"اس بار جو ميں نے چیف منسٹر ( اڑیسہ، شرى ہری کرشن مہتاب کانگرسی) كےكاغذات كا جائزہ ليا تو ان ميں ايك عجب دستاويز ہاتھ آئى ۔ یہ چھ سات صفحات كا سائيكلو سٹائلڈ انتہائى خفيہ ( Top Secret) حكم نامہ تھا جو كانگرسى چیف منسٹروں كے نام اس ہدايت كے ساتھ جارى كيا گیا تھا كہ ہر چیف منسٹر اسے اپنی ذاتى تحويل ميں رکھے۔
اس ميں لکھا تھا كہ تقسيم ہند كا معاملہ تقريبا طے پا چكا ہے اس لئے جن صوبوں ميں كانگریس كى وزارتيں قائم ہیں وہاں پر مسلمان افسروں كو كليدى عہدوں سے تبديل كر ديا جائے۔خاص طور پر ہوم ڈپارٹمنٹ، فنانس ڈیپارٹمنٹ اور پريس ڈیپارٹمنٹ ميں با اعتماد ہندو افسروں كو تعينات كيا جائے۔ ڈی- سی، آئى - جى اور ايس - پی عموما ہندو ہوں۔تھانوں کے انچارج بھی زيادہ سے زيادہ ہندو ہوں ۔محكمہ پولیس اور ضلعى انتظاميہ ميں مسلمانوں كو فيلڈ ورك سے ہٹا كر بے ضرر قسم كے دفترى كام كاج ميں لگا ديا جائے۔ پولیس كى نفرى ميں مسلمان سپاہیوں كو غير مسلح كر كے پوليس لائن اور تھانوں كے اندر معمولى فرائض پر مامور كيا جائے۔جن صوبوں ميں سرحدى مسلمانوں سے بھرتى شدہ ماؤنٹڈ ملٹرى پوليس ہے اسے فورا توڑ ديا جائے اور افسروں اور نفرى كو اختتام ملازمت كى مناسب رقم يكمشت ادا كر كے رخصت كر ديا جائے۔ سركارى خزانوں، اسلحہ خانوں اور محكمہ مال كے ريكارڈ آفسوں كى حفاظت كے لئے ہندو گارڈ تعينات كيے جائيں۔ اسلحہ ركھنے والے مسلمان لائسنس ہولڈرز كى نقل وحركت كى نگرانى كى جائے۔ ايسے ہنگامى منصوبے تيار ركھے جائيں جن كے تحت ان لائسنسداروں سے قليل ترين نوٹس پر ہر قسم كا اسلحہ قريبى تھانے ميں جمع كروايا جا سكے۔ كاروں، بسوں اور ٹركوں كے مسلمان مالكوں كى فہرستيں بنا كر ان پر کڑی نظر ركھی جائے۔ مسلمان آتشبازوں كے لائسنس معطل كر دیئے جائيں اور ان كا آتشگير سٹاك فورى طور پر پوليس كى حفاظت ميں لے ليا جائے وغيرہ وغيرہ۔
ہر چیف منسٹر كو سخت تاكيد كى گئی تھی كہ وہ اس حكم نامے پر ايسى خوش اسلوبى سے عمل درآمد كرے كہ اس سے آبادى كے كسى فرقے كے خلاف كسى قسم كے امتيازى سلوك كا پہلو مترشح نہ ہو !
بغل ميں چھری اور منہ ميں رام رام كا اس سے بہتر ظہور چشم تصور ميں لانا محال ہے۔
يہ حكمنامہ پڑھ كر مجھے شديد دھچكا لگا۔ مہاتما گاندھی كى نام نہاد بے تعصبى كى لنگوٹی باد مخالف كے جھونکوں ميں اڑ كر دور جا پڑی اور وہ اپنے اصلى رنگ وروغن ميں بالكل برہنہ ہو گئے۔ اہنسا پرم دھرم كے اس جھوٹے پجارى كے اشاروں پر ناچنے والى انڈین نيشنل كانگريس كے عزائم مسلمانوں کے خلاف اتنے ہی خطرناك اور سنگین نكلے جتنے کہ ہندو مہا سبھا يا راشٹریہ سيوك سنگھ كے سمجھے جاتے تھے۔ بلكہ كانگرس کے سازشانہ منصوبے دوسرى فرقه وارانه جماعتوں سے بھی زياده پر خطر اور ہولناک تھے كيونكه هندوستان كے كئى صوبوں ميں كانگرس كى حكومت تھی اور مركز كى عبورى حكومت ميں 14 ميں سے چھ كانگريسى اور دو مزيد غير مسلم وزير تھے۔ فوج كا محكمہ سردار بلديو سنگھ كے قبضے میں تھا، اور سارے ہندوستان كى پوليس ، سى آئى ڈی ريڈیو اور ديگر ذرائع ابلاغ كى مشين سردار ولبھ بھائی پٹیل كے متعصبانہ ہاتھوں ميں تھی۔ اس ميں كوئى شك نہیں کہ كانگرس اپنی قوت كے تمام وسائل مسلمانوں كا سر کچلنے كے ليے ہر طرح كے كيل كانٹے سے ليس ہو رہی تھی"۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں