ایک روز آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ مدینہ منورہ میں خطبۂ جمعہ پڑھ رہے تھے کہ یکایک بلند آواز سے دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا «يا سارية الجبل!» اور اس کے بعد پھر خطبہ شروع کردیا، تمام حاضرین کو حیرت تھی کہ یہ بے ربط جملہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبان مبارک سے کیسا نکلا، حضرت عبد الرحمٰن ابن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بے تکلفی زیادہ تھی، انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آج آپ نے خطبہ کے درمیان میں «یا سارية الحبل» کیوں فرمایا؟ تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے ایک لشکر کا ذکر کیا جو عراق میں بمقام نہاوند جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول تھا، اس لشکر کے امیر حضرت ساریہ رحمہ اللہ تھے، فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ وہ پہاڑ کے پاس لڑ رہے ہیں اور دشمن کی فوج سامنے سے بھی آرہی ہے اور پیچھے سے بھی آرہی ہے جس کی ان لوگوں کو خبر نہیں، یہ دیکھ کر میرا دل قابو میں نہ رہا اور میں نے آواز دی کہ اے ساریہ اس پہاڑی سے مل جاؤ، تھوڑے دنوں بعد جب ساریہ کا قاصد آیا تو اس نے سارا واقعہ بیان کیا کہ ہم لوگ لڑائی میں مشغول تھے کہ یکایک یہ آواز آئی کہ «یا ساریۃ الجبل» اس آواز کو سن کر ہم لوگ پہاڑ سے مل گئے اور ہم کو فتح ملی۔
ایک مرتبہ ایک لشکر آپ رضی اللہ عنہ کا کسی دور دراز مقام میں مشغول جہاد تھا۔ ایک دن مدینہ منورہ میں بیٹھے بیٹھے آپ نے بلند آواز سے فرمایا «لبيكاه!»۔ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا بات ہے یہاں تک کہ وہ لشکر واپس آیا اور سردار لشکر نے فتوحات کا بیان شروع کیا، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ ان باتوں کو رہنے دو، اس شخص کا حال بیان کرو جس کو تم نے جبراً پانی میں بھیجا تھا، اس پر کیا گزری؟۔ سردار لشکر نے کہ امیر المؤمنین! اللہ کی قسم میں نے اس کے ساتھ بدی کا ارادہ نہیں کیا تھا، بات یہ ہوئی کہ ہم لوگ ایک پانی پر پہنچے جس کی گہرائی کی حد معلوم نہ تھی کہ اسے عبور کیا جا سکے، لہذا میں نے اس شخص کو برہنہ کیا اور پانی میں بھیجا۔ ہوا بہت ٹھنڈی تھی، اس شخص پر ہوا کا اثر ہوگیا اور اس نے فریاد کی «واعمراه! واعمراه!» اس کے بعد وہ شخص سردی کی شدت سے انتقال کرگیا۔
جب لوگوں نے یہ قصہ سنا تو پھر وہ سمجھے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی لبیک اسی مظلوم کے جواب میں تھی۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سردار لشکر پر شدید غصہ کا اظہار کیا اور مقتول شخص کے اہل وعیال کو خون بہا ادا کرنے کا حکم دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالٰی نے خواب میں مستقبل میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی عادلانہ خلافت کی خبر دی تھی۔ چنانچہ ایک روز خواب سے بیدار ہوکر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ اس وقت میں اس شخص کو دیکھ رہا تھا جو عمر ابن خطاب کی نسل سے ہوگا اور عمر ابن خطاب کی روش اختیار کرے گا۔ یہ اشارہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی طرف تھا جو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے صاحبزادے حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کے نواسے ہیں۔
ایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانۂ خلافت میں زلزلہ آیا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اللہ تبارک وتعالٰی کی حمد وثنا بیان کی اور ایک ذرہ زمیں پر مار کر فرمایا، «ساکن ہو جا، کیا میں نے تیرے اوپر عدل نافذ نہیں کیا؟» فوراً زلزلہ رک گیا۔
جب مصر فتح ہوا تو اہل مصر نے فاتح مصر حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ ہمارے ملک میں کاشتکاری کا دارومدار دریائے نیل پر ہے، ہمارے ہاں یہ دستور ہے کہ ہر سال ایک حسین وجمیل کنواری لڑکی دریا میں ڈالی جاتی ہے، اگر ایسا نہ کیا جائے تو دریا خشک ہو جاتا ہے اور قحط پڑ جاتا ہے، حضرت عمرو ابن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انہیں اس رسم سے روک دیا۔ جب دریا سوکھنے لگا تو حضرت عمرو ابن عاص رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو لکھ بھیجا۔ جواب میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تحریر فرمایا کہ دین اسلام ایسی وحشیانہ وجاہلانہ رسموں کی اجازت نہیں دیتا اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک خط دریاۓ نیل کے نام لکھ بھیجا جسکا مضمون یہ تھا؛
اس خط کے ڈالتے ہی دریاۓ نیل بڑھنا شروع ہوا، پچھلے سالوں کی بنسبت چھ گز زیادہ بڑھا اور اس کے بعد سے نہیں سوکھا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں