اہلِ سیاست نے یہ تصور کرلیا ہے کہ انھیں اقتدار کی مسند پر بٹھانے اور ان کے مخالفین کی حکومتیں الٹنے والی طاقتیں اگر ان سے خوش ہیں تو وہ کامیاب، مذہبی رہنمائوں کے قطبِ نما کی سوئیوں کا رخ اپنے اپنے مسالک کے ملکوں کی سیاست میں الجھا ہوا ہے اور میڈیا تو چلتا ہی اس سرمائے سے ہے جو کارپوریٹ انڈسٹری مہیا کرتی ہے تا کہ پوری دنیا میں ایک جیسا طرزِ زندگی یا لائف اسٹائل متعارف ہو، جس کے نتیجے میں ان کا مال بِک سکے۔ یہ سب کے سب اس عالمی ایجنڈے کے مہرے ہیں اور انھیں کب ، کیسے اور کہاں استعمال کرنا ہے وہ طاقتیں خوب جانتی ہیں۔
اس کھیل میں سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مہروں کی واضح اکثریت کو اس کا علم تک نہیں ہوتا کہ وہ استعمال ہو رہے ہیں، وہ تو انتہائی اخلاص کے ساتھ ایک سمت رواں دواں رہتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی جنگ جیتنا چاہتا ہے۔ کوئی ریاست بچانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے تو کوئی اپنے مسلک کی برتری چاہتا ہے، کسی کو انقلاب کی جلدی ہے تو کوئی ترقی کے خوابوں کو تعبیر دینا چاہتا ہے۔ کوئی سیکولر، لبرل اور جمہوری اقدار کا تسلط چاہتا ہے تو کسی کو اسلام کے عادلانہ نظام کی بالادستی کے لیے ہتھیار اٹھانا اچھا لگتا ہے۔ یہ سب کے سب کیوں اس قدر مختلف ہیں اور کیا یہ ایسے ہی ایک دوسرے سے دست وِ گریبان رہیں گے۔ شاید ابھی کچھ دیر اور لیکن زیادہ دیر نہیں۔
ہم جس دور میں زندہ ہیں اس کے بارے میں سیدالانبیاء ﷺکی ایک حدیث صادق آتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’اسلام کی ابتدا اجنبیت سے ہوئی تھی اور یہ ایک بار پھر اجنبی ہو جائے گا‘‘۔ یہ اجنبیت کیا ہے۔ آج اسلام بالکل ویسے ہی اجنبی ہے جیسے مکہ میں سرکارِ دو عالم ﷺ کی دعوت کے آغاز میں تھا۔ ثقافت، طرز ِمعاشرت، معاشی نظام اور سیاسی زندگی کے مقابلے میں اسلام کی پیش کردہ دعوت اجنبی اور انوکھی لگتی تھی۔ آج بھی بالکل وہی کیفیت ہے جو چودہ سو سال پہلے تھی۔ اسلام موجودہ عالمی معاشی نظام، عالمی لائف اسٹائل، عالمی طرزِ سیاست اور عالمی طرزِ معاشرت میں بالکل انوکھا اور اجنبی ہو چکا ہے۔
پوری دنیا اس وقت لائف اسٹائل کی جنگ کا شکار ہے۔ ایک مدت ایک عالمی معاشی، سیاسی ، معاشرتی اور خاندانی نظام کو نصابِ تعلیم، میڈیا اور زیرِ اثر حکومتوں کے ذریعے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔ جہاں ذرا شک ہوا کہ یہ لوگ اس عالمی لائف اسٹائل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ وہاں بدترین آمریتوں کے ذریعے اس سیکولر عالمی لائف اسٹائل کا نفاذ کیا گیا۔ تیونس سے لے کر پاکستان اور بنگلہ دیش سے ملائشیاء تک ہر کسی کو کبھی ڈکٹیٹروں اور کبھی من پسند جمہوری حکمرانوں کے ذریعے ایسے عالمی لائف اسٹائل کا طابع کیا گیا، جس میں سودی بینکاری سے لے کر حقوقِ نسواں اور آزادیٔ اظہار کے نام پر فحاشی و عریانی تک سب زندگی کے معمولات کا حصہ ہیں۔
اس لائف اسٹائل اور طرزِ زندگی کے مخالف جو بھی آواز اٹھی اسے سب سے پہلے میڈیا میں ایک مہم کے ذریعے بدنام کیا گیا اور اگر ممکن ہو سکا تو ایسے ملک جہاں اسلام کا یہ اجنبی اور انوکھا لائف اسٹائل جڑیں پکڑ رہا تھا وہاں فوجیں تک اتار دی گئیں۔ افغانستان اس کی بدترین مثال ہے اور مصر میں اسی حکومت کی برطرفی اس کا دوسرا طریقۂ اظہار۔ ایک بات کا فیصلہ کر لیا گیا کہ اس دنیا کے نقشے پر کوئی ایسی حکومت قائم نہیں ہونے دیں گے، جو اس عالمی سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی لائف اسٹائل سے مختلف ہو۔ لیکن ہر کسی کو ’’ پارٹ ٹائم‘‘ اسلام کی اجازت ہے، اذان کے وقت دوپٹہ سر پر لینا اور مہندی کے ڈانس کے وقت اتار دینا۔ سود کے پیسوں سے مسجدیں اور مدرسے بھی بنانا اور اس کے خلاف تحقیقی کام بھی کرنا۔
نماز، روزہ، حج، زکواۃ سب پر ایمان رکھنا لیکن جہاد سے نفرت کرنا۔ ایک ایسا اسلام تو موجود عالمی لائف اسٹائل میں اجنبی نہ لگے۔ ریاستیں تو اس ’’ پارٹ ٹائم اسلام‘‘ کی قائل ہو گئیں کہ ان کے حکمرانوں کے مفادات تھے مگر افراد نے دنیا بھر میں اس سے بغاوت کر دی۔ یہ لوگ امریکا کے ساحلوں سے آسٹریلیا کے پہاڑوں تک ہر جگہ موجود تھے۔ گیارہ ستمبر نے اس لائف اسٹائل کی جنگ کو واضح کیا تو آج 12 سال کے بعد خوف کے سائے اسلامی دنیا سے مغربی دنیا تک جا پہنچے۔ برطانیہ کا شہر برمنگھم جہاں ہر پانچواں شخص مسلمان ہے، وہاں پچھلے دنوں پارک ویو اسکول میں حکومت کے تین انسپکٹر داخل ہوئے، یہ دیکھنے کے لیے کہ کتنی لڑکیاں حجاب پہنتی ہیں اور کتنے مردوں نے داڑھیاں رکھی ہیں۔
یہ مسلمانوں کے علاقے کا اسکول ہے جو اپنے دس طلبہ میں سے آٹھ طلبہ کو یونیورسٹیوں میں بھیجتا ہے۔ یہ کامیابی بہت کم اسکولوں کو میسر ہے۔ لیکن یہ سب کے سب اس لائف اسٹائل سے مختلف ہوتے ہیں جو عالمی طرزِ زندگی ہے، اسی لیے انسپکٹروں نے چھوٹی چھوٹی بچیوں سے پوچھا کہ تم کو حجاب پہننے پر کوئی زبردستی تو نہیں کرتا، اتنے زیادہ کپڑوں میں تمہیں گرمی تو نہیں لگتی۔ تمہیں ماہواری کے بارے میں کسی نے کبھی بتایا ہے۔ اس کے بعد برطانیہ کے اخباروں میں خبریں لگیں کہ مسلمانوں نے اپنے علاقے کے اسکولوں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہاں ایسا طرزِ زندگی اور طریقۂ تعلیم رائج ہے جس سے بچے برطانیہ کی زندگی کے لیے ’’ اجنبی‘‘ اور ’’انوکھے‘‘ ہوتے جا رہے ہیں۔
ایک رپورٹ مرتب کی گئی کہ اگر ایسا ہوا تو شدت پسندی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ اس کے بعد ’’پارٹ ٹائم‘‘ اسلام کو کچھ خوبصورت الفاظ کے ساتھ پیش کیا گیا۔ پارلیمنٹ اور میڈیا میں یہ الفاظ گونجے ’’Reconcile Islam and Britishism‘‘ (اسلام اور برطانویت میں مفاہمت) لیکن پورا ماحول غصے اور خوف میں ہے چند دن پہلے لندن کے علاقے کول چسٹر کے ایک پارک میں ایک مسلمان عورت کو اس لیے قتل کیا گیا کہ اس نے مکمل حجاب پہنا تھا۔ ’’پارٹ ٹائم‘‘ اسلام میں ایسا لباس صرف نماز پڑھتے ہوئے پہننا چاہیے۔ اس پارٹ ٹائم اسلام یعنی مغرب اور اسلام کی مفاہمت کی بہترین علامت چند دن پہلے ایمسٹرڈیم میں نظر آئی ۔ ایمسٹر ڈیم کو یورپ کو جنسی ہیڈ کوارٹر Sex Capital کہا جاتا ہے۔
وہاں کے ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ میں دنیا بھر سے عورتیں لا کر بٹھائی گئی ہیں۔ گزشتہ دنوں وہاں ایک اشتہار بانٹا جا رہا تھا کہ ہمارے پاس’’ حلال طوائفیں‘‘ میسر ہیں۔ یعنی جو شراب نہیں پیتیں، سؤر نہیں کھاتیں، اور دیگر معاملات میں بھی پارٹ ٹائم اسلام کی قائل ہیں۔ ایک ایسا اسلام جو عالمی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور خاندانی نظام کے اندر ضم ہو جائے۔ اسی طرح کے اسلام کو نافذ کرنے کے لیے ملکوں میں فوجیں اتاری جاتی ہیں، آئین تحریر کیے جاتے ہیں، اپنی مرضی سے الیکشن کروا کر کرزئی اور مالکی کو جمہوری طور پر منتخب کروایا جاتا ہے، مشرف سے لے کر سیسی تک لوگوں کو اقتدار پر بٹھایا جاتا ہے۔
لیکن خوف کی خلیج واضح ہوتی جا رہی ہے۔ پارٹ ٹائم اسلام اور اس اسلام جس کے بارے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ ایک بار پھر اجنبی ہو جائے گا، ان دونوں میں جنگ تیز ہو گئی ہے۔ امریکا سے لے کر آسٹریلیا اور یورپ کے 23 ممالک سے وہ لوگ جو اس عالمی لائف اسٹائل کے مخالف تھے، ہتھیار بند ہو کر شام اور عراق میں لڑ رہے ہیں، افغانستان اور یمن میں موجود ہیں۔ دوسری جانب تمام مسلم ریاستوں کا یہ عالم ہے کہ وہاں کی حکومتیں اس عالمی لائف اسٹائل کے تحفظ کے لیے متحد ہیں دوسری جانب اسلام کے اصل روپ کے پروانے بڑھتے جا رہے ہیں۔
صرف پاکستان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں حجاب اور داڑھی میں جس تیز رفتاری سے اضافہ ہوا ہے اس نے کاروباری کمپنیوں کو حجاب کا شیمپو تک مارکیٹ میں لانے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن دوسری جانب خوف بہت زیادہ ہے پورا عالمی لائف اسٹائل بینکوں کے جعلی سرمائے اور سود سے چلتا ہے، یہیں سے میڈیا ہائوسز پروان چڑھتے ہیں اور پارٹی فنڈ سے جمہوریت کی گاڑی۔ یہ تو سب دھڑام سے گر جائے گا اگر اس لائف اسٹائل کے مخالف طاقت میں آ گئے۔
ایک جنگ ہے اس میں ایک جانب ریاستیں ہیں جو اس عالمی طرز زندگی کے تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہیں اپنی پوری طاقت کے ساتھ اور دوسری جانب وہ لوگ’’ پارٹ ٹائم ‘‘ قابل قبول اسلام نہیں بلکہ اس لائف اسٹائل کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں جو آج اجنبی ہو چکا ہے۔ ریاستوں کی کوئی سرحد باقی ہے اور نہ ان لوگوں کی۔ سیّدالانبیاء نے فرمایا دّجال کی آمد سے پہلے دنیا دو خیموں میں تقسیم ہو جائے گی، ایک طرف مکمل کفر ہو گا اور دوسری طرف مکمل ایمان۔ اب نہ پارٹ ٹائم سیکولرزم رہے گا اور نہ ہی پارٹ ٹائم اسلام۔
اوریا مقبول جان