ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

1 جولائی، 2014

خواتین کی ڈرائیونگ

 ایک عورت نے اپنے شوہر کو آفس فون کیا اور پوچھا کہ آپ مصروف تو نہیں‘ شوہر نے دانت پیس کر کہا ’’میں اس وقت میٹنگ میں ہوں کیوں فون کیا ہے؟ ‘‘جواب آیا’’آپ کو ایک اچھی اور ایک بُری خبر سنانی تھی‘‘۔شوہر گرجا’’خبردار جو کوئی بری خبر سنائی‘ بتاؤ اچھی خبر کیا ہے؟؟؟‘‘ بیوی چہک کر بولی’’وہ جو ہم نے نئی گاڑی لی تھی ناں‘ اُس کے ائیر بیگز بالکل ٹھیک کام کر رہے ہیں‘‘۔
اگر آپ کسی تنگ پارکنگ میں کھڑے ہوں اور اچانک کوئی گاڑی نمودار ہو کر چھوٹی سی جگہ میں بھی کسی گاڑی کو نقصان پہنچائے بغیر بہترین طریقے سے پارک ہوجائے تو فوراً یقین کرلیجئے گا کہ اِسے کوئی مرد چلا رہا ہے۔لیکن اگر گاڑی دو تین دفعہ آگے پیچھے ہوکر پارکنگ میں جگہ بنائے تو پھر بھی یقیناًاسے کوئی مرد ہی چلا رہا ہوگا۔۔۔تاہم اگرآنے والی گاڑی آپ کی گاڑی کے پیچھے پارک ہوجائے توالحمدللہ پھر بھی اسے کوئی مرد ہی چلا رہا ہوگا۔خاتون کا شائبہ تو اُس وقت ہونا چاہیے جب پارکنگ کی ڈھیر ساری جگہ ہو لیکن آنے والی گاڑی سیدھی آپ کی گاڑی میں جاگھسے۔خواتین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جب وہ گاڑی چلا رہی ہوں تو ساری ٹریفک وفات پا جائے‘ یہ ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غلط رخ پر بھی گاڑی چلا رہی ہوں تو سامنے سے آنے والوں کو کوسنے دیے جاتی ہیں کہ کم بخت سب کے سب غلط آرہے ہیں۔مردکو جب تک گاڑی ریورس نہ کرنی آجائے وہ سمجھتا ہے کہ اسے ابھی گاڑی نہیں چلانی آتی‘ لیکن خواتین صرف دروازہ کھولنا ہی سیکھ جائیں تو انہیں کامل یقین ہوجاتاہے کہ اب وہ ڈرائیونگ سیکھ گئی ہیں۔


جن خواتین کو ڈرائیونگ نہیں آتی وہ بھی چلتی گاڑی میں حتی المقدوراپنا احساس دلاتی رہتی ہیں۔بعض اوقات تو شوہر گاڑی ریورس کر رہا ہو تو ساتھ بیٹھی بیگم اچانک بیک مرر کا رخ اپنی طرف کر کے لپ اسٹک ٹھیک کرنے لگ جاتی ہے اور چیخ تب مارتی ہے جب آدھی گاڑی گندے نالے میں جاگرتی ہے۔کئی خواتین تو گھر سے گاڑی لے کے نکلیں تو گھر والے باقی شہر کی سلامتی کی دعا کرنے لگتے ہیں۔شادی شدہ خواتین کی ڈرائیونگ سب سے خطرناک ہوتی ہے ‘ یہ ٹریفک کے اشارے پر رک بھی جائیں توہینڈ بریک لگانے کی بجائے بیک گیئر لگا کے اطمینان سے ببل گم چباتی رہتی ہیں‘ نتیجتاً اشارہ کھلتے ہی فل ریس دیتی ہیں اور پیچھے کھڑا بیچارہ سکوٹر والا رگڑا جاتاہے‘سارا قصور اِن کا اپنا ہوتاہے لیکن اپنے پروں پہ پانی نہیں پڑنے دیتیں‘ الٹا غریب سکوٹر والے پر چڑھ دوڑتی ہیں’’بدتمیز‘ کمینے‘ شرم نہیں آتی خاتون کی گاڑی کے پیچھے سکوٹرلگاتے ہوئے‘‘۔ہماری ایک کولیگ بھی ایسے ہی گاڑی ڈرائیور کرتی تھیں اور ان کے گھر والے بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ ہماری بیٹی کئی دفعہ گاڑی صحیح سلامت بھی واپس لاچکی ہے‘ اس کے گھر والوں نے اس کے لیے خصوصی طور پر ایک ڈرائیور رکھا ہوا ہے جسے گاڑی تو نہیں چلانی آتی تاہم وہ بی بی جی کے ساتھ ضرور بیٹھتاہے تاکہ ہر وقوعے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرسکے۔

میں کئی ایسی خواتین کو جانتا ہوں جو ڈیڑھ سو میٹر کا سفر ہینڈ بریک کھینچے ہی طے کرجاتی ہیں اور واپسی پر اپنے مکینک کو فون کر کے پوچھ رہی ہوتی ہیں کہ ’’ابھی تو کل ٹیوننگ کروائی تھی پھر گاڑی اتنی بھاری کیوں ہوگئی ہے؟‘‘۔ایسی خواتین کو ہینڈ بریک نیچے کرنا اُس وقت یاد آتاہے جب ہینڈ بریک کھینچنے کی ضرورت پڑتی ہے۔مرد اگر گاڑی کا انجن آئل چینج کرائے تو تاریخ لکھ کر پاس رکھ لیتا ہے اور ہر وقت میٹر پر نظریں جمائے رکھتا ہے کہ دو ہزار کلومیٹر سے زیادہ نہ ہونے پائے ۔اس کے برعکس گاڑی اگر خاتون کے زیر استعمال ہو تو انجن آئل ختم ہونے کا پتا اُس وقت چلتا ہے جب خاتون بڑے جوش و خروش سے اپنے شوہر کو بتاتی ہے کہ ’’نعیم! وہ جو گاڑی کے میٹر پر ایک لائٹ کبھی نہیں جلتی تھی ناں اب وہ بھی دو تین ماہ سے بالکل ٹھیک جل رہی ہے۔‘‘ 
آپ نے بہت کم کسی خاتون کو اپنی گاڑی کاانجن آئل چینج کراتے دیکھا ہوگا‘ وجہ صرف یہ ہے کہ ایسا جب جب ہوا‘ گاڑی کرین کی مدد سے نکالنی پڑی۔خواتین کی گاڑی پنکچر ہوجائے تو یہ بھی قابل دید منظر ہوتاہے‘ یہ سانحہ اگر سڑک کے عین بیچ میں پیش آجائے تویہ اطمینان سے گاڑی وہیں کھڑی کرکے گھر فون کر دیتی ہیں کہ ’’شہباز گاڑی پنکچر ہوگئی ہے ذرا فارغ ہوکے آجاؤ‘‘۔اس دوران خواہ بدترین ٹریفک جام ہوجائے یہ اطمینان سے گاڑی کے اندر بیٹھی مختلف بٹنوں کو چھیڑتی رہتی ہیں کہ شائد کوئی بٹن دبانے سے خودبخودپنکچر لگ جائے۔گاڑی کا ٹائر بدلنا بھی خواتین پر ختم ہے‘ اول تو یہ خود ٹائر بدلنے کی بجائے راہ چلتے کسی بندے سے فرمائش کرتی ہیں لیکن اگر اپنے زوربازو پر ’’جیک اور پانا‘‘ نکال بھی لیں تو پہلے ٹائر کے نٹ ڈھیلے کرنے کی بجائے جیک لگا کر گاڑی کو اوپر اٹھاتی ہیں اور پھر ٹائر کھولنے کی کوشش کرتی ہیں‘ نتیجتاً اکثر ٹائر کھولنے کے دوران خود بھی گھوم جاتی ہیں۔ یہ منظر بھی اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ خواتین ٹائر پنکچر ہونے پر ڈگی کی بجائے بونٹ کھول کر بیٹھی ہوتی ہیں۔ لڑکیاں عموماً آٹو گیئرگاڑی چلانا پسند کرتی ہیں اور پوری کوشش کرتی ہیں کہ سائڈ اور بیک مرر میں دیکھنے سے حتی الامکان پرہیز کریں۔کوئی لڑکی اگر گاڑی چلاتے ہوئے دائیں طرف کا انڈیکیٹر دے تو سمجھ جائیں کہ وہ بائیں طرف مڑنا چاہ رہی ہے۔انہیں دن کے وقت اوورٹیک کرتے ہوئے ’’ڈمر‘‘ دینا پڑ جائے توگاڑی کی پوری ہیڈ لائٹ آن کرلیتی ہیں‘ راستے میں اگرکوئی گاڑی کی ہیڈ لائٹس بندکرنے کا اشارہ کرے تو اُسے بیہودہ انسان تصور کرتے ہوئے گھور کر بڑبڑانے لگتی ہیں۔

میں نے ایک دفعہ سیکنڈ ہینڈ گاڑی خریدنی تھی جس کی مالکہ ایک خاتون تھی اور اس نے اشتہار میں لکھا تھا کہ اس کی گاڑی میں ’’پاور سٹیرنگ‘‘ ہے۔میں نے ٹرائی لینے کے لیے گاڑی سٹارٹ کی تو سٹیئرنگ کو دائیں طرف گھمانے کی کوشش میں میرا کندھا اتر گیا‘ میں نے بے بسی سے پوچھا کہ ’’محترمہ آپ نے تو کہا تھا کہ پاورسٹیئرنگ ہے‘‘۔۔۔اٹھلا کر بولیں’’ہاں تو کیا سٹیرنگ گھماتے ہوئے پاور نہیں لگ رہی؟؟؟‘‘

مرد کی گاڑی کے نیچے اگر کوئی آجائے تو وہ فوراً بریک لگا لیتا ہے جبکہ خواتین یہ سوچ کر پوری گاڑی اوپر سے گذاردیتی ہیں کہ کم بخت نیچے تو آہی گیا ہے اب بریک لگانے کا کیا فائدہ؟؟ایسی خواتین کی گاڑی کی ٹینکی پٹرول سے آدھی بھری بھی ہوئی ہو تو یہ اپنی دو انگلیوں سے میٹر پراس کا درمیانی فاصلہ ماپ کر پٹرول پمپ والے سے لڑنے لگتی ہیں کہ تین ہزار کا اتنا سا پٹرول کیوں ڈالا ہے؟ ان میں سے اکثر کے پاس لائسنس نہیں ہوتا‘ اور جن کے پاس ہوتا ہے ان کے پاس بھی نہیں ہوتا بلکہ گھر پڑا ہوتاہے۔خواتین کا کہنا ہے کہ وہ اگر گھر چلاسکتی ہیں تو گاڑی کیوں نہیں؟صحیح کہتی ہیں‘ اگرانہیں گھر میں بندے کا بیڑا غرق کرنے کا حق حاصل ہے تو سڑکوں پر کیوں نہیں۔خواتین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ پوری توجہ سے گاڑی چلائیں اور ڈرائیونگ کرتے ہوئے اِدھر اُدھر مت دیکھیں‘ اسی لیے ہر موڑ پر گاڑی پوری ذمہ داری سے کہیں نہ کہیں ٹھوک دیتی ہیں۔ اس کے باوجودخواتین کی ڈرائیونگ کے دو پہلو قابل تعریف ہیں۔ ایک یہ کہ مرد حضرات گرمی میں بغیر اے سی کی گاڑی چلا رہے ہوں تو ان کے ہاتھ مسلسل کچھ نہ کچھ کھجانے میں مصروف رہتے ہیں تاہم خواتین پورے تحمل سے روبوٹ بنی بیٹھی رہتی ہیں۔دوسرے یہ کہ خواتین کبھی تیز رفتاری کا مظاہرہ نہیں کرتیں‘ خود ہی سوچئے پہلے گیئر میں گاڑی زیادہ سے زیادہ کتنی تیز چل سکتی ہے؟؟؟ 

 

1 comments:

  1. well...nothing but shameful article..degrading the women of your own country. I wonder if there is any other nation in the world who publicizes their ladies' mistakes. Now there is a point in it, i ur ladies are in this worse condition, it is only the males' fault and on the whole, the fault of the government. and yes the progress of Pakistan is seeing drastic downfall, one of the important causes is this above article

    جواب دیںحذف کریں