Way to Salvation in Surah al Asr (Rah e Nijaat)
نجات کی راہ سورۃ العصر کی روشنی میں
By
Dr Israr Ahmed
ڈاکٹر اسرار احمد
DOWNLOAD
LINK-2
آخرت کے عزاب سے نجات کے متعلق سورۃ العصر کی روشنی میں لکھی گئی ایک اچھی تصنیف
سورۃ العصرقرآن مجید کی مختصر سورتوں میں سے ہے ، اور خوش قسمتی سے اس میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، وہ سب أردو میں عام طور پر استعمال ہوتے ہیں أو اور ایک عام اردو دان بھی ان سے بہت حد تک مانوس ہو سکتا ہے ، یہی وجہ سے کہ اس کا سرسری مفہوم تقریباً ہر شخص سمجھ جاتا ہے اور اس میں کسی قسم کی دِقَّت محسوس نہیں کرتا لیکن اس سورت کا اگر غور وفکر ، تدبراور شوق دلی سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت پورے قرآن کریم کی تعلیمات کا خلاصہ ہے ، اور اس کی ظاہری سادگی او رسلاست کے پردوں میں علم وحکمت کے کتنے خزا نے پوشیدہ ہے ۔
سورۃ العصر کے بارے میں چند بنیادی باتیں
قارئین کرام ! اس عظیم ترین سورت کی چند بنیادی باتیں ذہن نشین کر لیجئے ۔
۱۔ یہ سورت مبارکہ ترتیب نزولی کے اعتبار سے قرآن کریم کی اوّلین سورتوں میں سے ہے ، گویا کہ یہ نبی ا کرم ﷺپر مکی دور کے بالکل آغاز میں نازل ہوئی۔
۲۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کی مختصر سورتوں میں سے ایک ہے ، اس لئے کہ یہ کل تین آیات پر مشتمل ہے اور ان میں سے بھی پہلی آیت صرف ایک لفظ پر مشتمل ہے یعنی والعصر ۔
۳۔ تیسری بات یہ کہ اپنے مضمون اور مفہوم ومعنی کے اعتبار سے قرآن حکیم کی جامع ترین سورت ہے ، اس لئے کہ قرآن مجید کتاب ہدایت ہے ﴿ہُدًی لِنَّاسِ﴾ یعنی انسان کو کامیابی اور فوز وفلاح کا راستہ دکھانے کیلئے نازل کیا گیا ہے تاکہ انسان نجات حاصل کرسکے اور واقعہ یہ ہے کہ قرآن حکیم نجات کی جس راہ کی جانب لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے وہ نہایت اختصار لیکن حد درجہ جامعین کے ساتھ اس چھوٹی سی سورت میں بیان ہوگئی ہے ، اس اعتبار سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سورۃ العصر میں پورا قرآن کریم موجود ہے ۔
۴۔ چوتھی بات یہ کہ اس سورت کے الفاظ بہت سادہ اور آسان ہیں ، آپ کو معلوم ہے کہ ہر زبان میں اس کے ادب کے شاہکار وہ ادب پارے کہلاتے ہیں جن میں مضامین اور معانی تو بہت اعلیٰ اور بلند پایہ ہوں لیکن الفاظ نہایت آسان اور عام فہم ہوں ایسے ہی ادب پاروں کو سہل ممتنع قرار دیا جاتا ہے ۔ اوّل تو قرآن مجید پورا ہی عربی زبان کا اعلیٰ ترین ادبی شاہکار ہے ، اور کل کا کل سہل ممتنع ہے ، لیکن اس میں بھی خاص طور پر یہ سورت سہل ممتنع کی اعلیٰ ترین مثال ہے ، جس میں مضامین کے اعتبار سے تو گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے لیکن ثقیل اور بھاری لفظ ایک بھی استعمال نہیں ہوا۔
والعصر کا مفہوم
قارئین کرام! سب سے پہلے لفظ والعصر کو سمجھئے جس کا سادہ ترجمہ میں نے ابھی زمانے کی قسم کیا ہے ۔
عصر کا اصل مفہوم صرف زمانہ نہیں بلکہ تیزی سے گزرنے والا زمانہ ہے ، عربی زبان میں عصر اور دہر کے دوالفاظ بہت جامع ہیں ، اور ان دونوں میں صرف زمان (Time) نہیں بلکہ زمان اور مکان کے مرکب کی جانب اشارہ ہے ۔اور حسن اتفاق سے قرآن مجید میں العصر اور الدہر دونوں ہی ناموں کی سورتیں موجود ہیں ۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ دہر میں مرکب زمان ومکان کی وسعت کا لحاظ ہے یا جدید فلسفے کی اصطلاح میں یوں کہہ لیجئے کہ زمان مطلق مراد ہے ، جبکہ لفظ عصر میں زمانہ مراد اور اس کی تیزروی کی جانب اشارہ ہے ، گویا فلسفی اصطلاح میں زمان جاری یا زمان مسلسل (Serial time) مراد ہے ۔ والعصر میں حرف واو حرف جار ہے اور اس کا مفاد قسم کا ہوتا ہے ، اور قسم سے اصل مراد شہادت اور گواہی ہے ، گویا لفظ والعصر کا حقیقی مفہوم یہ ہوا کہ تیزی سے گزرتا ہوا زمانہ شاید ہے اور گواہی دے رہا ہے ۔
خُسران کا مفہوم
اسی طرح دوسری آیت کا سادہ ترجمہ بھی میں کرآیا ہوں کہ انسان خسارے میں ہے ، لیکن اس سے بھی اصل مفہوم ادا نہیں ہوتا، اس لیے کہ قرآن کی اصطلاح میں دو چار ہزار یا دو چار لاکھ کے گھاٹے کو نہیں بلکہ کامل تباہی اور بربادی کو کہتے ہیں ، چنانچہ کامیابی اور بامرادی کیلئے تو قرآن حکیم میں متعدد الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، جیسے فوز و فلاح، اور رشد وہدایت لیکن ان سب کی کامل ضد حیثیت سے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے اور وہ ہے خُسران، گویا دوسری آیات کا اصل مفہوم یہ ہوا کہ پوری نوع انسانی تباہی اور ہلاکت وبربادی
سے دوچار ہونے والی ہے ۔
پہلی دو آیتوں کا باہمی ربط
یہ بات تو واضح ہے کہ پہلی آیت قسم پر مشتمل ہے اور دوسری جواب قسم پر یعنی دوسری آیت میں ایک حقیقت کا بیان ہے اور پہلی میں اس پر زمانے کی گواہی کی جانب اشارہ ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں کے مابین منطقی ربط کیا ہے ؟ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر یعنی زمان جاری یا زمان مسلسل ایک ایسی چادر کی مانند ہے جو ازل سے ابد تک تنی ہوئی ہے ، گویا زمانہ انسان کی تخلیق سے لیکر نہ صرف انسان کی حیات دنیوی اور اس کی پوری تاریخ بلکہ حیات اخروی اور اس کے جملہ مراحل کا چشم دیدگواہ ہے ۔ اس حقیقت ثابت پر ایک تنبیہ اور انداز کا مزید رنگ ہے جو لفظ والعصر کے استعمال سے پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ انسان کی ہلاکت اور تباہی اور خسران حقیقی کا اصل سبب یہ ہے کہ اس پر غفلت طاری ہوجاتی ہے اوروہ اپنے ماحول اور اپنے فوری مسائل ومعاملات میں الجھ کر گویا گمشدگی کی سی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے ، اس حوالے سے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
عمل صالح کا مفہوم
تواصی کے معنی
حق کے معنی
صبر کا مفہوم
سورۃ العصر کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ کے دو حکیمانہ اقوال
rah e nijaat, nijaat ki raah, dr israr ahmed, download free,
way of salvation.
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں