ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

23 اپریل، 2014

سرخ ٹوپ کی بارات میں مسئلہ حل

  حامد میر پر حملے کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن بنا دیا گیا ہے جس کے بعد اس بحث کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ حملہ کس نے کیا۔ مسلح افواج کے ترجمان کی دو ٹوک تردید بھی واضح الفاظ میں چھپ چکی ہے کہ اس کے کسی ادارے کا اس واردات سے کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ یہ بحث تو ختم ہوئی لیکن مرکزی بحث کے بطن سے کچھ اور مباحثے برآمد ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم یہ ہے کہ محب الوطن کون ہے اور غدّار کون! بظاہر سادہ سا سوال ہے لیکن جواب اتنا پیچیدہ کہ تریسٹھ برس سے سمجھ نہیں آسکا بھلا ہو ایک چینل پر دو روز پہلے ہونے والے ایک پروگرام کا کہ اس نے چٹکی بجاتے میں‘ مطلب صرف ایک گھنٹے کے پروگرام میں جواب پیش کر دیا۔ پوری طرح نہیں تو کافی سے زیادہ رہنمائی ضرور دیدی جس سے اس مشکل سوال کا آسان جواب ڈھونڈنے میں مدد مل جاتی ہے۔ 

پروگرام میں شریک تھے جناب رشید صاحب‘ جناب ڈاکٹر اجمل صاحب‘ جناب لقمان صاحب اور ایک نوجوان‘ جس کے بارے میں واضح نہیں ہو سکا کہ لڑکی ہے یا لڑکا‘ بہرحال تھا وہ نوجوان اور اس بارات کے دولہا تھے جناب زید سرخ ٹوپ۔ یوں کہئے کہ میر محفل تھے۔
 اس پروگرام میں کئی انکشافات بھی ہوئے اور کئی امور پر زبان حال سے اتفاقات بھی کئے گئے۔ سرفہرست انکشاف یہ تھا کہ حامد میر اور ان کے بھائی عامر میر تو غدّار ہیں ہی ‘ ان کا خاندان بھی نسل در نسل غدّار ہے۔ جناب زید سرخ ٹوپ کے الفاظ تھے۔ حامد میر غدّار ابن غدّار ابن غدّار ابن غدّار ابن غدا۔۔۔۔۔۔ابھی ان کا شجرہ نسب کا یہ بیان جاری تھا کہ کسی نے بات کاٹ دی اور بیان ادھورا رہ گیا ورنہ شاید طوفان نوح کے بعد بچ رہنے والی نسلِ آدم تک پہنچ کر ہی دم لیتا‘ بہرحال‘ جتنا بیان سرخ ٹوپ فرما چکے تھے‘ اس کے مطابق بھی میر خاندان کی غدّاری کا سلسلہ مغل سلطنت تک تو پہنچ ہی جاتا ہے۔ 

بہت بڑا انکشاف ہے لیکن اس پر حیرت ضرور ہوئی۔ اس بات پر کہ غدّاروں کا ایک خاندان مغل سلطنت کے زمانے سے ملک میں غدّاری در غدّاری در غدّاری کئے چلا جا رہا ہے اور اس کی خبر اب 2012ء میں جا کر ہوتی ہے۔ کیا یہ ’’سکیورٹی لیپس‘‘ نہیں؟ 
اتفاقات کچھ یوں ہیں: اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ حامد میر پر کوئی حملہ ہوا ہی نہیں۔ وہ زخمی بھی نہیں ہوئے‘ محض ڈرامہ ہے۔ اتفاق درست ہو گا لیکن اس صورت میں یہ بیان فرمانا بھی ضروری تھا کہ یہ ڈرامہ آغا خاں ہسپتال کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
 دوسرا اتفا ق یہ کیا گیا کہ حملہ تو ہوا لیکن یہ ارینجڈ تھا۔ حامد میر نے خود ہی کروایا۔ اس صورت میں ماننا پڑے گا کہ حامد میر سے ہدایات دینے میں غلطی ہوگئی۔ یا بندوقچیوں نے ہدایات پر عمل کا خیال نہیں رکھا اور چھ گولیاں نشانے پر جا لگیں۔ 

تیسرا اتفاق اس بات پر تھا کہ حامد میر پر حملہ قابل مذمت ہے لیکن حملہ آور قابل تحسین ہیں کہ انہوں نے ایک غدّار کو انجام تک پہنچانے کی کوشش کرکے اپنی حب الوطنی کا تقاضا پورا کیا۔اگرچہ بدقسمتی سے کوشش ناکام رہی۔

پروگرام میں شریک نوجوان (لڑکا یا لڑکی) کو اس بات پر شدید رنج تھا کہ چھ کی چھ گولیاں جسم کے نچلے حصہ پر کیوں لگیں‘ ایک آدھ سر میں یا دل میں کیوں نہ لگی (یہ بات دل پر ہاتھ رکھ کر کی گئی) یہ نوحہ اتنے دکھ بھرے انداز میں پڑھا گیااور لہجہ اتنا درد انگیز تھا کہ پروگرام کی فضا پر غمکی چادر چھا گئی۔ 
ایک اہم اتفاق یہ کیا گیا کہ ملّا ملوانے سب غدّار ہیں۔ ملّا ملوانے یعنی جو قرآن پاک اور حدیث رسول ؐکے عالم ہیں۔ مناسب تھا کہ ان کے بارے میں بھی اتفاق ظاہر فرما دیا جاتا جو قرآن پاک کے عالم نہیں ہیں‘ صرف طالب علم ہیں۔ شاید انہیں رعایتی نمبر دے کر نیم وفادار سمجھ لیا جانا چاہئے۔فیصلے کا حق جناب سرخ ٹوپ کو تھالیکن وہ خاموش رہے۔

 غدّاری کا مسئلہ حالات و واقعات کے حوالے سے کافی حد تک طے شدہ ہے لیکن پھر بھی کچھ شبہ ہے تو وہ اسی بحث مباحثے سے دور ہو جاتا ہے۔ کافی حد تک طے شدہ یوں ہے کہ سندھی تو پاکستان بننے سے پہلے ہی غدّار تھے۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد بلوچ بھی غدّار ہوگئے۔ نائن الیون کے بعد پشتونوں کے غدّار ہونے کی سچائی بھی ثابت ہوگئی اور نائن الیون کے بعد ’’ہماری جنگ‘‘ شروع ہوئی تو آہستہ آہستہ یہ بات بھی کھلی کہ پنجاب بھی80یا90 فیصد یا شاید اس سے بھی زیادہ غدّار ہے۔ اب مجموعی طور پر چاروں صوبے غدّاری میں ہم پلہ ہیں‘ کسی کو ایک دوسرے پر طعنہ زن ہونے کا حق اب نہیں رہا۔ بڑے شہروں کی چند پوش‘ الٹرا پوش رہائشی کالونیوں کو چھوڑ کر بالعموم ساری آبادی غدّار ہے لیکن سرفہرست ملّا ملوانے ہیں۔ حب الوطنی اب گنتی کے چند لوگوں میں رہ گئی ہے۔مذکورہ ٹی وی پروگراموں کی روشنی میں حب الوطنی کے رول ماڈل (بلالحاظ مقام و مرتبہ) یحییٰ خاں‘ ٹکا خاں‘ نیازی خاں‘ پرویز مشرف خاں‘ ریمنڈ ڈیوس خاں‘ پاشا خاں ایک پراپرٹی کنگ‘ اسفند ولی خاں‘ لندن والے پیر صاحب اور چند ایک دوسرے ہیں۔ باقی سب ایک سرے سے دوسرے سرے تک غدّار ٹھہرے۔

 حامد میر کی چوٹی کی غدّاری ڈرون حملوں کی مذّمت بتائی جاتی ہے۔ ڈرون حملوں کے خلاف ایک پروگرام ہوتا تو غدّاری سنگل ہوتی لیکن یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ پلورل ہوتی گئی۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے پہلا معروف غدّار حیات اللہ تھا۔ غدّاری کی اس شرمناک داستان کا خلاصہ یہ ہے کہ قبائلی علاقے پر ایک حملہ ہوا جس میں تین سو(300) بچے مارے گئے۔ حملہ امریکہ نے کیا تھا۔ حب الوطنی کے قطب مینار جنرل مشرف کی حکومت نے خبر دی کہ ہم نے کارروائی کی اور تین سو دہشت گرد مار دیئے۔ حیات اللہ نے موقع پر جا کر بچوں کی قطار اندر قطار لاشیں دیکھیں اور خبر چلا دی کہ حملہ امریکہ نے کیا اور مرنے والے چھوٹی عمر کے بچے تھے۔ غدّاری کے اس عظیم الشان ارتکاب کے بعد حیات اللہ کے بچنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ چند ہی دنوں بعد غدّار کو اٹھا لیا گیا اور پھر جب وہ کسی طرح بھاگ نکلا تو پیچھا کرکے اس کے بیوی بچوں کے سامنے مار ڈالا گیا۔
 حیات اللہ کی غدّاری تو وفاداروں کی لکھی ریکارڈ بک پر پتھر کی طرح ثبت ہوگئی۔ بعد ازاں اس کی بیوی کو مار کر قدیم انصاف کی پیروی کی گئی۔ قدیم انصاف یہ تھا کہ غدّار کے بیوی بچے بھی کو لہو میں پیل دیئے جائیں۔ چنانچہ حیات اللہ کی بیوہ بھی چند دنوں بعد کیفر کردار تک پہنچا دی گئی۔ اس طرح دو حبّ الوطنیاں کی گئیں۔ ایک تو وہی قدیمی انصاف کے تقاضے پورے کئے گئے اور دوسرا یہ کہ ایک غریب صحافی کی غریب بیوہ کو آنے والی دکھی اور ہیبت ناک زندگی کی آزمائشوں سے بچا لیا گیا۔

اس ساری بحث سے نتیجہ یہ نکلا کہ ایک تو غدّار وہ ہے جو ملّا ملوانا ہو اور دوسرا وہ جو اشارۃً   کنایتہ وضاحتہً یا صراحتہً امریکہ پر تنقید کرے‘ ڈرون حملوں کی طرف انگلی اٹھائے یا اسلام آباد میں موجود35سو امریکی میر نیز کا ذکر میلی زبان سے کرے یا کسی اور طریقے سے امریکہ کے بارے میں منفی جذبات ظاہر کرے‘ ایسے لوگوں کے غدّار ہونے میں کوئی شبہ نہیں‘ بس درجہ بندی کا فرق ہوتا ہے کہ کون کس پائے کا غدّار ہے اسی طرح حب الوطنی کا فارمولا بھی طے ہوگیا‘ بس یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کون کس پائے کا حب الوطن ہے۔ مثال کے طور پر موجودہ عشرے میں سب سے بڑے اور اونچے پائے کا محب الوطن پرویز مشرف کے سوا کوئی نہیں۔ وہ تو جیسا کہا گیا‘ قطب مینار کے پائے کا محب الوطن ہے۔ ہے تو وہ اس سے بھی اونچا‘ ورلڈ ٹریڈ سنٹرکے جتنے پائے کا لیکن چونکہ یہ سنٹر اب مرحوم یعنی آنجہانی ہو چکا اس لئے مناسب نہیں کہ کسی ایں جہانی کو کسی آنجہانی سے تشبیہ دی جائے۔ 

محب الوطنی کا یہ قطب مینارکراچی پہنچ چکا ہے۔ اس کی اگلی منزل متحدہ عرب امارات ہے۔آصف زرداری نے نواز شریف سے کہا تھا کہ خبردار‘ بھاگنے نہ پائے۔ حالات نے یہ قطب مینار ان کے کورٹ میں‘ مطلب بال ان کے کورٹ میں کر دیا ہے۔ اب دیکھئے‘ نواز شریف کو ’’بہادری‘‘ کا مشورہ دینے والے زرداری کیا کرتے ہیں کہ سندھ میں انہی کی سرکار ہے۔ پتہ چل جائے گا کہ نواز شریف کو اصولی مشورہ دیا جا رہا تھا یا یہ کہا جا رہا تھا کہ چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے گا۔

عبداللہ طارق سہیل

2 comments: