وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
بابری مسجد کے قضیہ میں الہ باد ہائی کورٹ کا فیصلہ سن کربے ساختہ گاندھی جی کے تین بندر یاد آگئے جو کبھی بھی ایک دوسرے سے اتفاق نہیں کرتے۔ایک کا ہاتھ منہ پر ہوتا ہے تو دوسرے کا کانوں پر اور تیسرا بیچارہ آنکھیں موند کر بیٹھا رہتا ہے ۔ ہائی کورٹ کےجس فیصلے پر تین جج حضرات آپس میں اتفاق نہ کر سکے اس سےبھلاہندو اورمسلم عوام کے درمیان اتحاد واتفاق کیوں کربحال ہوسکتا ہے؟لیکن اس کے باوجود سیاستداں اس کی تلقین کر رہے ہیں میڈیا اسے نہ صرف دوہرا رہا ہے بلکہ توقع بھی کر رہا ہے کہ ایسا ہوگا ۔اگر سیاست سے عدل کا خاتمہ ہو جائے اور عدالت گھٹیا سیاست کی بھینٹ چڑھ جائے تو کیا ہوتا ہے اگر کوئی جاننا چاہتا ہو تو بابری مسجد کی سیاست اور عدالت کے فیصلوں کو دیکھ لے۔
حالیہ فیصلے نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندووں کو بھی چونکا دیا ہے۔مسجد گراکرمندر بنانے والےجو عدالت میں پیش ہونے والے دلائل اور ثبوت سے گھبرا کر یہ کہہ رہے تھے کہ ہم اپنے خلاف ہونے والے کسی فیصلے کو تسلیم نہ کریں گے ۔اگر عدالت مندر کے حق میں فیصلہ نہیں کرتی تو دستوری ترمیم کی مدد سے اس کی راہ ہموار کی جائیگی ۔ جو خوف کے مارے فیصلے کو ٹالنے کی گہار لگا رہے تھے اور عدالت کے باہر سمجھوتے کی تجویز رکھ رہے تھے وہ سب اس فیصلے سے پھولے نہیں سما رہے ہیں۔اور عدلیہ پر مکمل اعتماد کا اظہار کرنے والے مغموم و مایوس ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کواس عدالتی قلابازی کی توقع نہیں تھی سب جانتے تھے کہ اگر فیصلہ ثبوت و برہان کی بنیاد پر ہوا تو یقیناً اس سے مختلف ہوگا ۔مسلمان بیچارے بہت خوش تھے کہ اس بار اتر پردیش میں ان کی بہن مایا وتی کا راج ہے۔مرکز میں سیکولرزم کی سرغنہ کانگریس کی حکومت ہے جسے بڑے ارمانوں کے ساتھ وہ اقتدار میں لائے ہیں ۔ ملک کے ہندو عوام کی دلچسپی رام مندر میں ختم ہو چکی ہے اور ماحول سنگھ پریوار کے خلاف ہو گیا ہے ۔ آئے دن دہشت گردی کے معاملات میں سنگھی رہنماوں کا ملوث ہونا منظر عام پر آرہا ہے جس سے ان کے حوصلے پست ہوتے جارہے ہیں۔ وشوہندو پریشد کو کوئی پوچھنے والانہیں ہے ۔ برسوں سے ان لوگوں نے دھرم سنسد کا ڈرامہ تک نہیں کیا ہے۔بی جے پی شدید قحط الرجال کا شکار ہے پرانے رہنماوں کی ہوا اکھڑ چکی ہے نئے لوگوں میں دم خم نظر نہیں آتا ۔پارٹی کے اندر اختلاف کا بول بالہ ہے۔بی جے پی کو اس بات کا خوف بھی لاحق ہے کہ کہیں خود کانگریسی ایسی ریاستوں میں جہاں ان کی حکومت ہے فرقہ وارانہ فساد کرواکرحفظ و امان کا مسئلہ نہ پیدا کر دیں اور مرکز کو ۱۹۹۲ کی طرح ان کی حکومت برخواست کرنے کا موقع ہاتھ آجائے۔ اس لئے بی جے پی والے بھی فساد کے بجائے امن کی بولی بولنےلگےہیں ۔
بابری مسجد کا قضیہ عدل وانصاف کے ساتھ چکانے کیلئے اس سے زیادہ سازگار ماحول پھر کبھی میسر آجاتا یہ شاید ہی ممکن تھا اس لئے اس بار انصاف کی توقع میں قدرے اضافہ ہوگیاتھا۔ لیکن جو لوگ کانگریس کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ کانگریس کیلئے عدل وانصاف کی کوئی اہمیت و وقعت کبھی بھی نہیں رہی ہے۔ عدل کو قائم کرنے کیلئے جو ہمت و حوصلہ درکار ہوتا ہے اس جماعت کے اندر اس کا ہمیشہ ہی فقدان رہا ۔ کانگریس کی تمام تر دلچسپیاں اقتدارکے دائرے میں محصور ہوتی ہیں۔
اس کے دور میں تمام فیصلے سیاسی مفاد کے پیشِ نظر کئے جاتے ہیں اور کانگریس اس بات سے واقف ہے کہ جمہوری نظامِ حکومت میں انصاف کرنے سے زیادہ اہمیت اکثریتی فرقہ کی خوشنودی حاصل کرنے کوحاصل ہے اس لئے اس نے ماضی میں بھی انصاف کو اپنے قدموں تلے روندا اور اس بار بھی یہی کیا ۔یہ عدالت کا نہیں بلکہ سیاست کا فیصلہ ہے۔سونیا گاندھی کو ایسا لگ رہا ہے کہ اس سے راہل گاندھی کے وزیرِ اعظم بننے کا راستہ صاف ہو گیا لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ راجیو گاندھی کے اقتدار سے محرومی کا ایک سبب بابری مسجد کے تالہ کھلوانابھی تھا
کانگریس پارٹی کے پرچم کے تین رنگ ہیں اسی طرح اس مقدمہ کے تین قاضی تھے۔شرما جی نے زعفرانی دھوتی باندھ رکھی تھی اور اگروال صاحب نےسفیدی مائل کرتا پہن رکھا تھا۔ خان صاحب نے ہرے رنگ کی ٹوپی اپنے سر پر سجا رکھی تھی اس ڈرامے میں ان تینوں کو مختلف کردار نبھانا تھا اس حساب سے انہیں مختلف ملبوسات میں نوازہ گیا تھااور فیصلہ دیکھنے کے بعد اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں محسوس ہوتی کہ ان تینوں حضرات نے مقدمہ کے ساتھ تو نہیں لیکن اپنے اپنےکردارکے ساتھ ضرورانصاف کیا۔ ان لوگوں نے مشترکہ فیصلہ سنانے کے بجائے علٰحیدہ فیصلے سنائے تاکہ اپنی انفرادیت باقی کو باقی رکھا جاسکے اور عوام کو اس حوالے سے کوئی غلط فہمی نہ ہو کہ کون سی رائے کس شخص کی ہے ۔ یہ منظر نامہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ ہندو معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہے ایک سیکولر یعنی بے دین اور دوسرا دیندار یعنی سنگھ پریوار ۔ اور ان تینوں کو ہندوستانی سیاست میں یکساں اہمیت حاصل ہے۔لیکن اس بندر بانٹ کا فائدہ بالآخر ہندووں کو ہی ہوتا ہے اس لئے کہ اگر تقسیم برابر بھی ہوجائے تب بھی دوتہائی ان کے حصہ میں چلا جاتا ہے اور مسلمانوں کے حصہ میں ایک تہائی آتا ہے ۔ اس پر جمہوری نظام کی قہر سامانی اپنی جگہ ہے,جو۵۱ فی صد کو صد فی صد اقتدارسے نوازتا ہے اور ۴۹ فی صدکوپوری طرح بے اختیارکر دیتا ہے۔ کانگریس کی پرمپرا کا جنہیں علم ہے وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اگر کانگریس چاہتی تو یہ مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔
انگریزی سامراج کے دوران ایک ہندو اور دو انگریز جج جو نا انصافی نہ کر سکے اور ہندووں کی عرضداشت کو تین مرتبہ خارج کر دیا وہ کام کانگریسیوں نے مسلسل کیا۔ مورتیوں کو جب رکھا گیااس وقت مرکز میں اور ریاست میں کانگریس کی حکومت تھی۔سنگھ پریوار نہایت کمزور اور لاغر تھا اگر پنڈت نہرو ,گووند ولبھ پنت کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے مورتیاں ہٹا دیتے تو معاملہ بڑی آسانی سے رفع دفع ہوجاتا۔لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ مورتیوں کو ہٹانے کے بجائے مسلمانوں کو عبادت سے روک دیا گیا ۔ اس کے بعدغیر قانونی مندر کا تالہ راجیو گاندی نے اپنے وزیرِ اعلیٰ این ڈی تیواری کے زمانے میں کھلوایااورشیلانیاس کرواکر اعلان کیا مندر وہ(مراد بی جے پی)نہیں ہم بنائیں گے۔ بلکہ رام راجیہ کے قیام کااعلان بھی کرگذرے۔ان کے بعدجب نرسمھا راؤ برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے جان بوجھ کر بی جے پی کومسجد شہید کرنے کا موقع دیا تاکہ اس سلگتے ہوئے مسئلہ کو ٹھنڈا کردیاجائے جس کی مدد سے بی جے پی اقتدار میں آنا چاہتی ہے ۔ اورمسجد کی شہادت کے دوران گم سم مونی بابا بنے رہے ۔ جب مسجد ڈھیر ہو گئی تو غیر قانونی طور پر بنائے گئے کارگذارمندرکو ہٹانے کے بجائے جس کا مشورہ جیوتی باسو نے انہیں دیا تھا نیز اپنے تعاون کا یقین بھی دلایا تھا, بی جے پی چار ریاستی حکومتوں کو برخواست کر کے اپنی سیاسی ابن الوقتی کا مظاہرہ کیا۔انہوں نے لال قلعہ سے مسجد کی تعمیر کا وعدہ کیا بعد میں جب ان سے پوچھا گیا مندر کا کیا ہوگا ؟تو وہ بولے مندر بھی رہے گا ۔ اس کے بعد جب پوچھا گیا پھر مسجد کیسے بنے گی ؟تو بولے میں نے یہ کب کہا مسجد وہیں بنے گی ۔ ان کے بعدآنے والےسونیا کے کٹھ پتلی منموہن سنگھ نے وہی کیا جو راؤ نے کہا تھا۔ بابری مسجد کی زمین کو عدالت کے ذریعہ تقسیم کرواکر بالآخر وہاں مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کردیا۔وقت کے ساتھ افرادوکردار بدلتے رہے لیکن افکار و طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اس لئے کہ اغراض و مقاصد ہمیشہ ہی اقتدار کو حاصل کرنا اور اسے باقی رکھنا رہے۔ایسے میں مسلمانوں کی حالت پر فیض کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
کانگریس کی یہ روایت بہت پرانی ہے ۔آزادی سے قبل بھی اس کے پاس گاندھی جی کے تین بندروں کی مانند تین رہنما تھے جن کی مدد سے سیاست کھیلی جاتی تھی ۔ جج اگروال سے مشابہت رکھنے والے پنڈت نہرو۔شرماجی کی طرح دکھائی دینے والے سردار پٹیل اور خان صاحب کی جگہ مولاناآزادبراجمان تھے اور ان تینوں کی مدد سے ملک کو اسی طرح تقسیم کیا گیا تھا جیسے آج بابری مسجد کی زمین کو تقسیم کر دیا گیا۔اس وقت بھی مسلمانوں کے حصہ میں تقریباً ایک تہائی اور ہندووں کودو تہائی حصہ ملا تھا ۔وجوہات پر غور کیا جائے تو زبر دست مشابہت دکھائی دیتی ہے ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قائدِ اعظم کا اپنا وقار تھا اسی کے ساتھ وہ پکےّ کانگریسی بھی تھے لیکن ایک خاص مرحلے میں انہوں نے بادلِ ناخواستہ کانگریس سے کنارہ کشی اختیار کی اس کی جو وجوہات بیان کی جاتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہیکہ ناگپور میں منعقد ہونے والے کانگریس کے ایک اجلاس میں انہوں نے گاندھی جی کو مہاتما گاندھی کہنے کے بجائے مسٹر گاندھی کہہ کر مخاطب کیا۔ اس پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا لوگ ان سے مہاتما کااستعمال کرنے پر اصرار کرنے لگے ۔ ایسا کرنے والوں کے پاس گاندھی جی کے مہا آتما ہونے کی کوئی دلیل اور ثبوت نہیں تھا۔ یہ آستھا کا پرشن(سوال) تھا۔ اب یہ تو ہو سکتا تھا کہ جو گاندھی جی مہاتما سمجھتا ہے وہ انہیں مہاتما کہہ کر پکارے اور جو نہیں سمجھتا اس کےمسٹر کہہ کر پکارنے کے حق کو تسلیم کیا جائے ۔
لیکن اس رواداری کا مظاہرہ نہیں ہوا خود گاندھی جی نے بھی ان ہنگامہ کرنے والوں کی نرسمھاراؤ کی مانند خاموش تائید کر دی ۔جناح سمجھ گئے کہ اگر یہ لوگ مجھے برداشت نہیں کر سکتےجبکہ میں انکی اپنی پارٹی کا ایک معمر رہنما ہوں تو عام آدمی کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا ۔یہ واقعہ آنے والے دور کی نشاندہی کررہاتھا۔ اس کے بعدپارٹی اور پھر ملک تقسیم ہو گیا۔کانگریس نے اس کیلئے راہیں ہموار کیں اوراب آستھا کی بنیاد پر بغیر ثبوت اور دلیل کےبابری مسجد کی زمین تقسیم ہو گئی اسمیں بھی کانگریس نے اہم کردار ادا کیا۔
تین جج حضرات کی بنچ کے فیصلوں کا گاندھی جی تین بندروں کے رویہ سے موازنہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے ۔خان صاحب نے برائی کو دیکھا اور سنا لیکن بولنے سے کسی قدر گریز کیااور برا مت بولو کی نصیحت پر عمل کیا۔ یہ تو کہا کہ بابری مسجد کو بنا نے کیلئے کسی مندر کو توڑا نہیں گیا ۔ وہاں پر اس وقت کوئی مندر نہیں تھا ۔ یہ بھی کہہ گئے کہ۲۲, دسمبر ۱۹۴۹کی رات میں وہاں مورتیاں لا کر رکھی گئیں ۔ لیکن یہ نہ کہہ سکے کہ مورتیوں کو وہاں لاکر نصب کرنا اولین غلطی تھی اور دوسری غلطی ۱۹۸۹ میں اس وقت ہوئی جب عدالت کی مدد سےمسجد کا تالہ کھولواکر وہاں پوجا کی اجازت دی گئی اور تیسری غلطی کے وقت سپریم کورٹ میں کی گئی یقین دہانی کو بالائے طاق رکھ کر ۶دسمبر ۱۹۹۲ کے منحوس دن بابری مسجد کو شہید کر دیا گیااور وہاں رام جی کا غیر قانونی مندر بنادیا گیا اب چوتھی غلطی خود انہوں نے کی اور اپنے فیصلے میں یہ لکھ دیا کہ متنازعہ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائےجس میں سے ایک حصہ مسلمانوں کو دے دیا جائے اسی کے ساتھ مورتیوں کو اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جائے۔یہ مورتیاں دوسرے دو ججوں کیلئے آستھا کا معاملہ تھیں لیکن خان صاحب کیلئے محض ملازمت کا سوال کا تھا اور وہ اسے قربان نہیں کرسکے ان کے منہ پرترنگی سیاست کا تالہ پڑا ہواتھا ۔شریمان اگروال نے برا مت دیکھو پر عمل کرتے ہوئے برائی کی جانب سے آنکھیں بند کررکھی تھیں صرف برا بھلا سنا اور اور وہی کچھ بول گئے انہوں نے کہا کہ رام جائے پیدائش وہی ہے جہاں مورتیاں نصب کی گئی ہیں اس لئے کہ ہندووں کا یہ عقیدہ و ایمان ہے ۔
دراصل اگروال صاحب یہ بھول گئے کہ ان سے یہ بات پوچھی ہی نہیں گئی تھی کہ ہندووں کا عقیدہ کیا ہے؟ اور اگر کسی کا عقیدہ یہ ہو کہ الہ آبادکی عدالت لکھنؤ کے بجائے نیویارک میں بیٹھ کر فیصلہ سنا رہی ہے تواس سے لکھنؤ ,نیویارک نہیں بن جاتا۔آستھا کی بنیاد پر زمین کامالکانہ حق طہ نہیں ہوتا۔
اس لئے انہوں نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے بجائے دودھ میں اس قدر پانی ملا دیا کہ انصاف کی دیوی شرم سے پانی پانی ہوگئی ۔ انہوں نے چونکہ حقائق سے آنکھیں بندکر رکھی تھیں اس لئے یہ بول گئے کہ متنازعہ عمارت (مراد بابری مسجد) کے اندر دونوں مذاہب کے ماننے والے عبادت کیا کرتے تھے لیکن باہر کے حصہ کو جسے صرف ہندو استعمال کرتے تھے نرموہی اکھاڑے کو وردان کردیا جائے۔اگروال صاحب کا یہ قیاس سراسرزمینی حقائق سے ٹکراتا ہے۔ اگر وہ عدالت کے گز شتہ مقدمات کو بھی دیکھ لیتے تو ان پر یہ حقیقت عیاں ہوجاتی کہ مسجد کے اندر ۱۹۴۹ تک صرف اور صرف مسلمان عبادت کرتے رہے ۔ اس کے بعد عدالت نے رام کی مورتی کو بھوگ لگانے کا حکم دیا اس سے قبل وہاں کبھی بھی ہندووں نے عبادت نہیں کی ۔لیکن عدالت کے فیصلوں کو بھلا وہ شخص کیسے پڑھ سکتا ہے جس کے آنکھ پر سفید پٹی بندھی ہو۔ شرما جی کے کانوں میں کانگریس نے سیسا گھول کرپلا دیا تھا اس لئے ان کو کوئی گواہی سنائی نہیں دیتی تھی ان کی آنکھوں پر اس قدر گہری زعفرانی عینک چڑھی ہوئی تھی کہ ان کو ہر شہ میں زعفرانی رنگ نظر آتا تھا اور ا ن کے ہر لفظ سے گیروا کذب ٹپکتا تھا ۔شرما جی نے بڑی ڈھٹائی سے یہ کہہ دیا کہ بابرنے رام مندر کو توڑ کر وہاں مسجد بنائی تھی اس لئے اسلامی شریعت کے مطابق وہاں مسجد کی تعمیر ہی غلط تھی گویا مسلم پرسنل لا بورڈ سے بہتر اسلام کی ترجمانی کرنے کا حق ادا کرنے کی ذمہ داری انہوں نے اپنے سر لے لی ۔
ان کی اندھی عقیدت کا یہ مظہر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایک طرف تو یہ مانا ۱۹۴۹رام کی مورتی کو مسجد میں رکھا گیا لیکن یہ بھی کہا کہ رام کی پوترآتما اس جگہ ہمیشہ ہی موجود تھی ہے ۔اس لئے شرما جی نے اس پورے خطہ اراضی کو بلا شرکت غیرے رام مندر کی تعمیر کیلئے وقف کر تے ہوئے سنی وقف بورڈ کا دعویٰ سرے سے خارج ہی کردیا۔ وہ شرما جی کی ملازمت کا آخری دن تھا اس لئے انہوں نے حکومت کی مرضی سے انحراف کرنے کی جرأت رندانہ کر ڈالی حکومت نے اسے برداشت کرلیا اس لئے کہ اس سے کوئی فرق نہیں واقع ہوتا تھا یا ممکن ہے ان کیلئے حکومت نے اسی طرح کی کردار نگاری کی ہو۔گویا کہ تینوں ججوں صرف ایک بات پر اتفق تھا کہ رام کی مورتی کو اپنی جگہ سے نہ ہٹایا جائے اس طرح گاندھی جی کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ان تینوں نے اپنے اپنے طریقہ سےمتفقہ طور پرانصاف کی دیوی کو آستھا کی سولی پر لٹکا دیا ۔حقیقت تو یہ ہیکہ الہ باد بنچ کا یہ فیصلہ عدالتی نہیں بلکہ سیاسی تھا اور اس سے انہیں لو گوں کو مایوسی ہوئی جو کانگریس پارٹی کی تاریخ کو بھلا کر اس سے غلط توقعات باندھے ہوئے تھے ۔اس فیصلے سے جو پیغام جاتا ہے وہ اس طرح ہیکہ جمہوری ہندوستان میں آپ کسی کی عباد ت گاہ میں منہ اندھیرےمورتیاں ڈال دیں پھر عدالت میں جاکر اس کو قفل لگوا دیں اورپھر تالہ کھلوانے کیلئے تحریک چلائیں۔اس کے بعد رتھ یاترا نکال کر اس عمارت کو مسمار کردیں ۔فسادات کرواکر لوگوں کو دہشت کردیں ۔ حکومت مجرمین کو سزا دینے کے بجائے مخالفین کی حکومت برخواست کرکے اپنا سیاسی مقصد حاصل کر لے گی ۔ حقائق کی تفتیش کیلئے جسے ساری دنیا نے ٹیلی ویژن پر دیکھا ہو کمیشن قائم کر دیا جائے گا اور برسوں کی تحقیقات کے بعد کوئی وظیفہ یافتہ جج مجرمین کی نشاندہی کرے گا سرکار ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرے گی بلکہ اس کی آنچ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکے گی اور جب مناسب سمجھے گی انصاف کا پوسٹ مارٹم کرکے اس کی لاش کو تقسیم کردیا جائیگا۔
گاندھی یونیورسٹی کا کوئی ریسرچ اسکالر اگر گاندھی جی کے تین بندروں پر اپنی تحقیق کا موضوع بنائےتو نہایت دلچسپ حقائق اسکے سامنے آئیں گے۔خود ڈارون بھی ان انکشافات سے حیران رہ جائےگا۔ اس کے مفروضے کی زنجیر کا غائب چھلہ اس تحقیق کے نتیجے میں اس کو حاصل ہو جائیگا۔ مثلاً اس تحقیق کا پہلا سوال یہ ہوگاکہ آخر گاندھی جی ان تین کاموں کیلئے تین بندروں کی ضرورت کیوں پڑی ؟ یہ بھی تو ہوسکتا تھا کہ کوئی ایک ہی بندر یہ تینوں کام کر دیتا؟ اور پھر اس کو کرنا تو کچھ تھا نہیں ۔گاندھی جی نے انہیں یہ تو نہیں کہا تھا کہ اچھا بولو یا اچھا سنو اور اچھا دیکھو بلکہ تین بری باتوں سے رکنے کا اپدیش دیا تھا بس ۔سو کیا ملک کی اس عظیم آبادی میں انہیں کوئی ایک بندر بھی ایسا میسر نہ آیا جو ان تینوں برائیوں سے اپنے آپ کو روک پاتا ؟تاکہ وہ اسے علامت کے طور پر پیش کرسکتے؟وہ محقق نے اگر اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی خاطر کانگریس پارٹی دانشوروں سے رابطہ قائم کرے تو اسے بتلایا جائے گا کہ مہاتما جی نہایت حقیقت پسند آدمی تھے انہوں نے یہ نصیحت کانگریس پارٹی کے کارکنان کو کی تھی اور وہ جانتے تھے کہ اس کل یگ کے سیاستداں سر سے پیر تک برائیوں میں لت پت ہیں اگرایسے میں وہ ان کی کو ششوں سے کسی ایک آسان سی برائی سے بھی بچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تویہ بہت بڑی کامیابی ہوگی ۔ گاندھی جی جیسے بھی تھے لیکن تھے نہایت دور اندیش آدمی تھے آزادی سے قبل انہوں نے جمہوری نظام کے اثرات کا اندازہ لگا لیا تھا۔ آج اگر وہ اپنی پیشن گوئی کوالہ باد عدالت کے اندر حقیقت میں بدلتے دیکھتے تو یقیناً ان کی آتما کو بڑی شانتی ملتی۔گاندھی جی شاید یہ نہیں جانتے تھے کہ انسان کے پاس آنکھ کان اور زبان کے علاوہ ہاتھ, پیر اور سر بھی ہوتا ہے اور ان کے ذریعہ سے بھی لوگ برائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں ۔اور پھر دل ,دماغ اور دیگر اعضائے رئیسہ ان کا کیا کہناوہ تو بڑی بڑی برائیوں کی آماجگاہ ہوتے ہیں لیکن کانگریس کی شریعت میں ان عظیم برائیوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ۔کانگریس کی پراچین سنسکرتی کو جب جمہوری لباس میسر آجاتا ہے اس کے مضرات میں سیکڑوں گنا اضافہ ہو جاتا ہے ۔عدلیہ ,انتظامیہ اور مقننہ بھی گاندی جی تین بندروں کی طرح اپنا اپنا کردار نبھانے لگتے ہیں ۔ ان میں سے عدلیہ کے آنکھ پر پٹی بندھہی ہوتی ہے وہ برائی کی جانب آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا لیکن جھوٹے گواہوں کی باتوں کو سن کر غلط سلط فیصلے سنانے سے گریز نہیں کرتا۔ انتظامیہ کا حال یہ ہوتا ہیکہ برائی کو دیکھتا ضرور ہے اور بری باتیں سنتا بھی ہے لیکن اپنی زبان کو اس کے خلاف کوئی جنبش نہیں دیتا اس کے منہ پر تالہ پڑا ہوتا ہے۔اور مقننہ کی دنیا ہی نرالی ہوتی ہے وہ کسی کی ایک نہیں سنتا اس کانوں میں روئی پھنسی ہوتی ہے وہ برائیوں کو چشم زدن سے دیکھتا ہے اور بے تکان اول فول بکتا رہتا ہے ۔اس نظام ِ حکومت میں کسی کو بھی گاندھی جی کا بندروں کی طرح برائی کو روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہر کوئی برائیوں کا استحصال کرنے میں جٹا رہتا ہےاورحسبِ ضرورت انہیں فروغ دینے سے بھی نہیں کتراتا۔ اس باب میں ایک اہم اضافہ اس وقت ہوا جب گروگولوالکر کے شاگردوں وقتی طور پر گاندھیائی سوشلزم کا چولہ پہنا۔ انہوں نے یہ کیا کہ ایک ہی بندر کیلئے تین مکھوٹے بنا دئے جو وقتِ ضرورت انہیں اپنے چہرے پر چڑھا لیتا تھا اس لئے کبھی تو ایسا دکھائی دیتا تھا اس کا ہاتھ منہ پررکھا ہوا ہے اور کبھی لگتا تھا وہ کانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہے اور کبھی کبھار اس کے ہاتھ آنکھوں پر بھی نظر آجاتے تھےحالانکہ ان کے حواسِ خمسہ ہمیشہ ہی اقتدار کی جانب متوجہ رہتے ۔اس معاملے ساری سیاسی جماعتیں یکساں ہیں کسی کو کسی پر کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے اسی لئے بابری مسجد کے فیصلے پر تمام لوگوں کا ردعمل تقریباً یکساں ہے۔مسئلہ افراد یا جماعتوں کا نہیں نظام کا ہے۔اس نمک کی کان میں جو بھی جاتا ہے نمک بن جاتا ہے۔اور اسی لئے شہید گنج گردوارے کی طرح کا دو ٹوک فیصلہ پاکستان جیسے مذہبی ملک میں تو ہو جاتا ہے ۔ مسجد کوعدالت چند ماہ کے اندردلائل کی بنیاد پر سکھوں کے حوالے کردیتی ہے اس پر نہ سیاست ہوتی ہے اور نہ فساد رونما ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں آزادی, جمہوریت, مذہبی رواداری اور سیکولرزم کے بلند بانگ دعووں کے باوجود ایسا نہیں ہوپاتا۔جمہوری نظام کے اندر سیاسی رہنماوں کی جو مجبوری ہوتی ہے وہ چار سو سال قبل پرانے شاہی نظام میں نہیں تھی اس کے باوجود بابر نے اپنے بیٹے ہمایوں کووصیت کی تھی کہ ہندوعوام کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا لیکن عدالت کے حالیہ فیصلے کے بعدکیا آج کا بابر بھی اپنے بیٹے کو وہی تلقین کر سکے گا۔ وہ تمام لوگ جن میں ڈاکٹرموہن بھاگوت سے لیکر شاعرجاوید اخترشامل ہیں اور جو ماضی کو بھلا کر مستقبل کی طرف دیکھنے کی بات کرتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ چار سو سال پرانے بابر نے تو کسی مندر کو توڑ کروہاں مسجدتعمیر نہیں کی تھی لیکن کیا چار سو سال بعد آنے والا بابر اس مسجد کو بھول جائیگا جسے توڑ کراس کی جگہ مندر کی تعمیر کی گئی ہو؟یہ سوال کسی تحقیق کا محتاج نہیں ہے۔اس کا جواب سب جانتے ہیں ۔ سنی وقف بورڈ نے مجبوراًسپریم کورٹ میں جانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ممکن ہے ہندو فریق بھی وہاں پہونچ جائے اور پھر ایک بار نئی مہا بھارت چھڑ جائے لیکن سپریم کورٹ کے بعد اس دنیا کے تمام عدالتی دروازے بند ہو جائیں گے لیکن مسجد کی بازیابی کی تحریک ختم نہ ہوگی وہ تحریک مسجد کی تعمیر نو تک جاری رہے گی لیکن سپریم کورٹ کے ناموافق فیصلے کے بعد کا مرحلہ خاصہ تلخ ہوگا بقول شاعر ؎
یہ شاخِ نور جسے ظلمتوں نے سینچا ہے
اگر پھلی تو شراروں کے پھول لائے گی
نہ پھل سکی تو نئی فصلِ گُل کے آنے تک
ضمیرِ ارض میں اک زہر گھول جائے گی
Babri masjid issue
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں