ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

26 مارچ، 2014

لنڈے کے انگریزوں کا سوال


  ہمارے لنڈے کے انگریزوں یعنی دیسی لبرلز جیسا کہ یہ پیج "روشنی" جو اصل میں تاریکی ہے، کا مسئلہ یہ ہے کہ نہ انھیں یہ پتا ہے کہ اسلام کیا ہے اور نا وہ شریعت سے واقف ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ دوکان سے ایک قرآن خرید کر جزدان میں لپیٹ کر رکھ دینا اسلام ہے اور اس سے ساری کی ساری ترقی ہو جائے گی، جبکہ ایسا ہے نہیں۔ اسلام نے ایسا کچھ نہیں سکھایا۔
جب اسلام اور شریعت کے جاننے والے یہ کہتے ہیں کہ ترقی نہ کرنے کی وجہ دین سے دوری ہے تو اس میں حقیقت ہے، جہاں تک اس لنڈے کے انگریز "روشنی" کے سوال کا تعلق ہے کہ امریکہ یورپ ور جاپان نے کونسے دین پر عمل پیرا ہو کر ترقی کی ہے تو میں چند ایک بتا دیتا ہوں۔

پہلی بات یہ یاد رکھیں کہ دین دو طرح کی کامیابیاں دکھاتا ہے، جیسا کہ ہم نماز میں دعا بھی کرتے ہیں۔

ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار
اے رب ہمارے! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا
سورة البقرة 201

دو طرح کی کامیابی
١) دنیا کی
٢) آخرت کی

اب قرآن دونوں کامیابیوں کو حاصل کرنے کا طریقہ بھی بتاتا ہے،  جہاں تک آخرت کی کامیابی کی بات ہے تو قرآن اس پر واضح بتاتا ہے کہ اس کے لیے ایمان پہلی شرط، اور دوسری عمل صالحات ہیں.... جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کامیابی امریکہ،   یورپ اور جاپان نے حاصل نہیں کی۔ تو آتے ہیں دوسری یعنی دنیاوی کامیابی کی طرف جو امریکہ و یورپ حاصل کر چکا ہے۔

اسلام کی تعلیمات ہیں کہ

وأن ليس للإنسان إلا ما سعى
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے
سورة النجم 39

یہاں مسلمان کا ذکر نہیں، بلکہ ہر انسان کے لیے دین یہ سکھا رہا ہے کہ جو کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو، اس کے لیے کوشش کرو، گھر بیٹھ کر باتیں بنانے سے نہیں ملے گی۔ اس کارگاہ دنیا میں انسان کے مستقبل کا انحصار اس کی سعی و کوشش اور محنت و مشقت پر ہے۔

امریکہ، یورپ اور جاپان نے دین کے اس حکم پر جانے انجانے میں عمل کیا اور کامیابی حاصل کر لی جبکہ ہم نے عمل نہیں کیا تو کامیابی بھی نہیں ملی۔
دین نے کہیں بھی یہ نہیں کہ کہا جو مسلمان نہیں وہ دنیاوی ترقی نہیں کرے گا۔ ہاں آخرت کی کامیابی کے لیے مسلمان ہونے کی شرط رکھی ہے۔ دین یہ بتاتا ہے کہ کافر کا رزق صرف اس کے کافر ہونے کی وجہ سے بند نہیں کیا جائے گا۔

اسی طرح دین ہمیں علم حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے، امریکہ و یورپ نے دین کے اس حکم پر عمل کیا (چاہے دین سمجھ کر نا کیا ہو) تو کامیاب ہوئے، ہم نے نہیں کیا تو نقصان اٹھایا۔

اسی طرح جھوٹ ، فریب، دھوکہ بازی، حرص و طمع، حسد و بے ایمانی، بغض و کینہ، فخر و غرور ، خود بینی و خود نمائی اور خود رائی وغیرہ بہت سے اندرونی امراض ہیں، جن کا تعلق انسان کے دل و دماغ سے ہے، جن کا قرآن نے خصوصیت سے تذکرہ کیا ہے اوران کی اصلاح پر زور دیا ہے۔ ہم نے عمل نہیں کیا اور دین و شریعت کے اس احکامات کو امریکہ ، جاپان نے اپنایا تو ترقی کی۔

ان الله لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بأنفسھم وإذا أراد الله بقوم سواءً ا فلا مرد لہ ومالھم من دونہ من وال
بے شک الله کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب الله کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور الله کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مدد گار نہیں ہو سکتا
سورة رعد:11

دین کے اسی پیغام کو اقبال نے یوں بیان کیا ہے کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

باتیں تو اور بہت سی ہیں پر کمنٹ لمبا ہو رہا ہے اس لیے ختم کرتا ہوں،
میں نے چند ایک شرعی احکام بتائے ہیں جو دنیاوی ترقی کے لیے ضروری ہیں، اور جن پر امریکہ یورپ اور جاپان نے عمل کر کے کامیابی حاصل کی۔ یاد رکھیے کہ یہ کامیابی کا صرف ایک حصہ ہے، دین انسان کو دنیا اور آخرت دونوں کی بیک وقت کامیابی کا طریقہ بتاتا ہے۔ یہ دنیاوی کامیابی بدلتی رہتی ہے، دنیا نے قدیم مصری تہذیب سے لے کر روم اور ایران جیسی عظیم سلطنتیں دیکھی اور پھر ریزہ ریزہ ہوتے دیکھی ہیں۔ تاریخ نے وہ ایام بھی دیکھے ہیں جب یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور مسلمان دنیا کو علم اور ٹیکنالوجی سے منور کر رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب یورپ سائنس کے لفظ بھی آگاہ نہ تھا اور پورے کا پورا یورپ کیچڑ کا ڈپو تھا۔ اس وقت نہ ان کے یہاں روڈ تھے اور نا تعلیمی ادارے اگر رات کے وقت کوئی شخص اپنے گھر سے نکلتا تو اپنی ہی غلاظت میں ڈوبا جاتا۔یہ وہ وقت تھا جب اسلامی ممالک میں علم کی ضیاء بکھر رہی تھی۔

اس لیے اس کامیابی کو ہمیشہ کی مت جانیے، قوموں کی زندگی میں عروج اور زوال آتے رہتے ہیں، کل ہم آگے تھے، آج وہ آگے ہیں، کل دوبارہ ہم آگے ہوں گے ان شا الله، کار دنیا اسی طرح چل رہا ہے۔

ایک اور بات کہ آپ کا سوال حماقت کے ساتھ ساتھ جہالت بھی ہے،آپ نے اپنی پوسٹ میں ہماری امریکہ و یورپ کے مقابلے میں پسماندگی پر چوٹ کی ہے
۔   اگر آج ہم نے ترقی نہیں  کی تو  اس کی سب سے بڑی وجہ آپ جیسےلنڈے کے انگریز یعنی  سیکولر حکمران ہی ہیں، جب سے پاکستان بنا ہےاس پر سیکولر حکمران ہی مسلط ہیں، جو  ہماری پسماندگی  کی سب سے بڑی  وجہ ہیں۔ جب یہاں اسلام اور شریعت نافذ ہے ہی نہیں تو آپ ہماری پسماندگی کو اسلام سے کیسے جوڑ سکتے ہیں، یہ ناکامی اسلام کی نہیں بلکہ سیکولر حکمرانوں کی ہے۔


امید ہے کہ اس جہل کے علمبردار کے سوال سے جو شکوک دین کے خلاف پیدا ہوئے ہیں وہ رفع ہو گئے ہوں گے، اگر کوئی سوال باقی ہو تو پوچھ سکتے ہیں۔

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں