ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

22 اگست، 2012

مجھے اپنے اللہ پر بہت پیار آ رہا تھا



کچھ دیر پہلے کی بات ہے میں بچوں کے ساتھ ایک مارکیٹ میں بچوں کو آئس کریم کھلانے کیلئے لیکر گیا حسب معمول لائٹ بند تھی جنریٹر کے ذریعے روشنی کا انتظام کیا گیا تھا۔ ہمارے قریب کی ٹیبل پر ایک باریش نوجوان لڑکا بیٹھا ہوا تھا اس کے ساتھ تین لڑکیاں اور ایک بزرگ خاتون بیٹھی ہوئی تھیں۔ باتوں سے معلوم ہورہا تھا وہ لڑکا اور بچیاں ان خاتون کے بچے تھے اور وہ بھی ہماری طرح آئس کریم سے لطف اندوز ہونے آئے تھے اچانک بجلی آ گئی۔

قریب ہی ایک سگریٹ پان والے کا کھوکھا تھا بجلی آتے ہی اس نے پڑے پڑے لاؤڈ سپیکر والا کیسٹ پلیئر چلا دیا اور جو گانا اس پر چل رہا تھا وہ پاکستان کی ملکہ ترنم نصیبو لال کا انتہائی لچر اور فحش تھا۔ ہمارے قریب بیٹھی ہوئی خاتون اور ان کے بچوں پر اس قدر کرب انگیز تاثرات تھے کہ بیان کرنا مشکل ہے وہ آپس میں ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے جب کہ ہر کوئی بے نیازی سے اپنی اپنی جگہ خاموشی سے بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے خود ان بچیوں سے شرم سی محسوس ہو رہی تھی۔ ایک بار جی میں آئی کہ اس پان والے سے بات کروں لیکن پھر رک گیا۔ میرا دل بہت تکلیف میں تھا ایک ایسا ہی کرب اس فیملی کے چہرے سے صاف نظر آ رہا تھا۔ اچانک دوبارہ بجلی چلی گئی۔ بجلی کے جاتے ہی وہ شور شرابہ بھی تھم گیا۔ یقین کیجئے میرے دل سے پہلی بار اس حکومت کیلئے دعا نکلی وہ لوگ بھی مطمئن نظر آ رہے تھے۔

میں اپنے رب کی حکمت کا پہلے سے بھی قائل تھا لیکن اس وقت مجھے اپنے اللہ پر بہت پیار آ رہا تھا جس نے ہم جیسوں کے بندوبست کیلئے انتہائی مناسب حکمرانوں کا بندوبست کر رکھا ہے۔




0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں