ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

16 جنوری، 2012

اپنی شکل دیکھی ہے کبھی، بڑے آئے ارفع لینے والے




اپنی شکل دیکھی ہے کبھی، بڑے آئے ارفع لینے والے
فراز اکرم 





کل انٹرنیٹ پر ایک مضمون پڑھا جس کا عنوان تھا کہصرف ارفع کریم ہی کیوں؟   
جس میں لکھنے والے نے رب سے شکایات کی تھی کہ صرف ارفع کریم کی کو کیوں بلا لیا، ہم سب بیکار کے لوگ زندہ ہیں اور ارفع چلی گئی۔
آئیےدیکھیں کہ صرف عرفہ کریم کیوں۔

سب سے پہلے ایک اور واقعہ سن لیں

لاہور گرائمر سکول میں 14 جنوری کو میوزیکل شو ہوا، یہ وہی سکول ہے جس میں ارفع کریم رندھاوا اے-لیول کر رہی تھی اور اس منفرد انداز سے جس دن پاکستان کا نام روشن کرنے والی اپنی آخری آرام گاہ کا مسکن بن رہی تھی، اس سکول جس کے لیے اعزاز تھا کا ارفع کریم رندھاوا اس سکول میں پڑھ رہی تھا، جب پورا پاکستان رنج و غم میں تھا، لاہور اور کراچی کے آئی-ٹی سے متعلقہ پروجیکٹ کے نام اس کے نام سے منسوب ہو رہے تھے۔۔۔ وہاں اسی لاہور گرائمر سکول میں ایک گلوکار قرۃ العین بلوچ اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی تھی۔۔۔
یہ ہے احساس اپنے ہیروز کے لیے جو دنیا میں ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں۔۔۔۔

جب ساری قوم کا ضمیر مر جائے تو اسی طرح ہوتا ہے۔ گلی کے نکڑ پر بوری میں لاش پڑی ہوتی ہیں اور محلے میں شادی کے ہنگامے اپنے عروج پر ہوتے ہیں۔ ناچ ، گانے دھمال زوروں پر چل رہے ہوتے ہیں۔ جانور بھی دوسرے مردہ جانور کے پاس سے گزرتا ہے تو کچھ دیر کے لیے رک جاتا ہے۔ ابھی بھی الله کا عذاب نہ آئے

آپ نے رب سے شکایات کی ہیں کہ صرف ارفع کریم کو کیوں بلا لیا، ہم سب بیکار کے لوگ زندہ ہیں اور ارفع چلی گئی۔
ارے بھائی کیا ہم اس قابل تھے کہ ارفع ہمیں دی جاتی؟؟؟
جیسے کہا جاتا ہے کہاپنی شکل دیکھی ہے کبھی بڑے آئے ارفع لینے والے

لال گلابوں کی جگہ خون کی لالی
کھلکھلاتی کلیوں کی جگہ کافور کی خوشبو میں بسے قبرستان
درسگاہوں پر قتل گاہوں کا گمان
چند ٹکوں کے عوض ناچتی ماڈل حیا
جہاں انقلاب پہلے بِکنے پھر بَکنے کا نام ہو
جس ملک کو ارفع مقاصد کے لیئے بنایا ہو
جس نے عرفات کی پاسبانی چھوڑ کر حرم فروشی کی ہو
اس قوم سے ارفع چھین لی جاتی ہے۔
ہم ارفع کے قابل ہی نہیں تھے

1 comments: