ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

10 جنوری، 2012

مشنری سکولوں کی تباہ کاریاں




پشاور کے دو مشہور ڈاکٹر لندن میں کسی کام سے گئے تھے کہ اس دوران انکو اطلاع ملی کہ فلاں جگہ پر پشاور سے آئے ہوئے ایک مشہور سکالر خطاب کریں گے ، تو ان دونوں پاکستانی ڈاکٹروں نے یہ سوچا کہ شائد کوئی دینی رہنماء یا پاکستان کے کسی یونیورسٹی کا چانسلر ہوگا لھذا انہوں نے بھی اس پروگرام میں شرکت کا ارادہ کیا۔

جب یہ پاکستانی ڈاکٹر اس پروگرام میں پہنچے تو انکو یہ جان کر سخت حیریت ہوئی کہ پشاور سے آیا ہوا ایک بوڑھا انگریز تقریر کر رہا تھا اور تقریر کے دوران وہ اپنے ادارے کیلئے چندے کا مطالبہ کر رہا تھا۔
مجمع میں سے ایک انگریز نے اُٹھ کر یہ پوچھا کہ تمھارے ادارے کا کیا فائدہ ہے تو اس نے جواب میں ایک فلم چلائی ۔ فلم کیا تھی پشاور کے ایڈورڈ کالج کے میں داخل ہونے والے لڑکے کا کیرئیر ریکارڈ تھا۔
لڑکا جب کالج میں داخل ہوا تھا تو پکا مسلمان لیکن جب وہ دو سال بعد کالج سے فارغ ہوا تو اسلام کے نام پر ایک کالا دھبہ تھا اور اسلام دشمن طاقتوں سے زیادہ اسلامی نظام کیلئے خطرناک ۔

بوڑھے پرنسپل نے کہا کہ میرے ایڈورڈ کالج میں جب لڑکا داخل ہوتا ہے تو مسلمان لیکن کالج سے فارغ ہونے کے بعد اسکا نام تو مسلمانوں والا رہ جاتا ہے لیکن اندر سے وہ اسلام سے بالکل خالی ہوتا ہے۔
اور یہی میرا اصل مقصد ہے۔

اب یہ اس طالب علم پر منحصر ہے کہ وہ ایڈورڈ کالج کے ماحول سے کتنا اثر لیتا ہے۔
نیز اس نے یہ بات بھی بتائی کہ اس ایڈورڈ کالج پشاور کا دھوبی کالج کے لڑکوں کو باقاعدہ اور منظم طریقے سے شراب مہیا کرتا تھا تاکہ یہ مسلمان لڑکے کالج کے دور سے ہی شراب کے عادی بن جائیں۔
نیز انہوں نے کہا کہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے دو گورنروں کے علاوہ سارے کے سارے گورنر ایڈورڈ کالج کے پڑھے ہوتے تھے اور یہ کام منصوبہ بندی کے سبب ہوتا تھا۔
اسی طرح لاہور کے ایچیسن کالج اور ایف سی مشنری کالج کا بھی یہی حال ہے کہ وہاں ڈیگال اور شیکسپیر کی تاریخ تو پڑھائی جاتی ہے لیکن حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کا تعارف تک نہیں کرایا جاتا۔
اور یہ ہمارے ملک کے بڑے بڑے سب ان مشنری کالجوں اور اکسفورڈ کے تربیت یافتہ ہیں۔ اور اسی لئے یہ لوگ اسلام سے زیادہ عیسائیت کے وفادار ہوتے ہیں۔

▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬
اس پر تھوڑا غور ضرور کیجیے..... اپنے بچوں کو سکول داخل کرتے وقت یہ دیکھنا انتہائی ضروری ہے کہ وہ وہاں سے کیا حاصل کر کے نکلیں گے.
▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬


ایک اور واقعہ بھی سن لیں

 
مولانا حس جان صاحب کہتے تھے کہ میں حج کے موقع پر مکہ مکرمہ میں تھا تو چارسدہ کے نامور اور مشہور وکیل میرے پاس آئے اور پوچھا کہ مولانا صاحب کیا محمد (صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم) مغل بادشاہ اکبر کے زمانے میں پیدا ہوئے تھے، تو حسن جان صاحب نے ان سے کہا کہ وکیل صاحب مذاق کر رہے ہو یا سچ میں آپکو معلوم نہیں تو وکیل صاحب نے کہا کہ جی واقعی مجھے اس بات کا علم نہیں کہ محمد (صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم) کب گذرے ہیں۔

پھر مولانا صاحب نے اس کم علمی کا سبب پوچھا تو وکیل صاحب نے جواب دیا کہ جی میں نے سارا تعلیم مشنری سکولوں میں حاصل کیا ہے، اور وہاں تو صرف ہمیں ڈیگال اور جارج واشنگٹن اور ہٹلر کے بارے میں بتایا جاتا ہے، اور محمد عربی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کا تو تعارف تک نہیں کرایا جاتا ۔ یہ وکیل اب اگرچہ عمر رسیدہ ہے لیکن پشاور کے قریب چارسدہ کا مشہور وکیل گذرا ہے۔اور اب بھی زندہ ہے۔




tags
مشنری سکولوں کے عزائم اور مقاصد.
missionary schools in Pakistan
avoid, 
what generation we are creating with these missionary schools

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں