ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

28 جون، 2014

پارٹ سیکولرازم / پارٹ ٹائم اسلام

 کس قدر سادہ لوح ہیں وہ لوگ جو یہ گمان کیے بیٹھے ہیں کہ اس مملکتِ خدا داد پاکستان کے حکمران، دانشور، اہلٍ سیاست، مذہبی رہنما اور میڈیا عالمی طاقتوں کے اس کھیل سے آزاد ہے جو مسلم امہ کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کی مجبوریاں ان کے اقتدار کی طوالت سے وابستہ ہیں، دانشوروں کا علم ان کی سوچ متعین کرتا ہے اور یہ علم مغربی تجزیہ نگاروں کی رپورٹوں، مقالوں اور کتابوں سے روشنی حاصل کرتا ہے۔
 

اہلِ سیاست نے یہ تصور کرلیا ہے کہ انھیں اقتدار کی مسند پر بٹھانے اور ان کے مخالفین کی حکومتیں الٹنے والی طاقتیں اگر ان سے خوش ہیں تو وہ کامیاب، مذہبی رہنمائوں کے قطبِ نما کی سوئیوں کا رخ اپنے اپنے مسالک کے ملکوں کی سیاست میں الجھا ہوا ہے اور میڈیا تو چلتا ہی اس سرمائے سے ہے جو کارپوریٹ انڈسٹری مہیا کرتی ہے تا کہ پوری دنیا میں ایک جیسا طرزِ زندگی یا لائف اسٹائل متعارف ہو، جس کے نتیجے میں ان کا مال بِک سکے۔ یہ سب کے سب اس عالمی ایجنڈے کے مہرے ہیں اور انھیں کب ، کیسے اور کہاں استعمال کرنا ہے وہ طاقتیں خوب جانتی ہیں۔
 

اس کھیل میں سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مہروں کی واضح اکثریت کو اس کا علم تک نہیں ہوتا کہ وہ استعمال ہو رہے ہیں، وہ تو انتہائی اخلاص کے ساتھ ایک سمت رواں دواں رہتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی جنگ جیتنا چاہتا ہے۔ کوئی ریاست بچانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے تو کوئی اپنے مسلک کی برتری چاہتا ہے، کسی کو انقلاب کی جلدی ہے تو کوئی ترقی کے خوابوں کو تعبیر دینا چاہتا ہے۔ کوئی سیکولر، لبرل اور جمہوری اقدار کا تسلط چاہتا ہے تو کسی کو اسلام کے عادلانہ نظام کی بالادستی کے لیے ہتھیار اٹھانا اچھا لگتا ہے۔ یہ سب کے سب کیوں اس قدر مختلف ہیں اور کیا یہ ایسے ہی ایک دوسرے سے دست وِ گریبان رہیں گے۔ شاید ابھی کچھ دیر اور لیکن زیادہ دیر نہیں۔
 

ہم جس دور میں زندہ ہیں اس کے بارے میں سیدالانبیاء ﷺکی ایک حدیث صادق آتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’اسلام کی ابتدا اجنبیت سے ہوئی تھی اور یہ ایک بار پھر اجنبی ہو جائے گا‘‘۔ یہ اجنبیت کیا ہے۔ آج اسلام بالکل ویسے ہی اجنبی ہے جیسے مکہ میں سرکارِ دو عالم ﷺ کی دعوت کے آغاز میں تھا۔ ثقافت، طرز ِمعاشرت، معاشی نظام اور سیاسی زندگی کے مقابلے میں اسلام کی پیش کردہ دعوت اجنبی اور انوکھی لگتی تھی۔ آج بھی بالکل وہی کیفیت ہے جو چودہ سو سال پہلے تھی۔ اسلام موجودہ عالمی معاشی نظام، عالمی لائف اسٹائل، عالمی طرزِ سیاست اور عالمی طرزِ معاشرت میں بالکل انوکھا اور اجنبی ہو چکا ہے۔
 

پوری دنیا اس وقت لائف اسٹائل کی جنگ کا شکار ہے۔ ایک مدت ایک عالمی معاشی، سیاسی ، معاشرتی اور خاندانی نظام کو نصابِ تعلیم، میڈیا اور زیرِ اثر حکومتوں کے ذریعے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی۔ جہاں ذرا شک ہوا کہ یہ لوگ اس عالمی لائف اسٹائل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ وہاں بدترین آمریتوں کے ذریعے اس سیکولر عالمی لائف اسٹائل کا نفاذ کیا گیا۔ تیونس سے لے کر پاکستان اور بنگلہ دیش سے ملائشیاء تک ہر کسی کو کبھی ڈکٹیٹروں اور کبھی من پسند جمہوری حکمرانوں کے ذریعے ایسے عالمی لائف اسٹائل کا طابع کیا گیا، جس میں سودی بینکاری سے لے کر حقوقِ نسواں اور آزادیٔ اظہار کے نام پر فحاشی و عریانی تک سب زندگی کے معمولات کا حصہ ہیں۔
 

اس لائف اسٹائل اور طرزِ زندگی کے مخالف جو بھی آواز اٹھی اسے سب سے پہلے میڈیا میں ایک مہم کے ذریعے بدنام کیا گیا اور اگر ممکن ہو سکا تو ایسے ملک جہاں اسلام کا یہ اجنبی اور انوکھا لائف اسٹائل جڑیں پکڑ رہا تھا وہاں فوجیں تک اتار دی گئیں۔ افغانستان اس کی بدترین مثال ہے اور مصر میں اسی حکومت کی برطرفی اس کا دوسرا طریقۂ اظہار۔ ایک بات کا فیصلہ کر لیا گیا کہ اس دنیا کے نقشے پر کوئی ایسی حکومت قائم نہیں ہونے دیں گے، جو اس عالمی سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی لائف اسٹائل سے مختلف ہو۔ لیکن ہر کسی کو ’’ پارٹ ٹائم‘‘ اسلام کی اجازت ہے، اذان کے وقت دوپٹہ سر پر لینا اور مہندی کے ڈانس کے وقت اتار دینا۔ سود کے پیسوں سے مسجدیں اور مدرسے بھی بنانا اور اس کے خلاف تحقیقی کام بھی کرنا۔
 

نماز، روزہ، حج، زکواۃ سب پر ایمان رکھنا لیکن جہاد سے نفرت کرنا۔ ایک ایسا اسلام تو موجود عالمی لائف اسٹائل میں اجنبی نہ لگے۔ ریاستیں تو اس ’’ پارٹ ٹائم اسلام‘‘ کی قائل ہو گئیں کہ ان کے حکمرانوں کے مفادات تھے مگر افراد نے دنیا بھر میں اس سے بغاوت کر دی۔ یہ لوگ امریکا کے ساحلوں سے آسٹریلیا کے پہاڑوں تک ہر جگہ موجود تھے۔ گیارہ ستمبر نے اس لائف اسٹائل کی جنگ کو واضح کیا تو آج 12 سال کے بعد خوف کے سائے اسلامی دنیا سے مغربی دنیا تک جا پہنچے۔ برطانیہ کا شہر برمنگھم جہاں ہر پانچواں شخص مسلمان ہے، وہاں پچھلے دنوں پارک ویو اسکول میں حکومت کے تین انسپکٹر داخل ہوئے، یہ دیکھنے کے لیے کہ کتنی لڑکیاں حجاب پہنتی ہیں اور کتنے مردوں نے داڑھیاں رکھی ہیں۔
یہ مسلمانوں کے علاقے کا اسکول ہے جو اپنے دس طلبہ میں سے آٹھ طلبہ کو یونیورسٹیوں میں بھیجتا ہے۔ یہ کامیابی بہت کم اسکولوں کو میسر ہے۔ لیکن یہ سب کے سب اس لائف اسٹائل سے مختلف ہوتے ہیں جو عالمی طرزِ زندگی ہے، اسی لیے انسپکٹروں نے چھوٹی چھوٹی بچیوں سے پوچھا کہ تم کو حجاب پہننے پر کوئی زبردستی تو نہیں کرتا، اتنے زیادہ کپڑوں میں تمہیں گرمی تو نہیں لگتی۔ تمہیں ماہواری کے بارے میں کسی نے کبھی بتایا ہے۔ اس کے بعد برطانیہ کے اخباروں میں خبریں لگیں کہ مسلمانوں نے اپنے علاقے کے اسکولوں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہاں ایسا طرزِ زندگی اور طریقۂ تعلیم رائج ہے جس سے بچے برطانیہ کی زندگی کے لیے ’’ اجنبی‘‘ اور ’’انوکھے‘‘ ہوتے جا رہے ہیں۔
 

ایک رپورٹ مرتب کی گئی کہ اگر ایسا ہوا تو شدت پسندی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ اس کے بعد ’’پارٹ ٹائم‘‘ اسلام کو کچھ خوبصورت الفاظ کے ساتھ پیش کیا گیا۔ پارلیمنٹ اور میڈیا میں یہ الفاظ گونجے ’’Reconcile Islam and Britishism‘‘ (اسلام اور برطانویت میں مفاہمت) لیکن پورا ماحول غصے اور خوف میں ہے چند دن پہلے لندن کے علاقے کول چسٹر کے ایک پارک میں ایک مسلمان عورت کو اس لیے قتل کیا گیا کہ اس نے مکمل حجاب پہنا تھا۔ ’’پارٹ ٹائم‘‘ اسلام میں ایسا لباس صرف نماز پڑھتے ہوئے پہننا چاہیے۔ اس پارٹ ٹائم اسلام یعنی مغرب اور اسلام کی مفاہمت کی بہترین علامت چند دن پہلے ایمسٹرڈیم میں نظر آئی ۔ ایمسٹر ڈیم کو یورپ کو جنسی ہیڈ کوارٹر Sex Capital کہا جاتا ہے۔
 

وہاں کے ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ میں دنیا بھر سے عورتیں لا کر بٹھائی گئی ہیں۔ گزشتہ دنوں وہاں ایک اشتہار بانٹا جا رہا تھا کہ ہمارے پاس’’ حلال طوائفیں‘‘ میسر ہیں۔ یعنی جو شراب نہیں پیتیں، سؤر نہیں کھاتیں، اور دیگر معاملات میں بھی پارٹ ٹائم اسلام کی قائل ہیں۔ ایک ایسا اسلام جو عالمی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور خاندانی نظام کے اندر ضم ہو جائے۔ اسی طرح کے اسلام کو نافذ کرنے کے لیے ملکوں میں فوجیں اتاری جاتی ہیں، آئین تحریر کیے جاتے ہیں، اپنی مرضی سے الیکشن کروا کر کرزئی اور مالکی کو جمہوری طور پر منتخب کروایا جاتا ہے، مشرف سے لے کر سیسی تک لوگوں کو اقتدار پر بٹھایا جاتا ہے۔
 

لیکن خوف کی خلیج واضح ہوتی جا رہی ہے۔ پارٹ ٹائم اسلام اور اس اسلام جس کے بارے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ ایک بار پھر اجنبی ہو جائے گا، ان دونوں میں جنگ تیز ہو گئی ہے۔ امریکا سے لے کر آسٹریلیا اور یورپ کے 23 ممالک سے وہ لوگ جو اس عالمی لائف اسٹائل کے مخالف تھے، ہتھیار بند ہو کر شام اور عراق میں لڑ رہے ہیں، افغانستان اور یمن میں موجود ہیں۔ دوسری جانب تمام مسلم ریاستوں کا یہ عالم ہے کہ وہاں کی حکومتیں اس عالمی لائف اسٹائل کے تحفظ کے لیے متحد ہیں دوسری جانب اسلام کے اصل روپ کے پروانے بڑھتے جا رہے ہیں۔
 

صرف پاکستان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں حجاب اور داڑھی میں جس تیز رفتاری سے اضافہ ہوا ہے اس نے کاروباری کمپنیوں کو حجاب کا شیمپو تک مارکیٹ میں لانے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن دوسری جانب خوف بہت زیادہ ہے پورا عالمی لائف اسٹائل بینکوں کے جعلی سرمائے اور سود سے چلتا ہے، یہیں سے میڈیا ہائوسز پروان چڑھتے ہیں اور پارٹی فنڈ سے جمہوریت کی گاڑی۔ یہ تو سب دھڑام سے گر جائے گا اگر اس لائف اسٹائل کے مخالف طاقت میں آ گئے۔
ایک جنگ ہے اس میں ایک جانب ریاستیں ہیں جو اس عالمی طرز زندگی کے تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہیں اپنی پوری طاقت کے ساتھ اور دوسری جانب وہ لوگ’’ پارٹ ٹائم ‘‘ قابل قبول اسلام نہیں بلکہ اس لائف اسٹائل کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں جو آج اجنبی ہو چکا ہے۔ ریاستوں کی کوئی سرحد باقی ہے اور نہ ان لوگوں کی۔ سیّدالانبیاء نے فرمایا دّجال کی آمد سے پہلے دنیا دو خیموں میں تقسیم ہو جائے گی، ایک طرف مکمل کفر ہو گا اور دوسری طرف مکمل ایمان۔ اب نہ پارٹ ٹائم سیکولرزم رہے گا اور نہ ہی پارٹ ٹائم اسلام۔ 





 oria maqbool jaan
urdu article, parr time islam,, secularism,
اوریا مقبول جان

26 جون، 2014

میرے مرشد پاک

 

میرے مرشد پاک

گل نوخیز اختر

میرے مرشد پاک’’ شیخ الاسلام آباد‘‘ کے بارے میں جو لوگ نازیبا کلمات استعمال کرتے ہوئے ان کا تمسخر اڑانے کی کوشش کر رہے ہیں میں ان سب کو تنبیہہ کرنا چاہتا ہوں کہ باز آجائیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ کسی دن سو کر اٹھیں تو شکلیں ہی بدلی ہوئی ہوں۔گذشتہ دنوں میرے مرشد پاک ایمریٹس کی پرواز سے پاکستان تشریف لائے تو حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے تھے‘ مرشد کو چونکہ بشارت ہوچکی تھی لہذا انہوں نے پانچ گھنٹے طیارے میں ہی قیام کا فیصلہ کیا اور انقلابِ عظیم کی خاطر عصر اور مغرب کی نمازیں بھی موخر کردیں۔مرشد چاہتے تو انہیں طیارے میں آنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی‘ وہ چند کلمات پڑھ کر طیارے سے بھی زیادہ تیز سپیڈ سے پرواز کرتے ہوئے پاکستان میں آسکتے تھے لیکن انہوں نے قانونی راستہ اختیار کیا ۔کئی بدخواہ اور گنہگار یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ میرے مرشد ‘اعلیٰ اداروں کو فون ملاتے رہے لیکن ’’اُدھر‘‘ سے Not responding کی آواز آتی رہی ‘ یہ بھی جھوٹ ہے‘ اصل میں مرشد کینڈا سے پرواز کرنے سے قبل اپنے موبائل میں ایزی لوڈ کرانا بھول گئے تھے لہذا بیلنس کی کمی آڑے آگئی۔اتنی سی بات تھی۔۔۔!!!
میں اپنے مرشد کی کیا کیا خوبیاں بیان کروں‘ انہوں نے تو میری زندگی ہی بدل دی‘مجھے یاد ہے آج سے دس سال پہلے میں ایک بہت برا انسان تھا‘ پینٹ شرٹ پہنتا تھا‘ گانے سنتا تھا‘ بالوں میں جیل لگاتا تھا‘ گاڑی چلاتے ہوئے گنگنایا کرتا تھا۔۔۔اور تو اور کئی دفعہ انڈیا کی کوئی فلم بھی دیکھ لیا کرتا تھا۔ لیکن پھر میری مرشد پاک سے ملاقات ہوئی اور مجھ میں انقلاب آگیا۔ انہوں نے مجھے سمجھایا کہ زندگی میں کامیابی کے لیے کسی کا مرید ہونا بہت ضروری ہے‘ میں نے ان کی بات پر فوراً عمل کیا اور ’’رن مرید‘‘ ہوگیا۔ اِس پر مرشد پاک نے انتہائی ملائم لہجے میں مجھے سمجھایا کہ ’’ڈنگر انسان! رن مرید ی کے آگے جہاں اور بھی ہیں۔۔۔‘‘ تب میں نے پہلی مریدی سے استعفیٰ دے کر مرشد پاک کی مریدی اختیار کی اوران کی نگاہِ روشن سے وہ اعلیٰ و ارفع مقام پایا کہ آج میں جدھر سے بھی گزرتاہوں انگلیاں سرو اٹھاتے ہیں کہ وہ آتے ہیں۔
میرے مرشد پاک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ خواب میں مجھے نبی پاکﷺ کا دیدار ہوا اور انہوں نے مجھے میزبانی کا شرف بخشتے ہوئے فرمایا کہ ’’طاہر میں اس شرط پر پاکستان رکوں گا کہ میرے کھانے پینے اور ٹکٹ کے اخراجات تم افورڈ کرو‘‘۔سبحان اللہ! ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ میں نے 15سال ایک مقدس ہستی سے خواب میں تعلیم حاصل کی‘ اسی خواب کا ذکر ایک اور محفل میں کرتے ہوئے مرشد پاک نے 6 سال کم کردیے اور ربِ کعبہ کی قسم اٹھا کر فرمایا کہ ’’میں نے 9 سال تک اُس مقدس ہستی سے خواب میں تعلیم حاصل کی ہے۔‘‘ حریفوں نے سوال اٹھایا کہ ایک ہی خواب کا بیان کرتے ہوئے 6 سالوں کا یہ فرق کیوں؟؟؟ کوئی اِن جاہلوں کو بتائے کہ مرشد پاک اِس تعلیمی سلسلے کے دوران ہفتہ اتوار کی چھٹی بھی تو کرتے رہے ہیں‘ چھوٹی بڑی عید‘ شب برات‘ 23 مارچ ‘ 14 اگست اور 25 دسمبر سمیت گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیاں اس کے علاوہ تھیں‘ وہ سب نکال کے باقی 9 سال ہی تو بچتے ہیں۔اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ عام طور پر ہم یہی کہتے ہیں کہ ایک طالبعلم نے دس سال سکول میں تعلیم حاصل کرکے میٹرک کیا‘ لیکن جب تفصیل میں جائیں گے تو دس سال کی چھٹیاں منہا کر دی جائیں گی۔یہی کچھ میرے مرشد نے بھی کہا۔۔۔کچھ غلط کہا؟؟؟
بحکمِ خدا۔۔۔میرے مرشد پاک انقلاب لانے کے لیے تشریف لاچکے ہیں‘ دو سال پہلے بھی وہ اسی سلسلے میں تشریف لائے تھے لیکن انقلابی زیادہ تھے اور ہیٹر ایک۔۔۔لہذا مرشد نے طے کیا کہ ہزاروں ہیٹر لگانے کی بجائے کیوں نہ انقلاب کا سیزن ہی بدل دیا جائے لہذا اب کی بار وہ گرمیوں میں تشریف لائے ہیں۔ سرکار نے ان کی آمد سے خوفزدہ ہوکر جہاز کا رخ اسلام آباد کی بجائے لاہور کی طرف موڑ دیا لیکن مرشد بھی دھن کے پکے تھے‘جہازہی میں نیت باندھ لی کہ وہ کسی حکومتی بندے کے ساتھ جہاز سے نہیں اتریں گے بلکہ صرف کسی فوجی جوان کے ساتھ ہی باہر تشریف لائیں گے لیکن سندھ کے گورنر نے جب انہیں فون پر یہ بتایا کہ غیر ملکی ائیر لائن والے ان پر تاحیات پابندی کا سوچ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پندرہ منٹ بعد وہ جہاز کا انجن آف کرکے اے سی وغیرہ بند کردیں گے تو مرشد پاک کو یہ سنتے ہی حالت مراقبہ میں چلے گئے اور ’’کرامت‘‘ یہ ہوئی کہ مرشد کے دوست گورنر پنجاب (جو یقیناًحکومت کا حصہ نہیں)نے فون کر دیا ورنہ مرشد آنے والی گرمی کے تصور سے ہی حواس باختہ ہورہے تھے‘ ۔اصل میں میرے مرشد کی پرابلم ہے کہ گرمی میں ان کا ذہنی توازن پونے تین سینٹی گریڈ نیچے آجاتاہے‘ ایک دفعہ سخت گرمی کے عالم میں مرشد کو نماز جنازہ پڑھانا پڑ گئی تھی‘ نماز ختم ہوئی تو مرشد لوگوں کے ہجوم کو دیکھ کر بھول گئے کہ وہ کہاں ہیں لہذا پوری قوت سے چلائے۔۔۔’’مبارک ہو۔۔۔مبارک ہو۔۔۔مبارک ہو‘‘
الحمدللہ !آج میرے مرشد واپس آچکے ہیں اور انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ اگلا الیکشن وہ خود کرائیں گے۔یقیناًاگلا الیکشن کرانے کا اختیار اب کسی حکومت‘ عدالت یا الیکشن کمیشن کا نہیں بلکہ میرے مرشد کا ہوگا اوروہ جسے چاہیں گے مسندِ اقتدار پر بٹھائیں گے کیونکہ اٹھارہ کروڑ عوام نہ کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ ہے‘ نہ کسی مذہبی جماعت کے ساتھ بلکہ سو فیصد میرے مرشد کے ساتھ ہے۔ اس کے باوجود مرشد پاک ووٹ کے ذریعے اقتدار میں آنے کو حرام سمجھتے ہیں۔انہیں یقین ہے کہ کم ازکم ان کا اقتدار ووٹ کا محتاج نہیں۔۔میں چونکہ اپنے مرشد کا چہیتا ہوں لہذا مجھے امید ہے میرے مرشد پاک مجھے چیئرمین واپڈا یا وفاقی وزیر ضرور بنائیں گے۔مرشد پاک چاہتے ہیں کہ اس ملک میں سب کو یکساں حقوق ملیں‘ کوئی گرم کنٹینر میں بیٹھ کر سرد عوام سے خطاب نہ کرے‘ ہر ایک کے پاس اپنی اپنی بلٹ پروف گاڑی ہو‘ ہر بندہ چارٹر طیارے کے پیسے افورڈ کر سکے‘ ہر پاکستانی شہری کو کینیڈا کی نیشنیلٹی دلائی جائے۔ میرے مرشد تو برابری کے اس حد تک قائل ہیں کہ ان کی خواہش ہے کہ ان کے ہر مرید کو سکول کالج جانے کی بجائے خواب میں مقدس ہستیوں سے تعلیم دلائی جائے‘ اس مقصد کے لیے مرشد ’’کے سی ٹی‘‘(خواب کالج آف ٹیکنالوجی) کے منصوبے پر بھی غور فرما رہے ہیں ‘ انہوں نے اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں میرا نام بھی شامل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔میں اپنے مرشد کا نہایت شکر گذار ہوں کہ ان کی نظر کرم سے میری بگڑی مسلسل سنورتی جارہی ہے‘ جب سے میں نے مرشد کے نام کا ورد شروع کیا ہے میری گاڑی کا پٹرول چھ کلومیٹر زیادہ ایوریج دینے لگا ہے‘ اے سی ٹرپ ہونا بند ہوگیا ہے‘ گھر کے یو پی ایس کی بیٹری بھی اچانک سے ڈیڑھ گھنٹہ نکالنے لگ گئی ہے‘ شاور کے جن سوراخوں میں سے پانی آنا بند ہوگیا تھا وہ بھی’’ موسلادھار‘‘پرفارمنس دینے لگے ہیں۔۔۔اور تو اور میں کچھ دنوں سے نوٹ کر رہا ہوں کہ میں جتنے مرضی سگریٹ پیتا جاؤں‘ میری ڈبی ختم نہیں ہوتی۔آئیے سب مل کر مرشد پاک کے انقلاب کی دعا کریں تاکہ ملک سے منحوس جمہوریت کا تصور تو ختم ہو۔

16 جون، 2014

حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ

 حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو خطاب کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ان سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ علم کس کے پاس ہے؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میرے پاس، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب کیا کہ علم کو اللہ کی طرف منسوب کیوں نہیں کیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کی بحرین جہاں دو دریا ملتے ہیں وہاں میرے بندوں میں سے ایک بندہ ایسا ہے جس کے پاس آپ سے زیادہ علم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا:
اے رب ! میں کس طرح اس کے پاس پہنچوں گا؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا زنبیل میں ایک مچھلی رکھ کر چل دو جہاں وہ کھوجائے گی وہیں وہ شخص آپ کو ملے گا۔
پھر موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھ اپنے خادم یوشع بن نون کو لیا اور زنبیل میں مچھلی رکھ کر چل دیئے یہاں تک کہ ایک ٹیلے کے پاس پہنچے تو موسیٰ علیہ السلام اور ان کے خادم دونوں لیٹ گئے اور سوگئے۔ مچھلی زنبیل میں کودنے لگی۔ یہاں تک کہ نکل کر دریا میں گرگئی۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کا بہاؤ وہیں روک دیا اور وہاں طاق سابن گیا اور اس کا راستہ ویسا ہی بنا رہا۔ جب کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی بھول گئے کہ انہیں مچھلی کے متعلق بتائیں، صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کھانا طلب کیا اور فرمایا کہ اس سفر میں ہمیں بہت تھکن ہوئی ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام اسی وقت تھکے جب اس جگہ سے تجاوز کیا جس کے متعلق حکم دیا گیا تھا کہ ان کے ساتھی نے کہا۔ دیکھئے جب ہم ٹیلے پر ٹھہرے تو میں مچھلی بھول گیا تھا اور یقینا یہ شیطان ہی کا کام ہے کہ مجھے بھلادیا کہ میں آپ سے اس کا تذکرہ کروں کہ اس نے عجیب طریقے سے دریا کا راستہ اختیار کیا۔
موسیٰ علیہ السلام فرمانے لگے وہی جگہ تم تلاش کر رہے تھے۔ چنانچہ وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانوں پر واپس لوٹے۔

وہ دونوں اپنے قدموں کے نشانات پر چلتے چلتے چٹان کے پاس پہنچے تو ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ چادر سے اپنے آپ کو ڈھانکے ہوئے ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا اس زمین میں سلام کہاں؟
موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں زمین میں موسیٰ ہوں۔
انہوں نے پوچھا بنی اسرائیل کا موسیٰ؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا ہاں
حضرت خضر نے فرمایا اے موسیٰ تمہارے پاس اللہ کا دیا ہوا ایک علم ہے جسے میں نہیں جانتا اور میرے پاس اللہ کا عطا کردہ ایک علم ہے جسے آپ نہیں جانتے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کیا میں اس شرط پر آپ کے پیچھے چلوں کہ آپ میری رہنمائی فرماتے ہوئے مجھے وہ بات سکھائیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھائی۔
حضرت خضر نے فرمایا آپ صبر نہیں کرسکیں گے اور اس چیز پر کیسے صبر کرسکیں گے جس کا آپ کی عقل نے احاطہ نہیں کیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں آپ کی حکم عدولی نہیں کروں گا۔
حضرت خضر نے فرمایا اگر میری پیروی کرنا ہی چاہتے ہو تو جب تک کوئی بات میں خود نہ بیان کروں آپ مجھے نہیں پوچھیں گے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ٹھیک ہے
 
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر دونوں ساحل پر چل رہے تھے کہ ایک کشتی ان کے پاس سے گذری، انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی سوار کرلو انہوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور بغیر کرائے کے دونوں کو بٹھالیا۔حضرت خضر علیہ السلام نے اس کشتی کا تختہ اکھاڑ دیا حضرت موسیٰ بول پڑھے کہ آپ نے کشتی کو توڑ دیا تاکہ اس کشتی والے غرق ہو جائیں آپ نے بڑا عجیب کام کیا ہے حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا اے موسیٰ ! کیا میں تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکو گے حضرت موسیٰ نے فرمایا جو بات میں بھول گیا ہوں آپ اس پر میرا مؤ اخذہ نہ کریں اور مجھے تنگی میں نہ ڈالیں۔
پھر وہ کشتی پر سے اتر کر ابھی ساحل پر چل رہے تھے کہ ایک بچہ بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑا اور اسے ہاتھ سے جھٹکا دے کر قتل کر دیا۔
موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ آپ نے ایک بے گناہ قتل کر دیا۔ آپ نے بڑی بے جا حرکت کی۔
وہ کہنے لگے کہ میں نے کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے۔
راوی کہتے ہیں کہ یہ بات پہلی بات سے زیادہ تعجب خیز تھی۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ اگر اس کے بعد بھی میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھئے گا۔ آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ چکے ہیں۔


پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک بستی کے پاس سے گذرے اور ان سے کھانے کے لئے کچھ مانگا تو انہوں نے ان کی مہمانی کرنے سے انکار کر دیا۔ اتنے میں وہاں انہیں ایک دیوار ملی جو گرنے کے قریب تھی تو حضرت خضر علیہ السلام نے اس دیوار کو سیدھا کھڑا کر دیا ۔
موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ ہم ان لوگوں کے پاس آئے تو انہوں نے ہماری ضیافت تک نہیں کی اور ہمیں کھانا کھلانے سے بھی انکار کر دیا۔ اگر آپ چاہتے  تو اس کام کی اجرت لے سکتے تھے۔
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ بس اب یہ وقت ہماری اور آپ کی جدائی کا ہے۔
میں آپ کو ان چیزوں کی حقیقت بتا دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کرسکے۔
اور حضرت خضر علیہ السلام حضرت موسیٰ کا کپڑا پکڑ کر فرمایا کہ میں اب آپ کو ان کاموں کا راز بتاتا ہوں کہ جن پر تم صبر نہ کر سکے کشتی تو ان مسکینوں کی تھی کہ جو سمندر میں مزدوری کرتے تھے اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ظلما کشتیوں کو چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ میں اس کشتی کو عیب دار کر دوں تو جب کشتی چھیننے والا آیا تو اس نے کشتی کو عیب دار سمجھ کر چھوڑ دیا اور وہ کشتی آگے بڑھ گئی اور کشتی والوں نے ایک لکڑی لگا کر اسے درست کر لیا اور وہ لڑکا جسے میں نے قتل کیا ہے فطرةً کافر تھا اس کے ماں باپ اس سے بڑا پیار کرتے تھے تو جب وہ بڑا ہوا تو وہ اپنے ماں باپ کو بھی سرکشی میں پھنسا دیتا تو ہم نے چاہا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس لڑکے کے بدلہ میں دوسرا لڑکا عطا فرما دے جو کہ اس سے بہتر ہو اور وہ دیوار جسے میں نے درست کیا وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی جس کے نیچے خزانہ تھا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہماری چاہت تھی کہ موسیٰ علیہ السلام (اللہ ان پر رحمت کرے) کچھ دیر اور صبر کرتے تاکہ ہمیں ان کی عجیب وغریب خبریں سننے کو ملتیں۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ نے پہلا سوال تو بھول کر کیا تھا۔
پھر ایک چڑیا آئی جس نے کشتی کے کنارے پر بیٹھ کر دریا میں اپنی چونچ ڈبوئی، پھر حضرت خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا میرے اور آپ کے علم نے اللہ کے علم میں سے صرف اسی قدر کم کیا جتنا اس چڑیا نے دریا سے۔

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1921
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1662
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1664
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1094

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 یہ واقعہ قران پاک میں اس طرح بیان ہوا ہے:


ترجمہ:
  اور جب موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا کہ جب تک دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں خواہ برسوں چلتا رہوں
جب ان کے ملنے کے مقام پر پہنچے تو اپنی مچھلی بھول گئے تو اس نے دریا میں سرنگ کی طرح اپنا رستہ بنالیا
 
جب آگے چلے تو (موسیٰ نے) اپنے شاگرد سے کہا کہ ہمارے لئے کھانا لاؤ۔ اس سفر سے ہم کو بہت تکان ہوگئی ہے
 
(اس نے) کہا کہ بھلا آپ نے دیکھا کہ جب ہم نے پتھر کے ساتھ آرام کیا تھا تو میں مچھلی (وہیں) بھول گیا۔ اور مجھے (آپ سے) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا۔ اور اس نے عجب طرح سے دریا میں اپنا رستہ لیا
 
(موسیٰ نے) کہا یہی تو (وہ مقام) ہے جسے ہم تلاش کرتے تھے تو وہ اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے
 
(وہاں) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا جس کو ہم نے اپنے ہاں سے رحمت (یعنی نبوت یا نعمت ولایت) دی تھی اور اپنے پاس سے علم بخشا تھا
 
موسیٰ نے ان سے (جن کا نام خضر تھا) کہا کہ جو علم (خدا کی طرف سے) آپ کو سکھایا گیا ہے اگر آپ اس میں سے مجھے کچھ بھلائی (کی باتیں) سکھائیں تو میں آپ کے ساتھ رہوں
 
(خضر نے) کہا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکو گے
 
اور جس بات کی تمہیں خبر ہی نہیں اس پر صبر کر بھی کیوں کرسکتے ہو
 
(موسیٰ نے) کہا خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پایئے گا۔ اور میں آپ کے ارشاد کے خلاف نہیں کروں گا
 
(خضر نے) کہا کہ اگر تم میرے ساتھ رہنا چاہو تو (شرط یہ ہے) مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا جب تک میں خود اس کا ذکر تم سے نہ کروں
 
تو دونوں چل پڑے۔ یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو (خضر نے) کشتی کو پھاڑ ڈالا۔ (موسیٰ نے) کہا کیا آپ نے اس لئے پھاڑا ہے کہ سواروں کو غرق کردیں یہ تو آپ نے بڑی (عجیب) بات کی

(خضر نے) کہا۔ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کرسکو گے
 
(موسیٰ نے) کہا کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذہ نہ کیجیئے اور میرے معاملے میں مجھ پر مشکل نہ ڈالئے

پھر دونوں چلے۔ یہاں تک کہ (رستے میں) ایک لڑکا ملا تو (خضر نے) اُسے مار ڈالا۔ (موسیٰ نے) کہا کہ آپ نے ایک بےگناہ شخص کو ناحق بغیر قصاص کے مار ڈالا۔ (یہ تو) آپ نے بری بات کی
 
(خضر نے) کہا کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم سے میرے ساتھ صبر نہیں کرسکو گے
 
انہوں نے کہا کہ اگر میں اس کے بعد (پھر) کوئی بات پوچھوں (یعنی اعتراض کروں) تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیئے گا کہ آپ میری طرف سے عذر (کے قبول کرنے میں غایت) کو پہنچ گئے

پھر دونوں چلے۔ یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے اور ان سے کھانا طلب کیا۔ انہوں نے ان کی ضیافت کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو (جھک کر) گرا چاہتی تھی۔ خضر نے اس کو سیدھا کر دیا۔ موسیٰ نے کہا اگر آپ چاہتے تو ان سے (اس کا) معاوضہ لیتے (تاکہ کھانے کا کام چلتا)

خضر نے کہا اب مجھ میں اور تجھ میں علیحدگی۔ (مگر) جن باتوں پر تم صبر نہ کرسکے میں ان کا تمہیں بھید بتائے دیتا ہوں

(کہ وہ جو) کشتی (تھی) غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں محنت (کرکے یعنی کشتیاں چلا کر گذارہ) کرتے تھے۔ اور ان کے سامنے (کی طرف) ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں (تاکہ وہ اسے غصب نہ کرسکے)
 
اور وہ جو لڑکا تھا اس کے ماں باپ دنوں مومن تھے ہمیں اندیشہ ہوا کہ (وہ بڑا ہو کر بدکردار ہوتا کہیں) ان کو سرکشی اور کفر میں نہ پھنسا دے
 
تو ہم نے چاہا کہ ان کا پروردگار اس کی جگہ ان کو اور (بچّہ) عطا فرمائے جو پاک طینتی میں اور محبت میں اس سے بہتر ہو
 
اور وہ جو دیوار تھی سو وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی (جو) شہر میں (رہتے تھے) اور اس کے نیچے ان کا خزانہ (مدفون) تھا اور ان کا باپ ایک نیک بخت آدمی تھا۔ تو تمہارے پروردگار نے چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائیں اور (پھر) اپنا خزانہ نکالیں۔ یہ تمہارے پروردگار کی مہربانی ہے۔ اور یہ کام میں نے اپنی طرف سے نہیں کئے۔ یہ ان باتوں کا راز ہے جن پر تم صبر نہ کرسکے

سورة الكهف: آیات:  60-83
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Tags: surah al Kahf
Hazrat mosa (a.s), Musa, hazrat Khizar , Quran ,hadith, hadees, Sahi Bukhari muslim, Jamih Tiramazi, Prophet, Allah , Islam
waqia, story ,urdu ,traveling , boat, kid ,killed, patience, ,knowledge,