ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

29 دسمبر، 2011

مال تمہاری ملکیت مگر وسائل معاشرے کی امانت





مال تمہاری ملکیت مگر وسائل معاشرے کی امانت


جرمنی ایک صنعتی ملک ہے جہاں دُنیا کی بہترین مصنوعات اور بڑے بڑے برانڈز مثلاً مرسیڈیز بینز، بی ایم ڈبلیو اور سیمنز پروڈکٹس بنتے ہیں۔ ایٹمی ری ایکٹر میں استعمال ہونے والے پمپ تو محض اس ملک کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بنتے ہیں۔ اس طرح کے ترقی یافتہ ملک کے بارے میں کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ وہاں لوگ کس طرح عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہونگے، کم از کم میرا خیال تو اُس وقت یہی تھا جب میں پہلی بار اپنی تعلیم کے سلسلے میں سعودیہ سے جرمنی جا رہا تھا۔



میں جس وقت ہمبرگ پہنچا تو وہاں پہلے سے موجود میرے دوست میرے استقبال کیلئے ایک ریسٹورنٹ میں دعوت کا پروگرام بنا چکے تھے۔ جس وقت ہم ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے اس وقت وہاں گاہک نا ہونے کے برابر اور اکثر میزیں خالی نظر آ رہی تھیں۔ ہمیں جو میز دی گئی اس کے اطراف میں ایک میز پر نوجوان میاں بیوی کھانا کھانے میں مشغول تھے ، اُن کے سامنے صرف ایک ڈش میں کھانا رکھا ہوا تھا جس کو وہ اپنی اپنی پلیٹ میں ڈال کر کھا رہے اور شاید دونوں کے سامنے ایک ایک گلاس جوس بھی رکھا ہوا نظر آ رہا تھا جس سے میں نے یہی اندازہ لگایا کہ بیچاروں کا رومانوی ماحول میں بیٹھ کر کھانا کھانے کوتو دل چاہ رہا ہوگا مگر جیب زیادہ اجازت نا دیتی ہو گی۔ ریسٹورنٹ میں ان کے علاوہ کچھ عمر رسیدہ خواتین نظر آ رہی تھیں۔


ہم سب کی بھوک اپنے عروج پر تھی اور اسی بھوک کا حساب لگاتے ہوئے میرے دوستوں نے کھانے کا فراخدلی سے آرڈر لکھوایا۔ ریسٹورنٹ میں گاہکوں کے نا ہونے کی وجہ سے ہمارا کھانے لگنے میں زیادہ وقت نا لگا اور ہم نے بھی کھانے میں خیر سے کوئی خاص دیر نا لگائی۔


پیسے ادا کر کے جب ہم جانے کیلئے اُٹھے تو ہماری پلیٹوں میں کم از کم ایک تہائی کھانا ابھی بھی بچا ہوا تھا۔ باہر جانے کیلئے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے ریسٹورنٹ میں موجود اُن بڑھیاؤں نے ہمیں آوازیں دینا شروع کر دیں۔ ہم نے مڑ کر دیکھا تو وہ ساری اپنی جگہ کھڑی ہو کر زور زور سے باتیں کر رہی تھیں اور ہم نے یہی اندازہ لگایا کہ اُنکا موضوع ہمارا ضرورت سے زیادہ کھانا طلب کرنا اور اس طرح بچا کر ضائع کرتے ہوئے جانا تھا۔ میرے دوست نے جواباً اُنہیں کہا کہ ہم نے جو کچھ آرڈر کیا تھا اُس کے پیسے ادا کر دیئے ہیں اور تمہاری اس پریشانی اور ایسے معاملے میں جس کا تم سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا میں دخل اندازی کرنا ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ ایک عورت یہ بات سُنتے ہی ٹیلیفون کی طرف لپکی اور کسی کو فوراً وہاں آنے کو کہا۔ ایسی صورتحال میں ہمارا وہاں سے جانا یا کھسک جانا ہمارے لیئے مزید مسائل کھڑے کر سکتا تھا اس لئے ہم وہیں ٹھہرے رہے۔


کچھ ہی دیر میں وہاں ایک باوردی شخص آیا جس نے اپنا تعارف ہمیں سوشل سیکیوریٹی محکمہ کے ایک افسر کی حیثیت سے کرایا۔ صورتحال کو دیکھ اور سن کر اُس نے ہم پر پچاس فرانک کا جرما نہ عائد کر۔ اس دوران ہم چپ چاپ کھڑے رہے۔ میرے دوست نے آفیسر سے معذرت کرتے ہوئے پچاس فرانک جرمانہ ادا کیا اور اس نے ایک رسید بنا کر میرے دوست کو تھما دی۔


آفیسر نے جرمانہ وصول کرنے کے بعد شدید لہجے میں ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ : آئندہ جب بھی کھانا طلب کرو تو اُتنا ہی منگواؤ جتنا تم کھا سکتے ہو۔ تمہارے پیسے تمہاری ملکیت ضرور ہیں مگر وسائل معاشرے کی امانت ہیں۔ اس دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے بھی ہیں جو غذائی کمی کا شکار ہیں۔ تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ تم کھانے پینے کی اشیاء کو اس طرح ضائع کرتے پھرو۔


بے عزتی کے احساس اور شرمساری سے ہمارے چہرے سرخ ہورہے تھے۔ ہمارے پاس اُس آفیسر کی بات کو سننے اور اس سے اتفاق کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ ذہنی طور پر ہر اُس بات کے قائل ہو چکے تھے جو اُس نے ہمیں کہی تھیں۔ مگر کیا کریں ہم لوگ ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جو وسائل کے معاملے میں تو خود کفیل نہیں ہے مگر ہماری عادتیں کچھ اس طرح کی بن گئی ہیں کہ ہمارے پاس کوئی مہمان آ جائے تو اپنا منہ رکھنے کیلئے یا اپنی جھوٹی عزت یا خود ساختہ اور فرسودہ روایات کی پاسداری خاطر دستر خوان پر کھانے کا ڈھیر لگا دیں گے۔ نتیجتاً بہت سا ایسا کھانا کوڑے کے ڈھیر کی نظر ہوجاتا ہے جس کے حصول کیلیئے کئی دوسرے ترس رہے ہوتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنی ان بری عادتوں کو تبدیل کریں اور نعمتوں کا اس طرح ضیاع اور انکا اس طرح سے کفران نا کریں۔


ریسٹورنٹ سے باہر نکل کر میرے دوست نے سامنے کی ایک دکان سے جرمانے کی رسید کی فوٹو کاپیاں بنوا کر ہم سب کو اس واقعہ کی یادگار کے طور پر دیں تاکہ ہم گھر جا کر اسے نمایاں طور پر کہیں آویزاں کریں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ

آئندہ کبھی بھی اس طرح کا اسراف نہیں کریں گے۔
جی ہاں! آپکا مال یقیناً آپکی مِلکیت ہے مگر وسائل سارے معاشرے کیلئے ہیں۔







اقوامِ متحدہ کی جانب سے کرائی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ دنیا میں ہر سال تیار کی جانے والی ایک تہائی خوراک ضائع ہوجاتی ہے۔ 
تحقیق کے مطابق، ہر سال ضائع ہونے والی خوراک کا وزن تقریباً ایک ارب ٹن ہوتا ہے۔

دوسری جانب دنیا غذائی قلت کا شکار ہے. سینکڑوں افراد روزانہ غذائی قلت کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن رہے ہیں








(¯`v´¯)`•.¸.•´`•.¸.¸¸.•*¨¨*•.¸¸❤`•.¸.¸¸.•*❤ ❤`•.¸.¸¸.•*❤
♥♥.....Join Us on facebook............. *• ♥♥♥♥♥♥
❤ http://www.facebook.com/wakeup.muslimz ❤



27 دسمبر، 2011

یہ آم ہے :-)




یہ آم ہے ۔۔۔

بعض ایسے پھل بھی ہیں جنہیں ہم دیکھ تو سکتے ہیں لیکن کھا نہیں سکتے۔ اس لئے کہ پھلوں تک پہنچنے اور ان پھلوں کو اپنے پیٹ کے اندر پہنچانے کے لئے آدمی کو اپنے بنک بیلنس کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ انسانوں نے پھلوں کی بھی طبقہ واری تقسیم کر رکھی ہے۔ امیروں کے پھل ، غریبوں کے پھل اور متوسط طبقہ کے لئے صبر اور نیکی کا پھل۔

آئیے کچھ پھلوں کا فرداً فرداً ذکر ہو جائے۔ سب سے پہلے ہم "آم" کا ذکر کریں گے۔ اسے ہم لوگوں نے پھلوں کا بادشاہ بنا رکھا ہے۔ آم خالص ہندوستانی پھل ہے اسلئے اس کی بیشمار قسمیں ہیں۔ عورت اور سانپ کی بھی اتنی قسمیں نہیں ہوتیں جتنی کہ آم کی ہوتی ہیں۔ امیر اور غریب ، مزدور اور سرمایہ دار ، شاعر اور فنکار ، افسر اور ماتحت ، غرض کہ ہر کوئی اس پھل کا رسیا ہے۔

آموں کے کئی نام ہوتے ہیں۔ بعض نام اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ ان پر تخلص کا گمان ہوتا ہے۔ انسانوں کی طرح آموں کی صورت اور سیرت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ آم کی صورت جتنی اچھی ہوگی اس کی سیرت اتنا ہی دھوکا دے گی۔
 

کچھ لوگوں کا شوق آم کھانا ہوتا ہے اور کچھ لوگوں کا شوق دوسروں کو آم کھاتے ہوئے دیکھنا ہوتا ہے۔ ہمارا شمار موخرالذکر انسانوں کے زمرے میں آتا ہے۔ بلکہ ہمارا تو خیال یہ ہے کہ آم کھانے میں اتنا مزہ نہیں آتا جتنا کہ کسی کو آم کھاتے ہوئے دیکھنے میں آتا ہے۔ آدمی جب آم کھاتا ہے تو اس کی شکل دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ خوبرو سے خوبرو آدمی بھی جب آم کھاتا ہے تو بدصورت دکھائی دینے لگتا ہے۔ آدمی ہر موقع کی تصویر کھنچواتا ہے لیکن ہم نے کسی کو آج تک آم کھاتے وقت تصویر کھنچواتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آم کی ساخت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ اسے کھانے کے لئے آدمی کو اپنی شکل بگاڑنی پڑتی ہے۔ آم جتنا بڑا ہوگا آدمی کی شکل اتنی ہی بگڑے گی۔ اگر آم بڑا نہ ہو اور اس کے ذائقہ میں کھٹائی شامل ہو تو یہ ذائقہ آدمی کے چہرے پر عیاں ہو جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے آدمی آم نہ کھا رہا ہو ، ارنڈی کا تیل پی رہا ہو۔
 

کچھ لوگ زندگی کے بارے میں اتنی معلومات نہیں رکھتے جتنی کہ آموں کے بارے میں رکھتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست جب بھی آم کھلاتے ہیں تو ہر آم کی خصوصیت پہلے ہی بتا دیتے ہیں۔ اس کا شجرہ بھی بیان فرما دیتے ہیں۔ آم تو چھوٹا ہوتا ہے لیکن اس کا تعارف بڑا ہوتا ہے یعنی ڈاڑھی سے مونچھیں بڑی ہوتی ہیں۔ چنانچہ جب بھی ہم ان کے ساتھ آم کھاتے ہیں تو پیٹ آموں سے اور دماغ معلومات سے بھر جاتا ہے۔
 

آموں کو آم کے باغ میں کھانے کا جو لطف آتا ہے ، وہ ڈائیننگ ٹیبل پر کھانے میں نہیں آتا۔ جب ہم بچے تھے تو آم کے باغ میں ہی آم کھایا کرتے تھے ، باغ کسی اور کا ہوتا تھا لیکن آم ہمارے ہوتے تھے۔ مطلوبہ آم کو تاک کر اس طرح پتھر مارتے تھے کہ آم سیدھے نیچے آ رہتا تھا۔ یہ بچپن کا ریاض ہی ہے کہ آج تک ہمارا نشانہ خطا نہیں ہوتا۔
آم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے باعث ہمارے اہل وطن میں وطن پرستی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ایک دوست پچھلے چار برس سے امریکہ میں رہتے ہیں۔ آم کے ہر موسم میں وہ ہمیں خط لکھ کر اپنے وطن کو شدت سے یاد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آم جیسا پھل ہندوستان میں پیدا نہ ہوتا تو انہیں اپنا وطن ہرگز یاد نہ آتا۔ پچھلے سال ہم نے اپنے ایک دوست کے ذریعے ان کی خدمت میں 6 آم بھیجے تھے۔ موصوف نے ہمیں شکریہ کے 6 خط لکھے اور اپنے وطن کو شدت سے یاد کیا۔

(کچھ پھلوں کے بارے میں :: مجتبیٰ حسین)



(¯`v´¯) `•.¸.•´`•.¸.¸¸.•*¨¨*•.¸¸❤`•.¸.¸¸.•*❤ ❤`•.¸.¸¸.•*❤
♥♥.....Join Us on facebook............. *• ♥♥♥♥♥♥
❤ http://www.facebook.com/wakeup.muslimz ❤

22 دسمبر، 2011

نا اُمید مت ہوں یہ دنیا فانی ہے



نا اُمید مت ہوں
یہ دنیا فانی ہے
♦♦♦♦♦♦

اور جب میں نے دسویں منزل سے چھلانگ لگائی
میری تو ساری زندگی ہی غموں اور دکھوں سے بھری تھی
کوئی حل بھی تو نظر نہیں آتے تھے

بس خود کشی کا ہی ایک راستہ باقی تھا

چھلانگ لگاؤں یا نہ لگاؤں؟

اور پھر میں نے واقعی چھلانگ لگا دی۔

 
یہ نویں منزل ہے۔
 ارے یہ تو وہ دونوں میاں بیوی ہیں
جن کی آپس کی محبت اور خوشیوں بھری زندگی
کی ہماری بلڈنگ میں مثال دی جاتی تھی۔
(یہ تو آپس میں لڑ رہے ہیں)
اس طرح تو یہ کبھی خوش و خرم نہیں تھے
♦♦♦♦♦♦

 
یہ آٹھویں منزل ہے۔
 
 یہ تو ہماری بلڈنگ کا مشہور ہنس مکھ نوجوان ہے
جو روتے لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کر دیتا تھا۔
یہ تو خود بیٹھا رو رہا ہے۔۔۔
♦♦♦♦♦♦

 
یہ ساتویں منزل ہے۔
 کیا یہ ہماری بلڈنگ کی وہ عورت نہیں
جو اپنی شوخی، چنچل طبیعت اور چستی و چالاکی کی وجہ سے مشہور تھی۔
یہ تو اسکا مختلف رخ دکھائی دے رہا ہے۔
اتنی ساری دوائیں؟
یہ تو دوائیوں کے سہارے زندہ تھی۔
بیچاری اتنی زیادہ بیمار تھی کیا؟
♦♦♦♦♦♦

 
یہ چھٹی منزل ہے۔
 یہ تو ہمارا انجینیئر ہمسایہ لگتا ہے۔
بیچارے نے پانچ سال پہلے انجیئرنگ مکمل کی تھی،
اور تب سے روزانہ اخبار خرید کر ملازمت
کیلئے اشتہارات دیکھتا رہتا ہے۔
♦♦♦♦♦♦

 
یہ پانچویں منزل ہے۔
 یہ ہمارا بوڑھا ہمسایہ ہے۔
بیچارہ انتظار میں ہی رہتا ہے کہ کوئی آ کر اسکا حال ہی پوچھ لے۔
اپنے شادی شدہ بیٹے اور بیٹیوں کا بس انتظار ہی کرتا رہتا ہے۔
لیکن کبھی بھی کسی نے اس کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔
بیچارہ کتنا اداس دکھائی دے رہا ہے۔
♦♦♦♦♦♦

 
یہ چوتھی منزل ہے۔
 ارے یہ تو ہماری وہ خوبصورت اور ہنستی مسکراتی ہمسائی ہے!
بیچاری کے خاوند کو مرے ہوئے ہوئے تین سال ہو گئے ہیں۔
سب لوگ تو یہی سمجھ رہے تھے کہ اسکے زخم مندمل ہو چکے۔
مگر یہ تو ابھی بھی اپنے مرحوم خاوند کی تصویر اٹھائے رو رہی ہے۔
♦♦♦♦♦♦

دسویں منزل سے کودنے سے پہلے تو میں نے یہی سمجھا تھا
کہ میں ہی اس دنیا کی سب سے غمگین اور اداس شخص ہوں

یہ تو مجھے اب پتہ چلا ہے کہ یہاں ہر کسی کے اپنے مسائل اور اپنی پریشانیاں ہیں۔

اور جو کچھ میں نے ملاحظہ کیا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے
کہ میرے مسائل تو اتنے گمبھیر بھی نہ تھے۔

 کودنے کے بعد زمین کی طرف آتے ہوئے، جن لوگوں کو میں دیکھتے
ہوئے آئی تھی وہ اب مجھے دیکھ رہے ہیں۔
 

◊◊◊◊◊◊
کاش ہر شخص یہی سوچ لے کہ دوسروں پر پڑی ہوئی مصیبتیں اور پریشانیاں
اُن مصیبتوں اور پریشانیوں سے کہیں زیادہ اور بڑی ہیں جن سے وہ گزر رہا ہے

تو وہ کس قدر خوشی سے اپنی زندگی گزارے۔
اور ہمیشہ اپنے رب کا شکر گزار رہے۔
 
◊◊◊◊◊◊
میرے پیارے دوست: مایوس نہ ہوا کریں، یہ دنیا فانی ہے۔
اس دنیا میں موجود ہر شئے اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر کی حیثیت بھی نہیں رکھتی۔

اور جان لیجیئے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
♥♥♥♥♥♥






(¯`v´¯) 
 `•.¸.•´`•.¸.¸¸.•*¨¨*•.¸¸❤`•.¸.¸¸.•*❤ ❤`•.¸.¸¸.•*❤ ♥♥
.....Join Us on facebook............. *• ♥♥♥♥♥♥ 

21 دسمبر، 2011

پھر تورابورا کس کا بنا؟

سرسبزوشاداب گھاس اور بڑے بڑے درختوں کے سائے تلے دور تک پھیلے ہوے قبروں کے کتبے ہیں جن پر صلیب کے نشانات بنے ہوئے ہیں. اکثر پر امریکی پرچم بھی پینٹ کیا ہوا ہے. یہ امریکہ کا قومی قبرستان آرلنگٹن ہے جس کے درختوں پر اس وقت خزاں کی آمد آمد ہے اور پتے زردی مائل سرخ ہو چکے ہیں. ان قبروں پر مرنے والوں کی آرمی یونٹ کا نام، ان کی جوان عمری کی موت کا ثبوت وہ تاریخ پیدائش ہے جو وہاں درج ہے، یہاں وہ مقام بھی لکھا ہے جہاں ان کی موت واقہ ہوئی. یہ مقام انتقال یا تو افغانستان ہے یا عراق. چند دن پہلے پورے امریکہ کے اخباروں میں ایک تصویر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی. لمبے کالے اوور کوٹ اور کالی پنٹ میں ملبوس امریکہ کا پہلا سیاہ فام صدر اوباما افسردہ چہرہ لیے ان قبروں کے درمیان سے گزر رہا ہے. 

جب وہ اس قبرستان پہونچا تو اس کے ارد گرد وہ کئی سو عورتیں اور بچے بھی جمع ہو گئے جو اپنے پیاروں کی یاد میں آنسو بہانے قبرستان آئے ہوئے تھے. اس کی دوسری تصویر ڈوور ائیر بیس کی ہے جہاں وہ ان سپاہیوں کے تابوت وصول کرنے پہونچا جن کی لاشیں افغانستان سے وہاں لائی گئی تھیں.

اس نے روتے ہوے ان لوگوں کو ناکام تسلی بھی دی. اس کے بعد افغانستان وار کونسل کے اجلاس کی رپورٹوں کی تجاویز میں اسے واضح بتایا گیا کہ افغانستان میں ہم جنگ ہار چکے ہیں اور جیتنے کا خواب بھی نہی دیکھا جا سکتا.


اس واحد عالمی طاقت کے مقابلے میں دو نہتے اور بے سروسامان ممالک کے شہریوں نے جو عزیمت کی داستان رقم کی ہے وہ حیران کن ہے.


نہتے، بے سروساماں دیوانوں اور فرزانوں کی فتح اور پوری ترقی یافتہ عالمی اتحاد کی ذلت آمیز شکست کی اس نوید کے ساتھ ایک اور کہانی بھی ہے. بزدلوں، بے ضمیروں اور غیرت و حمیت کا سودا کرنے والوں کی داستان.


وہ حکمران جن کا ذاتی مفاد امریکہ سے وابستہ تھا اور انہوں نے اپنی پوری قوم کو بیچ ڈالا. ان سیاستدانوں کی کہانی ہے جو اپنی بے ضمیری کا درس اس ملک کے میڈیا پر آ کر دیتے تھے کہ اگر ہم اپنی غیرت کا سودا نہ کرتے تو ہمارا تورابورا بنا دیا جاتا. ہم پتھر کے زمانے کی طرف لوٹ جاتے. ان دانشوروں، ادیبوں، صحافیوں کا قصہ ہے جن کے دلوں میں پلتا خوف اور جن کے ضمیروں پر پردہ ڈالے مفادات انھیں مجبور کرتے رہے کہ قوم کو عالمی اقتصادیات، امریکی طاقت اور اپنی مجبوریوں کے قصے ایسے سنائیں کہ پوری قوم بےغیرتی کا لبادہ اوڑھ لے. یہ سب اور ان کے دلوں میں بسنے والا "عظیم" فوجی ڈکٹیٹر جو آج کل اس ملک کو تباہی سے دوچار کر کے دیار غیر میں بسا ہوا ہے، سب کے سب منتیں کر رہے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے چلا گیا تو یہاں کا امن خطرے میں پڑ جاۓ گا.


امریکہ نے تو جانا ہے اور اسے اقتدار طالبان کو ہی دے کر جانا ہے ورنہ اسے نکلتے ہوئے کئی گنا لاشیں اٹھانا ہوں گی.
ایسے میں یہ سب کیا منہ دکھائیں گے کہ ہم وہی ہیں جو تمیں پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرتے تھے، ہم نے تمھارے سفیر کو بھی عالمی آداب کے خلاف امریکہ کے ہاتھوں بیچ ڈالا، ہماری زمین تمہاری بستیاں اجاڑنے کے کام آتی رہی. خیر یہ سب تو دوسرے ملک کا مسئلہ ہے ڈرو اس دن سے جب لوگ ان حکمرانوں، سیاستدانوں اور دانشوروں کا گریبان تھام کر سوال کریں گے بتاؤ کیا ہمارا تورابورا بنا ہے یا کہ نہی. ہم پر ڈرون حملے ہوئے، ہمارا ہر شہر اور ہر قصبہ خون میں نہلایا گیا ہے. ہم تو اس بدنصیب قوم میں شمار ہو گئے جس میں مارنے والا بھی الله اکبر کہتا ہےاور مرنے والا بھی.. 

کاش ہم اس لمحے تمہاری بات نہ مانتے، غیرت، حمیت اور عزت و وقار کا فیصلہ کرتے، ہم مرتے لیکن ہمیں ایک یقین ہوتا کہ ہم جسے مارنے جا رہے ہیں وہ الله اکبر نہی کہتا. ہمیں موت سے پہلے یہ یقین ہوتا کہ ہم حق کی موت مر رہے ہیں.



15 دسمبر، 2011

lies of my mother




This story begins when I was a kid: I was born poor. Many times there was not enough to eat. Whenever we had some food, Mother often gave me her portion of rice. While she was transferring her rice on my plate, I said "Eat this rice, son! I have no hungry." This was the first lie of the Mother.

As I grew, Mother gave up their free time to fish in a river near our house and hoped that from the fish she caught, she could give me a little more nutritious food for my growth. Once she had caught just two fish, she would make fish soup. While eating soup, mother would sit beside me and eat what was left in the bone of the fish they had eaten, my heart was touched when I saw it. Once I gave the other fish to her on my stick but immediately refused and said, "Eat this fish, son!" I do not like fish. " This was Mother's second lie.

Then, in order to finance my education, mother went to a match factory to bring home some used matchboxes which is filled with fresh matches. . This helped her get some money to cover our needs. One winter night I awoke to find Mother filling the matchboxes by candlelight. So I said, "Mom, go to sleep, it's late: you can continue working tomorrow morning." Mother smiled and said, "Go to sleep, son! I'm not tired." This was Mother's Third Lie.

When I had to sit my final exam, the mother accompanied me .. After dawn, Mother waited for me for hours in the hot sun. When the bell rang, I ran to meet him .. My mother embraced me and poured me a glass of tea that had been prepared in a thermos. The tea was not as strong as the love of my mother, seeing her mother covered in sweat, I once gave him and asked for a glass of drinking too much. Mother said "Drink, son! I have no thirst!". This was Mother's Fourth Lie.

After the death of the father, the mother had to play the role of a single mother. She clung to his earlier work, he had to fund our needs alone. Our family life was more complicated. We suffered from hunger. Seeing our family condition worsens, my kind Uncle who lived near my house came to help us solve our problems big and small. Our other neighbors saw that we were living in poverty so often advised my mother to remarry. But the mother refused to remarry saying "I do not need the love .." This was my Mother's Fifth lie

When I finished my studies and got a job, it was time for my old mother to retire but who had to go to the market every morning to sell a few vegetables. I kept sending her money but she was adamant and even sent money to me. She said: "I have enough money." That was Mother's Sixth Lie.

I continued my studies part time for my Masters. America funded by the Corporation for which I worked, I got my education. With a big jump in my salary, I decided to bring Mother to enjoy life in America, but his mother did not want to bother your child, she said: "I'm not used to living high." That was Mother's Seventh Lie.

In his dotage, Mother was attacked by cancer and had to be hospitalized. Now living across the sea, I went home to visit her mother who was bedridden after an operation. Mother tried to smile, but I was heartbroken because he was very thin and weak, but said the mother, "Do not cry, son!" I'm not in pain. " That was Mother's Eighth Lie.
He says this, her eighth lie, she died. Yes, mother was an angel!




To Read this story in Urdu Click Here




like us on facebook


http://www.facebook.com/wakeup.muslimz

14 دسمبر، 2011

Grapes and wine

In his book about Shawam (People of Sham: Syria & Lebanon), Professor Adil Abu Shanab tells the story of an Arab Sheikh who got into a discussion with one of the French Occupation Officers during the French occupation of Syria.

The French Officer invited some Syrian dignitaries to a dinner. One of the invitees was an old Sheikh with his white beard. When the French officer saw the old Sheikh eating with his fingers, he asked the old Sheikh:

"Why are you not eating like us?".

At which the Sheik replied:
"Do you see me eating with my nose?"

The French officer replied:
"I mean, why don't you use a fork and knife?"

The Sheikh replied"
"I am sure of the cleanliness of my hand, but are you sure of the cleanliness of
your fork and knife?"

This made the French officer silent, but he made up his mind to get vengeance on the old Sheikh. At the fiest, the wife of the French officer was sitting to his right, and daughter to his left. The French officer, to spite the man of God, asked for wine to be brought, and proceeded to pour for himself, his wife and daughter, and proceeded do drink in a way to annoy the Sheikh.

He asked him:
"Listen O Sheikh, you like grapes, and eat them, don't you?"

At which the Sheikh replied in the affirmative.

The French officer continued talking, pointing towards the grapes, hoping to beat the old Sheikh:
"This drink is from these grapes, so why do you eat the grapes, but keep far from the wine?"

All the guests looked at the old Sheikh, (feeling that he would have no reply for this).

The Sheikh, calmly replied:
"This is your Wife, and this, your Daughter, is from her. So how is it that your Wife is legitimate for you but your Daughter is not?"
It is said that the French officer immediately ordered for the wine to be removed from the table.


▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬
Read this story in urdu
اس واقعہ کو اردو میں پڑھیں

http://www.facebook.com/photo.php?fbid=192844097472666&set=a.136923543064722.31304.131796530244090&type=1&ref=nf


Read in Arabic
http://www.facebook.com/photo.php?fbid=192894337467642&set=a.136923543064722.31304.131796530244090&type=1&theater

▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬

Tags:

grapes, wine halal, haram, sheikh, islamic, muslim.

9 دسمبر، 2011

شیر اور بندر کی کہانی





جنگل کے جانور شير کے آئے دن کہ شکار سے پريشان ہوگئے تو ايک دن جمع ہوئے اور فيصلہ کيا کے بندر کو نيا بادشاہ بنا ديا جائے تا کہ شير کي بد معاشي سے جان چھڑائي جا سکے اور شير کو سبق بھي ملے کہ رعايا کے ساتھ ظلم کر نے کا کيا نتيجہ ہو سکتا ہے،بل آخر بندر بادشاہ بن گيا شير کو اس بغاوت کي خبر ملي تو اُس نے جانوروں کو پيغام بھيجا کے اب اُن کے بچوں کي خير نہيں،اور پہلا شکار خرگوش ہونگے، يہ خبر سنتے ہي خرگوش نو منتخب بادشاہ بندر کے پاس فرياد لے کر پہنچا اور کہا کے شير نے اُس کے بچے کھانے کي دھمکي دي ہے شير کو فورا گرفتار کيا جائے۔

بندر يہ سُن کے بہت اچھلا کبھي اس ڈال پر کبھي اُس ڈال پر اُس کي اُو اُو آ آ آ سے جنگل گونج اُٹھا کافي دير بعد بندر سکون ميں آيا اور شاہانہ انداز ميں بولا جنگل کي سالميت پر حملہ برداشت نہيں کيا جائے گا، جانوروں کي ہر ممکن حفاظت کي جائے گي جاؤ شير تمھارے بچوں کو نہيں کھائے گا ، ايک دن بعد خرگوش پھر حاضر ہوا اور کہا بادشاہ سلامت شير ميرے 2 بچوں کو کھا گيا کل پھر آئے گا پليز کچھ ايکشن ليں بندر پھر اُو اُو آآآ کر کے خوب دوڑ لگانے لگا اور پھرکہا، کسي کو جنگل کے اندر کارروائي کي اجازت نہيں ديں گے،جنگل ميں جانوروں کي سلامتي اور خودمختاري پر کوئي سمجھوتہ نہيں کيا جائے گا شير کے خلاف سخت ايکشن ليا جائے گا تم فکر نہ کرو شير اب نہيں آئے گا ۔

اگلے روز خرگوش غصہ ميں بندر کے پاس آيا اور کہا تم بادشاہ بننے کے لائق نہيں شير ميرے سارے بچے مار گيا تم نے کچھ نہيں کيا. بندر بہت معصوميت سے بولا ميں نے تو اپني طرف سے پوري بھاگ دوڑ کي تھي ۔


اب اس سے آگے کیا سناؤں، آگے آپ خود سمجھدار ہیں.


سات سال سے جاري 350 سے زائد ڈرون حملوں کے علاوہ امریکی اور نیٹو افواج کی جانب سے پاکستانی سرحدوں کی چھ مرتبہ خلاف ورزی کي گئي۔ ليکن ہم نے اس بندر جيسي بھاگ دوڑ بھي نہيں کي پہلی مرتبہ 11جون2008ء کو مہمند ایجنسی پرحملہ کیا گیا، پھر3ستمبر2008ء کو جنوبی وزیرستان میں حملہ کیا گیا۔ 2مئی2011ء کو اسامہ بن لادن کو مارنے کیلئے نیٹو ہیلی کاپٹرز ايبٹ آباد ميں داخل ہوگئے،اُسی مہینے کی 12تاریخ کو ایک دفع پھر حملہ کیا گیااگست 2011ء میں بھی ایک حملہ کیا گیا۔ لیکن عالمی دباؤ کے ڈر سے ہماری قیادت خاموش رہ گئی اور اے پي سي پر ہي اکتفا کيا، 26نومبر2011ء کی صبح مہمند ایجنسی میں پاک افغان سرحد پر واقع پاک آرمی کے سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے حملے میں پاک آرمی کے 26جوانوں کي شہادت ہوئي۔


پاکستان جب سے امریکہ کی جنگ میں شامل ہوا ہے، اس جنگ ميں چالیس ہزار پاکستانی شہری اور ڈھائی ہزار سے ذیادہ فوجی جوان شہید ہوئے، ڈرون حملوں میں تين ہزار سے زائد بے گناہ پاکستانی لوگ شہید ہوے۔ ہماری معیشت کو 70 ارب ڈالر سے ذیادہ کا نقصان ہوچکا ہے۔ ہمارے معاشی ، سیاسی، تعلیمی، سماجی شعبے کي زبوں حالي سب پر عياں ہيں،شاہ محمود قریشی نے بہت پتے کي بات کہی کہ ہم نے تین کی پروا نہیں کی تو اُنہوں نے 26 کو مار دیا،اب اگر ہم 26کی پروا نہیں کرینگے تو وہ کل48 کو بھی مار سکتے ہیں۔


7 سال سے جاري ڈرون حملوں ميں معصوم شہري نشانہ بنتے رہے ليکن BLOODY PUBLIC کي اس آہو بکا پر مذمت برائے مذمت تنبيہہ برائے تنبيہہ کي پاليسي پر عمل ہوتا رہا اور ہوتا بھي کيوں نہيں آخر دنيا کے مسيحائوں کو دہشت گردي سے نجات کے ليئے اپنے ائير بيسس جو دے رکھے ہيں ضرورت اس امر کي ہے کہ ہماري سياسي اور عسکري قيادت نے قومي وقار اور ملکي سالميت کے تحفظ کا جو حلف اُٹھايا ہے اُس پر عمل کر کے پاکستاني قوم کي شرمندگي کو ہميشہ کے ليئے ختم کريں، بندر اپنے اختيارات کا صحيح استعمال اور اپني ذمہ داري کا احساس کرتا تو شيرخرگوش کے بچوں کو نشانہ نہ بناتا ليکن وہ اپني اُچھل کود کو اپني ذمہ داري سمجھتا رہا۔



Join us on facebook


http://www.facebook.com/wakeup.muslimz

وہ بھولا بسرا شخص!






وہ بھولا بسرا شخص!

نقش خیال…عرفان صدیقی


ریمنڈ ڈیوس کے سفارتی استثنیٰ کا قضیہ کھڑا ہونے سے کوئی دس سال پہلے کی بات ہے۔ یہاں میرے شہر اسلام آباد میں ایک سفیر رہتا تھا۔ اس کا نام ملا عبدالسلام ضعیف تھا۔ ایک آزاد وخود مختار ملک کا سفیر ہونے کے ناتے اسے بین الاقوامی قوانین، ضابطوں اور معاہدوں کے مطابق مکمل استثنیٰ حاصل تھا۔ اس پر کیا بیتی؟ ہم بھول گئے ہیں۔ آئیے! آج بحث مباحثوں ، تجزیوں اور تبصروں سے ہٹ کر بھولے بسرے عبدالسلام ضعیف کی آپ بیتی کا ایک ورق، خود اس کی زبانی سنتے ہیں۔

”جنوری 2002ء کی دو تاریخ تھی۔ صبح کو میں اپنے گھر کے اندر گھرانے کے دیگر افراد سے معمول کی گپ شپ میں مصروف تھا۔ یہ کوئی صبح آٹھ بجے کا وقت تھا۔ میرے گھر کی سیکورٹی پر مامور افراد نے خبر دی کہ چند پاکستانی افراد، جو خود کو حکومتی اہلکار بتاتے ہیں، مجھے ملنے آئے ہیں۔ میں فوراً مہمان خانے میں آیا جہاں تین پاکستانی افراد بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک ، جس کی ظاہری شکل سے ہی نفرت اور تعصب کا اظہار ہورہا تھا اور وہ انتہائی بدشکل بھی تھا کہنے لگا۔“

Excellency! You are no more excellency
”عزت مآب ! اب آپ عزت مآب نہیں رہے“ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔“ آپ جانتے ہیں کہ امریکہ اس وقت ایک سپرپاور ہے۔ پاکستان جیسا کمزور ملک اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کی بات ماننے سے انکار کرسکتا ہے۔ اس سپر پاور کو آپ کی ضرورت ہے تاکہ وہ آپ سے کچھ تحقیقات کرسکے“۔ میں نے جواب میں اس سے کہا ”آپ کی یہ بات درست ہے امریکہ ایک سپر پاور ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے معاملات چلانے کیلئے کچھ مسلمہ قوانین اور اصول موجود ہیں۔ آپ کن اسلامی ، غیراسلامی یا بین الاقوامی اصولوں کے تحت یہ سلوک کررہے ہیں؟ کن قوانین کے تحت آپ مجھے امریکہ کے حوالے کرنے پر مجبور ہیں؟ آپ صرف یہ حق رکھتے ہیں کہ مقررہ وقت کے اندر مجھے پاکستان چھوڑنے کا کہہ دیں۔“


12بجے تک مجھے گھر ہی میں رہنے کا حکم دیا گیا۔ چاروں طرف سے میرے گھر کا محاصرہ کرلیا گیا۔ باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ میں نے پاکستانی وزارت خارجہ کو فون کیا لیکن وہاں کے ذمہ داروں نے کوئی جواب دینے سے گریز بہتر سمجھا۔ گھر سے کہیں اور منتقل کرنے سے پہلے ان اہلکاروں نے بتایا ”ہم آپ کو پشاور منتقل کررہے ہیں، وہاں آپ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ صرف امریکی آپ سے تحقیقات کریں گے۔“ یاد رہے کہ اس وقت میرے پاس دس مہینے کا پاکستانی ویزا موجود تھا اور خارجہ امور کا وہ رسمی خط بھی جس میں مذکور تھا کہ اس خط کا حامل اس وقت تک پاکستان میں رہ سکتا ہے جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوجاتا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کا یہ خط بھی موجود تھا کہ یہ ایک اہم شخصیت ہے جس کے ساتھ احترام کا سلوک کیا جائے۔

سوا بارہ بجے تین گاڑیاں میری رہائش گاہ کے سامنے آکر رکیں ۔ تمام راستے بند کردیئے گئے۔ کسی صحافی کو بھی قریب نہ آنے دیا گیا تاکہ وہ پاکستانی حکومت کے اس شرمناک عمل کے مناظر فلما کر دنیا کو ، خاص کر مسلمانوں کو دکھا نہ سکیں۔ میں اس حال میں گھر سے نکلا کہ میرے بچے چیخیں مار مار کر رو رہے تھے۔ انسانی حقوق ، بین الاقوامی ضابطے، جمہوری اقدار اور میرے سفارتی حقوق ، سب کچھ پاؤں تلے روندا جارہا تھا۔ میں ان کے ساتھ گھر سے نکل کر، شدید احساس بے بسی کے ساتھ ان پاکستانی بھائیوں کی گاڑی میں بیٹھ گیا جو اپنے آپ کو خالص مسلمان اور ہمارے بھائی باور کرارہے تھے۔ سیکورٹی والی ایک گاڑی آگے اور ایک ہمارے پیچھے آرہی تھی۔ سیاہ شیشوں والی گاڑی سے باہر مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ کچھ اہلکار بھی میرے ساتھ بیٹھے تھے۔ تمام راستے گاڑی میں لگے ٹیپ ریکارڈر سے اردو گانے بجائے جارہے تھے۔ نماز قضا ہورہی تھی۔ میں نے بار بار تقاضا کیا لیکن اجازت نہ ملی۔

پشاور پہنچ کر ایک دفتر میں داخل ہوئے۔ مجھے ایک سائیڈ والے کمرے میں لے جایا گیا جس پر پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا۔ دیوار پر قائداعظم کی تصویر ٹنگی ہوئی تھی۔ دو راتیں اس کمرے میں گزریں۔ تیسری رات تقریباً گیارہ بجے میں سونے کا ارادہ کرہی رہا تھا کہ اچانک دروازہ کھلا۔ ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ میرا حال احوال پوچھنے کے بعد کہنے لگا۔ ”کیا آپ کو علم ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟“ میں نے کہا ”نہیں“ ۔ وہ بولا۔ ”کیا آپ کو کسی نے کچھ نہیں بتایا؟“ میں نے پھر کہا ”نہیں“ اس پر وہ کہنے لگا۔ ”ہم آپ کو اسی وقت کسی اور جگہ منتقل کررہے ہیں۔ آپ کے پاس صرف پانچ منٹ ہیں۔ واش روم جانا چاہیں تو ہو آئیں۔“ تقریباً دس منٹ بعد مجھے اس کمرے سے نکالا گیا۔ باہر سادہ کپڑوں میں کچھ اہلکار کھڑے تھے۔ مجھے ہتھکڑیاں لگائی گئیں۔ آنکھوں پر کالی پٹی باندھ دی گئی۔ تلاشی لے کر قرآن کریم کا ایک نسخہ ، چھوٹی سی انگلش ڈکشنری اور جیب میں پڑی رقم انہوں نے چھین لی۔ گھڑی اتارلی۔ مجھے دھکے دے کر ایک گاڑی میں ڈال دیا گیا۔

تقریباً ایک گھنٹہ سفر کے بعد ہیلی کاپٹر کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ ضرور یہ امریکی ہیلی کاپٹر ہوگا۔ دو بندوں نے مجھے پکڑ کر گاڑی سے اتارا اور حکم دیا کہ چند قدم آگے چل کر کھڑے ہوجاؤ۔ پھر سرگوشی سی ہوئی ”خدا حافظ“ ۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ امریکیوں کے حوالے کیا جارہا ہے۔ کئی افراد نے یک بارگی مجھ پر حملہ کر دیا جیسے کوئی میمنا بھیڑیوں کے نرغے میں آگیا ہو۔ مجھ پر لاتوں ، گونسوں ، تھپڑوں اور مکوں کی بارش ہونے لگی۔ مجھے زمین پر پٹخ دیا گیا۔ چاقوؤں سے میرا لباس تار تار کردیا گیا۔ فحش گالیاں دی جانے لگیں۔ میرے انگ انگ سے درد کی شدید ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ میرا پورا لباس چیتھڑے بن کر میرے جسم سے الگ ہوچکا تھا۔ میں بالکل ننگا فرش پر پڑا ہوا تھا۔ بے بسی اور بے توقیری کی اس گھڑی میری آنکھوں سے وہ پٹی سرک گئی جو میری آنکھ اور ننگے جسم کے درمیان حائل تھی۔ میں نے دیکھا کہ چاروں طرف پاکستانی فوجی اہلکار فوجی انداز میں صف بستہ کھڑے ہیں۔ چند امریکی فوجی بھی منظم انداز سے کھڑے تھے۔

امریکی وحشی جانوروں نے ٹھڈے اور مکے مارتے ہوئے اسی حالت میں اٹھا کر ہیلی کاپٹر میں پٹخ دیا۔ میرے بدن پر ستر ڈھانپنے کو ایک چیتھڑا تک نہ تھا۔ میرے ہاتھ پاؤں زنجیروں سے جکڑ دیئے گئے۔ آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ دی گئی۔ منہ پر سیاہ کپڑے کا ایک تھیلا چڑھا دیا گیا۔ پھر ہیلی کاپٹر کے درمیان میں ایک تختے کے ساتھ باندھ کرلٹا دیا گیا۔ ایک مقام پر ہیلی کاپٹر نیچے آیا۔ مجھے ٹھڈے مارکر زمین پر گرادیا گیا۔ چار پانچ امریکی فوجی میرے اوپر بیٹھ گئے… میں بے بسی کے اس عالم میں سوچ رہا تھا کہ پاکستانی ارباب اختیار نے مجھ سے یہ شرمناک سلوک کیوں کیا؟ کوئی دو گھنٹے بعد مجھے ایک اور ہیلی کاپٹر میں پھینک دیا گیا۔ بڑی دیر بعد ہیلی کاپٹر اترا۔ ایک ترجمان کی وساطت سے مجھے کہا گیا کہ احتیاط سے سیڑھیاں اترو۔ میرا تھیلا ہٹا لیا گیا۔ پٹی کھول دی گئی۔ میں نے دیکھا کہ کئی امریکی فوجی میرے دائیں بائیں کھڑے ہیں۔ میرے ہاتھ پاؤں کھول دیئے گئے۔ ایک خاص وردی پہننے کو دی گئی۔ پھر مجھے ایک میڑ چوڑے اور دو میٹر لمبے کمرے میں ڈال دیا گیا جس کے ایک کونے میں کموڈ رکھا تھا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ یہ وہ سمندری جنگی جہاز ہے جو امریکہ نے بحرہند میں کھڑا کررکھا ہے۔“



ریمنڈ ڈیوس کا رنگ گورا ہے اور وہ امریکی ہے۔ یہ کہانی بیان کرنے والے کا نام ملا عبالسلام ضعیف ہے۔ اس کا رنگ سانولا ہے، چہرے پہ داڑھی ہے اور اس کا تعلق بے نواؤں کی سرزمین افغانستان سے ہے.

7 دسمبر، 2011

اولاد کے حق میں والدین کی دُعا




ہمارے ہر دلعزیز اور پیارے شیخ صاحب کا سنایا ہوا یہ مختصر سا قصہ ہر ماں کیلئے ایک کھلا خط ہے۔
شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ اے ماؤں، اپنے اولاد کے بارے میں اللہ سے ڈرتی رہو۔ چاہے کتنا ہی غصہ کیوں نہ ہو اُن کیلئے منہ سے خیر کے کلمے ہی نکالا کرو۔ اولاد کو لعن طعن، سب و شتم اور بد دعائیں دینے والی مائیں سُن لیں کہ والدین کی ہر دُعا و بد دُعا قبول کی جاتی ہے۔
 

یہ سب باتیں شیخ صاحب نے جمعہ کے خطبہ میں اپنے بچپن کی باتیں دہراتے ہوئے فرمائیں۔ شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک لڑکا ہوا کرتا تھا، اپنے ہم عُمر لڑکوں کی طرح شرارتی اور چھوٹی موٹی غلطیاں کرنے والا۔ مگر ایک دن شاید غلطی اور شرارت ایسی کر بیٹھا کہ اُسکی ماں کو طیش آگیا، غصے سے بھری ماں نے لڑکے کو کہا (غصے سے بپھر جانے والی مائیں الفاظ پر غور کریں) لڑکے کی ماں نے کہا؛ چل بھاگ اِدھر سے، اللہ تجھے حرم شریف کا اِمام بنائے۔ یہ بات بتاتے ہوئے شیخ صاحب پھوٹ پھوٹ کر رو دیئے، ذرا ڈھارس بندھی تو رُندھی ہوئی آواز میں بولے؛ اے اُمت اِسلام، دیکھ لو وہ شرارتی لڑکا میں کھڑا ہوا ہوں تمہارے سامنے اِمام حرم عبدالرحمٰن السدیس۔
 

اللہ اَکبر، اگر وہ شرارتی لڑکا شیخ عبدالرحمٰن السدیس حفظہ اللہ صاحب بذاتِ خود ہو سکتے ہیں جو ماں کی دعا کی بدولت حرم شریف کے ہر دلعزیز اِمام بن کر عالم اِسلام میں دھڑکنے والے ہر دِل پر راج کر رہے ہیں!!! اِس طرح تو واقعی یہ مختصر سا قِصہ ہر ماں کیلئے ایک درسِ عبرت ہے ۔
 

5 دسمبر، 2011

قصہ ایک مچھیرے کا

ايک دفعہ كا ذكر ہے كہ ايک تھا مچھیرا ، اپنے كام ميں مگن اور راضی خوشی رہنے والا۔ وہ صرف مچھلی كا شكار كرتا اور باقی وقت گھر پر گزارتا۔ قناعت كا يہ عالم كہ جب تک پہلی شكار كی ہوئی مچھلی ختم نہ ہو دوبارہ شكار پر نہ جاتا۔

ايک دن كی بات ہے کہ ۔۔۔ مچھیرے کی بيوی اپنے شوہر کی شكار كردہ مچھلی كو چھیل كاٹ رہی تھی كہ اس نے ايک حيرت ناک منظر ديكھا۔۔۔ حيرت نے تو اسكو كو دنگ كر كے ركھ ديا تھا۔۔۔ ايک چمكتا دمكتا موتی مچھلی كے پيٹ ميں۔۔۔ سبحان اللہ ۔۔۔ سرتاج، سرتاج، آؤ ديكھو تو، مجھے كيا ملا ہے۔۔۔ كيا ملا ہے، بتاؤ تو سہی۔۔۔ یہ دیکھو اتنا خوبصورت موتی ۔۔۔ كدھر سے ملا ہے۔۔۔ مچھلی کے پيٹ سے۔۔۔ لاؤ مجھے دو ميری پياری بيوی، لگتا ہے آج ہماری خوش قسمتی ہے جو اس كو بيچ كر مچھلی كے علاوہ كچھ اور كھانا کھانے كو ملے گا۔۔۔

مچھیرے نے بيوی سے موتی لیا۔۔۔ اور محلے كے سنار كے پاس پونہچا۔۔۔ السلام عليكم۔۔۔ و عليكم السلام۔۔۔ جی قصہ یہ ہے کہ مجھے مچھلی كےپيٹ سے موتی ملا ہے۔۔۔ دو مجھے ، ميں ديكھتا ہوں اسے۔۔۔ اوہ،،،، يہ تو بہت عظيم الشان ہے۔۔۔ ميرے پاس تو ايسی قيمتی چيز خريدنے كی استطاعت نہيں ہے۔۔۔ چاہے اپنا گھر ، دكان اور سارا مال و اسباب ہی كيوں نہ بيچ ڈالوں، اس موتی كی قيمت پھر بھی ادا نہیں کر سكتا میں۔۔۔ تم ايسا كرو ساتھ والے شہر كے سب سے بڑے سنار كے پاس چلے جاؤ۔۔۔ ہو سكتا ہے كہ وہ اسکی قيمت ادا كر سكے، جاؤ اللہ تيرا حامی و ناصر ہو۔۔۔

مچھیرا موتی لے كر، ساتھ والے شہر كے سب سے امير كبير سنار كے پاس پونہچا، اور اسے سارا قصہ كہہ سنايا۔۔۔ مجھے بھی تو دكھاؤ، ميں ديكھتا ہوں ايسی كيا خاص چيز مل گئی ہے تمہيں۔۔۔ اللہ اللہ ، پروردگار كی قسم ہے بھائی، ميرے پاس اسكو خريدنے کی حيثيت نہیں ہے۔۔۔ ليكن ميرے پاس اسكا ايک حل ہے، تم شہر كے والی کے پاس چلے جاؤ۔۔۔ لگتا ہے ايسا موتی خريدنے كی اسكے پاس ضرور حيثيت ہوگی۔۔۔ مدد كرنے كا شكريہ، ميں چلتا ہوں والی شہر کے پاس۔۔۔

اور اب شہر كے والی كے دروازے پر ہمارا یہ مچھیرا دوست ٹھہرا ہوا ہے، اپنی قيمتی متاع كے ساتھ، محل ميں داخلے كی اجازت كا منتظر۔۔۔ اور اب شہر كے والی كے دربار ميں اس كے سامنے۔۔۔ ميرے آقا، يہ ہے ميرا قصہ ، اور يہ رہا وہ موتی جو مجھے مچھلی كے پيٹ سے ملا۔۔۔ اللہ اللہ۔۔۔ كيا عديم المثال چيز ملی ہے تمہيں، ميں تو گويا ايسی چيز ديكھنے كی حسرت ميں ہی تھا۔۔۔ ليكن كيسے اس كی قيمت كا شمار كروں۔۔۔ ايک حل ہے ميرے پاس، تم ميرے خزانے ميں چلے جاؤ۔۔۔ اُدھر تمہيں 6 گھنٹے گزارنے كی اجازت ہوگی۔۔۔ جس قدر مال و متاع لے سكتے ہو لے لينا، شايد اس طرح موتی کی كچھ قيمت مجھ سے ادا ہو پائے گی۔۔۔ آقا، 6 گھنٹے!!!! مجھ جيسے مفلوک الحال مچھیرے كيلئے تو 2 گھنٹے بھی كافی ہيں۔۔۔ نہيں، 6 گھنٹے، جو چاہو اس دوران خزانے سے لے سكتے ہو، اجازت ہے تمہيں۔۔۔

ہمارا یہ مچھیرا دوست والی شہر كے خزانے ميں داخل ہو كر دنگ ہی رہ گيا، بہت بڑا اور عظيم الشان ہال كمرا، سليقے سے تين اقسام اور حصوں ميں بٹا ہوا، ايک قسم ہيرے، جواہرات اور سونے كے زيورات سے بھری ہوئی۔۔۔ ايک قسم ريشمی پردوں سے مزّين اور نرم و نازک راحت بخش مخمليں بستروں سے آراستہ۔۔۔ اور آخری قسم كھانے پينے كی ہر اُس شئے سے آراستہ جس كو ديكھ كر منہ ميں پانی آجائے۔۔۔

مچھيرے نے اپنے آپ سے كہا،،، 6 گھنٹے؟؟؟ مجھ جيسے غريب مچھیرے كيلئے تو بہت ہی زيادہ مہلت ہے يہ۔۔۔ كيا كروں گا ميں ان 6 گھنٹوں ميں آخر؟؟؟ خير۔۔۔ كيوں نہ ابتدا كچھ كھانے پينے سے كی جائے؟؟؟ آج تو پيٹ بھر كر كھاؤں گا، ايسے كھانے تو پہلے كبھی ديكھے بھی نہيں۔۔۔ اور اس طرح مجھے ايسی توانائی بھی ملے گی جو ہيرے، جواہرات اور زيور سميٹنے ميں مدد دے۔۔۔

اور جناب ہمارا يہ مچھیرا دوست خزانے كی تيسری قسم ميں داخل ہوا۔۔۔ اور ادھر اُس نے والی شہر كی عطاء كردہ مہلت ميں سے دو گھنٹے گزار ديئے۔۔۔ اور وہ بھی محض كھاتے، كھاتے، كھاتے۔۔۔ اس قسم سے نكل كر ہيرے جواہرات كی طرف جاتے ہوئے، اس كی نظر مخمليں بستروں پر پڑی، اُس نے اپنے آپ سے كہا۔۔۔ آج تو پيٹ بھر كر كھايا ہے۔۔۔ كيا بگڑ جائے گا اگر تھوڑا آرام كر ليا جائے تو، اس طرح مال و متاب جمع كرنے ميں بھی مزا آئے گا۔۔۔ ايسے پر تعيش بستروں پر سونے كا موقع بھی تو بار بار نہيں ملے گا، اور موقع كيوں گنوايا جائے۔۔۔ مچھيرے نے بستر پر سر ركھا اور بس،،،، پھر وہ گہری سے گہری نيند ميں ڈوبتا چلا گيا۔۔۔
اُٹھ ۔ اُٹھ اے احمق مچھیرے، تجھے دی ہوئی مہلت ختم ہو چكی ہے۔۔۔ ہائيں، وہ كيسے؟؟؟ جی، تو نے ٹھيک سنا ہے، نكل ادھر سے باہر كو۔۔۔ مجھ پر مہربانی كرو، مجھے كافی وقت نہيں ملا، تھوڑی مہلت اور دو۔۔۔ آہ۔۔۔ آہ۔۔۔ تجھے اس خزانے ميں آئے 6 گھنٹے گزر چكے ہيں، اور تو اپنی غفلت سے اب جاگنا چاہتا ہے۔۔۔! اور ہيرے جواہرات اكٹھے كرنا چاہتا ہے كيا؟؟؟ تجھے تو یہ سارا خزانہ سميٹ لينے كيلئے كافی وقت ديا گيا تھا۔۔۔ تاكہ جب ادھر سے باہر نكل كر جاتا تو ايسا بلكہ اس سے بھی بہتر کھانا خريد پاتا۔۔۔ اور اس جيسے بلكہ اس سے بھی بہتر آسائش والے بستر بنواتا۔۔۔ ليكن تو احمق نكلا كہ غفلت ميں پڑ گيا۔۔۔ تو نے اس كنويں كو ہی سب كچھ جان ليا جس ميں رہتا تھا۔۔۔ باہر نكل كر سمندروں كی وسعت ديكھنا تونے گوارہ ہی نہ کی۔۔۔ نكالو باہر اس كو۔۔۔ نہيں، نہيں، مجھے ايک مہلت اور دو، مجھ پر رحم كھاؤ۔۔۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
(( يہ قصہ تو ادھر ختم ہو گيا ہے ))
ليكن عبرت حاصل كرنے والی بات ابھی ختم نہيں ہوئی۔۔۔
اُس قيمتی موتی كو پہچانا ہے آپ لوگوں نے؟؟؟
وہ تمہاری روح ہے اے ابن آدم، اے ضعيف مخلوق!!!
يہ ايسی قيمتی چيز ہے جس كی قيمت كا ادراك بھی نہيں کیا جا سكتا۔۔۔
اچھا، اُس خزانے كے بارے ميں سوچا ہے كہ وہ كيا چيز ہے؟؟؟
جی ہاں، وہ دنيا ہے۔۔۔
اسكی عظمت كو ديكھ دیکھ اسكے حصول كيلئے ہم كيسے مگن ہيں؟؟؟
اس خزانے ميں ركھے گئے ہيرے جواہرات!!!
وہ تيرے اعمال صالحہ ہيں۔۔۔
اور وہ پر تعيش و پر آسائش بستر!!!
وہ تيری غفلت ہيں۔۔۔
اور وہ كھانا-پينا!!!
وہ شہوات ہيں۔۔۔
اور اب۔۔۔ اے مچھلی كا شكار كرنے والے دوست۔۔۔
اب بھی وقت ہے كہ نيندِ غفلت سے جاگ جا،،
اور چھوڑ دے اس پر تعيش اور آرام دہ بستر كو۔۔۔
اور جمع كرنا شروع كر دے ان ہيروں اور جواہرات كو جو کہ تيری دسترس ميں ہی ہیں۔۔۔
اس سے قبل كہ تجھے دی گئی 6 گھنٹوں كی مہلت ختم ہو جائے۔۔۔
تجھے محض حسرت ہی رہ جائے گی۔۔۔
خزانے پر مأمور سپاہيوں نے تو تجھے ذرا سی بھی اور زيادہ فرصت نہيں دينی،
اور تجھے ان نعمتوں سے باہر نكال دينا ہے جن ميں تو رہ رہا ہے۔۔۔

مثبت کام کی بُنیاد تو ڈال دو


یہ ۱۹۳۰ کے عشرے میں (یہ کمیونزم کے زمانے کا ذکر ہے) ایک طالبعلم نے جب مصر کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں داخلہ لیا، وقت ہونے پر اُس نے نماز پڑھنے کی جگہ تلاش کرنا چاہی تو اُسے بتایا گیا کہ یونیورسٹی میں نماز پڑھنے کی جگہ تو نہیں ہے۔ ہاں مگر تہہ خانے میں بنے ہوئے ایک کمرے میں اگر کوئی چاہے تو وہاں جا کر نماز پڑھ سکتا ہے۔
طالبعلم یہ بات سوچتے ہوئے کہ دوسرے طالبعلم اور اساتذہ نماز پڑھتے بھی ہیں یا نہیں، تہہ خانے کی طرف اُس کمرے کی تلاش میں چل پڑا۔
وہاں پہنچ کر اُس نے دیکھا کہ نماز کیلئے کمرے کے وسط میں ایک پھٹی پرانی چٹائی تو بچھی ہوئی ہے مگر کمرہ صفائی سے محروم اور کاٹھ کباڑ اور گرد و غبار سے اٹا ہوا ہے۔ جبکہ یونیورسٹی کا ایک ادنیٰ ملازم وہاں پہلے سے نماز پڑھنے کیلئے موجود ہے۔ طالبعلم نے اُس ملازم سے پوچھا کیا تم یہاں نماز پڑھو گے؟
ملازم نے جواب دیا، ہاں، اوپر موجود لوگوں میں سے کوئی بھی ادھر نماز پڑھنے کیلئے نہیں آتا اور نماز کیلئے اس کے علاوہ کوئی جگہ بھی نہیں ہے۔
طالبعلم نے ملازم کی بات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا؛ مگر میں یہاں ہرگز نماز نہیں پڑھوں گا اور اوپر کی طرف سب لوگوں کو واضح دکھائی دینے والی مناسب سی جگہ کی تلاش میں چل پڑا۔ اور پھر اُس نے ایک جگہ کا انتخاب کر کے نہایت ہی عجیب حرکت کر ڈالی۔
اُس نے بلند آواز سے اذان کہی! پہلے تو سب لوگ اس عجیب حرکت پر حیرت زدہ ہوئے پھر انہوں نے ہنسنا اور قہقہے لگانا شروع کر دیئے۔ اُنگلیاں اُٹھا کر اس طالبعلم کو پاگل اور اُجڈ شمار کرنے لگے۔ مگر یہ طالبعلم تھا کہ کسی چیز کی پرواہ کیئے بغیر اذان پوری کہہ کر تھوڑی دیر کیلئے اُدھر ہی بیٹھ گیا۔ اُس کے بعد دوبارہ اُٹھ کر اقامت کہی اور اکیلے ہی نماز پڑھنا شروع کردی۔ اُسکی نماز میں محویت سے تو ایسا دکھائی تھا کہ گویا وہ اس دنیا میں تنہا ہی ہے اور اُسکے آس پاس کوئی بھی موجود نہیں۔
دوسرے دن پھر اُسی وقت پر آ کر اُس نے وہاں پھر بلند آواز سے اذان دی، خود ہی اقامت کہی اور خود ہی نماز پڑھ کر اپنی راہ لی۔ اور اس کے بعد تو یہ معمول ہی چل نکلا۔ ایک دن، دو دن، تین دن۔۔۔وہی صورتحال۔۔۔  پھر قہقہے لگانے والے لوگوں کیلئے اُس طالبعلم کا یہ دیوانہ پن کوئی نئی چیز نہ رہی اور آہستہ آہستہ قہقہوں کی آواز  بھی کم سے کم ہوتی گئی۔ اسکے بعد پہلی تبدیلی کی ابتداء ہوئی۔ نیچے تہہ خانے میں نماز پڑھنے والے ملازم نے ہمت کر کے باہر اس جگہ پر اس طالبعلم کی اقتداء میں نماز پڑھ ڈالی۔ ایک ہفتے کے بعد یہاں نماز پڑھنے والے چار لوگ ہو چکے تھے۔ اگلے ہفتے ایک اُستاذ بھی آ کر اِن لوگوں میں شامل ہوگیا۔
یہ بات پھیلتے پھیلتے یونیورسٹی کے چاروں کونوں میں پہنچ گئی۔ پھر ایک دن چانسلر نے اس طالبعلم کو اپنے دفتر میں بلا لیا اور کہا: تمہاری یہ حرکت یونیورسٹی کے معیار سے میل نہیں کھاتی اور نہ ہی یہ کوئی مہذب منظر دکھائی دیتا ہے کہ تم یونیورسٹی ہال کے بیچوں بیچ کھڑے ہو کر اذانیں دو یا جماعت کراؤ۔ ہاں میں یہ کر سکتا ہوں کہ یہاں اس یونیورسٹی میں ایک کمرے کی چھوٹی سی صاف سُتھری مسجد بنوا دیتا ہوں، جس کا دل چاہے نماز کے وقت وہاں جا کر  نماز پڑھ لیا کرے۔
اور اس طرح مصر کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں پہلی مسجد کی بنیاد پڑی۔ اور یہ سلسلہ یہاں پر رُکا نہیں، باقی کی یونیورسٹیوں کے طلباء کی بھی غیرت ایمانی جاگ اُٹھی اور ایگریکلچر یونیورسٹی کی مسجد کو بُنیاد بنا کر سب نے اپنے اپنے ہاں مسجدوں کی تعمیر کا مطالبہ کر ڈالا اور پھر ہر یونیورسٹی میں ایک مسجد بن گئی۔
اِس طالبعلم نے ایک مثبت مقصد کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا اور پھر اِس مثبت مقصد کے نتائج بھی بہت عظیم الشان نکلے۔ اور آج دن تک، خواہ یہ طالبعلم زندہ ہے یا فوت ہو چکا ہے، مصر کی یونیورسٹیوں میں بنی ہوئی سب مسجدوں میں اللہ کی بندگی ادا کیئے جانے کے عوض اجر و ثواب پا رہا ہےاور رہتی دُنیا تک اسی طرح اجر پاتا رہے گا۔ اس طالب علم نے اپنی زندگی میں کار خیر کر کے نیک اعمالوں میں اضافہ کیا۔
میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ
ہم نے اپنی زندگیوں میں ایسا کونسا اضافہ کیا ہے؟ تاکہ ہمارا اثر و رسوخ ہمارے گردو نواح کے ماحول پر نظر آئے، ہمیں چاہیئے کہ اپنے اطراف میں نظر آنے والی غلطیوں کی اصلاح کرتے رہا کریں۔ حق و صدق کہنے اور کرنے میں کیسی مروت اور کیسا شرمانا؟ بس مقاصد میں کامیابی کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد و نصرت کی دعا مانگتے رہیں۔
اور اسکا فائدہ کیا ہوگا؟
  • اپنے لیئے اور دوسرے کیلئے سچائی اور حق کا علم بُلند کر کے اللہ کے ہاں مأجور ہوں کیونکہ جس نے کسی نیکی کی ابتداء کی اُس کیلئے اجر، اور جس نے رہتی دُنیا تک اُس نیکی پر عمل کیا اُس کیلئے اور نیکی شروع کرنے والے کو بھی ویسا ہی اجر ملتا رہے گا۔
  • لوگوں میں نیکی کرنے کی لگن کی کمی نہیں ہے بس اُن کے اندر احساس جگانے کی ضرورت ہے۔ قائد بنیئے اور لوگوں کے احساسات کو مُثبت رُخ دیجیئے۔
اگر کبھی اچھے مقصد کے حصول کے دوران لوگوں کے طنز و تضحیک سے واسطہ پڑے تو یہ سوچ کر دل کو مضبوط رکھیئے کہ انبیاء علیھم السلام کو تو تضحیک سے بھی ہٹ کر ایذاء کا بھی نشانہ بننا پڑتا تھا۔