ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

29 جنوری، 2013

اسلام کے متعلق غیر مسلموں کے سوال اور ہمارا رویہ


 اسلام کے متعلق  غیر مسلموں  کے سوال اور ہمارا رویہ
فراز اکرم 
 انٹرنیٹ پر بہت سے اسلام دشمن اسلام سے متعلق کچھ ایسے سوالات پوسٹ کر رہے ہیں جس سے ایک عام مسلمان کے ذہن میں اسلام کے متعلق شک پیدا ہو جاتا ہے۔  یہ شکوک انسان کو بھٹکا بھی سکتے ہیں  اور کئی مسلمان ان کے جال میں پھنس کر اپنا ایمان گنوا بیٹھتے ہیں، دشمنوں کی تعداد کم نہی، کہیں قادیانی اپنے نظریات کے پرچار میں مصروف ہیں اور کہیں منکرین حدیث اپنی ڈفلی بجانے میں، کہیں  عیسائی مشنری اسلام پر عجیب و غریب سوالات اٹھا کر مسلمان عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں اور کہیں گوہرشاہی نظریات کا پرچار ہو رہا ہے۔ ان لوگوں کا تعلق جس گروہ سے بھی ہو ان کا طریقہ واردات ملتا جلتا ہے، جس سے آگاہی ہر مسلمان کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ 

آئیے ان کا طریقہ واردات دیکھتے ہیں کہ کیا ہے۔

اسلام دشمن سب سے پہلے اسلامی نظریات کے متعلق کچھ گھما پھرا کر ایسے سوال کرتے ہیں جن کے جواب ایک عام مسلمان کو معلوم نہی ہوتے، اور یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب اسے کچھ معلوم نہ ہو تو وہ اس معاملے پر کنفیوز ہو جاتا ہے لیکن اپنے نظریات کے دفاع کے لیے اپنے طور پر کوشش کرتا ہے، اس کو دلیلوں سے جواب بھی دینے کی کوشش کرتا ہے، اور یوں ایک مباحثہ شروع ہو جاتا ہے۔ جب آپ اس طرح کا کوئی اسلام کے خلاف سوال دیکھیں گے اور اس کا دلائل سے جواب بھی دے لیں تو وہ جواب میں دی گئی دلیل کو تسلیم یا  رد کیے بغیر اس موضح سے ہٹ کر کوئی اور سوال داغ دیں گے (سوالوں کی لسٹ ان کے پاس پہلے سے تیار ہوتی ہے) اس سوال کا جواب دے لینے کے بعد ایک اور سوال آ جاتا ہے۔۔۔ اب کسی بندے کو تو پہلے سوال کا جواب ہی معلوم نہی ہوتا، کوئی دو چار سوالوں کے بعد کسی سوال پر پھنس جاتا ہے اور اس سے جواب نہی بن پاتا یا پھر اس کے جواب میں کوئی وزن/دلیل نہی ہوتی جس کی وجہ سے وہ بحث تو کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کے اپنے دل میں ایک کھٹک پیدا ہو جاتی ہے اس سوال کے حوالے سے۔۔۔  یہی کھٹک پیدا کرنا اور آپ کو شک میں مبتلا کر کے اسلام پر ایمان و یقین کو کمزور کرنا ہی ان کا مقصد ہوتا ہے۔

یہ پہلا وار ہے جو اسلام دشمن آپ کے ایمان پر کرتا ہے اور اس کے بعد مزید ایسے سوالات جن کو آپ حل نہ کر سکتے ہوں آپ کے ایمان کو مزید کمزور کرتے رہیں گے۔ اور بالاخر بہت سے لوگ اسلام سے متنفر ہو کر گمراہی کے راستے پر چلے جاتے ہیں۔

اب اس کا حل کیا ہے؟؟ یا کیا جائے؟ 

اس کا حل بہت سادہ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ایک بات ہر مسلمان یاد رکھ لے، اپنے دل پر کندہ کر لے کہ

ضروری نہی کہ جس بات کا مجھے علم نہی اس کا کوئی وجود ہی نہ ہو
 

جی ہاں بس اتنا جملہ سمجھ کر یاد کر لینے والا ان شا الله کبھی بھی دشمن کی چال میں نہی آئے گا۔ ہوتا کیا ہے کہ وہ آپ سے سوال پوچھتے ہیں اور آپ کو جواب نہی معلوم ہوتا یا اس سوال کی حقیقت کا اچھی طرح ادراک نہی ہوتا۔۔۔۔ اس میں کوئی اتنا شرم کی بات بھی نہی، دنیا میں کسی کو بھی ہر ایک بات کا علم نہی ہوتا،کوئی بھی عقل کل نہی۔۔۔ انسان پوری زندگی سیکھتا رہتا ہے، ہر روز نئی سے نئی بات سیکھتا ہے۔  اگر آپ کے سامنے ایسا سوال آتا ہے جس کا جواب آپ کو معلوم نہی اور آپ شک میں پڑ رہے ہیں تو قرآن کے اس حکم کے مطابق 

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھ لو

آپ اس سوال کو لے کر اہل علم کے پاس جائیے، اور ان شا اللہ آپ کو اس کا مکمل مدلل جواب مل جائے گا ۔ الحمد لله اسلام ایک مکمل دین ہے اور اس کے پاس ہر سوال کا جواب موجود ہے۔ کسی مسلمان کو معلوم نا ہو تو اس سے اسلام کی حقانیت پر کوئی فرق نہی پڑتا۔ خود کو شک میں مبتلا مت کیجیے اور اہل علم سے جواب طلب کریں۔ پھر اپنی مرضی سے فیصلہ کیجیے۔

ایک اور اہم بات کہ اگر آپ سمجھتے ہیں آپ اس معاملے میں جس پر سوال اٹھایا گیا ہے عبور نہی رکھتے اور آپ کو اس کا زیادہ علم نہی تو فضول کی بحث میں مبتلا مت ہوں۔ کیونکہ ایسی بحث کا فائدہ کوئی بھی نہی اور  سوال پوچھنے والوں کا مقصد کچھ سیکھنا یا سمجھنا ہرگز نہی ہوتا، آپ جتنے دلائل سے انھیں قائل کرنے کی کوشش کر لیں انہوں نے نا کچھ سننا ہے اور نا سمجھنا، ان لوگوں کو ٹریننگ ہی اسی چیز کی دی گئی ہے۔ اگر ان کا مقصد سیکھنا ہوتا تو وہ یوں انٹرنیٹ پر سوالات پوسٹ کرنے کے بجائے کسی عالم کے پاس جا سکتے ہیں لیکن وہ ایسا نہی کرتے بلکہ ان کی کسی پوسٹ پر بھی کوئی علم رکھنے والا آ جائے تو دم دبا کر بھاگ نکلتے ہیں۔

یہاں ایک درخواست اہل علم سے بھی ہے کہ وہ ایسے عام سوال جو غیر مسلم اسلام کے بارے میں کرتے ہیں، ان کو اکھٹا کریں، ان کے جوابات ترتیب دیں اور عوام کو آگاہ کریں۔

25 جنوری، 2013

چاچا چَوَ ل

 

’چاچا چَوَ ل‘

 میرے محلے میں ایک صاحب رہتے ہیں جن کا نام کثرتِ رائے سے ’’چاچا چَوَ ل‘‘ منظور ہوچکا ہے۔چاچے کا طریقہ واردات بڑا نرالا ہے، عموماً لوگ قرض مانگنے والوں سے کنی کتراتے ہیں ،لیکن چاچا ،قرض مانگنے والوں کی تلاش میں رہتاہے۔اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر شخص اس سے قر ض مانگے۔ابھی تک محلے کے تین سو سے زائداس سے قرض لے چکے ہیں۔چاچے کی ایک ’’مکروہ‘‘ خصوصیت یہ بھی ہے کہ چاچا عام حالات میں قرض واپس نہیں لیتا۔ اگر کوئی اسے قرض واپس کرنے کی کوشش بھی کرے تو چاچے کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ایسا نہ ہونے پائے۔لیکن چاچا بڑی شے ہے، جس کو قرض دیتا ہے، پھر ساری زندگی اس سے کام نکلواتا رہتاہے اور قرض کا تقاضا ہمیشہ اُس وقت کرتا ہے جب اسے پورا یقین ہوجائے کہ اب مقروض بالکل بھی قرض چکانے کی پوزیشن میں نہیں۔ایسے حالات میں چاچے کا رویہ خودبخود سخت ہوجاتاہے، وہ مقروض کو انتہائی خوفناک طریقے سے گھورتاہے، باربار اس کے گھر کی بیل بجا کر پیغام بھجواتا ہے کہ ’’مجھ سے فوراً ملو۔‘‘ اس کے موبائل پر Missed کالیں مارتاہے اور کئی دفعہ تو اس کے دروازے پر کاغذ بھی چپکا آتا ہے جس پر لکھا ہوتاہے کہ ’’آج شام 5 بجے تک ہر حال میں مجھے پیسے مل جانے چاہئیں۔‘‘مقروض بیچارہ اس خطرناک صورتحال سے گھبرا کرچاچے کی منت سماجت کرتاہے، تاہم تھوڑی سی بحث و تمہید کے بعد چاچا اسے خطرناک نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے مزید مہلت دینے پر آمادہ ہوجاتاہے۔

چاچے کا قرض پانچ ہزار سے زیادہ کا نہیں ہوتا، وہ عموماً ریڑھی والوں، چھوٹی دوکانوں والوں اور قلفیاں بیچنے والوں کو قرض دیتاہے اور پھر ان سے مفت چیزیں کھاتاہے۔وہ بیچارے اصل رقم سے زیادہ کی چیزیں کھِلا کر بھی چاچے کے مقروض ہی رہتے ہیں لیکن زبان کھولنے کی جرات نہیں کر سکتے کہ چاچا اُسی وقت رقم کا تقاضا کر سکتاہے۔چاچے کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر اُس بندے کو قرض دے جس سے وہ اچھے خاصے کام نکلوا سکتاہے، ایسے میں کوئی بندہ قرض نہ بھی مانگے تو چاچا زبردستی اسے قرض دے کر اپنا مقروض بنا لیتاہے، میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔میں لارنس گارڈن میں ایک دوست کے انتظار میں اکیلا ہی واک کر رہا تھا کہ اچانک چاچے نے مجھے گھیر لیا۔
’’ننگے پیر چل رہے ہو۔۔۔جوتی کیوں نہیں خرید لیتے؟‘‘
میں نے منہ بنایا۔۔۔’’چاچا میرے پاس جوتی موجود ہے، میں ویسے ہی گھاس پر ننگے پیر چلنا پسند کرتاہوں‘‘۔
’’اچھا بہانہ ہے۔۔۔‘‘چاچے نے گہرا سانس لیا۔۔۔’’سفید پوش لوگ مرجاتے ہیں اپنی ضرورت نہیں بتاتے۔ بھئی کوئی پیسے ویسے چاہئے ہوں تو بلاجھجک بتانا‘‘۔
’’بڑی مہربانی چاچا۔۔۔فی الحال تو اللہ کا شکر ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’لیکن مجھے لگتا ہے تم کچھ چھپا رہے ہو‘‘۔۔۔چاچے نے مشفقانہ انداز میں کہا۔میں چاچے کی بات پر کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ چاچے نے میری بات کاٹی اور دوبارہ بولا’’بیٹا! انسان کی ضرورت کا کچھ پتا نہیں ہوتا، چلو ضرورت بے شک نہ بتاؤ، پیسے تو لے لو۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے چاچے نے اپنا دائیاں ہاتھ واسکٹ کی جیب میں ڈال دیا۔
میں نے جلدی سے کہا۔۔۔’’چاچا میں سچ کہہ رہا ہوں کہ مجھے۔۔۔‘‘ لیکن میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی چاچے نے پانچ ہزار کاکڑکڑاتا نوٹ میری مٹھی میں دبا دیا اوراپنی نم آلود آنکھوں کو رومال سے صاف کرتے ہوئے بولا۔۔۔’’خدا برا وقت کسی پر نہ لائے، انسان خود تو بھوکا سو سکتاہے لیکن بیوی بچوں کی بھوک نہیں دیکھی جاتی۔بس اب انکار مت کرنا ، مجھے پتا ہے تمہاری غیرت گوارہ نہیں کر رہی ہوگی لیکن بیٹا! مجھ سے کیسی شرم؟‘‘ یہ کہہ کر چاچے نے اطمینان سے اپنی واسکٹ درست کی اور یہ جا وہ جا! آج اس بات کو ایک سال ہوچکا ہے۔چاچا روزانہ میرے موبائل سے چھ سات کالیں کرتاہے، مہمان آجائیں تو ان کے قیام و طعام کا بندوبست بھی میرے گھر پر ہوتاہے، چھ سات مرتبہ مجھ سے ہمیشہ کے لیے کپڑے مانگ کے لے جاچکا ہے، اس کے بچوں کو سکول سے آنے میں دیر ہوجائے تو ان کو لانے کا فریضہ بھی مجھے ہی سرانجام دینا پڑتاہے، شام کا کھانا اور چائے اکثر چاچا میرے ساتھ ہی پیتا ہے، کبھی کبھی چھوٹی موٹی ضرورتوں کے لیے سو دو سو ادھار بھی لے جاتاہے جو کبھی واپس نہیں ہوتے،کیبل والے کو بتائے بغیر اس نے اپنے گھر کی کیبل کٹوا کرنے میری کیبل میں جوائنٹ لگوا لیا ہے جس کی وجہ سے اس کے گھر کی کیبل بالکل صاف آتی ہے اور میرے ہاں صرف لہریں رقص کرتی ہیں، بیوی بچوں کو سیر کرانے کے لیے وہ میری گاڑی ہر دوسرے دن لے جاتاہے۔۔۔اور تو اور اس نے یہ ذمہ داری بھی مجھ پر ڈال دی ہے کہ اس کے میٹرک فیل بیٹے کو اچھی سی نوکری بھی میں دلواؤں۔
خدا کی قسم !!!۔۔۔میں ہر طرح سے چاچے کا قرض لوٹانے کی پوزیشن میں ہوں، کئی بارکوشش کرکے زبردستی چاچے کی جیب میں پانچ ہزار کا نوٹ ڈال چکا ہوں لیکن چاچا شور مچا دیتاہے، چیختا ہے، چلاتاہے ، واسطے دیتاہے اور مجھے مجبوراً نوٹ واپس جیب میں رکھنا پڑ جاتاہے۔پورے محلے کو پتا چل چکا ہے کہ میں چاچے کا ’’قرضئی‘‘ ہوں۔میرے ساتھ والا ہمسایہ’’حامد‘‘ بھی چاچے کا قرضئی ہے اور اسی بناء پر پورے محلے میں’’حامد قرضئی‘‘ مشہور ہے۔ ہم دونوں چاچے کو سخت بات کہنے سے گھبراتے ہیں، میں نے کئی بار سوچا کہ میں چاچے کے ساتھ ذرا غصے سے پیش آؤں لیکن پھر سوچتا ہوں محلے والا کیا سوچیں گے کہ جس سے قرض لیا،اُسی کو آنکھیں دکھاتاہے۔اب تو حد ہوچکی ہے، چاچے نے اپنے بیٹے کو کمپیوٹر سیکھنے کے لیے میرے پاس بھیجنا شروع کر دیا ہے۔میں نے بارہا چاچے کو سمجھانے کی کوشش کی کہ کمپیوٹر میرے ذاتی استعمال کے لیے ہے، لیکن چاچا ہر دفعہ مسکرا کر کہتاہے۔۔۔’’بیٹا! میں نے بھی پانچ ہزار ذاتی استعمال کے لیے رکھے تھے ،لیکن میرا ایمان ہے کہ محلے داروں کے بارے میں ذاتیات سے بلند ہوکر سوچنا چاہیے‘‘۔ یہ جواب سن کر میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ چاچے کے بیٹے کو کمپیوٹر سکھانا شروع کر دوں حالانکہ اُس نے کمپیوٹر خاک سیکھنا ہے، وہ آدھے سے زیادہ وقت تاش والی گیمیں کھیلنے میں لگا رہتاہے۔میں کچھ کہنے کے باوجود بھی اس کو سخت الفاظ نہیں کہہ سکتا ، آخرمیں اس کے باپ کا قرضئی ہوں۔چاچا میرے حواس پر حاوی ہوتا جارہا ہے، مجھے لگتا ہے کہ عنقریب میں ہر کام اس کی مرضی سے کیا کروں گا۔چاچا نہ ہوا ’’آئی ایم ایف‘‘ ہوگیا۔
 
اپنی زبان اردو سے کاپی کیا گیا  
 

14 جنوری، 2013

مقبول حج



مقبول حج


ادھر حج کا فریضہ ادا ہوا ادھر معلمین حجاج کو باری باری ایئرپورٹ لانے کے عمل  (بلکہ حجاج کو ایئرپورٹ پر  ڈھونے کے عمل) میں لگ جاتے ہیں۔ اور حجاج بیچارے ادھر، اور  ان کے لواحقین ادھر،  ان سے ملنے کو بے قرار،  انتظار کی اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔
کچھ ایسی ہی صورتحال  ایک عرب  ملک سے تعلق رکھنے والے حاجی سعید کے ساتھ پیش آرہی تھی جو ایئرپورٹ پر  بیٹھے اپنے جہاز کا انتظار کر رہےتھے۔  ان کے ساتھ والی کرسی کو خالی پاکر ایک  اور حاجی صاحب آن  بیٹھے۔ ایک دوسرے کو سلام کرنے بعد، ایک دوسرے کے نام ،   ایک دوسرے کی شہریت اور صحت و تندرستی بلکہ ایک دوسرے کا  حال احوال بھی پوچھ بیٹھے۔ یہ نو وارد کچھ زیادہ ہی گرم جوش دکھائی دیتا تھا جس کا دل ان چند باتوں سے نہیں بھرا تھا اور وہ مزید کچھ کہنے سننے کو بے تاب دکھائی دے رہا تھا۔ تاکہ گفتگو کا سلسلہ مزید چل نکلے۔
اس نے خود ہی اپنے بارے میں بتانا شروع کیا کہ:
برادر سعید، میں پیشے کے لحاظ سے ایک ٹھیکیدار ہوں۔ اس سال مجھے ایک بہت بڑا ٹھیکہ مل گیا، یہ ٹھیکہ تو گویا میری زندگی کے  حاصل جیسا تھا۔ اور میں نے نیت کر لی کہ اللہ کی اس  نعمت کے شکرانے کے طور پر میں اس سال دسویں بار فریضہ حج ادا کرونگا۔  بس اپنی منت کو پورا کرنے کیلئے میں نے  اپنا حج داخلہ کرایا۔ ادھر آ کر  بھی خوب صدقات  دیئے اور  خیراتیں  کیں تاکہ اللہ میرے حج کو قبول کرلے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں دسویں بار حاجی بن گیا ہوں۔
سعید صاحب نے سر کو ہلا کر گفتگو میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا  اور مسنون طریقے سے
حج کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا
حجا مبرورا ،  و سعیا مشکورا،  و ذنبا مغفورا ان شاء اللہ
(اللہ کرے آپ کا حج مقبول ہو، آپ کی سعی مشکور ہو اور آپ کے گناہ معاف کر دیئے جائیں)
اس شخص نے مسکرا کر سعید صاحب  کی نیک تمناؤں کا شکریہ ادا کیا اور کہا:
اللہ تبارک و تعالیٰ سب کے حج قبول کرے، تو سعید صاحب، کیا آپ کے حج کا بھی کوئی خاص قصہ ہے ؟
سعید نے کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ کہا
ہاں جی، میرے حج کے پیچھے بھی ایک طویل قصہ ہے مگر میں  یہ قصہ سنا کر آپ کے سر میں درد نہیں کرنا چاہتا۔
یہ سن کر وہ شخص ہنس پڑا اور کہا؛
ارے سعید صاحب، آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ ہمارے پاس  سوائے انتظار کے اور کوئی کام ہی نہیں ، اب بھلا آپ کے قصے سے ہمارا  وقت کٹے گا یا مجھے کوفت ہوگی!
سعید صاحب مسکرا دیئے اور بولے؛
جی، انتظار، انتظار ہی تو میرے قصے کی ابتدا ہے کہ اتنے طویل سالوں تک حج کی خواہش کو دل میں لئے کام میں لگا رہا۔ میں پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہوں۔ آج سے تیس سال پہلے کام کرنا شروع کیا تھا، جب ریٹائرمنٹ کے نزدیک پہنچا اور بچوں کی شادیوں اور دیگر فرائض  سے فراغت پائی اور کچھ ذہنی آسودگی ملی تو اپنی باقی کی جمع پونجی دیکھی۔ یہ پیسے مجھے حج کیلئے کافی دکھائی دیئے تو سوچا کیوں ناں اب اس حج کے  فریضے سے سبکدوش ہو لوں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جب استطاعت ہو تو اس فرض کی ادائیگی میں تآخیر اچھی نہیں ہوتی ، کیا پتہ کہ کب سانس ساتھ چھوڑ جائے۔
اس آدمی نے اپنی بھرپور توجہ کا احساس دلانے کیلئے اپنی طرف سے بات میں اضافہ کیا۔
جی کیوں نہیں، جب استطاعت ہو تو یہ فرض ضرور ادا کیا جائے۔
سعید صاحب نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا؛
جی سچ فرمایا آپ نے۔
میں نے اسی دن ہی ہسپتال جاتے ہوئے بنک سے سارے پیسے نکلوا لئے کہ شام کو سیدھا جا کر حج کیلئے داخلہ کرا  دوں اپنا۔
اسی دن ہسپتال  جا کر  میری ملاقات ایک مریض بچے کی ماں سے ہوئی ۔ اس عورت کا بچہ ہمارے ہسپتال میں اور میری ہی زیر نگرانی ایک معذوری کے علاج کے سلسلے میں داخل تھا۔ غم اور لاچاری کے تاثرات اس عورت کے چہرے پر عیاں تھے۔ مجھے دیکھتے ہی بولی، اچھا سعید بھائی، اللہ حافظ۔، یہ میری آپ سے  اس ہسپتال میں آخری ملاقات ہے۔
یہ سن کر  مجھے اچھی خاصی حیرت ہوئی اور سب سے پہلی جو بات میرے ذہن میں آئی وہ یہ تھی کہ لگتا ہے کہ یہ عورت میرے علاج سے مطمئن نہیں اور بچے کو کسی اور ہسپتال لے جانا چاہتی ہے۔ پھر میں نے یہ بات اس سے  پوچھ بھی لی۔
میری یہ بات سن کر وہ عورت فورا بول اٹھی؛ نہیں سعید بھائی،  ایسی کوئی بات نہیں، آ پ تو میرے بیٹے کیلئے کسی بھی شفیق باپ سے سے زیادہ مہربان ہیں، جب ہم ہر طرف سے مایوس ہو چکے تھے تو آپ کی حوصلہ افزائی سے یہاں ہم نے اتنا اچھا علاج کروایا ہے۔
اب وہ شخص درمیان میں بول پڑا؛
عجیب بات ہے! اگر وہ عورت آپ کے علاج سے اتنی ہی مطمئن تھی اور اُسکا بیٹا بھی روبہ صحت تھا تو وہ پھر کیوں علاج چھوڑ کر جانا چاہ رہی تھی؟
سعید صاحب نے جواب دیا؛
جی مجھے بھی یہ بات کافی عجیب سی لگ رہی تھی۔ اس لئے میں نے  اس سے اجازت لیکر معاملے کو مزید جاننے کیلئے اپنا رخ ہسپتال کے انتظامی شعبے کی طرف کر لیا۔ جاتے ہی میں نے  اکاؤنٹنٹ سے پوچھا کہ یہ لوگ کیوں ہسپتال چھوڑنا چاہ رہے ہیں؟ ان کے کیس میں کہیں میری طرف سے کوئی کمی و کوتاہی تو نہیں ہوئی؟ اکاؤنٹنٹ نے کہا؛ نہیں جناب ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہوا یوں ہے کہ بچے کے باپ کی ملازمت جاتی رہی ہے اور یہ لوگ  اب شدید مالی  پریشانی  اور مشکلات سے گزر رہے ہیں۔ ہسپتال میں بچے کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات کو برداشت کرنا اب ان کے بس میں نہیں رہا، اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ بچے کا معاملہ اس کے نصیب اور مقدر  پر چھوڑا جائے اور علاج کو ترک کر دیا جائے۔
وہ شخص بولا:
لا حول ولا قوۃ الا باللہ، کتنی لاچار تھی یہ ماں۔ لیکن کیا کیا جائے اس وقت دنیا جس معاشی بحران سے گزر رہی ہے کی وجہ سے اب تک لاکھوں لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اچھی  اچھی شہرت رکھنے والی کمپنیاں اور بڑے بڑے ادارے بھی اپنے ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کر رہے ہیں۔ تو پھر سعید صاحب، آپ نے کیا کردار ادا کیا اس معاملے میں؟
سعید صاحب نے جواب دیا؛
اکاؤنٹنٹ کے کمرے سے نکل کر میں فورا ہی ہسپتال کے انتظامی سربراہ کے پاس گیا اور اسے گزارش کی کہ وہ بچے کا علاج ہسپتال کے بجٹ سے جاری رکھیں، لیکن اس نے شدت کے  ساتھ میری بات رد کر دی۔ بلکہ اس نے تو مجھے یہاں تک بھی کہا کہ یہ ہسپتال کوئی خیراتی ادارہ نہیں ہے جو غریبوں اور مسکینوں کا مفت میں علاج کرتا   رہے۔ ہم نے ہسپتال کو منافع میں چلانا ہے اور  ہمارا  ایک نام اور ہمارا  ایک معیار ہے، جسے ہمارے پاس علاج کرانا ہے کرائے اور جسے جانا ہے چلا جائے۔
میں مدیر کے کمرے سے ٹوٹے دل کے ساتھ نکلا۔ میرا دل ابھی تک اس عورت کے چہرے پر آئی حسرت و یاس کے تاثرات پر اٹکا ہوا تھا۔ میں جانتا تھا کہ بچے کا علاج جاری نا  رکھا گیا تو معاملہ پھر صفر تک جا پہنچے گا اور ہو سکتا ہے کہ آئندہ بچے کے علاج میں مزید پیچیدگیاں بھی پیدا ہو جائیں۔ میرا دل تھا کہ خون کے آنسو رو رہا تھا اور میں اپنی بیچارگی پر بھی کڑھ رہا ۔ یہ ٹھیک تھا کہ میں  نے اس ہسپتال میں ایک اچھے مشاہرے پر کام کیا تھا مگر کیا میں اس  تیس سال کی خدمت  کے عوض ایک مریض کا مفت علاج بھی تجویز نہیں کر سکتا تھا؟ میں انہین سوچوں میں گم کھڑا تھا کہ لا شعوری طور میرا ہاتھ اپنی جیب میں گیا جس میں میں نے آج صبح بنک سے حج داخلہ کیلئے نکلوائے ہوئے پیسے ڈال رکھے تھے۔  پیسوں کو ہاتھ لگتے ہی میں نے اپنا منہ آسمان کی اٹھا دیا اور اپنے رب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا؛
اے اللہ تو جانتا ہے کہ میرے دل میں تیرے  گھر  کا حج کرنے اور تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی زیارت کرنے کی  کتنی تڑپ ہے۔  میں نے تو اس مقصد کیلئے اپنی  زندگی بھر کی جمع پونجی اور کمائی اکٹھی کر کے ارادہ باندھ بھی لیا تھا ۔ اب تو میرے اس شوق کی تکمیل میں بس گھنٹے اور منٹ ہی حائل تھے ۔ مگر میں تیرے ساتھ کیا ہوا اپنا وعدہ توڑنے جا رہا ہوں، مجھے  معاف کر دینا  کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تیری ذات   بہت غفور الرحیم ہے ۔
میں نے اسی وقت اکاؤنٹنٹ کے پاس جا کر اپنے سارے پیسے اس بچے کے علاج کیلئے آئندہ چھ مہینوں کے ایڈوانس علاج کیے طور پر  جمع کرا دیئے۔ میں نے اکاؤنٹنٹ سے وعدہ لیا  کہ عورت سے کہے  گا کہ ہمارے ہسپتال میں ایسی صورتحال کیلئے ایک سپیشل فنڈ ہوتا ہے جس سے اس  کے بیٹے کا علاج کیا جا رہا ہے اور اس کو یہ نا معلوم ہونے دے کہ یہ  پیسے ہسپتال  نے نہیں بلکہ میں نے ادا کیئے ہیں۔
اب اس آدمی کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے تھے، اس نے پوچھا؛ سعید بھائی، اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی اس نیکی کو قبول کرے اور دوسروں کو بھی آپ کی قائم کردہ  اس مثال پر چلنے کی توفیق دے۔  اچھا ایک بات تو بتائیں کہ آپ نے تو سارے پیسے بچے کے علاج کیلئے جمع کرا دیئے تھے پھر حج پر کس طرح آ پہنچے؟
سعید صاحب نے ہنستے ہوئے جواب دیا؛
لگتا ہے کہ اپ اس قصے کا اختتامیہ جاننے کیلئے بے چین ہو رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کی دلچسپی اب اس قصے سے ختم ہو رہی ہو؟ اچھا  خیر، میں آپ کو اس قصے کا بقیہ حصہ جلدی جلدی سناتا ہوں۔ میں اس دن نہایت ہی غمگین اپنے گھر پہنچا کہ میں نے اپنی زندگی کی آخری خواہش حج کی ادائیگی کو پورا کرنے کا موقع ضائع کر دیا تھا۔ ہاں کچھ خوشی بھی تھی کہ  میں نے  ایک خاندان کے مصیبت کے لمحات میں انکی مدد کی تھی۔ میں اس رات  روتے روتے سویا تو میرے آنسو میرے گالوں پر بہہ رہے تھے۔ میں نے نیند میں خواب دیکھا کہ میں حرم میں موجود ہوں اور کعبہ شریف کے گرد طواف کر رہا ہوں، لوگ بڑھ بڑھ کر مجھ سے سلام کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں سعید صاحب، حج مبارک ہو، آپ نے زمین پر اپنا حج کرنے سے پہلے ہی آسمان پر حج کر لیا ہے۔ بلکہ لوگ مجھ سے اپنے بارے میں دعا کرنے کو بھی کہہ رہے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے حج بھی قبول فرمائے۔  اور جب میں نیند سے جاگا تو ایک عجیب قسم کی خوشی اور مسرت کے احساس سے ہمکنار تھا۔ میں اپنی طرف سے امید کھو بیٹھا تھا کہ کبھی کعبہ شریف کی زیارت بھی کر پاؤنگا مگر کم از کم میں نے نیند میں تو یہ زیارت کر ہی لی تھی۔ خیر، میں نے اللہ کی اس مہربانی پر بھی شکر ادا کیا اور جو کچھ ہو چکا تھا اس پر راضی رہنے کا عہد کیا۔ میں ابھی تک نیند کے خمار میں ہی پڑا اپنے حسین خواب کو یاد کر کے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بج اٹھی۔ دوسری طرف ہسپتال کا وہی مدیر بول رہا جس نے کل مجھے نخوت کے ساتھ انکار کیا تھا۔ اس کے لہجے سے التجا کا تاثر عیاں تھا ۔ میرے سلام کرنے پر اس نے کہا، ڈاکٹر سعید، میں جانتا ہوں کہ آپ میرے کل کے رویئے پر ناراض ہونگے مگر میں پالیسی کے ہاتھوں مجبور تھا۔ مجھے آپ کی مدد کی ضرورت آن پڑی ہے، انکار مت کیجئے گا۔ ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت حج پر جانا چاہتی ہے مگر ان کے ساتھ ذاتی طبیب کے جانے کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ اس کے  ذاتی معالج  کا فریضہ پہلے تو اس کی بیوی سر انجام دیتی تھی مگر آجکل وہ پورے دنوں سے ہے اور سفر پر نہیں جا سکتی۔ یہ آدمی ہمارے ہسپتال میں نصف کا شریک ہے۔ اسے ناراض کرنا گویا میرا  اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔ اس نے فوری طور پر مجھ سے  ایک نام مانگا ہے اور میرے ذہن میں آپ کا نام آیا ہے، آپ اس شخصیت سے کافی ذہنی مطابقت رکھتے ہیں، مہربانی کر کے انکار مت کیجیئے گا؟
میں نے تھوڑے  سے تامل کے بعد  پوچھا؛
اس شخص کے ساتھ میری رفاقت محض طبیب اور ذاتی معالج کی سی ہی ہو گی یا وہ مجھے حج ادا کرنے کا بھی موقع دے گا؟
مدیر نے بلا توقف کہا؛ ڈاکٹر سعید صاحب، آپ اس شخصیت کے ساتھ اسی کے نان و نفقہ پر جائیں گےاور وہ آپ کو حج ادا کرنے کا بھی پورا پورا موقع دے۔
اور جس طرح کہ آپ دیکھ رہے ہیں میں نے بہت ہی احسن طریقے سے حج ادا کیا ہے ۔ صرف یہی ہی نہیں اس آدمی نے مجھے میری خدمات کے عوض ایک معقول رقم بھی ادا کی ہے۔  اس کے ساتھ گزرے فرصت کے لمحات میں، میں نے اسے اس بچے اور عورت کا قصہ سنایا تو  اس نے فورا ہی ہسپتال کو احکامات بجھوائے کہ اس بچے کا آئندہ علاج مفت اور ہسپتال کے خرچہ پر کیا جائے۔ بلکہ اب تو  اس صاحب کے حکم سے ہسپتال میں آنے والے ایسے کیسز کیلئے  باقاعدگی سے ایک فنڈ مختص کیا گیا ہے، مزید اس نے بچے کے والد کو میں اپنی کسی کمپنی میں  اس کی قابلیت کے مطابق ایک ملازمت بھی دی ہے۔
اس آدمی نے اٹھ کر سعید صاحب کی پیشانی پر ایک بوسہ دیا اور کہا؛
سعید صاحب، اللہ کی قسم، میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی اتنی خجالت محسوس نہیں کی جتنی آج کر رہا ہوں۔ میں ایک کے بعد ایک حج کر کے یہی محسوس کرتا رہا کہ بہت بڑا معرکہ سر کر رہا ہوں۔ میں یہ سوچتا تھا کہ ہر بار حج کرنے سے اللہ کے نزدیک میرا مرتبہ  بلند سے بلند ہوتا جا رہا ہوگا۔ لیکن آج  میں آپ کے  سامنے اپنے آپ کو بہت ہی حقیر سمجھ رہا ہوں۔ آپ کا یہ ایک حج میرے دس نہیں بلکہ میرے حج جیسے ایک ہزار حج سے زیادہ بہتر حج ہے۔ میں پیسے خرچ کر کے حج پر جاتا رہا ور آپ کو  اللہ نے خود بلوا کر حج کروایا۔
سعید صاحب کو اس آدمی کی بڑبڑاہت صاف سنائی دے رہی تھی جو دوسری طرف منہ کئے کہہ رہا تھا ؛
اے اللہ مجھے بخش دے،  اے اللہ مجھے بخش دے۔