کیا میں چور ہوں؟
سچی بات تو یہ ہے کہ اس قصے نے مُجھے اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ یاد دلا دیا ہے۔۔ سن ۱۹۶۸ کا ذکر ہے جب میں نے انگلینڈ بیڈفورڈ کمپنی کے خرطوم میں ایجنٹ سے ایک لاری مبلغ ۲۴۰۰ سوڈانی پاؤنڈ میں خریدی۔ اب میں جو کُچھ آپ کو بتانے جا جا رہا ہوں اُس پر زیادہ حیران نہ ہوں، یہ اُن اچھے دنوں کا واقعہ ہے جب انسانی اقدار مادیت پر حاوی ہوا کرتی تھیں،،، لاری خریدنے کے کوئی چار یا چھ مہینے کے بعد مُجھے اُس ایجنٹ سے ایک لیٹر موصول ہوا جس میں درج تھا کہ انگلینڈ بیڈفورڈ کمپنی نہایت ہی شرمندگی کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ لاری کی پیداواری لاگت اور بیچنے کی قیمت میں حسابی غلطی ہو گئی تھی۔ اصولا ہمیں ۲۳۷۰ پاؤنڈ لینا چاہیئے تھے مگر ہم نے ۲۴۰۰ پاؤنڈ وصول کر لیئے ہیں۔ ساتھ ہی مُجھے کہا گیا تھا کہ میں اُن سے رابطہ کروں تاکہ وہ مُجھے ۳۰ پاؤنڈ لوٹا سکیں۔
ان ۳۰ پاؤنڈ کے ملنے پر مُجھے اس قدر خوشی ہو رہی تھی جو اس بناء پر نہیں تھی کہ مُجھےغیر متوقع طور پر ۳۰ پاؤنڈ کی آمدنی ہونے جا رہی تھی۔ اور نہ ہی ۳۰ پاؤنڈ میرے لئے کوئی ایسی بڑی رقم تھی جس سے میرے دن پھرنے جا رہے تھے۔ مُجھے خوشی اس عالی القدر اخلاق، ا مانت کی اس نادر مثال اور انسانی اقدار کی اس عظیم حفاظت پر ہو رہی تھی جس سے برطانوی قوم بہرہ ور تھی۔
حسب معمول ایک دن وہاں سے گُزرتے ہوئے میں اس عورت کے سٹال پر ٹھہرا اور اپنا پسندیدہ چاکلیٹ بار لینے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آج وہ چاکلیٹ دو مختلف شیلف میں رکھے ہوئے تھے۔ ایک شیلف میں رکھے ہوئے کی قیمت حسبِ معمول ۱۸ پنس ہی تھی مگر دوسرے شیلف میں رکھے ہوئے کی قیمت ۲۰ پنس لکھی ہوئی تھی۔
میری حیرت دیدنی تھی اور میں حقیقت جاننا چاہتا تھ، اسلیئے میں نے اس بار تفصیل سے سوال کر ڈالا؛ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک شیلف میں رکھے ہوئے چاکلیٹ کی قیمت ۱۸ پنس ہے جبکہ دوسرے شیلف میں رکھے ہوؤں کی قیمت ۲۰ پنس! ایسا کیوں ہے؟
میں نے یہاں عورت کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ مادام، آپ سے بیس پنس کی چاکلیٹ کون خریدے گا جبکہ وہی اٹھارہ پنس کی بھی موجود ہے؟ عورت نے کہا؛ میں جانتی ہوں ایسا کوئی بھی نہیں کرے گا۔ مگر جیسے ہی پُرانی قیمت والے چاکلیٹ ختم ہوں گے لوگ خود بخود نئی قیمتوں والے خریدنے لگیں گے۔
اپنی فطرت اور ماحول پروردہ خوبیوں کے ساتھ، روانی میں کہیئے یا اپنی عادتوں سے مجبور، میں نے کہا؛ مادام، آپ دونوں چاکلیٹ ایک ہی خانے میں رکھ کر بیس پنس والی نئی قیمت پر کیوں نہیں بیچ لیتیں؟
میری بات سُننا تھی کہ عورت کے تیور بدلے، چہرے پر موت جیسی پیلاہٹ مگر آنکھوں میں خوف اور غصے کی ملی جُلی کیفیت کے ساتھ لرزتی ہوئی آواز میں مُجھ سے بولی؛ کیا تو چور ہے؟
اب آپ خود ہی سوچ کر بتائیے کیا میں چور ہوں؟ یا وہ عورت جاہل اور پاگل تھی؟ اور شاید عقل و سمجھ سے نا بلد، گھاس چرنے والی حیوان عورت!
اچھا میں مان لیتا ہوں کہ میں چور ہوں تو یہ سب کون ہیں جو غلہ اور اجناس خریدتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ کل مہنگی ہونے پر بیچیں گے۔
کس جہنم میں ڈالنے کیلئے پیاز خرید کر رکھے جاتے ہیں جو مہنگے ہونے پر پھر نکال کر بیچتے ہیں۔
اُن لوگوں کیلئے تو میں کوئی ایک حرف بھی نہیں لکھنا چاہتا جن کی چینی گوداموں میں پڑے پڑے ہی مہنگی ہوجاتی ہے۔ نہ ہی مُجھے اُن لوگوں پر کوئی غصہ ہے جو قیمت بڑھاتے وقت تو نہیں دیکھتے کہ پہلی قیمت والا کتنا سٹاک پڑا ہے مگر قیمتیں کم ہونے پر ضرور سوچتے ہیں کہ پہلے مہنگے والا تو ختم کر لیں پھر سستا کریں گے۔
کیا ہمارے تجار نہیں جانتے کہ مخلوق خدا کو غلہ و اجناس کی ضرورت ہو اور وہ خرید کر اس نیت سے اپنے پاس روک رکھیں کہ جب او ر زیادہ گرانی ہو گی تو اسے بیچیں گے یہ احتکار کہلاتا ہے۔ روزِ محشر شفاعت کے طلبگار شافعیِ محشر صلی اللہ علیہ وسلم کاغلہ کے احتکار اور ذخیرہ اندوزی پر کیا فرمان اور کیا وعید ہے کو تو نہیں سُننا چاہتے کیونکہ وہ فی الحال اپنی توندوں اور تجوریوں کو جہنم کی آگ سے بھرنے میں جو لگے ہوئے ہیں۔
مُجھے کسی پر غصہ اور کسی سے کوئی ناراضگی نہیں، میں تو اُس جاہل عورت پر ناراض ہوں جس نے محض میرے مشورے پر مُجھے چور کا خطاب دیدیا۔ اچھا ہے جو وہ برطانیہ میں رہتی تھی، ادھر آتی تو حیرت سے دیکھتی اور سوچتی کہ وہ کس کس کو چور کہے! اور اُسے کیا پتہ کہ وہ جسے بھی چور کہنا چاہے گی وہ چور نہیں بلکہ ہمارے سید، پیر، مخدوم، شیخ، حکام اور ہمارے راہنما ہیں۔
جاہل کہیں کی!
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں