ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

3 اکتوبر، 2012

ایک بچے کی عجیب خواہش




ایک پرائمری اسکول ٹیچر نے کلاس کے بچوں کو کلاس ورک دیا کہ وہ ایک مضمون لکھیں کہ وہ (بچے) کیا چاہتے ہیں کہ ان کا خدا ان کے لیے کرے۔

سب بچوں نے مضمون لکھا وہ تمام بچوں کے مضامین اپنے گھر پر چیک کرنے لگی اس دوران ایک مضمون نے اس کو آبدیدہ کردیا اور بے اختیاری میں اس کے آنسو نکل آئے

اس کا شوہر اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اس کے آنسو دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا ہوا؟

ٹیچر بولی یہ مضمون پڑھیے یہ ایک بچے نے مضمون لکھا ہے

شوہر نے مضمون لیکر پڑھنا شروع کیا اس میں لکھا تھا
اے خدا آج میں آپ سے بہت خاص مانگتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے ٹیلی ویژن بنادے میں ٹی وی کی جگہ لینا چاہتا ہوں، ایسے ہی جینا چاہتا ہوں کہ جیسے میرے گھر میں موجود ٹی وی جی رہا ہے میں ٹی وی کی جگہ لیکر بہت خاص بن جاؤں گا میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی سب میرے ہی گرد بیٹھے رہیں گے۔ جب میں ٹی وی کی طرح بول رہا ہونگا تو سب میری باتیں بڑی توجہ سے سن رہے ہونگے۔ میں تمام گھر والوں کی توجہ کا مرکز بنا رہوں گا اور بغیر رکے سب مجھے ہی دیکھتے سنتے رہیں گے کوئی مجھ سے سوال جواب نہیں کرے گا اور نہ ہی کوئی مجھے ڈانٹ ڈپٹ، مار پیٹ کرے گا۔ میں ایسی ہی خاص احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جاؤں گا جیسے ٹی وی کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط کی جاتی ہے جیسے جب ٹی وی خراب ہوجائے اس کا جتنا خیال کیا جاتا ہے اتنا ہی میرا خیال رکھا جائے گا میری زرا سی خرابی سب کو پریشان کردے گی۔

میں اپنے ابو کی توجہ کا بھی ایسے ہی مرکز بن جاؤں گا جیسے میرے ابو ٹی وی کو دیتے ہیں کہ آفس سے آتے ہی ٹی وی کی طرف متوجہ رہتے ہیں چاہے ابو کتنے ہی تھکے ہوئے ہوں اسی طرح میں چاہتا ہوں کہ میری امی بھی میری طرف ایسے ہی متوجہ رہیں جیسے وہ ٹی وی کی طرف متوجہ رہتی ہیں چاہے وہ کتنی ہی پریشان اور غصے میں ہوں۔ چنانچہ بجائے مجھے نظر انداز کرنے کے وہ میری طرف متوجہ رہیں گی۔

اور میرے بھائی بہن بھی جو مجھ سے لڑتے اور جھگڑتے رہتے ہیں میرے ٹی وی بن جانے کے بعد میرے اردگرد پھریں گے میرے لیے امی ابو کی منتیں کریں گے اس طرح سب کے سب میری طرف متوجہ رہیں گے اور آخر میں سب سے بڑھ کر یہ کہ سب میری وجہ سے پریشان رہتے ہیں اور غصہ کرتے ہیں تو میرے ٹی وی بن جانے کے بعد میں ان سب کو ایسے ہی خوش و خرم رکھ سکوں گا جس طرح ٹی وی رکھتا ہے۔

اے خدا میں نے تجھ سے زیادہ نہیں مانگا بس یہ مانگا ہے کہ مجھے ٹی وی بنادے مجھے اس کی جگہ دے دے۔

ٹیچر کے شوہر نے افسوسناک انداز سے بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا  اے خدایا کتنا مایوس بچہ ہے۔ بے چارے کے ساتھ کتنا برا ہوتا ہے اس کے گھر میں اس کے والدین اور بہن بھائیوں کی طرف سے۔

ٹیچر نے نظریں اٹھا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ مضمون ہمارے اپنے بچے کا لکھا ہوا ہے

4 comments: