ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

12 مارچ، 2014

سائیں اور سائیں کا سائیں


پرانے وقتوں کی بات ہے، مگر بات تو ہے کہ لالچ، حرص، طمع، تساہل پسندی، مال و زر، نمود و نمائش، طاقت و اقتدار کی کشش تب بھی آج ہی کی طرح تھی۔ صرف انسان کا رہن سہن ہی جدا تھا۔ لینڈ کروزر، ہمر اور مرسیڈیز گاڑیاں نہ سہی، برق رفتار عربی گھوڑے، سرخ اونٹنیاں تو اس وقت بھی سٹیٹس کی علامت تھیں۔ کلف لگے لباس، واسکٹیں، بیش قیمت تھری پیس سوٹ نہ سہی، مگر کندھوں پر پڑی یمنی چادریں تب بھی امارت کی نشانی ہوا کرتی تھیں۔ پیرس کے پرفیومز نہ سہی، مگر عود و عنبر کی خوشبو دولت و ثروت کے اظہار کا ذریعہ ہوا کرتی تھی۔ نوجوان ہلکا پھلکا لباس پہن کر خوشبو لگائے اترائے اترائے پھرنا پسند کرتے تھے، اس وقت بھی وزیر، مشیر، وزیر اعلیٰ اور گورنر ہوا کرتے تھے۔ ان کے ٹاٹھ باٹھ بھی اس وقت کے حساب سے خوب تھے۔ تنومند بدو حبشی محافظوں کے جلو میں کمربند سے تیز دھار تلوار لٹکائے پھرنے کی خواہش تب بھی ایسی ہی زوروں پر تھی، جسے آج کے حکمران پروٹوکول لیے لیے پھرتے ہیں۔ صرف کلینڈر کے اوراق پر ہندسے تبدیل سمجھیں۔ تب بھی انسانی جبلت عادات خواہشات کا دریا آج ہی کی رفتار سے بہہ رہا تھا۔ اسی زمانے کی بات ہے کہ اس شخص کو ایک نامانوس چہرہ دکھائی دیا، سوچا کہ مسافر ہوگا، جانے کہاں سے سفر کرتا ہوا آیا ہے۔ کچھ کھایا بھی  ہو گا کہ نہیں۔ اس وقت سفر کرنا واقعتا جان جوکھم کا کام ہوتا تھا۔ اس شخص سے اسے اپنے پاس بلایا۔ مسکرا کر سلام کیا اور اپنے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دی۔ مسافر نے تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد دعوت قبول کر لی۔ کھانا سامنے آیا تو دسترخوان پر گھی کا پیالہ دیکھ کر مسافر کی آنکھیں چمک سی گئیں۔ وہ ہاتھ نہ روک سکا اور بے صبری کے ساتھ روٹی کے لقمے گھی میں ڈبو ڈبو کر کھانے لگا۔ میزبان یہ بے صبری دیکھ کر مسکرا دیا اور کہا: لگتا ہے تمھیں گھی بہت پسند ہے۔

جواب میں مہمان نے کہا: ”میرے علاقے میں قحط پڑ رہا ہے، ایک عرصے کے بعد یہ نعمت سامنے دیکھی، تو ہاتھ نہ روک سکا.... “

مہمان تو یہ کہہ کر کھانے میں مصروف ہو گیا۔ لیکن میزبان کا ہاتھ رک گیا۔ اس کی پیشانی پر فکر و تردد کے بل پڑ گئے اور پھر میزبان نے اس وقت تک خود پر گھی کو حرام کر لیا، جب تک اس علاقے کے لوگوں کے دسترخوان پر گھی سے بھرے پیالے نہ پہنچ گئے۔ مہمان کے بارے میں تاریخ خاموش ہے، البتہ میزبان کا ذکر خلیفتہ المسلمین سیدنا عمر فاروقؓ کے نام سے آتا ہے۔

جانے دیجیے وہ تو بڑے آدمی تھے، مراد رسولؐ تھے ناں، ان کو تو ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ اسی دور میں پھر چلتے ہیں۔ حمص ایک شہر کا نام ہے، یہاں کے لوگوں کا وفد اپنے گورنر کی شکایت لے کر پہنچا، شکایات کیا تھیں۔

جب تک دن چڑھ نہیں جاتا گورنر صاحب گھر سے باہر نہیں نکلتے۔
رات کو کوئی آواز دیتا ہے تو گورنر صاحب کے گھر سے کوئی جواب نہیں آتا۔
اور مہینے میں ایک دن تو گھر سے باہر آنا پسند ہی نہیں کرتے، سارا دن گھر پر رہتے ہیں، باہر نہیں نکلتے۔
میڈیکلی ان فٹ بھی ہیں، ان پر جنون کے دورے پڑتے ہیں۔

ان شکایات کا خلیفہ وقت نے نوٹس لے لیا۔ یہ نوٹس آج کے وزراء کے نوٹسوں کی طرح محض نیوز چینلز کی اسکرین اور اخبارات کی خبروں کے لیے نہیں ہوتا تھا۔ واقعتا نوٹس ہوتا تھا۔ گورنر کو دارالحکومت طلب کر لیا گیا۔ اب گورنر پریشان کہ جانے مجھ سے کیا غلطی سرزد ہو گئی۔ میں نے ایسا کیا کر دیا کہ خلیفہ نے بلا لیا۔ حاضر تو ہونا تھا، سو حاضر ہو گئے اور اس حال میں حاضر ہوئے کہ لباس پر پیوند لگے ہوئے تھے۔ ایک ہاتھ میں لاٹھی اور دوسرے میں کھانا کھانے کا پیالہ تھا۔ خلیفہ نے گورنر کا سر سے پائوں تک جائزہ لیا اور پوچھا:
” بس تمھارے پاس نہیں سامان ہے؟ “
”اس سے زیادہ کی مجھے ضرورت نہیں “۔ گورنر نے جواب دیا۔
گورنر کے اس جواب پر خلیفہ کے چہرے پر اطمینان کے آثار دکھائی دینے لگے۔ لوگوں کی شکایات سامنے رکھیں اور کہا: ”ان شکایت کا کیا جواب ہے؟“۔
گورنر نے سر جھکا لیا۔ جیسے سوچ رہا ہو کہ کیا کہوں اور کیا کروں۔ آخر کار حمص کا گورنر بولا:
” امیر المومنین! الله کی قسم میں ان باتوں کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتا۔ لیکن اب آپ نے پوچھا ہے تو عرض کرتا ہوں کہ میں صبح سویرے اس لیے گھر سے باہر نہیں نکلتا کہ مرے پاس کوئی ملازم نہیں۔ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر گھر کے کام کرتا ہوں۔ اس کے بعد روٹی پکاتا ہوں اور پھر لوگوں کی خدمات کے لیے باہر نکلتا ہوں“۔
گورنر یہ کہہ کر لحظہ بھر کے لیے چپ ہوا اور پھر انہوں نے دوسرا الزام بھی قبول کر لیا اور کہا میں سارا دن الله کی مخلوق کی خدمت کرتا ہوں۔ اسی میں دن گزر جاتا ہے۔ اپنے رب کے حضور اطمینان سے کھڑے ہونے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ اس لیے میں نے رات الله کی عبادت کے لیے مخصوص کر رکھی ہے۔
اس کے بعد گورنر نے تیسرا الزام بھی قبول کر لیا اور کہا کہ میرے شہر کے لوگوں کا یہ کہنا بھی ٹھیک ہے کہ میں مہینے میں ایک دن گھر سے باہر نہیں نکلتا۔ دراصل میرے پاس کپڑوں کا ایک ہی جوڑا ہے، جب یہ میلا ہو جاتا ہے تو اسے دھو کر سکھانے میں دن کا بیشتر وقت نکل جاتا ہے اور میں لوگوں سے مل نہیں پاتا۔
گورنر نے اپنے میڈیکلی ان فٹ ہونے کی بھی وجہ بیان کی۔ کہا کہ میرے ساتھ خبیب بن عدیؓ کو مشرکین نے میرے سامنے پھانسی دی تھی۔ جب مجھے یہ واقعہ یاد آتا ہے تو میں بے چین ہو جاتا ہوں اور بعض دفعہ بیہوش ہو جاتا ہوں۔

تاریخ ہمیں خلیفہ کا نام حضرت عمر فاروقؓ اور طلب کیے جانے والے کو حمص کا گورنر سعید بن عامرؓ بتاتی ہے۔


سیلانی کو یہ منظر تھر کی خشک سالی نے یاد دلا دیے۔ جب میڈیا نے تھر میں خشک سالی اور قحط کا بھانڈا پھوڑا، تو آصف علی زرداری کے معتمد خاص جناب سید قائم علی شاہ جیلانی صاحب نے وزیر اعلیٰ ہائوس میں نیوز کانفرنس رکھی۔ جمعہ کے بابرکت روز بارہ بجے کے قریب رپورٹروں کو سی ایم ہائوس طلب کیا اور کہا کہ صورتحال ایسی ہی ہے، قحط ہے اور گندم کی ترسیل بھی ٹھیک سے نہیں ہوئی..... زیادہ بچے بھوک سے تو نہیں، بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ علاج میں بھی شکایات تھیں۔ نوٹس لیا گیا ہے اور متعلقہ افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔ تھر کے بھوک سے بلکتے بچوں اور باشندوں کے لیے کی جانے والی اس نیوز کانفرنس میں، تھریوں کی بھوک محسوس کرنے کے لیے سی ایم ہائوس میں گرما گرم بریانی اور منرل واٹر کی بوتلیں رکھی گئیں.... سندھ حکومت کی کارکردگی پر سیلانی کی طبیعت ایسی مکدر رہی ہے کہ اس کا ذکر کرنے سے عجیب سی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ تف ہے ان حکمرانوں پر کہ موئن جودڑو میں ایک گلوکارہ کے بوسے سے شروع کرنے والے کلچر کے نام پر لچر فیسٹیول کے لیے تو دنوں میں ڈھائی سو کروڑ روپے پھونک دیں اور جہاں بات بھوک سے بلکتے شیر خوار بچوں کی مائوں کی سوکھی چھاتیوں پر منہ مارنے کی ہو، وہاں سندھ کے خزانے سے صرف دس کروڑ نکل سکے۔ ”خیر پور “کے پاس بھوکے پیاسے تھر کے لیے اتنی ہی خیر تھی......
سیلانی اس بےحسی کا رونا رو رہا تھا کہ اس کے سیل فون پر اس کے ایک صحافی دوست کا فون آیا۔ وقاص باقر صاحب نوجوان صحافی اور ایک ٹی وی چینل سے منسلک ہیں، کہنے لگے: ” سر! میں مٹھی میں ہوں“۔
”اوہ کیا صورتحال ہے وہاں کی۔ کیا ویسا ہی ہے جیسا میڈیا بتا رہا ہے“ سیلانی نے بیتابی سے پوچھا۔
”ابھی ایک بج رہا ہے اور مٹھی کے سرکاری ہسپتال کی او پی ڈی میں بائیس سو مریض دیکھے جا چکے ہیں “۔
”اوہ، آج تو وزیر اعلیٰ کا دورہ بھی تو متوقع ہے ناں؟ “سیلانی نے پوچھا۔

”جی، جی اسپتال میں جھاڑو لگ گی ہے، وبا کے روم اسپرے ہو رہے ہیں ۔ پورا اسپتال مہک رہا ہے، یہاں حالت یہ تھی کہ ایک ایک بستر پر تین تین مریض تھے، اب ہسپتال والے پلنگ چار پائیوں کے لیے بھاگتے پھر رہے ہیں کہ بڑے وزیر کے آنے سے پہلے مریضوں کو بیڈ دیے جائیں ۔ “
” چلو یہ تو اچھی بات ہوئی ناں“۔
”اگر پہلے ہی چیک اینڈ بیلنس ہوتا تو یہ سب نوبت ہی نہ آتی۔ یہاں انگریز کے زمانے سے چلا آ رہا ہے کہ فروری میں بارشیں نہ ہوں تو تو اس علاقے کو آفت زدہ قرار دے کر گندم وغیرہ فراہم کرتے تھے۔ اس بار حکومت کو پتا نہیں کیا ہوا.... “۔
”ہونا کیا تھا، بینڈ باجوں میں معصوم بچوں کی ہچکیاں کون سنتا ہے۔ امپورٹڈ لیزر لائٹس کے فیشن شوز میں کس کا خیال مائی بھاگی کے تھر کی طرف جاتا ہے “۔ سیلانی نے تلخی سے کہا
وقاص نے لطیفہ سنایا کہ وزیر اعلیٰ نے جس وارد کا دورہ کرنا ہے۔ اسے اچھی طرح صاف کر کے اسپرے کر کے سیل کر دیا گیا ہے۔ اب وہاں کسی مریض کے لواحقین تو کیا، ڈاکٹروں کو بھی جانے نہیں دیا جا رہا اور نہ ہی کسی مریضہ کو نکلنے دیا جا رہا ہے۔

” بھئی یہ جو حاکم حکمران ہوتے ہیں ناں، ان کی جانیں بہت قیمتی ہوتی ہیں۔ یہ نایاب ہی ہوتے ہیں۔ یہ ہم عوام سے ہٹ کر مختلف طریقوں سے دنیا میں آتے ہیں اور مختلف طرح سے ان کی واپسی ہوتی ہے۔ اس لیے سیکورٹی والے ان نایاب لوگوں کی خاص حفاظت کرتے ہیں... “۔ سیلانی کے طنز پر وقاص باقر ہنس پڑا اور اجازت بھی چاہی کہ وزیر اعلیٰ کے آنے کا شور و غوغا ہو رہا تھا۔


وقاص کے فون کے بعد سیلانی کرسی پر نیم دراز سا ہو گیا۔ طبیعت مزید بوجھل ہو گئی۔ اس نے ٹیلیویژن پر کمزور ہڈیوں کے ڈھانچہ بنے بچوں کو دیکھا ہے، جن میں رونے کی سکت بھی نہیں تھی۔ ان میں اتنی طاقت بھی نہیں کہ وہ ماں کی خشک چھاتیوں سے دودھ نہ ملنے پر احتجاج کر سکیں۔ ”شرم کی بات اور ڈوب مرنے کا مقام “ جیسے طعنے تو اب متروک ہو چکے۔ حکمرانوں کے لیے اب کچھ نیا ہوں چاہئیے۔ وہ چاہیں تو پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کے آثار بھی رنگین کرنے پہنچ جاتے ہیں، کلفٹن میں ماڈلز کے جسم پر اجرک دیکھنے تین تین گھنٹے بیٹھے رہتے ہیں، اپنے اتالیق کے مشوروں سے ٹویٹر پر مخالفین پر گرجنا برسنا نہیں بھولتے۔ لیکن جس مٹی سے ان کا خمیر اٹھا ہے، اس مٹی کی بو بھی انھیں پسند نہیں۔ سندھ فیسٹیول کا سپرمین سائیں کہاں ہے اور سائیں کا سائیں کہاں ہے؟ سیلانی یہ سوچتے ہوئے چشم تصور سے بھوک اور پیاس سے بلکتے بچوں کو مائوں کی گود میں تڑپتے ہوئے بے بسی سے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

سیلانی کے قلم سے


0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں