ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

19 جولائی، 2011

اٹکی ہوئی سوئی


اٹکی ہوئی سوئی


 

ایک طالبعلم مضمون نویسی جیسے عام مضموں میں فیل ہوا تو سکول کے مہتمم نے اُستاد کو اپنے دفتر میں بلا کر اس طالبعلم کے اس قدر عام اور آسان مضمون میں فیل ہونے کا سبب دریافت کیا۔
اُستاد نے بتایا کہ جناب یہ لڑکا مضمون نویسی میں اصل موضوع سے توجہ ہٹا کر اپنے ذاتی افکار کی طرف لے کر چلا جاتا ہے، اِس لیئے مجبوراً سے فیل کرنا پڑا۔
مہتمم صاحب نے اُستاد سے کہا ٹھیک ہے کوئی مثال تو دو تاکہ مُجھے پتہ چلے کہ تمہاری بات صحیح ہے؟
اُستاد نے بتایا، میں نے اِسے موسم بہار پر مضمون لکھنے کو دیا تو اِس نے کُچھ اِس طرح لکھا: موسم بہار سال کا خوبصورت ترین موسم ہے۔ کھیت کھلیان سر سبز اور ہرے بھرے ہوجاتے ہیں۔ ان کھیت کھیلانوں کے ہرا بھرا ہونے سے اونٹوں کیلئے چارے کی فراہمی بہت ہی آسان ہوجاتی ہے۔ اونٹ خشکی کا جانور ہے اور بھوک و پیاس کو صبر کے ساتھ برداشت کر لیتا ہے۔ اسکے پیروں کی بناوٹ ریت پر چلنے کیلئے بہت اچھی ہوتی ہے، اسی لئے تو اسے صحراء کا سفینہ بھی کہتے ہیں۔ بدو اونٹوں کو نہایت پیار اور مُحبت سے پالتے ہیں۔ اونٹ نا صرف دودھ اور گوشت کے حصول کیلئے پالا جاتا ہے بلکہ اس سے ہر قسم کی بار برداری اور آمدورفت کیلئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے سواری کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ اونٹ ایک پالتو جانور ہے اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس طرح اس طالبعلم نے اصل مضمون اور اسکے عنوان کو بھلا اپنی ساری توانائی اونٹ کی غزل سرائی پر خرچ کی۔
مہتمم صاحب نے اُستاد سے کہا، نہیں میں ایسا نہیں سمجھتا، اصل میں تُم نے عنوان ہی ایسا دیا تھا جس میں موسم بہار کی سرسبزی اور شادابی کا تعلق زراعت اور حیوانات کے پالنے وغیرہ سے بنتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ طالبعلم اس مشابہت کی وجہ سے اصل موضوع کو بھول کر کسی اور سمت میں چلا گیا۔
اُستاد نے کہا، میں ایسا نہیں سمجھتا، ایک بار میں نے اِسے جاپان کی مصنوعات اور ٹیکنالوجی پر مضمون لکھنے کو دیا تو اِس نے کُچھ اس طرح لکھا کہ؛ جاپان ایک ترقی یافتہ مُلک ہے جو اپنی مصنوعات اور خاص طور پر اپنی کاروں کی مصنوعات اور برآمدات کیلئے پوری دُنیا میں مشہور ہے۔ کاریٰں پوری دُنیا میں انسانوں کے سفر کے وسائل کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں مگر بدو اپنی آمدورفت کے وسائل کیلئے اونٹ پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ اونٹ خشکی کا جانور ہے اور بھوک و پیاس کو صبر کے ساتھ برداشت کر لیتا ہے۔ اسکے پیروں کی بناوٹ ریت پر چلنے کیلئے بہت اچھی ہوتی ہے، اسی لئے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مہتمم صاحب نے اُستاد سے پوچھا، کیا تمہارے پاس ان دو مثالوں کے علاوہ بھی کوئی اور مثال ہے؟
اُستاد نے جواب دیا، جی ہاں جناب، اِسے آپ کوئی سا بھی عنوان مضمون لکھنے کیلئے دیدیں، یہ ایک سطر اُس موضوع پر لکھ باقی کا مضمون اونٹ کی مدح سرائی پر لکھ کر پورا کرتا ہے۔ ایک بار میں نے اسے ایک ایسا عنوان دیا جس سے اسکا ذہن اونٹ کی طرف جا ہی نہ سکے مگر اس نے تو کمال ہی کر دکھایا۔ میں نے اسے دور حاضر کی بہترین ایجاد کمپیوٹر پر مضمون لکھنے کو دیا تو اِس نے کُچھ یوں لکھا کہ؛ کمپیوٹر دورِحاضر کی مفید ترین ایجاد ہے، شہروں میں تو اس کے بغیر زندگی کا تصور ہی محال ہوتا جا رہا ہے مگر بدوؤں کے پاس کمپیوٹر کہاں سے آئے۔ اُن کے پاس تو اونٹ ہوتے ہیں۔ اونٹ خشکی کا جانور ہے اور بھوک و پیاس کو صبر کے ساتھ برداشت کر لیتا ہے۔ اسکے پیروں کی بناوٹ ریت پر چلنے کیلئے بہت اچھی ہوتی ہے، اسی لئے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مہتمم صاحب نے مدرس سے کہا، تم اس طالبعلم کو فیل کرنے میں حق بجانب ہو۔ ٹھیک ہے تم جا سکتے ہو۔
طالبعلم کو اپنے فیل ہونے پر بہت غصہ آیا، اُس نے وزیرِ تعلیم کو ایک خط لکھ ڈالا۔
جناب وزیرِ تعلیم صاحب، السلام ُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میں آپ جناب کے علم میں اپنے اوپر ہونے والے ایک ظُلم کی روئیداد لانا چاہتا ہوں۔ میں اپنی جماعت کے ذہین طلباء میں شمار ہوتا ہوں مگر اس کے باوجود بھی مُجھے فیل کر دیا گیا ہے۔ جس پر میرا صبر اونٹ کے صبر جیسا ہے۔ کیونکہ اونٹ خشکی کا جانور ہے اور بھوک و پیاس کو صبر کے ساتھ برداشت کر لیتا ہے۔ اسکے پیروں کی بناوٹ ریت پر چلنے کیلئے بہت اچھی ہوتی ہے، اسی لئے تو اسے صحراء کا سفینہ بھی کہتے ہیں۔ بدو اونٹوں کو نہایت پیار اور مُحبت سے پالتے ہیں۔ اونٹ نا صرف دودھ اور گوشت کے حصول کیلئے پالا جاتا ہے بلکہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں آپ جناب کے علم میں مزید یہ بات بھی لانا چاہتا ہوں کہ اونٹ کی کوہان میں وافر مقدار میں پائی جانے والی چربی اونٹ کیلئے کئی دنوں کیلئے طاقت اور تونائی کی فراہمی کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اونٹ کی آنکھوں کی مخصوص بناوٹ اسے صحرائی ریت کے بگولوں اور اندھیوں میں حفاظت کا باعث بنتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میری آپ جناب سے التجاء ہے کہ مُجھ پر ہونے والے اس ظلم کا سدِباب کریں بالکل اسی طرح جس طرح آجکل کے دور میں اونٹ کی کلیجی کے سندوئچ کھانے کا فیشن بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اس عادت کے سدِباب کی اشد ضرورت ہے۔

1 comments: