ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

12 دسمبر، 2012

وہ کہ جس نے قرآن کو چیلنج کیا



1977میں جناب گیری میلر (Gary Miller) جو ٹورنٹو یونیورسٹی میں ماہر علمِ ریاضی اور منطق کے لیکچرار ہیں ، اور کینڈا کے ایک سرگرم مبلغ ہیں انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ عیسائیت کی عظیم خدمت کرنے کے لئے قرآن ِمجید کی سائنسی اور تاریخی غلطیوں کو دنیا کے سامنے لائیں گے ، جو اس کےمبلغ پیرو کاروں کی مدد کرے تاکہ مسلمانوں کو عیسایئت کی طرف لایا جا سکے ۔
تاہم نتیجہ اس کے بالکل برعکس تھا میلر کی دستاویز جائز تھیں اور تشریح اور ملاحظات مثبت تھے ۔  مسلمانوں سے بھی اچھے جو وہ قرآنِ مجید  کے متعلق دے سکتے تھے ۔ اس نے قرآنِ مجید  کو بالکل ایسا ہی لیا جیسا ہونا چاہیئے تھا ،اور ان کا نتیجہ یہ تھا کہ:
یہ قرآنِ مجید کسی انسان کا کام نہیں۔
پروفیسر گیری میلر کے لئے بڑا مسئلہ قرآنِ مجید  کی بہت سی آیات کی بناوٹ تھی جو اسے چیلنج کر رہی تھیں للکار رہی تھیں مثلاً:
أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا۔
بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے۔
سورۃ نمبر:4، النسآء، آیت نمبر82


وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ۔
اور اگر تم کو اس (کتاب) میں، جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ عربی) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلالو اگر تم سچے ہو۔
سورۃ نمبر:2 ،البقرۃ،آیت نمبر:23


اگر چہ پروفیسر میلر شروع شروع میں للکار رہا تھا اور چیلنج کر رہا تھا ،مگر بعد میں اس کا یہ رویہ حیرت انگیز طور پر تبدیل ہو گیا اور پھر اس نے بیان کیا کہ اس کو قرآن سے کیا ملا؟

مندرجہ ذیل کچھ نکات ہیں جو پروفیسر میلر کے لیکچر”حیرت انگیز قرآن“میں بیان کئے ہیں:
یہاں کوئی مصنف (لکھنے والا) ایسا نہیں ملے گا جو ایک کتاب لکھے اور پھر سب کو للکارے اور چیلنج کرے کہ یہ کتاب  غلطیوں (اغلاط)سے پاک ہے۔قرآن کا معاملہ کچھ دوسرا ہے۔ یہ پڑھنے والے کو کہتا ہے کہ اس میں غلطیاں نہیں ہیں۔اور پھر تمام لوگوں کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر تم  کہتے ہو کہ اس میں غلطیاں ہیں اور تم اپنی اس بات پر سچے ہو تو ان غلطیاں تلاش کرکے دکھا دو۔یا تم سمجھتے ہو کہ یہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کا کلام ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر دکھا دو۔
قرآن مقدس ،نبی اکرمﷺ کی حیات مبارکہ(ذاتی زندگی) کے سخت لمحات کا ذکر نہیں کرتا جیسا کہ آپ ﷺ کی رفیق حیات اور محبوب بیوی حضرت خدیجہ ؓاور آپﷺ کے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کی موت۔
نہایت ہی عجیب طرح سے اور عجیب طور پر وہ آیات مبارکہ جو کچھ ناکامیوں پر بطور رائے(تبصرہ) نازل کی گئیں وہ بھی کامیابی کا اعلان کرتی ہیں اور وہ آیات جو کامیابی ،فتح اور کامرانی کے وقت نازل ہوئیں ان میں بھی غرور و تکبر کے خلاف تنبیہ کی گئی ہیں۔
جب کوئی اپنی ذاتی زندگی (سوانح حیات/آپ بیتی) لکھتا ہے تو اپنی کامیابیوں (فتوحات) کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور اپنی ناکامیوں اور شکست کے متعلق دلائل دینے کی کوشش کرتا ہے ، جبکہ قرآن مجید نے اس کے برعکس کیا جو یکساں اور منطقی ہے۔ یہ ایک خاص اور مقررہ وقت کی تاریخ نہیں ہے، بلکہ ایک تحریر ہے جو اللہ(معبود) اور اللہ کے ماننے والوں ،عبادت  کرنے والوں کے درمیان عام قسم کے قوانین اور تعلق کو پیدا کرتی ہے،وضع کرتی ہے۔

میلر نے ایک دوسری خاص آیت کے متعلق بھی بات کی :

قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ أَن تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا مَا بِصَاحِبِكُم مِّن جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَّكُم بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ۔
کہہ دو کہ میں تمہیں صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے لئے دو دو اور اکیلے اکیلے کھڑے ہوجاؤ پھر غور کرو۔ تمہارے رفیق کو جنون  نہیں وہ تم کو عذاب سخت (کے آنے) سے پہلے صرف ڈرانے والے ہیں۔
سورۃ نمبر: 34 ،سبآ،  آیت نمبر:46

اس نے ان تجربات کی طرف اشارہ کیا جو ایک محقیق “اجتماعی بحث و مباحثہ کے اثرات ” پر ٹورنٹو یونیورسٹی میں کر چکا تھا ۔
محقق نے مختلف مقررین (تقریر اور بحث کرنے والوں) کو مختلف بحث و مباحثہ میں اکھٹا کیا اور ان کے نتائج میں موازنہ کیا ، اس نے یہ دریافت کیا کہ بحث و مباحثہ کی زیادہ تر طاقت اور کامیابی تب ملی جب مقرر تعداد میں 2 تھے ،جبکہ طاقت اور کامیابی کم تھی جب مقررین کی تعداد کم تھی۔
قرآن مجید میں ایک سورۃ حضرت مریم علیہ السلام کے نام پر بھی ہے۔اس سورۃ میں جس طرح ان کی تعریف اور مدح کی گئی ہے اس طرح تو انجیل مقدس میں بھی نہیں کی گئی،بلکہ کوئی  بھی سورۃ حضرت عائشہ ؓیا  حضرت فاطمہ ؓکے نام سے موجود نہیں۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام کا اسم کرامی قرآنِ مجید  میں 25 مرتبہ ،جبکہ  محمد ﷺ کا اسم مبارک صرف 5 مرتبہ دہرایا گیا ہے۔
کچھ تنقید کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں (نعوذ باللہ)کہ جو کچھ قرآن میں لکھا ہے وہ سب آسیب ، بھوت اور شیطان   نبی اکرمﷺکو سکھاتے تھے، ہدایات دیاکرتے تھے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ جبکہ قرآن مجید میں کچھ آیات ایسی بھی ہیں  جیسے:

وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ۔
اور اس (قرآن) کو شیطان لے کر نازل نہیں ہوئے۔
سورۃ نمبر:26، الشعرآء، آیت نمبر:210

فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ۔
اور جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے پناہ مانگ لیا کرو۔
سورۃ نمبر:16، النحل، آیت نمبر:98

اگر آپ ان حالات کا سامنا کرتے جب آپﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ غارِ حرا کے اندر ،مشرکوں کے درمیان گھرے ہوئے تھے اور وہ انہیں دیکھ سکتے تھے ،اگر وہ نیچے دیکھتے ،انسانی ردِ عمل یہ ہو گا کہ پیچے سے خروج کا راستہ تلاش کیا جائے یا باہر جانے کا کوئی دوسرا متبادل راستہ یا خاموش رہا جائے تاکہ کوئی ان کی آواز نہ سن سکے ، تاہم نبی اکرم ﷺ نے ابو بکر صدیقؓ سےفرمایا :
غمزدہ نہ ہو، فکر مت کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُواْ ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُواْ السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اگر تم پیغمبر کی مدد نہ کرو گے تو اللہ اُن کا مددگار ہے (وہ وقت تم کو یاد ہوگا) جب ان کو کافروں نے گھر سے نکال دیا۔ (اس وقت) دو (ہی ایسے شخص تھے جن) میں (ایک ابوبکرؓ تھے) اور دوسرے (خود رسول الله) جب وہ دونوں غار (ثور) میں تھے اس وقت پیغمبر اپنے رفیق  کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے ان پر تسکین نازل فرمائی اور ان کو ایسے لشکروں سے مدد دی جو تم کو نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کی بات کو پست کر دیا۔ اور بات تو اللہ ہی کی بلند ہے۔ اور اللہ زبردست (اور) حکمت والا ہے۔
سورۃ نمبر:9، التوبہ، آیت نمبر:40

یہ کسی دھوکہ باز یا دغا باز کی ذہنیت نہیں ایک نبی ﷺ کی سوچ ہے ۔جن کو پتہ ہے وہ جانتے ہیں کہ اللہ سبحان و تعالٰی ، ان کی حفاظت فرمائیں گے۔

سورۃ المسد(سورۃ تبت)ابو لہب کی موت سے دس سال پہلے نازل کی گئی ، ابو لہب نبی کریمﷺکا چچا تھا ۔ابو لہب نے دس سال اس بیان میں گذارے کہ قرآن مجید غلط ہے۔ وہ ایمان نہیں لایا اور نہ ہی ایسا کرنے پر تیار تھا ۔نبی اکرم ﷺ کیسے اتنے زیادہ پر اعتماد ہو سکتے تھے جب تک ان کو یقین نہ ہوتا کہ قرآن مجید اللہ سبحان و تعالٰی کی طرف ہی سے ہے۔
قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کو ملاحظہ کیجئے:
تِلْكَ مِنْ أَنبَاء الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلاَ قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ۔
یہ (حالات) منجملہ غیب کی خبروں کے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں۔ اور اس سے پہلے نہ تم ہی ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم (ہی ان سے واقف تھی) تو صبر کرو کہ انجام پرہیزگاروں ہی کا (بھلا) ہے۔
سورۃ نمبر:11، ھود ، آیت نمبر:49

میلر لکھتا ہے کہ کسی بھی مقدس کتاب نے اس قسم کا انداز نہیں اپنایا کہ جس میں پڑھنے والے کو ایک خبر دی جار رہی ہو اور پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نئی خبر(اطلاع) ہے ۔ یہ ایک بے نظیر (بےمثال ) چیلنج (للکار) ہے ۔ کیا اگر مکہ کے لوگ مکر و فریب سے یہ کہہ دیتے کہ وہ تو یہ سب کچھ پہلے سے ہی جانتے تھے؟ کیا اگر کوئی اسکالر (عالم) یہ دریافت کرتا کہ یہ اطلاع(خبر) پہلے ہی سے جانی پہچانی تھی(افشا تھی) تاہم ایسا کچھ نہیں ہوا۔

پروفیسر میلر کیتھولک انسائیکلو پیڈیا کے موجودہ عہد (زمانہ)کا ذکر کرتا ہے جو قرآن کے متعلق ہے۔ یہ واضع کرتا ہے کہ باوجود اتنے زیادہ مطالعہ ،نظریات اور قرآنی نزول کی صداقت پر حملوں کی کوشش اور بہت سے بہانے اور حجتیں جن کو منطقی طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ گرجا گھر (چرچ) کو اپنے آپ میں یہ ہمت نہیں ہوئی کہ ان نظریات کو اپنا سکے اور ابھی تک اس نے مسلمانوں کے نظریہ کی سچائی اور حقیقت کو تسلیم نہیں کیا کہ قرآن مجید میں کوئی شک نہیں اور یہ آخری آسمانی کتاب ہے۔
حقیقت میں پروفیسر میلر اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنے اور اور صحیح راستہ چننے میں کافی حد تک صاف کو اور ایماندار تھا ۔اللہ اسے اور اس جیسے ان تمام لوگوں کو (جنہوں نے حق کو تلا ش کیا اور اپنے تعصب کو اجازت نہیں دی کہ انہیں حق تک پہنچنے سے دور رکھے)مزید ہدایت نصیب فرمائے اور حق کی روشن شاہراہ پر چل کر اپنی عاقبت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

حتمی رائے
1977میں پروفیسر میلر نے مسلمان اسکالر جناب احمد دیداتؒ سے ایک بہت مشہور مکالمہ،بحث و مباحثہ کیا اس کی منطق صاف تھی اور اس کا عذر (تائید) ایسے دکھائی دیتی تھی کہ جیسے وہ سچائی تک بغیر کسی تعصب کے پہنچنا چاہتا تھا بہت سے لوگوں کی خواہش تھی کہ وہ اسلام قبول کر کے مسلمان  ہو جائے۔
1978 میں پروفیسر میلر نے اسلام قبول کرہی لیا اور اپنے آپ کو عبد الاحد کے نام سے پکارا ۔ اس نے کچھ عرصہ سعودی عرب تیل اور معدنیات کی یورنیورسٹی میں کام کیا اور اپنی زندگی کو دعویٰ بذریعہ ٹیلی ویژین اور لیکچرز کے لئے وقف کر دیا۔




10 دسمبر، 2012

ہم سب زرداری ہیں




آج میں نے فروٹ مارکیٹ میں دو زرداریوں کو دیکھا ایک زرداری فروٹ بیچ رہا تھا دوسرے کی سبزی کی دوکان تھی. سبزی والے نے فروٹ والے سے آم خریدے فروٹ والے نے بڑی ہوشیاری سے اندر سے خراب آم صاف آموں میں ملا کر ترازوں کی ڈنڈی مار تول میں کم دئیے. اس طرح اس کو تین گنا منافع حاصل ہوا. کچھ دیر بعد فروٹ والا زرداری سبزی والے کے پاس سبزی خریدنے گیا . سبزی والے نے کل والی خراب سبزی تازہ سبزی میں ملا کر کم تول میں دے کر تین گنا منافع حاصل کر لیا . دونوں تین گنا منافع حاصل کر کے بہت خوش تھے .تب میں نے اردگرد نظر دوڑائی تو دیکھا پوری فروٹ مارکیٹ میں ھر دکان پر زرداری بیٹھا تھا اور خریدار بھی سب کے سب زرداری تھے . میں چکرا کر رہ گیا تب میری نظر میری گاڑی کے آئینے پر پڑی میں تھرا گیا. آئینے میں بھی ایک زرداری مسکرا رہا تھا اچانک آئینے والا زرداری بولا

اٹھارہ کروڑ زرداریوں میں سے ایک زرداری تخت پر بیٹھ گیا تو چیخنے لگے یہاں ھر زرداری ایک دوسرے کو لوٹ رہا ہے اور لوٹنے والا اور لٹنے والا دونوں خوش ہیں. بے ایمانی کے جمعہ بازار میں تم کو کوئی لوٹنے اور لٹنے سے منع کر رہا ہے؟ تماشا نہ دیکھو تم بھی شروع ہوجاؤ

6 دسمبر، 2012

بھائی جان، مہربان، قدردان۔۔۔ایک اور انقلاب آیا چاہتا ہے



بھائی جان، مہربان، قدردان۔۔۔۔۔ایک اور انقلاب آیا چاہتا ہے 


منہاج القرآن کے سربراہ طاہر القادری صاحب 23 تاریخ کو ڈھولک کی تھاپ پر، کینیڈا، امریکا و برطانیہ سے امپورٹڈ انقلاب کا ایک نادر نسخہ لے کر تشریف لا رہے ہیں.


ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے فرمایا ہے کہ۔ ”مَیں انتخابی سیاست کا حِصّہ نہیں بنوں گا‘ لیکن موجودہ نظام کو تبدیل کرنے کے لئے آئینی راستہ دکھاؤں گا“۔ ڈاکٹر صاحب نے وضاحت نہیں کی کہ دس سال وطن سے دُور رہ کر پاکستان کا موجودہ نظام تبدیل کرنے کے لئے اُن سے کِس شخص ادارے یا قوّت نے درخواست کی ہے؟ یا وہ از خود”قوم کے وسیع تر مفاد ‘‘میں،’راہ ِاللہ‘ یہ کارِ خیر انجام دینا چاہتے ہیں؟

ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ۔” مَیں نے پارلیمنٹ چھوڑی ہے ۔ پاکستان نہیں چھوڑا ۔ “ میری قبر پاکستان میں ہی بنے گی“ ۔ میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ طاہر القادری صاحب کی عُمر دراز کردیں! ۔۔ اُن کی درازی عُمر کے لئے دُعاؤں کی اشد ضرورت ہے کہ خود ڈاکٹر صاحب 1993ءمیں فرما چُکے ہیں کہ ” مجھے خواب میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بشارت دی ہے کہ میری عُمر آپ کی عُمر کے برابر (یعنی) 63 سال ہو گی“۔

طاہر القادری صاحب کی تاریخ پیدائش 19 فروری 1951ء ہے۔ 23 دسمبر 2012ءکو جب وطن واپس آئیں گے تو اُن کی عُمر 61 سال‘ 10 ماہ اور 4 دِن ہو جائے گی۔ یعنی بقول ڈاکٹر صاحب اُن کی عُمر صِرف ایک سال ایک ماہ اور 26 دِن رہ جائے گی۔ اگر سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے ڈاکٹر صاحب کو عُمر میں توسیع کی نئی بشارت دی گئی ہے تو الگ بات ہے اور باعثِ اطمینان بھی، لیکن اگر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نئی بشارت نہیں دی گئی اور ڈاکٹر صاحب کی عُمر 63 سال ہی مقرر ہے تو میرا مخلصانہ مشورہ انھیں یہ ہے کہ یا تو کوئی "فاسٹ ٹریک" قسم کا انقلاب لے آئیں، ٹائم بہت کم ہے، یا ایسا کریں مہربانی کریں اور ادھر کینیڈا میں ہی کوئی چھوٹا موٹا انقلاب انقلاب کھیل لیں، طبیعت بشاش ہو جائے گی۔ یہ قوم ابھی انقلاب کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر انقلاب بہت جلدی میں بھاگتا ہوا بھی آ گیا  تو ابھی اس کا سانس بھی بحال نہیں ہوا ہو گا کہ ہمیں آپ جیسے ”قابل“ وزیراعظم اور ”قائد انقلاب“ کی جدائی برداشت کرنا ہو گی۔ پھر کون سنبھالے گا ملک کو؟

ارے قادری صاحب ضد نہ کریں، مان  جائیں اور ”اس ادارے“ سے معذرت کر لیں جس نے آپ کو انقلاب کی دعوت دی ہے۔ اور اپنا آخری سال خوب جم کے الله الله کریں، کوئی چلے شلے کاٹیں اور قوم کے لیے دعائیں کریں۔



5 دسمبر، 2012

خون آشام بلائیں


وہ فلم ڈراؤنی تو بہت تھی لیکن تھی کمال کی۔آپ میں سے بہت سے دوستوں نے بھی وہ فلم ضرور دیکھی ہو گی۔مجھے اس کا نام یاد نہیں۔میں آپ کو اس کی سٹوری سناتا ہوں۔

اس فلم کی کہانی کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ وہ انسانی شکلوں کی خون آشام بلائیں ہوتی ہیں۔آپ ان کو آپ ڈریکولاز کہہ سکتے ہیں۔
وہ لوگ چالیس پچاس کی تعداد میں ہوتے ہیں ان کا مسکن شہر سے دور ایک ویران عمارت کا تنگ و تاریک تہہ خانہ ہوتا ہے۔وہ لوگ گھپ اندھیری راتوں میں اس تہہ خانے سے نکلتے ہیں اور شہر میں پھیل جاتے ہیں۔وہ سب کے سب انتہائی خوش شکل اور خوش لباس ہوتے ہیں جس کے سبب لوگ ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں وہ لوگ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے لوگوں کو بہلاتے پھسلاتے ہیں اور دھوکے سے اپنے ویران مسکن میں لے جاتے ہیں پھر سب اکٹھے اپنے اپنے شکار کی گردنوں میں اپنے دانت گاڑ کر ان کا خون پی جاتے ہیں۔

انسانی خون ان کے لئے ایک نشے کی حیثیت رکھتا ہے خون پینے کے بعد ان کے جسموں میں انتہا کی طاقت آ جاتی ہے۔ایک بڑی عجیب بات ہوتی ہے انسانوں کا خون پینے والوں کا آپس میں بہت اتفاق ہوتا ہے اور انتہا کی آپس میں محبت ہوتی ہے۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اقلیت میں تھے اور اقلیت میں اتحاد انتہا درجے کا ہوتا ہے۔
ان کا ایک سردار بھی ہوتا ہے جو ایک ایسا جادو کیا کرتا ہے جس کی وجہ سے اس شہر کے لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔اس لئے جب کوئی شخص شہر سے غائب ہوتا ہے تو شہر کے لوگ اس کے غائب ہونے کا کوئی نوٹس نہیں لیتے۔بلکہ کئی تو خوشی محسوس کرتے ہیں۔یوں ان کا شکار اور بھی آسان اور ہر قسم کے خطرے سے محفوظ ہوتا ہے۔ وہ لوگ روشنی سے انتہائی خوفزدہ رہتے ہیں اور اندھیروں سے محبت کرتے ہیں اندھیرا ان کی زندگی ہوتا ہے اور روشنی موت۔ان میں سے اگر کوئی غلطی سے سورج کی روشنی میں چلا جاتا ہے تو وہ مٹی کا ڈھیر بن کر رہ جاتا ہے۔
قصّہ مختصر یہ کہ ایک بار ان کا سربراہ نفرت کا جادو کسی وجہ سے نہیں کر پاتا۔
اس رات اس کے ساتھی انسانوں کے شکار پر جاتے ہیں جب وہ اپنے شکار کو گھیر کر واپس لوٹتے ہیں تو کچھ لوگ ان کا پیچھا کرتے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے ان کے مسکن تک پہنچ جاتے ہیں وہاں ان کا مقابلہ ان ڈریکولاز کے ساتھ ہوتا ہے جس میں انسان ان کی بے پناہ طاقت کی وجہ سے شکست کھا کر بھاگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ادھر انسانوں کو کسی طرح اس راز کا پتہ چل جاتا ہے کہ وہ سورج کی روشنی ان کے لئے موت ہے۔چنانچہ وہ دن کی روشنی میں ان کے مسکن پر حملہ آور ہوتے ہیں ان کے تہہ خانے کو تباہ کرتے ہیں سورج کی روشنی ان پر پڑتی ہے جس کے باعث وہ تمام کے تمام مٹی کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔

مجھے پاکستان کی تاریخ دیکھ کر وہ فلم یاد آجاتی ہے۔
آزادی کے ساتھ ہی پاکستان کی جھولی میں بھی کچھ اسی طرح کے خون آشام جاگیردار اور سرمایہ دار خاندان آ گرے۔
یہ تمام خاندان آپس میں بہت متحد ہیں۔یہ باری باری اس قوم کی رگوں کا خون چوستے ہیں اور خون پی پی کر طاقتور ہوتے جا رہے ہیں۔یہ سب علم اور شعور کی روشنی سے سخت خوفزدہ ہیں۔قوم کو جہالت کے اندھیروں میں رکھنا چاہتے ہیں۔علم اور شعور کی روشنی پھیلنے سے ان کے وجود مٹی کا ڈھیر بن جائیں گے۔یہ تمام بہت متحد ہیں لیکن قوم کو تعصب کے جادو سے اِنہوں نے منتشر کر رکھا ہے۔ہماری آپس کی نفرت ہمیں ان کے خلاف متحد نہیں ہونے دیتی۔ جس کے باعث یہ کسی بھی خطرے سے محفوظ ہماری رگوں میں سے خون نچوڑ رہے ہیں۔
کب یہ نفرت پھیلانے والا جادو کرنا بھولیں گے؟
کب قوم متحد ہو گی؟
کب علم اور روشنی کا سورج طلوع ہو گا ۔ ۔ ۔ ۔جس کی روشنی سے اِن کے وجود مٹی کا ڈھیر بن جائیں گے؟

دیوانہ مجنوں۔

1 دسمبر، 2012

معجزوں کے انتظار میں



کیا کسی ایک شخص کو یہ خیال نہیں آیا کہ بجائے آسمان کی طرف دیکھنے،  دعا کرنے اور ویڈیو بنانے کے بھاگ دوڑ کر ایک دری کا انتظام کیا جائے جوگرنے والے کی جان بچا سکے؟

 اویس بیگ نئی نوکری کے لیے انٹرویو دینے آیا تھا۔ انٹرویو کا بھی آخری مرحلہ، یہ تقریباً طے تھا کہ اسے نوکری ملنے والی ہے۔ انٹرویو سٹیٹ لائف بلڈنگ کی آٹھویں منزل پر تھا۔ وہی سٹیٹ لائف جو بچپن سے ہمیں اے خدا میرے ابو سلامت رہیں کی دعا سنواتی رہی ہے۔ بلڈنگ میں آگ لگی جو لوگ بلڈنگ کے اندرونی راستوں سے واقف تھے وہ یا تو سیڑھیوں سے نیچے آئے یا چھت پر جا کر جان بچائی۔ اویس بیگ بلڈنگ کے اندرونی راستوں سے واقف نہیں تھا اور غالباً دھواں بھرنے کے بعد ٹھیک طرح سے دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس نے ایک کھڑکی کھولی اور آٹھویں منزل سے باہر لٹک گیا۔


بڑے شہروں کی بڑی عمارتوں میں کبھی کبھار ایسے سانحے ہو جاتے ہیں لیکن جیسے ہی اویس بیگ کھڑکی سے لٹکا اس سے آگے جو کچھ ہوا وہ ہمارے موجودہ حالات ہماری بڑھتی ہوئی یاسگی کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہ کتنی دیر تک کھڑکی تک کھڑکی سے لٹکا رہا۔ ایک اخبار نے پندرہ منٹ لکھا ہے ایک نے نصف گھنٹہ۔ لیکن کم از کم اتنا وقت ضرور تھا کہ سینکڑوں لوگوں کا ہجوم بھی اکھٹا ہوگیا، فلم بھی بن گئی اور ٹی وی چینلوں پر لائیو کوریج بھی شروع ہوگئی۔

ہمیں اس بات پر بھی کوئی اعتراض نہیں کہ میڈیا کو یہ تصویریں دکھانی چاہیئیں تھیں یا نہیں ویسے دنیا کا شاید ہی کوئی اخبار یا ٹی وی ہو جو اس طرح ڈرامائی تصویر دکھانے سے گریز کرے۔ لیکن ایک دوسری تصویر جو میں نے کہیں نہیں دیکھی وہ ان سینکڑوں لوگوں کی تھی جو مبہوت کھڑے، آسمان کی طرف نظریں اٹھائے، آٹھویں منزل سے لٹکے اس نوجوان کو دیکھ رہے تھے۔

درجنوں ایمبولینس، کئی فائربریگیڈ کی گاڑیاں اپنے کام میں مصروف تھیں لیکن اس ہجوم کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ کیا یہ سینکڑوں لوگ سوائے آسمان کی طرف دیکھنے کے اور دل ہی دل میں اویس کی سلامتی کی دعا کرنے کے علاوہ کچھ کر سکتے تھے؟
کوئی معجزہ ہوگا اور بلا ٹل جائے گی!

کیا یہ ہو سکتا ہے کہ سینکڑوں کے اس ہجوم میں کسی ایک نے بھی بلند عمارتوں میں پھنسے لوگوں کو بچانے کا یہ سادہ سا عمل ساری زندگی کبھی دیکھا ہی نہیں یا پھر یہ کہ شاید قصور صرف اس ہجوم کا نہیں ہم من حیث القوم دعاؤں سے بھرے دل لے کر آسمان کی طرف نظریں اٹھائے کھڑے ہیں اپنی طرف آنے والی ہر آفت کو مسحور ہوکر دیکھتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ابھی کوئی معجزہ ہوگا اور بلا ٹل جائے گی۔

ایک وقت تھا کہ پاکستان کے سرکاری سکولوں میں اور کبھی کبھی پارکوں میں سول ڈیفنس اور فائر بریگیڈ والے اپنے کراتب کا مظاہرہ کرتے تھے تاکہ عام شہری سیکھیں کہ آتش زدگی کی صورت میں انہیں کیا کرنا ہے۔ اس کا ایک لازمی حصہ یہ ہوتا تھا کہ ایک رضاکار کو آگ سے جان بچانے کے لیے اوپر کی منزل سے چھلانگ لگانی ہوتی تھی۔ نیچے آٹھ یا دس لوگ ایک دری یا کسی موٹے کپڑے کی چادر اپنی پوری قوت سے تان کر کھڑے ہوتے تھے اورگرنے والا بحفاظت زمین پر پہنچ جاتا۔

اویس بیگ کو آٹھویں منزل سے لٹکا دیکھ کر مجھے پہلا خیال یہ آیا کہ سٹیٹ لائف بلڈنگ زینب مارکیٹ کے بالکل سامنے واقع ہے اور زینب مارکیٹ کراچی کی کپڑے کی بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔ یہاں پر قالینوں کی دریوں کی دوکانیں ہیں، رنگ برنگی رلیاں بھی ملتی ہیں کیا کسی ایک شخص کو یہ خیال نہیں آیا کہ بجائے آسمان کی طرف دیکھنے اور دعا کرنے کے بھاگ دوڑ کر ایک دری کا انتظام کیا جائے جوگرنے والے کی جان بچا سکے۔

کیا یہ ہو سکتا ہے کہ سینکڑوں کے اس ہجوم میں کسی ایک نے بھی بلند عمارتوں میں پھنسے لوگوں کو بچانے کا یہ سادہ سا عمل ساری زندگی کبھی دیکھا ہی نہیں یا پھر یہ کہ شاید قصور صرف اس ہجوم کا نہیں ہم من حیث القوم دعاؤں سے بھرے دل لے کر آسمان کی طرف نظریں اٹھائے کھڑے ہیں اپنی طرف آنے والی ہر آفت کو مسحور ہوکر دیکھتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ابھی کوئی معجزہ ہوگا اور بلا ٹل جائے گی۔

آٹھویں منزل سے گرنے والے شخص کے لیے مضبوط ہاتھوں سے تانی ہوئی ایک چادر ہی واحد معجزہ ہو سکتی ہے اور یہ معجزہ صرف ہجوم میں موجود کچھ لوگ ہی کر سکتے ہیں ورنہ کھڑکی سے لٹکے ہوئے لڑکے کے بازو آخر کار شل ہوں گے اور بہت نیچے کنکریٹ کا فرش اور ایک ہجوم کی دعائیں اس کا استقبال کریں گی

محمد حنیف
بی بی سی اردو ڈاٹ کام