ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

27 نومبر، 2013

علامہ اقبال کا طاہر القادری سے سوال




مسلم  ممالک میں غیر مسلم فوجیوں کے خلاف جوابی اقدامات بھی نہیں کے جا سکتے- طاہر القادری کا فتویٰ 






شیخ صاحب سے علّامہ اقبال کا سوال
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
فتویٰ ہے شيخ کا يہ زمانہ قلم کا ہے
دنيا ميں اب رہی نہيں تلوار کارگر

ليکن جنابِ شيخ کو معلوم کيا نہيں؟
مسجد ميں اب وہ وعظ ہے بےسود و بےاثر

تيغ و تفنگ دستِ مُسلماں ميں ہے کہاں
ہو بھی تو دل ہيں موت کی لذّت سے بے خبر

کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دِل
کہتا ہے کون اسے کہ مُسلماں کی موت مر

تعليم اس کو چاہئيے ترکِ جہاد کی
دنيا کو جس کے پنجۂِ خونيں سے ہو خطر

باطل کی فال و فر کی حفاظت کے واسطے
يورپ زرہ ميں ڈوب گيا دوش تا کمر

ہم پوچھتے ہيں شيخِ کليسا نواز سے
مشرق ميں جنگ شرہے تومغرب ميں بھی ہےشر

حق سے اگر غرض ہے تو زيبا ہے کيا يہ بات
اسلام کا محاسبہ ۔ يورپ سے درگذر

علّامہ محمد اقبال (ضرب کلیم)
▄▄▄▄▄▄▄▄▄▄▄▄▄▄▄▄▄▄▄▄▄▄▄▄▄▄





22 نومبر، 2013

ایڑی چوٹی کازور لگا لو، یا ڈرون اور ڈالر کا




ایڑی چوٹی کازور لگا لو، یا ڈرون اور ڈالر کا

ابو نثر 
 

سرتاج عزیز صاحب کا سر ہی نہیں، اُن کا تاج بھی ہمیں عزیزہے۔مگر کیا کیجیے کہ بقولِ احمد ندیم قاسمی:
ہم غریب ملکوں کی بے وقار آزادی 
تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں

ابھی وطن عزیز کے چینلوں پر اُن کی گونجیلی آواز میں اُن کا یہ بیان گونج ہی رہا تھا کہ ’امریکا نے ڈرون حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کرادی ہے‘ کہ مرکز یقین، امریکانے گویا۔۔۔ ’اے تکو تماشا‘ ۔۔۔ کہتے ہوئے ہنگو کے ایک دینی مدرسے پر ایک گونجدار ڈرون دے مارا۔ اب ہر طرف بس اسی ڈرون کی آواز گونج رہی ہے۔

ہنگو کی مسجد اور دینی مدرسہ ڈرون کا نشانہ کیا بنا؟ سرتاج عزیز صاحب خود مذاق کا نشانہ بن گئے۔چینلوں نے حسبِ شقاوت اس قومی سانحے پر بھی سرتاج عزیز صاحب کے اعزاز میں، خبروں کے درمیان، فلمی گانے لگانے شروع کردیے۔’کیا ہوا تیرا وعدہ۔۔۔ وہ قسم، وہ ارادہ‘ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ سو،اس رولے گولے میں سرتاج صاحب کی ساری صفائیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔
صاحبو! امریکا کا یہ ڈرون حملہ کسی ’ہائی ویلیو ٹارگٹ‘ پر نہیں ہوا ہے۔شہری آبادی کی ایک مسجد اور مدرسے پر ہواہے۔اِس حملے میں دو مفتیانِ کرام سمیت سات افراد شہید ہو گئے ہیں۔ شہید ہونے والے علماء کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ بہت سے علماء کے اُستاد تھے۔ استاذ الاساتذہ تھے۔مگر اُن کے ’’شہید‘‘ ہونے کا فتویٰ شاید ہمیں آئی ایس پی آر کے کسی پریس ریلیز نگار سے لینا پڑے گا کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ لڑنے والے امریکا کے ’دہشت گرد دُشمن ڈرون‘ حملے میں کوئی عالم، کوئی مفتی یا دین کی تعلیم حاصل کرنے والا کوئی معصوم پاکستانی بچہ ’’ہلاک‘‘ ہو جائے تو وہ ’’شہید‘‘ ہوتا ہے یا نہیں؟ اﷲ کے کلام، قرآنِ پاک کو نازل ہوئے، اب کوئی ڈیڑھ ہزار برس ہونے کو آتے ہیں۔ مگر ہم اب بھی اپنے دانشوروں کی طرف سے یہ تنازعطے پانے کے منتظر ہیں کہ کون ’’شہید‘‘ ہے کون نہیں؟ بڑی دلچسپ بات ہے کہ ہمارے وہ دانشور بھی، جو ’’جہاد‘‘ کے مخالف ہی نہیں ’’استہزائی‘‘ بھی ہیں، کسی کے ’’شہید‘‘ ہونے یا نہ ہونے کے فیصلے سے نہ جانے کیوں بہت گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’اﷲ کی راہ میں جہاد‘ کے سخت ترین مخالف بھی ’اپنے‘ مارے جانے والوں کو ’’شہید‘‘ ہی کہتے ہیں۔ ’مخالفینِ جہاد‘ بھی ’محبانِ شہادت‘ ہیں۔ تعجب ہے۔ انھیں اپنے ’ہلاک شدگان‘ کے لیے کوئی اور لفظ سوجھتا ہی نہیں۔وہ تو کہیے کہ ان کے اندر اتنی اخلاقی جرأت اورعملی بے باکی نہیں ہے کہ اپنے ہی فلسفے اور فیصلے کی روشنی میں اس موضوع پر بھی لب کشائی کرسکیں کہ نواسۂ رسولؐ اور جگر گوشۂ بتولؓ سیدنا امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ نے جو ’’حکومتِ وقت‘‘ کے خلاف ’’نجی جہاد‘‘ کیا تھا تو اُس جہاد میں ’جاں بحق‘ ہونے والے ’’شہدائے کربلا‘‘ بھی اُن کی نظر میں ’’شہید ‘‘ہیں یا نہیں؟امے بھائی! تمھاری امریکاپرستی کا جوش اپنی جگہ، مگرمان لو کہ یہ جوش و خروش اِس اُمت کے ’متفق علیہ‘ نظریات کو ذرا بھی متزلزل نہیں کرسکتا۔ اس معاملے میں تم خائب و خاسر اور ناکام و نامراد ہی رہو گے۔ خواہ ایڑی چوٹی کازور لگا لو یا ڈرون اور ڈالر کا۔

ہاں تو۔۔۔وزیر اعظم کے مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیز صاحب نے فرمایا تھا:
’’حکیم اﷲ محسود امریکا کا ہائی ویلیو ٹارگٹ تھا، اس لیے ڈرون حملہ کیا گیا۔بد قسمتی سے حملے کی ٹائمنگ غلط ہوگئی۔ امریکا نے آئندہ طالبان سے مذاکراتی عمل کے دوران میں ڈرون حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔صدر اوباما نے کہا ہے کہ امریکا نہیں چاہے گا کہ 70فی صد پاکستانی اسے ناپسند کریں، لیکن امریکا مجبور ہے۔ امریکا سے معاہدے کے مطابق نیٹو سپلائی نہیں روکی جاسکتی‘‘۔
خبروں میں یہ بتانے کی بجائے کہ یہ بیان وزیر اعظم پاکستان کے مشیر خارجہ کا ہے،اگر یہ بتایا گیا ہوتا کہ (اوپر) دیا گیا بیان امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کا ہے تو ہم اس بیان کو’امریکا کی مجبوری‘ جان کرمعاف کردیتے۔ مگریہ بیان پاکستانی مشیر خارجہ کا ہے۔ اور اس بیان کا لفظ لفظ پاکستانی رائے عامہ کے آگے امریکاہی کی صفائی پیش کر رہا ہے۔ اﷲ جانے پاکستانی قوم کا نقطۂ نظردُنیا کے آگے پیش کرنے کا ذمہ کس کا ہے؟۔۔۔ ممکن ہے کہ یہ فریضہ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے اپنے ذمے لے رکھا ہو۔
اگر آپ وزیر اعظم پاکستان کے مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیز کے اس بیان کو مسلسل پڑھنے کی بجائے سوالاً جواباً ملاحظہ فرمائیں تو ’کون کس کا ترجمان ہے‘ والی بات شاید زیادہ واضح ہو جائے:
س: پاکستان کی طرف سے طالبان سے امن مذاکرات کا اعلان ہوتے ہی امریکا نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علاقے وزیرستان پر ڈرون حملہ کیوں کیا؟
ج: ’’حکیم اﷲ محسود امریکا کا ہائی ویلیو ٹارگٹ تھا، اس لیے ڈرون حملہ کیا گیا‘‘۔
س: مگر یہ حملہ اُس وقت کیوں کیا گیا جب مذاکراتی عمل کا آغاز کیا جارہا تھا؟ امریکا کو حکیم اﷲ محسود کے ٹھکانے پہلے بھی معلوم تھے۔اُس نے اُس پر پہلے حملہ کیوں نہیں کیا؟اُس وقت حملہ کیوں کیا جب وہ مذاکرات پر آمادہ ہوگیا؟
ج: ’’بد قسمتی سے حملے کی ٹائمنگ غلط ہوگئی‘‘۔
س:سبحان اﷲ!اگر آپ یہ بھی بتا دیتے کہ یہ ’بدقسمتی‘ کس کے حصے میں آئی، تو اچھا ہوتا۔ مگر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آئندہ کسی امریکی حملے کی ٹائمنگ غلط نہ ہوگی اور امریکاہمارے ملک میں امن کی راہ کی رُکاوٹ نہیں بنے گا؟
ج: ’’ امریکا نے آئندہ طالبان سے مذاکراتی عمل کے دوران میں ڈرون حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے‘‘۔
س: کیسے کرائی ہے؟
ج: ’’صدر اوباما نے کہا ہے کہ امریکا نہیں چاہے گا کہ 70فی صد پاکستانی اسے ناپسند کریں‘‘۔
س: ’’70نہیں 100فی صد پاکستانی اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کسی قسم کی کوئی کارروائی غیر ملکی افواج آکر کریں‘‘۔
ج: ’’لیکن امریکا مجبور ہے‘‘۔
س: ’’چلیے مان لیا ۔’’تم ہی مجبو رہو، ہم ہی مختارہیں۔۔۔ ہم نے مانا صنم، خیر مانا صنم‘‘۔لیکن پاکستان کو کیا مجبوری ہے کہ وہ اپنے اوپر حملہ آور ہونے والی جارح افواج کی جی جان سے خدمت کیے جارہاہے اوراُن کی ہر طرح سے مدد کیے جا رہا ہے۔ آخرپاکستان نیٹو سپلائی بند کیوں نہیں کردیتا؟‘‘
ج: ’’ امریکا سے معاہدے کے مطابق نیٹو سپلائی نہیں روکی جاسکتی‘‘۔
مگر افسوس کہ کسی نے پوچھا، نہ اس کا جواب ملا کہ امریکا سے ایسا معاہدہ کب؟ کس نے؟ اور کس کی منظوری سے کیا؟ یہ معاہدہ کرتے وقت پاکستان کے کم ازکم 70فی صدعوام ہی کی ناپسندیدگی کا خیال کر لیا گیا ہوتا۔
اور اے ’ڈالرزاد‘ بھائیو!
پاکستانی عوام میں اب امریکا کے لیے پسندیدگی کے جذبات پیدا کرناتمھارے بس کی بات نہیں رہی۔ خواہ ایڑی چوٹی کازور لگا لو یا ڈرون اور ڈالر کا۔
**

20 نومبر، 2013

جہاں یہ خچر لے جائے!



’میرا کیا ارادہ؟جہاں یہ خچر لے جائے!‘

ابو نثر 




اسد اﷲ خان غالبؔ کو الطاف حسین حالیؔ نے ’’حیوانِ ظریف‘‘ قراردیاتھا۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بیگم اسد اﷲ خان غالب ؔ نے غالباً اِس دولفظی ترکیب کے لفظِ اوّل سے حرف بہ حر ف اتفاق کرلیا تھا۔ (اُن کے کھانے کے برتن وغیرہ الگ کر دیے تھے)۔ مگر ہم احتراماً صرف جزوِ دوم کی صداقت سے اتفاق کریں گے۔ 
وہ زمانہ تو شاید غالبؔ نے بھی نہ دیکھا ہو جب سفر کا واحد ذریعہ’ گیارہ نمبر کی بس‘ تھی۔ یعنی بے بسی کے ساتھ پاپیادہ سفر۔ پیاں پیاں منزلیں مارتے چلے جانا۔ بستر سے اُٹھے۔ کمر کسی۔زادِ سفر بغل میں دابا۔ اسبابِ سفر کی پوٹلی بانس میں باندھی۔بانس کندھے پر لٹکایا اورنکل کھڑے ہوئے کسی قافلے کی تلاش میں کہ جو منزلِ مقصود( یامنزلِ موہوم) کی طرف جانے کو تیار کھڑا ہو۔یہ نہ ہوا۔۔۔ یعنی تلاش میں نکلنے کو آدابِ کاہلی کے خلاف جانا۔۔۔ تو۔۔۔ کوئی میرتقی میرؔ ٹائپ کا ’ٹریول ایجنٹ‘ خود آکر مطلع کرگیا۔۔۔
کیاقافلہ جاتا ہے گر تُو بھی چلاچاہے!
راہِ سفر سے ناواقفیت کا حل یہ نکالاگیا کہ کسی واقفِ راہ کو۔۔۔ ’راہبر‘۔۔۔ بناڈالا گیا۔اب رہبر صاحب تیز تیز قدموں سے لپکتے جھپکتے چلے جارہے ہیں اورقافلہ اُن کے آگے پیچھے، دائیں بائیں یا بالکل ہی پیچھے پیچھے ہانپتاکانپتابھاگتا چلاجارہاہے۔ بھلااتنے بڑے ہجوم میں ہم جیسا (عقل سے بھی) پیدل رہرو اپنے (ہرطرح سے) پیدل رہبر کو کیسے پہچان سکتا ہے؟ پس ظریف الطبع غالب نے بھی اُسے پہچاننے کی کوشش میں بڑی بھاگ دوڑ کی اور اِسیبھاگڑ کے بعد اپنی پھولی ہوئی سا نسوں کے ’مابین‘بتایا:
چلتاہوں تھوڑی دُور ہراِک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
آج جب کہ رہرو انِ جہاں،آواز سے بھی تیز رفتار طیاروں کو رہوارِسفر بنائے ہوئے اُڑے جارہے ہیں ہیں، ہم چچاغالبؔ کے بھتیجے اب بھی سفر زندگی کی ہر سڑک پر دیکھتے ہیں کہ۔۔۔ ’دِوادَو ہر طرف بھاگڑ مچی ہے‘ ۔۔۔ ہم اب بھی ’رہبر‘ کی تلاش میں ہیں اور ہم میں سے ہر شخص آج بھی چچا غالبؔ کا مندرجہ بالا شعر جھوم جھوم کر گنگنائے جارہا ہے۔
سوچیے تو سہی۔۔۔ کہ اگر رہبر نامعلوم ہوں تو منزل کسے معلوم ہوگی؟مگرہمیں تو منزل معلوم تھی پھر بھی نہ پہنچ سکے۔۔۔ ارے بھائی! :
کیسے منزل پہ پہنچتا کوئی
راہ میں راہ نُما بیٹھے تھے
ہمارے راہ نُماکہنے کو تویہ کہتے ہیں کہ ہماری منزل جمہوریت ہے۔۔۔سو وہ بھی کیا معلوم؟۔۔۔اگرپوچھیے کہ اِس منزلِ موہوم کی طرف ہماری رہبری ورہنمائی کون فرمائے گا؟۔۔۔تو وہ بھی نا معلوم۔۔۔حد تو یہ ہے کہ ہمارے رہبروں کا بھی یہی حال ہے کہ انھوں نے جہاں کسی کو ذرا تیز قدموں سے چلتے دیکھاتُر تُر تُر تُراُس کے پیچھے پیچھے دوڑلیے۔(قریبی تاریخ میں کئی مثالیں موجود ہیں)۔ پیاسے کو کسی طرف سے بھی پانی کی جھلک دکھائی دیتی ہے تو وہ اِس حیص بیص میں نہیں پڑتا کہ یہ سراب تو نہیں؟ بس دوڑ پڑتاہے! خواہ بعد میں خشک ’لٹ پٹاتی‘ زبان باہر نکال کرمزید ہانپنا کیوں نہ پڑجائے۔ ہم نے بڑے بڑے دانشوروں کے۔۔۔ ’مُنھ کو اگرچہ لٹکا دیکھا ‘۔۔۔ مگر اُنھیں کوئے سیاست کے شب نوردوں سے یہی آس لگائے۔۔۔’ بِھیڑ میں کھاتے جھٹکا دیکھا‘ ۔۔۔کہ ہمیں ہماری منزل تک یہی شب نورد پہنچاآئے گا۔ ان شب نوردوں میں بعض شیوخ بھی شامل ہوئے۔۔۔(اوران شیوخ میں ایک عدد’شیخ الاسلام‘ بھی !)۔
اکبرؔ کو اطلاع ملی تھی کہ۔۔۔’خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں‘۔۔۔ مگراب تو پہلے پوچھنا پڑتاہے کہ :’’ شرع الشیخ‘‘ ہے کیا ؟ شرعِ پیغمبر یا شرعِ فرنگ؟ میخانۂ مغرب کے نرالے دستور کے تحت سرور میں آنے کے لیے وہ اندھیرے اُجالے میں چوکتا بھی نہیں۔اُس کی اِسی چُوک سے عام آدمی کو ایسی شدید غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ اسے دور کرنے اور سمجھانے کے لیے پروفیسر اقبال عظیم کو آنا پڑتاہے:
شیوخِ شہر کو تُم دیکھ کر پلٹ آئے؟
کسی سے پوچھ تو لیتے یہ میکدہ ہی نہ ہو
جہانِ مغرب کے میکدوں میں جہانِ مشرق کے میخواروں کوعموماً ’خواجگی کے خواب‘ دکھائے جاتے ہیں۔اوراکثر یہ خواب ’ہاتھی والے‘ ہی دکھاتے ہیں( ’اصحاب الفیل)۔بھلاہاتھی پر بیٹھ کر ’خواجہ بلندبام‘ بننے کا شوق کسے نہیں ہوتا۔ مگر جب نادرشاہ دُرّانی نے ہاتھی پر بیٹھ کر سواری کی لگام طلب کی تو اُس کوبریفنگ دی گئی :
’’ یہ سواری بے لگام ہے۔ اس کی ڈرائیونگ کے لیے ’ڈرائیور‘ الگ سے رکھنا پڑتا ہے۔ جسے’ فیل بان‘ کہتے ہیں۔ اسٹیئرنگ اُسی کے ہاتھ میں رہتا ہے‘‘۔
جہاں بان اور جہاں دیدہ نادرشاہ دُرّانی نے ایسی سواری پربیٹھنے سے انکار کردیا جس کی لگام اپنے ہاتھ میں نہ ہواور جس کا اسٹیئرنگ دوسرا کنٹرول کرتا رہے۔
مگرہمارے رہبرتو ایک مدت سے اپنی نامعلوم اور موہوم منزل کی طرف سفر کرنے کے لیے بیٹھتے ہی ایسے اونٹ پر ہیں جس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔اوراونٹ بھی وہ، جسے ’ شتر بے مہار‘ کہاجاتا ہے۔اب انھیں یہ اونٹ جہاں چاہے لے جائے۔ یہ ٹھمک ٹھمک چلتے چلے جائیں گے۔ ادھر عوام انتظار فرمائیں گے کہ دیکھیں یہ اونٹ کب اور کس کروٹ بیٹھتاہے۔اسی عمل کو ہم اپنے یہاں ’جمہوریت‘ کہتے ہیں۔
آیت اﷲ مطہری نے اپنی دس تقاریر کے مجموعہ ’’دَہ گفتار‘‘ میں’ جمہوریت‘ کی مثال ملانصرالدین کے خچر سے دی ہے۔ ملا کو خچر پر بیٹھ کر جاتے دیکھا تو کسی نے پوچھا:
’’ملاصاحب!کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘
ملانے جواب دیا:
’’اجی حضرت!میرا کیا ارادہ؟جہاں یہ خچر لے جائے!‘‘
مطہری کا کہناہے کہ مغربی جمہوریت بھی ملانصرالدین کا خچر ہے۔ ’’جہاں چاہے لے جائے‘‘۔ اقبالؔ نے جمہوریت کوخچر نہیں سمجھا، اُنھوں نے گدھے کی مثال دی۔فرمایا:۔۔۔ ’کہ از مغزِ دو صدخر فکرِ انسانے نمی آئد۔۔۔(دو سو گدھے مل کر بھی ایک انسان کی طرح نہیں سوچ سکتے) ۔۔۔ پہلے مصرع میں اقبالؔ ہمیں ’طرزِ جمہوری سے حذرکر کے ‘ سرکارِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کے ’’غلامے پختہ کارے‘‘ بننے کی تلقین کرتے ہیں۔
صاحبو!آج کل وطن عزیز میں جو ’جمہوری تماشا‘ ہورہاہے، یہ کبھی نہ ہوتا اگر ہمارا اعرابی ’انگلستان‘ کے رستے پر بھٹکتے پھرنے کے بجائے مکہ کی راہ پر چل پڑا ہوتا۔ ایسی سواری پر بیٹھنا عاقبت اندیشی نہیں‘جس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں نہ ہو۔۔۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر خطرناک بات ۔۔۔ کہ جس کا کنٹرول نامعلوم اور غیرمرئی ہاتھوں میں ہو۔


13 نومبر، 2013

ریٹنگ کے لیے کچھ بھی کرے گا-- اوریا مقبول جان





tags:
khabardar oria maqbool jaan, shaheed, media,
ریٹنگ کے لیے کچھ بھی کرے گا
Khabardar خبردار
rating k leay kuch b karay ga

شہید کون از علامہ ابتسام الہی ظہیر



 Tags:
شہید کون از علامہ ابتسام الہی ظہیر
shaheed kon by Allama ibtisaam Ilahi Zaheer
hakeem ullah mehsood, pakistan army, martyr, killed

who is shaheed.

7 نومبر، 2013

ترستی ہے یہ دنیا یا خدا کوئی عمر دے دے



اٹھا لے زر کی رنگینی فقیری کا ہنر دے دے
عطا کر جان  لفظوں کو دعائوں میں اثر دے دے
ملائک ہم نے کیا کرنے ہمیں کوئی بشر دے دے
ترستی ہے یہ دنیا یا خدا کوئی عمر (رض) دے دے




یکم محرم الحرام یوم شہادت، حضرت عمر فاروق
first muharaam, youm shahadat hazrat umer farooq r.z.
urdu poetry, aabi makhanvi,
tarasti hai yeh dunia, yaa khuda koi umer de day






عمر (رض) اب کیوں نہیں آتا




عمر)رضی اللہ عنہ(اب کیوں نہیں آتا
شاعر: عابی مکھنوی

بیاد سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آنکھیں جو ذرا کھولوں
کلیجہ منہ کو آتا ہے
سڑک پر سرد راتوں میں
پڑے ہیں برف سے بچے
دسمبر لوٹ آیا ہے
عمر (رض)اب بھی نہیں آیا
کسی کی بے رِدا بیٹی
لہو میں ڈوب کر بولی
کوئی پہرہ نہیں دیتا
مِری تاریک گلیوں میں
میں سب کچھ ہار بیٹھی ہوں
درندوں کی حکومت میں
عمر (رض) اب بھی نہیں آیا
ذرا آگے کوئی ماں تھی
مُخاطب یُوں خُدا سے وہ
مِرے آنگن میں برسوں سے
فقط فاقہ ہی پلتا ہے
کوئی آہیں نہیں سُنتا
مِرے بے تاب بچوں کی
میں دروازے پہ دَستک کو
زمانے سے ترستی ہوں
عمر (رض) اب کیوں نہیں آتا
عمر (رض) اب کیوں نہیں آتا
میں آنکھیں جو ذرا کھولوں
کلیجہ منہ کو آتا ہے

::::::::::::عابی مکھنوی :::::::::::::





دس روپے کا سوال ہے بابا


بیاد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ

دس روپے کا سوال ہے بابا
شاعر: عابی مکھنوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی بیٹی کی تھام کر انگلی
چیز لینے میں گھر سے نکلا تھا
ایک بچی نے راستہ روکا
وہ جو بچی تھی پانچ سالوں کی
کھوئی سرخی تھی اس کے گالوں کی
کالا چہرہ تو بال بکھرے تھے
اس کے چہرے پہ سال بکھرے تھے
سوکھی سوکھی کلائی پر اس نے
ایک چوڑی کہیں سے چھوٹی سی
جانے کیسے پھنسا کے پہنی تھی
پاؤں ننگے قمیص میلی تھی
لٹکی گردن سے ایک تھیلی تھی
خالی خولی خلا سی آنکھیں تھیں
جیسے کالی بلا سی آنکھیں تھیں
جیسے چابی بھرا کھلونا ہو
جیسے بوڑھا سا کوئی بونا ہو
اس نے کھولا ادا سے مٹھی کو
ننھی منی سی اس ہتھیلی کو
میں نے دیکھا بڑی حقارت سے
ننھے ہونٹوں کی تھر تھراہٹ پہ
اک مشینی صدا کے جھٹکے تھے
دس روپے کا سوال ہے بابا
میں نے نفرت سے دیکھ کر اس کو
ہاتھ جھٹکا کہ جان چھوڑے وہ
وہ ہتھیلی وہیں پہ اٹکی تھی
وہ صدا بھی تھمی نہ اک پل کو
میری عادت ہے پیشے والوں کو
اک روپیہ کبھی نہیں دیتا
میں بھی ضدی تھا وہ بھی ضدی تھی
میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پہ
مرتے پچپن کی ہلکی لالی تھی
اس کے جملے کے سارے لفظوں میں
لفظ بابا ذرا سا بھاری تھا
دس روپے تو وہ تیز کہتی تھی
لفظ بابا پہ ہلکی اٹکن تھی
دس روپے کا سوال ہے بابا
اس کے بابا نے اس کو سکھلایا
اس کی اماں نے اس کو رٹوایا
دس روپے تو وہ تیز کہتی تھی
لفظ بابا پہ کیسی اٹکن تھی
خالی خولی خلا سی آنکھوں نے
میرے چہرے کو غور سے دیکھا
اس کے قاتل سپاٹ چہرے پہ
ایک قاتل سی مسکراہٹ تھی
اس کے ہاتھوں کی انگلیاں مڑ کر
پھر سے مٹھی کی شکل میں آئیں
میں نے دیکھا تو اس کے ماتھے پہ
اکعبارترواں سی لکھی تھی
دس روپے کو سنبھال تُو بابا
ساری قبروں پہ دستکیں دینا
کام رب نے مرا لگایا ہے
رب نے چھوٹی سی عمر میں مجھ کو
دیکھ کتنا بڑا بنایا ہے
ان شریفوں سے اور خانوں سے
میرے جیسے ہزاروں بچوں کا
ایک لشکر سوال کرتا ہے
یہ جو بچپن کا ایک موسم ہے
سارے بچوں پہ کیوں نہیں آتا
میری مانو تو مان لو اتنا
ان مساجد میں اور تھانوں میں
ساری سڑکوں پہ سب مکانوں میں
خانقاہوں میں آستانوں میں
گلتے سڑتے غلیظ لاشے ہیں
روز قبروں پہ دستکیں دے کر
میرے جیسے ہزار ہا بچے
روزبابا تلاش کرتے ہیں
تم جو کہتے ہو پیشہ ور بچے
اپنے بچپن کی آڑ میں عابی
مال و زر کو تلاش کرتے ہیں
آج سن لو کہ بات اتنی ہے
صدیوں پہلے کہیں پہ کھویا تھا
اپنےبابا عمر رضی اللہ عنہ کو ہم سب نے
ایسےبابا کہ جن کے سائے میں
میرے جیسی کسی بھی بچی کا
کوئی بچپن نہیں مرا گھٹ کر
دس روپے کا سوال ہے بابا
یہ صدا تو فقط بہانہ ہے
ہم کوباباکے پاس جانا ہے
دس روپے کو سنبھال تُو بابا
ہم کوبابا کے پاس جانا ہے

:::::::::عابی مکھنوی ::::::::::