالیس کھرب ڈالر کے نئے قرضوں میں جکڑ کر اور زمانے بھر کی رسوائیاں سمیٹ کر، امریکہ نے گھنی داڑھیوں، بھاری پگڑیوں اور لمبی عباؤں والے قبیلے کا کیا بگاڑا ہے؟ ملا محمد عمر کی داڑھی کے کچھ بال ضرور سفید ہوگئے ہوں گے لیکن کیا وہ گیارہ سال پہلے سے کہیں زیادہ سرکشیدہ و سر بلند نہیں ہے؟ کیا اس نے منوا نہیں لیا کہ موت سے ذرا نہ ڈرنے والے فاقہ کش ہی سرخرو ہوتے ہیں۔
12 ستمبر، 2012
ایک ہسپانوی نو مسلم کا واقعہ ،میں کیسے مسلمان ہوا؟
ایک ہسپانوی نو مسلم کا واقعہ ،میں کیسے مسلمان ہوا؟
لیکن ایک دن مجھے ایک مراکشی بھائی ملا تو میرے اندر تجسس پیدا ہوا، کیونکہ اس کی چال چلن اور اسکا زندگی کے مسائل کو حل کرنے کا ایک مخصوص طریقہ تھا۔ چنانچہ میں نے اس سے ایسے سوالات کرنے شروع کر دیے جو عام طور پر ایک جاہل کافر کرتا ہے۔سوالات کا جواب دیتے وقت میری طرف سے اس کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مجھ جیسے ضدی اور بے عقیدہ انسان کو منانا آسان کام نہیں تھا
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیدائش کے وقت ہم سب کا دین اسلام ہی ہوتا ہے (لیکن بعد میں والدین کوئی اور راستہ سکھا دیتے ہیں ) اور جب میں نے اسلام کو اپنے دل پر اثر انداز ہوتے ہوئے دیکھا تو اس وقت صرف یہ ہوا کہ میں اپنے اصلی دین کی طرف واپس پلٹ آیا جس پر میں پیدا ہوا تھا، میں نے اپنے اسلام کو دوبارہ پا لیا اور اسی وجہ سے حوش و حواس کے سات میرا جسم ان چیزوں (شراب و خنزیر)سے نفرت کرنے لگ گیا ۔ اس کے علاوہ بہت سارے اسلامی رسم و رواج میرے اندر پہلے سے موجود تھے بیشک میں خنزیر کھاتا تھا لیکن ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ نہ کھاؤں، خدا کو ہمیشہ میں واحد جانتا تھا تثلیث کے عقیدے پر میرا ایمان نہ تھا، میرا یقین تھا کہ خدا کی کوئی جنس یا تعداد نہیں ہو سکتی، کہ میں خدا کو مذکر یا مونث نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی میں خدا کے بارے میں یہ تصور کرتا تھا کہ وہ کوہ قاف کے کسی اونچے خاندان کی ایک با ریش اور قوی ہیکل شخصیت ہے ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کو نماز پڑھتے دیکھ کر میرے ایمان میں مکمل مضبوطی آگئی۔میرے اندر اس وقت جو جذبات تھے ان کو کاغذ پر بیان کرنا ممکن نہیں، خاص کر جب اذان ہوئی تھی اور جب سب لوگ مل کر آمین کہتے تھے ! (اس وقت میرے جسم کے اوپر اور اس کے اندر جو محسوس ہوتا تھا اس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا)۔ اس وقت میں سمجھ چکا تھا کہ میں اب مسلمان ہوں۔
اسلام ہماری نہ سمجھ میں آنے والے تمام سوالات کا جواب دیتا ہے۔اسلام میں جانوروں اور نباتات کے حقوق کے بارے میں قانون موجود ہیں ۔اسلام سائنس کا ساتھ دیتا ہے جبکہ عیسائیت اس کے خلاف ہے ۔قرآن میں موجود پانی سے زندگی کے وجود میں آنے والی بات نے مجھے بہت حیران کیا۔ اس کائنات کی تخلیق کے بارے میں قرآن میں موجود معلومات جس کو سائنس دانوں نے ابھی دریافت کیا ہے اور اس کا نام BIG BANG THEORY رکھا ہے اس نے بھی مجھے بہت حیران کیا۔ماں کے پیٹ کے اندر بچے کی پیدائش کے بارے جو معلومات قرآن کے اندر موجود ہیں اس نے بھی مجھے کافی حیران کیا۔ قرآن میں بچے کی پیدائش کا ہر مرحلہ اور اس کے دنوں کا حساب بھی موجود ہے جن کی موجودہ سائنس نے تحقیق اور توثیق کی ہے۔ قرآن مجید کی ان آیات کو پڑھ کر میں بہت مثاثر ہوا ۔
اس دن کے علاوہ مزید دو دن میں امام صاحب سے سیکھنے اسی مسجد جاتا رہا، اور وہ وقت آیا جب 4 اگست 1997 کو شام 5 بج کر 50 منٹ پر میں نے قبولِ اسلام کا اعلان کیا۔اس کے بعد بہت سارے مسائل پیدا ہوئے جن کا ہر اسلام قبول کرنے والوں کو سامنا کرنا پڑتاہے۔ ان میں سے زیادہ دکھی مسائل عموماً گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں، لیکن اگر ہمارے اندر پختہ یقین موجود ہو تو یہ سب کچھ بھی نہیں ہوتا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہے ۔یہ مسائل وقت کے ساتھ ساتھ حل ہوتے جوتے ہیں۔
اسلام انسانوں میں اختلاف میں ڈالنے کے لیے نہیں آیا بلکہ ان کو اتحاد کی دعوت دینے آیاہے اور یہ اس زمین پر سب سے بڑا رواداری کا سبق دینے والا مذہب ہے ۔ایک دن میں نے اپنے اندر آنے والی عظیم تبدیلی کی اہمیت کے بارے سوچا۔ میرے جیسے نئے مسلمان جو اسلام میں داخل ہوتے ہیں یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا فضلِ خاص ہوتا ہے جو ہمیں کفروضلالت کے تاریکی راستے سے ہٹا کر ہدایت کے سیدھے اور روشن راستے پر گامزن کرتا ہے ۔ ہمیں جہالت سے نکل کر سیدھی راہ پر آنے کا احساس ہونا چاہیے ۔ اس بات کو دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہیے کہ ہمیں اس توفیقِ باری تعالیٰ پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
ہر مکتبہ فکر کی بات کو سنیےضرور لیکن خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ کہنے والا جو کہہ رہا ہے وہ درست ہے یا غلط، کیونکہ بدقسمتی سے بہت سے ایسے مسلمان ہیں جو اعلانیہ کہتے ہیں کہ ہمیں بہت کچھ معلوم ہے لیکن یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ زیادہ تر جہالت ہی ہوتی ہے اور اگر ہم نے اس کو کنٹرول نہ کیا تو یہ جہالت ہمیں بہت نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ میرے خیال کے مطابق یہ نقصان دو طرح کا ہو سکتاہے ، اس سے ہمارے ایمان میں کمزوری حتی کہ ایمان کا خاتمہ بھی ہو سکتاہے یا یہ بھی ممکن ہے کہ ہم بھی گمراہ ہو کر اسی جہالت کی تبلیغ شروع کر دیں اور اس طرح جاہلوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے ۔
میری زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ میں اپنے آپ کو ایمان سے لبریز اور مکمل محسوس کرتا ہوں اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ میں از سر نوپیدا ہوا ہوں۔ میرا نام خالد ہے اور میرا خیال ہے کہ ہمیں اسلام کا اصلی چہرہ پیش کرنے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیےاور اسلام کے نام پر ہونے والے غلط کام کو روکنا چاہیے ۔
11 ستمبر، 2012
قصہ آدم و ابلیس (ایک افسانہ)
اس سجدے کا مطلب یہ تھا کہ اب یہ انسان دنیا میں ایک محدود معنوں بادشاہ اور حاکم کی حیثیت سے رہے گا اور خدا کی مشیت کے مطابق اس دنیا میں مسکن بنائے گا، تمدن کی تعمیر کرے گا، کائنات مسخر کرے گا، اپنی مرضی سے خیر و شر کا انتخاب کرے گا اور آزمائش کے مراحل طے کرکے اپنی جنت یا دوزخ خود منتخب کرے گا۔ اس سارے عمل میں فرشتوں اور جنات کو اس کے سامنے عمومی طور پر سرنگوں رہنا اور اس آزمائشی عمل میں روڑے اٹکانے سےگریز کرنا لازم ہوگا ۔
ساری رات آدم اور انکی بیوی اجنبی کی باتوں میں سوچتے رہے۔ وہ اسی شش وپنج میں گرفتار تھے کہ اس کالے چشمے والی حد کو پار کرکے اس وادی میں جانا ہے یا نہیں۔ دونوں نے کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اس وادی میں چلتے ہیں کیونکہ خدا نے ادھر جانے سے تو منع نہیں کیا البتہ وہ اس درخت کا پھل نہیں کھائیں گے۔ دوسری صبح وہ اس اجنبی کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔جب وہ نظر آیا تو اس نےگذشتہ ملاقاتوں کے برعکس لا تعلقی کا اظہار کیا۔ وہ دونوں مایوس ہوگئے کہ شاید اس کی نیت بدل گئی۔ چنانچہ وہ واپس جانے لگے۔ اجنبی نے جب بازی پلٹتی دیکھی تو ان دونوں کے پیچھے بھاگا اور بولا۔