ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

11 ستمبر، 2010

18 اگست 1947ء کی عید


؍18 اگست 1947ء کی عید
ربط



مسلم معاشرے میں عید کے معنی خوشی کے ہیں جب مسلمان کو حکم خداوندی بجالانے کے بعد سخت سے سخت حالات کا سامنا کرتے ہوئے مشکل فیصلوں پر عمل کرے جب رضا الٰہی کی خاطر حلال نعمتوں کوبھی چھوڑ دے ۔ جب انسان اس امتحان میں سرخرو ہو کر رضائے خدا حاصل کرلے تو اس منزل کو عید کہاگیا ہے۔ پھر سید نا ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل پیرا ہو کر فریضہ حج ادا کرتے ہوئے اپنے پاک مال سے ایک جانور کو نام الٰہی پر قربان کرکے اس کی خوشنودی حاصل کرنے کو عید سمجھاگیا یعنی احکامات ربانی پر عمل کرکے سرخروہوئے جس کیلئے ہم اجتماعی طورپر خوشی کا اظہار کرتے ہیں جو تزکیہ نفس کا بہترین طریقہ ہے ۔

تاہم قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب دن تو خوشی کا ہوتا ہے مگر اس دوران مصیبت کے پہاڑ آن پڑتے ہیں ایسا ہی ایک دن 18 اگست 1947ء کو آیا جب مسلمانان ہند آگ وخون کے ایسے طوفان میں مبتلا ہوئے جوشاید اس سے پہلے کبھی نہ دیکھاگیا ہو ۔3 جو ن1947ء کے پارٹیشن فارمولے کے برعکس مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان میںشامل نہ کرکے کمیشن کے سربراہ سرریڈ کلف ، جواہر لعل نہرو اور وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے ساز باز کی‘ جس میں جالندھر ، ہوشیار پور ، بٹالہ ، گروداس پور ، پٹھان کوٹ ، امرتسر ، تارا ترن کی مسلم اکثریتی تحصیلیں سوچی سمجھی سازش کے تحت بھارت میں شامل کرکے وہ بھیانک کھیل کھیلا گیا جس کی اذیت مسلمانان ہند کبھی فراموش نہ کرسکیں گے ۔ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے فارمولا پر تو مسلم دشمن قوتیں ہر دور میں متفق اور متحد دکھائی دیتی ہیں ۔ اسی ہندو تنگ نظری کے باعث مسلمانان ہند نے علیحدہ ارض وطن کیلئے جدوجہد کی مگر 3 جون 1947ء کے تقسیم ہند کے اعلان کے بعد ظلم و استبدار کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ ہندوئوں اور سکھوں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جسکی کوئی بھی مذہب سماج یا معاشرہ اجازت نہیں دیتا ۔ 17اگست 1947ء کے بائونڈری کمیشن کی طرف سے تقسیم پنجاب کا اعلان ہوتے ہی مذکورہ علاقوںمیں مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔



مشہور تاریخی کتاب 18 اگست 1947ء کو عید الفطر تھی جس دن مسلمان اجتماعی نماز ادا کرتے ہیں مگر اس روز کی نماز ہر شہر گائوں اور قصبہ میں خون رنگ ہوگئی ۔ سجدہ ریز نہتے مسلمانوں پر جس درندگی سے مسلح ہندو سکھ جتھے پولیس کی نگرانی میں حملہ آور ہوئے۔ آہنسہ کے پچاری برچھیوں بلموں تلواروں کرپانوں بندوقوں سے لیس مسلم بستیوں پر ٹوٹ پڑے ۔ مردوں کو قتل کرکے عورتوں کی بے حرمتی ، بوڑھوں اور بچوں کو زندہ جلا کر راکھ کر دیا ہر طرف آہیں اور سسکیاں تھیں۔ بارود اور انسانی گوشت کی بو پھیلی ہوئی تھی ۔ ہندو اور سکھ غنڈوں کے شراب کے نشے میں دھت بدمست قہقہے گونج رہے تھے ایسا بھیانک منظر شاید ہی تاریخ نے کبھی دیکھا ہو۔ " جب امرتسرجل رہا تھا" کے مصنف خواجہ افتخار لکھتے ہیں کہ آج میری آنکھوں کے سامنے وہی منظر گھوم رہا ہے جب مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کو کلمہ گوئی اور مطالبہ پاکستان کے جرم کی پاداش میں سنگینوں پر اچھالا جا رہا تھا ، وہ پیدل قافلوں اور ٹرینوں کی صورت میں پاک سرزمین کی جانب بڑھ رہے تھے۔ تقسیم کے موقع اغواہونیوالی اسی ہزار خواتین کی عصمتوں کے لٹنے کے دلخراش منظر اور ان کے مادر ذاد برہنہ جلوس نکالنے والے خونخوار بھیڑیوں کے مکروہ چہرے آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں ۔


"عظیم تقسیم" کے مصنف ڈبلیو ڈی ہڈسن رقم طراز ہیں ۔18اگست عید کے روز ہر جگہ قتل و غارت کا بازار گرم تھا ۔ مائوں کی گود میں بچے ذبح کر ڈالے گئے، جوان بوڑھے اور بے کس عورتوں کو بڑی سفاکی سے مارا گیا ۔ ٹرینوں پر مسلح حملے کئے گئے۔ مسافر ٹرینوں پر چھاپے مارے گئے ۔ قافلوں کے راستے میں آنیوالے تالابوں اور کنوئوں میں زہر ملایا گیا ۔ مسلمان بستیوں کو لوٹا پھر جلا دیا ۔ سرکاری ادارے ان جتھوں کے ساتھ تھے معلوم ہوتا تھا جیسے آسمان سے خون برس رہا ہے اور زمین پر خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں ۔


" پنجاب کی خونی داستان" کے مصنف ہندو دانشور مسٹر دھنو تری لکھتے ہیں 18 اگست عید کے روز مشرقی پنجاب کی کوئی چھوٹی بڑی آبادی ایسی نہ تھی جس کے محلے گلیاں اور گھر جلتے نظر نہ آئیں ۔ مسلمانوں کا قتل اتنا بہیمانہ تھا کہ سکھوں نے مسلم مردوں بچوں بوڑھو ں بیماروں اپاہجوں درویشوں فقیروں کوتلوار کے گھاٹ اتار دیا ۔ عورتوں کی آبروریزی بڑی بے باکی سے کی گئی ۔ سڑکوں بازاروں حتی کہ کیمپوںپر جہاںمسلمان نظرآئے قتل کر دئیے ۔

ان حالات میں پاکستان بنا ۔ ہمارے بزرگوں نے آزادی کی پہلی اینٹ لاکھوں شہادتوں اور عصمتوں کی قربانی کے عوض حاصل کی ۔تمام منظر ہرذی شعور انسان کیلئے اذیت کا باعث تھا مگر ہمارے قائد اس رنج و الم کی صورت میں بھی اپنی قوم سے مایوس نہ تھے۔ آپ نے 30اکتوبر 1947ء کو یونیورسٹی گرائونڈ لاہور ایک عوامی اجتماع سے خطاب میں فرمایا " پاکستان حاصل کرنے کیلئے ہم نے بہت قربانیاں دیں اللہ نے ہمیںقربانیوں کے بدلے آزادی کی نعمت دی ہے مگر ہمارے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان پیدا ہوتے ہی ختم ہوجائے ہمیں جو دکھ دیا گیا ہے اس کی مثال تاریخ میںنہیں ملتی مگر ہمیں پاکستان کو قائم رکھنے کیلئے ابھی اور قربانی دینی ہوگی ۔ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتے ہمارے حوصلے بلند ہیں اسی طرح تمام ملت ہمت اور صبر کیساتھ کام کرتی رہی تو ہماری یہ مصیبت انشاء اللہ بہت جلدختم ہوجائے گی اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نے اپنے مصیبت زدہ بہنوں بھائیوں کی دل کھول کر مددکرنی ہے اگر ہماراایمان پختہ ہے، ہمارے حوصلے بلند ہیں تو ہم ان شاء اللہ مصیبتوں پر فتح حاصل کریں گے "

قارئین !آج 11 ستمبر 2010کی عید جس میں ہمارے دو کروڑ بہن بھائی ایک بڑی آفت کا شکار ہیں مگر مصیبت آفت ویسی نہیں جس کا مقابلہ ہمارے عظیم بزرگو ں نے کیا ۔ انکی عظیم قربانیوں سے حاصل شدہ آزادی کی نعمت کی حفاظت اور آج اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی امداد اپنے قائد کے فرمان اور بزرگو ں کے حوصلے اور قوت ایمان سے حاصل شدہ روشنی میں کرنی ہوگی ۔بزرگوں کی روایت پر عمل کرتے ہوئے آنیوالی نسلوں کیلئے ایثار اور بھائی چارے کی نئی مثالیں قائم کرنی ہیں ۔ ہمیں ایک زندہ اور باوقار قوم کے طور پر حالات کا مقابلہ کرکے روشن اور درخشاں مستقبل کے راستے تلاش کرنے ہونگے ۔ مشکلوں مصیبتوں کو حوصلہ اتحاد وتفا ق سے شکست دینی ہوگی ایسی روایت کو جنم دینا ہوگا جو آنیوالی نسلوں کیلئے چراغ راہ بن سکے کیونکہ ہمارے لئے بھی حضرت قائد کا کردار اور فرمان مینارۂ نور ہے کہ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتے ۔ 

Eid on 18 august 1947 and eid on 11 september 2010.
creation of pakistan and hindu character.

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں