جس روز فرانس کے ایک رسالے پر حملے کی خبر آئی تھی اُس روز ایک (نہایت وقیع سمجھے جانے والے) انگریزی اخبار کے اُردو چینل پر ایک دیسی محترمہ اپنے سارے دانت نکال نکال کر بڑے ولایتی انداز میں ایک پاکستانی عالمِ دین پر برس رہی تھیں کہ:
’’کیا یہ مذہبی دہشت گردی نہیں ہے؟ ۔۔۔ کیا یہ مذہبی دہشت گردی نہیں ہے؟‘‘
یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ’نائن الیون‘ کی طرح اِس ’وَن سیون‘ (سات جنوری) کا ملبہ بھی محترمہ وطن عزیز پاکستان ہی پر گرانا چاہتی ہیں۔ ’مذہبی دہشت گردی‘ تو یہ فرانسیسی واقعہ یوں کہلایا کہ اس حملے کومذہبی دہشت گردی‘ پورے عالمِ مغرب نے قرار دیا ہے۔ ’مسلمانوں‘ سے منسوب بھی یوں ہوا کہ اسے پورے عالمِ مغرب نے مسلمانوں سے منسوب کیا ہے۔ مغرب کے نشریاتی اور طباعتی اداروں کے کہے پر بے چون و چرا ’ایمان بالغیب‘ لے آنا ’ہمارے ذرایع ابلاغ‘کے بنیادی عقیدے کا حصہ ہے۔ خواہ سوات میں عورت کے کوڑے کھانے کی وڈیو ہو یا عراق میں ’وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے‘ ہتھیاروں کی موجودگی۔
جو ’ہمارے ذرایع ابلاغ‘ ہیں وہ کائنات کی عظیم ترین ہستی کے کارٹون بنانے کو کبھی بھولے سے بھی ’مذہبی دہشت گردی‘ میں شمار نہیں کر سکتے۔ برسوں سے جاری و ساری اس سلسلے کا زور کچھ کم ہو گیا تھا تو اس کو ’دوبارہ جاری‘ کرنے کے لیے ’زور‘پیدا کیا گیا۔پیرس کے جس کارٹونی ہفت روزے کے دفتر پر حملے نتیجے میں کے ہفت روزے کے مدیر اور کارٹونسٹ سمیت بارہ افراد مارے گئے، اُن کو مارنے والے مسلح نقاب پوشوں کے ’مسلمان‘ ہونے کا اعلان بھی مغربی حکام نے کیا۔ کیسے کیا؟ یہ جاننے کے لیے ذرا پلٹ کر ایک بار پھر نائن الیون کی طرف دیکھنا پڑے گا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ نائن الیون سے جہاز ٹکرانے والے ’مسلمان‘ پائلٹ نہ صرف خود راکھ کا ڈھیر بن گئے تھے بلکہ ٹوئن ٹاورزتو کسی کھلونا بلڈنگ کی طرح ریزہ ریزہ ہوکر یا صابن کے جھاگ کی طرح سے، بیٹھ گئی تھی۔سب کچھ تباہ ہو گیا، مگر اسے معجزہ نہیں تو اور کیا کہیں گے کہ ’مسلمان‘ پائلٹوں کے (مسلمان) پاسپورٹ بالکل صحیح سلامت حالت میں ملبہ سے برآمد ہوگئے تھے، جن سے اُن کی بہ آسانی شناخت ہو گئی۔ اس معجزے کے باعث اس بات پر ’ایمان ‘ پختہ ہوگیا کہ دہشت گرد مسلمان تھے۔اور’دہشت گرد‘ مسلمانوں کے سوا اور ہو بھی کون سکتا ہے؟
پیرس، فرانس کے واقعے میں بھی دہشت گردوں کی شناخت اس وجہ سے ممکن ہوئی کہ وہ حیرت انگیز طور پر اپنے اپنے شناختی کارڈ اپنی (تباہ ہو جانے والی)گاڑی میں چھوڑ گئے تھے تاکہ اُنھیں بھی بہ آسانی شناخت کیا جاسکے۔’نائن الیون‘ کے واقعے سے ایک مماثلت یہ بھی اِس ’مذہبی دہشت گردی‘ کے واقعے میں پائی گئی کہ جس طرح ٹوئن ٹاورز سے جہاز ٹکرانے کی وڈیو بناتے ہوئے کچھ اسرائیلی پکڑے گئے تھے، بالکل اسی طرح اسرائیلی ٹی وی چینل آئی بی اے کے ڈپٹی ایڈیٹر امشائی اسٹین کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ اِس وقوعے کی Live شوٹنگ مسلسل اپنے چینل کو ارسال فرما تے رہے کہ ۔۔۔’ناظرین! ہم سب سے پہلے آپ کو یہ بریکنگ نیوز دے رہے ہیں‘۔۔۔اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس واقعے کے رونما ہوتے ہی فرانسیسی یہودی پہلے سے چھپے ہوئے پوسٹرز لے کر احتجاجی مظاہرے کے لیے یکایک سڑکوں پر نکل آئے۔ جن کی متحرک اور مطبوعہ تصاویر آپ نے بھی دیکھی ہوں گی۔ دیکھیے مغرب میں سائنس نے کتنی ترقی کر لی ہے۔
’ہمارے ذرایع ابلاغ‘ کو (ملالہ پر حملے کی طرح) سانحہ پشاور کا بھی اُس وقت تک علم نہ ہوا تھا، جب تک یہ خبر مغربی ذرایع ابلاغ سے نشر نہ ہوگئی۔ہماری ناک کے نیچے پیش آنے والے واقعے کی ’بریکنگ نیوز‘ دینے میں بھی اہلِ مغرب ہی بازی لے گئے۔ اہلِ مغرب نے جن تین’ مسلمان دہشت گردوں‘ کے نام پیرس حملے کے ذمے داروں کے طور پر مشتہر کیے ہیں وہ شریف کواشی، سعید کواشی اور حمید مراد ہیں۔ کواشی برادران کی پرورش شمالی فرانس کے ایک سرکاری یتیم خانے میں ہوئی ہے۔ حمید مراد کے دوستوں نے ٹوئٹر پر اپنے اپنے ٹویٹ ڈالے ہیں کہ جس وقت حملہ ہوا اُس وقت حمید مراد اُن کے ساتھ کلاس روم میں موجود تھا۔حمید مراد کی بیک وقت دو جگہ موجودگی بھی دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے؟اور اگر وہاں موجود نہ تھا تب بھی ’مسلمان‘ تو تھا۔ اُسے دہشت گرد قرار دینے کے لیے اتناہی کافی ہے۔
حملے کی ایک وڈیو میں یہ بھی دکھایاگیا ہے کہ ایک پولیس آفیسر نے حملہ آوروں کی گاڑی کو روکنے کی کوشش کی۔دو نقاب پوش حملہ آور گاڑی سے باہر آئے اور پہلے تو دور سے گولی مار کر اُس پولیس آفیسر کو زخمی کیا، پھر قریب آکر اُس کے سر میں گولی ماردی۔ دہشت گرد تو یقیناًتربیت یافتہ تھے، مگر وڈیو بنانے والا ایسا اناڑی تھا کہ اُسے اِس زخمی پولیس آفیسر کے جسم پر یا اُس کے آس پاس کہیں خون نظر نہیں آیا جسے وہ دکھا سکتا۔ حملہ آوروں کو روکنے والے پولیس آفیسر کے متعلق جو خبریں آئی ہیں اُن کے مطابق:1۔ وہ ایک پولیس کار سے نکلا تھا۔ 2۔وہ ایک پولیس اسٹیشن سے باہر نکلا تھا (اور دہشت گردوں کی گاڑی دیکھتے ہی پہچان گیاتھا کہ یہ دہشت گردوں کی گاڑی ہے، اِسے روکنا چاہیے)۔3۔وہ ایک سائیکل پر سوار تھا (اور غالباً دہشت گردوں کی گاڑی کے آگے سائیکل کھڑی کرکے گاڑی روکنے کی کوشش کر رہا تھا)۔
وڈیو میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ پولیس آفیسر کو مارنے کے بعد دونوں دہشت گرد اپنی گاڑی کے پاس آئے اور اُنھوں نے نعرہ لگایا کہ ہم نے ’پیغمبر محمدؐ‘ (Prophet Muhammad) کا انتقام لے لیاہے۔ اس سے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ دہشت گرد ’مسلمان‘ ہی تھے، کیوں کہ مسلمانوں کو جب اپنے نبی کانام لینا ہوتا ہے تو وہ لفظ ’پیغمبر‘(Prophet) ضرور استعمال کرتے ہیں تاکہ کسی کو یہ شبہ نہ رہے کہ وہ انھیں نبی(Prophet) نہیں مانتے۔
اِس قسم کی بہت سی دلچسپ باتیں ابھی اور بھی باقی ہیں، مگر کالم میں جگہ باقی نہیں رہی۔ ’ہمارے ذرایع ابلاغ‘ کو چوں کہ سارا مرچ مسالہ مغرب سے ’پیک‘ کیا ہوا مل جاتا ہے، چناں چہ وہ کبھی خود اپنا ’سِل بٹّا‘ استعمال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اپنا سِل بٹّا استعمال کرنے کے لیے اپنی ’اوپر کی منزل‘ بھی استعمال کرنی پڑتی ہے، مگر ہمارے یہاں اوپر کی منزل کرائے پر اُٹھادینے کا رواج ہے۔ اگر یہ ذرایع ابلاغ ’ہمارے ذرایع ابلاغ‘ نہ ہوتے تو شاید مغرب کا اُگلا ہوا زمین سے اُٹھا کر خود نگل لینے کی بجائے اِس معاملے کا تحقیقی اور تفتیشی نظروں سے اپنے طور پر بھی کچھ جائزہ لینے کی کوشش کرتے اور اہلِ مغرب سے پوچھتے کہ سرورِ کائناتؐکے گستاخانہ کارٹون دوبارہ سرورق پر چھاپ کر رسالے کی تیس لاکھ کاپیاں شایع کرنے کا ’مہذب اقدام‘ کیا ’دہشت گردی کی روک تھام‘ کرنے ہی کا کام ہے؟ مگر ’ہمارے ذرایع ابلاغ‘ کی نظر میں تو اُن کا ہر کام اُن کا لبرل ازم،اُن کی روشن خیالی اور اُن کا حقِ آزادی اظہار ہے، جب کہ ہماری طرف سے صرف ایسا سوال کر لینا بھی تنگ نظری ہے اور مذہبی منافرت پھیلانے کے مترادف۔
---------------------------
ابو نثر