ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

1 نومبر، 2013

امریکہ کا فضل



عرب میں ایک عورت تھی اس کا نام اُم جعفر تھا۔ انتہائی سخی تھی۔ لوگوں میں ایسے تقسیم کرتی تھی کہ دائیں کو بائیں ہاتھ کا پتا نہ چلے۔ کچھ دنوں سے وہ ایک راستے سے گزرنے لگی۔ اس راستے پر دو اندھے بیٹھے ہوتے۔ یہ دونوں صدائیں لگاتے۔ ایک کی صدا ہوتی: "الٰہی! مجھے اپنے فضل و کرم سے روزی عطا کر۔ " دوسرا اندھا کہتا: "یا رب مجھے ام جعفر کا بچا ہوا عطا کر۔"

ام جعفر ان دونوں کی صدائیں سنتی اور دونوں کو عطا کرتی۔ جو شخص الله کا فضل طلب کر رہا تھا، اسے دو درہم دیتی جبکہ "ام جعفر" کے فضل کے طلبگار کو ایک بھنی ہوئی مرغی عطا کرتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جسے مرغی ملتی، وہ اپنی مرغی دوسرے اندھے کو دو درہم میں بیچ دیتا۔ کئی دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک دن ام جعفر اس اندھے کے پاس آئی جو ام جعفر کا فضل طلب کرتا تھا اور اس سے سوال کرتا تھا اور اس سے سوال کیا: "کیا تمہیں سو دینار ملے ہیں؟" اندھا حیران ہو گیا۔ اس نے کہا: "نہیں! مجھے صرف ایک بھنی ہوئی مرغی ملتی تھی جو میں دو درہم میں بیچ دیتا تھا"۔ ام جعفر نے کہا: "جو الله کا فضل طلب کر رہا تھا، میں اسے دو درہم دیتی اور تمہیں بھنی ہوئی مرغی میں دس دینار ڈال کر دیتی رہی۔" اندھے نے اپنا سر پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ چیخنے اور چلانے لگا: "ہائے میری کمبختی، کاش میں ایسا نہ کرتا۔ میں مارا گیا۔" ام جعفر نے کہا: "یقینا اللہ کا فضل طلب کرنے والا کامیاب ہے اور انسانوں کے فضل کا طلبگار محروم ہے۔"

لاریب! جو الله کے فضل کے سوا دیگر راستے تلاش کرتے ہیں، انھیں دنیا میں گھاٹا ملتا ہے اور آخرت میں رسوائی نصیب ہوتی ہے۔ کم ہی ایسے ہوں گے جو فاقوں سے مر جاتے ہوں گے۔ اس کے باوجود اس دنیا میں ایسوں کی کمی نہیں جو درہم و دینار کی خاطر ایمان تک بیچ دیتے ہیں۔ حکمران اپنی قوموں کا سودا کر لیتے ہیں۔ بیٹوں کو ڈالروں کے عوض بیچ کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ نتیجے میں کیا ملتا ہے؟ ذلت و رسوائی اور دنیا بھر کی پھٹکار! 64 سال ہو گئے، ہم الله کے فضل کو چھوڑ کر ملکوں اور شخصیات کے فضل تلاش کرنے میں لگے رہے۔ جب انتخابات کا موسم آتا ہے، ہر سیاستداں یہی کہتا ہے کہ آئندہ کسی سے بھیک نہیں مانگیں گے۔ کشکول توڑ دیں گے۔ "الله کے فضل" کے سوا کسی سے فضل کے طلبگار نہیں ہوں گے، مگر حقیقت کی دنیا میں دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ پیشروئوں سے زیادہ "بھکاری پن" کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور بدقسمتی سے امریکہ میں یہ محاورہ بن گیا کہ پاکستانی ڈالر کی خطر اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں! خصوصا نائن الیون کے بعد پرویز مشرف نے ڈالر کے لیے جو کچھ کیا، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ بدلے میں کیا ملا؟ معاشی خوشحالی؟؟ نہیں! رسوائی، جگ ہنسائی اور معاشی بدحالی۔  دس سال بعد دامن کو دیکھیے۔ پورا تار تار ہے اور اس میں بھیک کے چند دانوں کے سوا کچھ نہیں۔ گزشتہ دنوں اخبارات میں ایک رپورٹ آئی ہے جس سے امریکہ کا "فضل" تلاش کرنے والوں کی آنکھیں اب تو کھل جانی چاہئیں۔

بتایا گیا کہ قیام پاکستان سے2012  تک 64 برسوں میں امریکہ نے پاکستان کو 68 ارب ڈالر کی امداد دی۔ 1948 میں پہلی بار7  لاکھ 70 ہزار ڈالر کی رقم معاشی امداد کی صورت میں ملی۔ بدلے میں امریکہ نے سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے پاکستان کے ہوئی اڈے استعمال کرنے کی فرمائش کی۔ ایوب خان کا دور آیا تو ڈھائی ارب ڈالر ملے۔ جب روس کے خلاف نہتے افغانوں نے جہاد شروع کیا اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا عہد کیا اس وقت امریکہ بھی اس میں کود پڑا۔ جہاد کے اثرات زائل کرنے کے لیے ایک بار پھر پاکستان کو امداد دی گئی۔

چنانچہ1983  سے1988  تک پاکستان کو ہر سال ایک ارب ڈالر امداد دی گئی۔ امریکہ نے افغان جہاد کے ثمرات سمیٹنے کے بعد آنکھیں پھیر لیں۔ 10 سال تک مختلف بہانوں سے پابندیاں لگائے رکھیں۔ 2001 میں اسے پھر ضرورت ہوئی اور امداد بحال ہو گئی جو 2012 تک مجموعی طور پر محض25  ارب ڈالر بنتی ہے۔

یہ امریکی امداد کی تفصیلات ہیں، لیکن امریکہ کی اس دوستی میں جتنا نقصان پاکستان کا ہوا، وہ اس امداد سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ ان دس برسوں میں امریکہ کے "فضل" کے نتیجے میں پاکستان کو100  ارب ڈالر سے زیادہ معاشی نقصان پہنچ چکا ہے۔ انسانی جانوں کا جو ضیاع ہوا، اسے اعداد و شمار کے دائرے میں لانا ممکن نہیں۔ ان دس برسوں میں بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا۔ ہمارے ان قبائلیوں کو جنہوں نے ہمیشہ مفت کے سپاہیوں کا کردار ادا کیا، اپنے ہی اداروں کے ساتھ لڑا دیا گیا۔ اسی "امریکی فضل" کے نتیجے میں ہمارے ہزاروں لوگ اپنے گھروں سے بےگھر ہوئے۔ اپنے ہی ملک میں مہاجرت کی زندگی پر مجبور ہوئے۔ سوات کے وہ قافلے آج بھی یاد آتے ہیں تو آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔ وہ عزت مآب مائیں جنھیں کبھی آسمان نے بھی بے پردہ نہیں دیکھا تھا، اس "امریکی فضل" کے نتیجے میں بےپردہ ہوئیں۔ وزیرستان کی کتنی کلیاں ہیں، جو اس "امریکی فضل" کے نتیجے میں کھلنے سے پہلے ہی مسل دی گئیں۔ ان دنوں وزیرستان کے چند لوگ امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان کی رودادوں نے وہاں لوگوں کو رلا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تو اس "امریکی فضل" کا بہت معمولی نظارہ ہے۔ اس امریکی فضل نے ہمارے اداروں کو متنازع بنا دیا۔ وہ جنھیں دیکھ کر عقیدت کے آنسو چھلک پڑتے تھے، اسی امریکی فضل نے لوگوں کی نظروں سے گرا دیا۔

ہمارا روشن خیال طبقہ بار بار ہمیں تعنے دیتا ہے کہ امریکہ کی امداد کھاتے ہو۔ ان کے ڈالروں پر پلتے ہو اور ان کے خلاف زبانیں بھی کھولتے ہو۔ کاش! وہ تعصب کی عینک اتار کر تجزیہ کریں کہ امریکہ کی امداد کے نتیجے میں ہم نے کتنی بربادیاں سمیٹیں؟ اپنے ملک کو کتنے مسائل کا شکار کیا؟ سب سے بڑھ کر اس امداد کے نتیجے میں امریکہ اور دنیا میں ہمارا کیا مقام بنا؟ ابھی چند دن قبل جب پاکستانی وزیراعظم امریکہ کی سرزمین پر قدم رکھ رہے تھے، اخبارات میں تصویر آئی اور خبر میں بتایا گیا کہ ان کے استقبال کے لیے دو تین ادنیٰ درجے کے امریکی اہلکار موجود ہیں۔ آنکھوں کے سامنے وہ ویڈیو گردش کرنے لگی جب صدر ایوب خان امریکہ کے دورے پر گئے تھے۔  اس وقت ان کے استقبال کے لیے امریکی صدر بذات خود موجود تھا۔ پھول اور پتیاں نچھاور ہو رہی تھیں، لیکن آج دیکھیے اس "امریکی فضل" نے ہمیں یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ امریکہ میں ہی نہیں، پوری دنیا میں ہماری کوئی ساکھ نہیں بچی۔ آپ عام زندگی میں دیکھ لیجیے۔ جو شخص ہر وقت مانگتا رہتا ہو، اس کی معاشرے میں کتنی عزت رہ جاتی ہے! چنانچہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ آج اگر ہمارے حکمران یہ فیصلہ کر لیں کہ امریکہ کا فضل تلاش نہں کریں گے، اپنی قوم اور ملک کے وسائل بروئے کار لائیں گے، کسی ملک اور شخص کے "فضل" کے بجائے صرف الله کا فضل تلاش کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ہم دنیا میں کیسے اپنا مقام بنا لیتے ہیں۔

نقش جمال
جمال عبداللہ عثمان

2 comments: