ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

18 فروری، 2012

پاکستان کو ایک بھیانک انجام سے بچانے کیلئے جاگو، آواز اٹھاؤ



سمجھ نہیں آتی کہ اس کہانی کو کہاں سے شروع کروں۔ وہاں سے شروع کروں جب اپنوں سے دھوکہ کیا یا وہاں سے شروع کروں جب دھوکے سے بغاوت نے جنم لیا اور پھر اس بغاوت میں غیر ملکی سازشیں بھی شامل ہوگئیں؟ جہاں سے بھی شروع کروں یہ کہانی کم اور قومی المیہ زیادہ ہے۔ یہ بلوچستان اوربلوچوں کی کہانی ہے جنہیں پاکستان میں پاکستان سے بیگانہ بنایا جا رہا ہے۔
 
آیئے اس کہانی کو 1947ء سے شروع کر لیتے ہیں۔ 1947ء میں بلوچستان کے کچھ علاقوں میں ریفرنڈم ہوا۔ ریفرنڈم میں پوچھا گیا کہ آپ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا ہندوستان میں؟ ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کا حق شاہی جرگہ میں شامل قبائلی سرداروں اور کوئٹہ میونسپلٹی کے ارکان کو تھا۔ نواب اکبر بگٹی سمیت اکثریت نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا لیکن ریاست قلات کی طرف سے آزادی کا اعلان کر دیا گیا۔ قلات کی منتخب اسمبلی کے ارکان کی اکثریت پاکستان سے فوری الحاق کے لئے تیار نہ تھی۔ خان آف قلات کی قائداعظم کے ساتھ پرانی نیاز مندی تھی۔ قائداعظم نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنی ریاست کو پاکستان میں شامل کر دیں تو دونوں کو فائدہ ہوگا۔ خان نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی اسمبلی کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کریں گے۔ 14  دسمبر 1947ء کو ڈھاڈر میں قلات اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔
 
اسمبلی میں میرغوث بخش بزنجو نے کہا کہ خان آف قلات نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کیا لیکن مسلم لیگ نے پاکستان بناتے ہی لسبیلہ اور خاران پر زبردستی قبضہ کر لیا اور ہم سے پوچھا بھی نہیں ہم کسی کے غلام نہیں بنیں گے۔ اسمبلی کے ارکان کی اکثریت الحاق کی مخالف تھی چنانچہ خان آف قلات نے دارالامراء سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان قائم ہوگیا۔ پاکستان کو بلوچوں کی مدد کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کو مہاجرین سنبھالنا ہیں، کشمیر کا تنازعہ اور ہندوستان سے تصادم کا خطرہ بھی موجود ہے۔  ہم پاکستان کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں اور تمام تنازعات بات چیت سے حل کرلیں گے۔ خان آف قلات اپنے علاقے کے قبائلی سرداروں کو پاکستان میں شامل کرنے کے لئے بات چیت کر رہے تھے لیکن دوسری طرف بیورو کریسی اور انگریز فوجی کمانڈر، وزیراعظم لیاقت علی خان اور ان کی کابینہ کو گمراہ کر رہے تھے۔ انگریزوں نے ہندوستان کو ریاست جموں و کشمیر، حیدر آباد اور دیگر ریاستوں پر فوجی قبضے کی ترغیب دی۔ جب قائداعظم نے پاکستانی فوج کے انگریز کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو کشمیر میں فوج بھیجنے کا حکم دیا تو اس نے حکم کی تعمیل نہ کی لیکن دوسری طرف یہی گریسی قلات کے بارے میں پاکستان کی حکومت کو غلط مشورے دیتا رہا۔


17مارچ 1948ء کو لسبیلہ اور خاران کے بعد مکران کو بھی پاکستان میں شامل کر لیا گیا۔ قائداعظم علیل ہوچکے تھے۔ خان آف قلات کا ان سے رابطہ کم ہو چکا تھا۔ بلوچستان کی سب سے بڑی ریاست قلات میں فوجی کارروائی کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں لہٰذا 30مارچ 1948 کو خان آف قلات نے کراچی میں قلات کے پاکستان سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے حالانکہ ان کی اسمبلی اس فیصلے کے خلاف تھی۔ کوئٹہ میں موجود انگریز افسران قائداعظم کے نام پر فیصلے کر رہے تھے اور قائداعظم اکثر معاملات سے بے خبر تھے۔ اپریل 1948ء میں فوج کو قلات پر کنٹرول قائم کرنے کا حکم ملا جس کے بعد جھالاوان کے علاقے میں خان آف قلات کے بھائی عبد الکریم نے بغاوت کر دی۔ عبد الکریم نے بلوچ نیشنل لبریشن کمیٹی قائم کی اور مسلح ساتھیوں کے ساتھ پہاڑوں میں چلے گئے۔ غوث بخش بزنجو مسلح بغاوت کے حق میں نہ تھے۔ عبد الکریم کو مذاکرات پر راضی کیا گیا اور قرآن کو ضامن بنا کر یقین دلایا گیا کہ وہ پہاڑوں سے نیچے اتر آئیں تو انہیں معافی دیدی جائے گی، وہ ہربوئی کے پہاڑوں سے نیچے اتر آئے تو انگریز فوجی افسروں نے وعدے توڑتے ہوئے اپنے ماتحت پاکستانی فوجی افسروں کو حکم دیا کہ عبد الکریم کو گرفتار کر لیا جائے۔ یہ ایک عظیم دھوکہ تھا۔ اس کے بعد بھی دھوکے بازی کا سلسلہ چلتا رہا۔ خان آف قلات میر احمد یار خان اپنی ریاست کی بحالی کی کوششوں میں مصروف تھے تاکہ پاکستان کے اندر رہ کر کچھ حقوق حاصل کرلیں۔ اس دوران صوبے ختم کرکے ون یونٹ قائم کر دیا گیا۔ 1955ء میں عبد الکریم جیل سے رہا ہوئے اور انہوں نے صوبہ بلوچستان کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ اب وہ پاکستان سے آزادی نہیں بلکہ پاکستان کے اندر صوبہ مانگ رہے تھے۔ وہ ایک دفعہ پھر غدار قرار پائے اور 6اکتوبر1958ء کو قلات میں نیا فوجی آپریشن شروع ہوگیا۔ اس آپریشن میں قلات کی مرکزی جامع مسجد پر بھی بمباری کی گئی لہٰذا خان آف قلات اپنے ہاتھ میں قرآن لے کر نکلے اور خود کو فوج کے حوالے کر دیا۔ اس آپریشن کے خلاف نواب نوروز خان نے مزاحمت کی اور وہ ایک سو سے زائد عسکریت پسندوں کے ساتھ پہاڑوں میں چلے گئے۔


1960ء میں ان سے مذاکرات کئے گئے۔ ایک دفعہ پھر قرآن پر حلف دیا گیا کہ ہتھیار پھینک دو تو معافی مل جائے گی۔ 90سالہ نواب نوروز خان نے ہتھیار ڈال دیئے لیکن جنرل ایوب خان نے دھوکہ کر دیا۔ بوڑھے بلوچ سردار کو جیل میں ڈال کر اس کے بیٹوں کوپھانسی دیدی گئی۔


1961ء میں مری قبائل کے خلاف تیسرا فوجی آپریشن شروع ہوا جس کی میرشیر محمد مری نے مزاحمت کی۔ جنرل ایوب خان کی حکومت ختم ہوئی تو جنرل یحییٰ خان نے بلوچوں سے نئے مذاکرات شروع کئے۔ نواب اکبر بگٹی، خیر بخش مری، سردار عطاء اللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو اکٹھے ہوئے تو ون یونٹ ختم کرکے بلوچستان کو ایک نئے صوبے کے طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ 1970ء کے انتخابات میں بلوچ قوم پرست پھر تقسیم ہوگئے لیکن اس کے باوجود وہ جمعیت علماء اسلام کی مدد سے بلوچستان میں حکومت بنانے میں قائم ہوئے۔
 
سردارعطاء اللہ مینگل وزیراعلیٰ بنے لیکن 1973ء میں انہیں برطرف کر دیا گیا۔ ۔ بلوچستان میں چوتھا فوجی آپریشن شروع ہوگیا۔ پاکستانی فوج کے کمانڈوز نے سردار عطاء اللہ مینگل کے صاحبزادے اسد اللہ مینگل کو کراچی سے اغواء کرکے شہید کر دیا اور لاش غائب کر دی۔ یہ آپریشن 1978ء میں ختم ہوا۔ 2006ء میں جنرل پرویز مشرف نے بلوچستان میں پانچواں فوجی آپریشن شروع کیا اور26  اگست 2006ء کو نواب اکبر بگٹی پہاڑوں میں شہید ہوگئے۔ ایک ایسے شخص کو شہید کیا گیا جس نے تمام عمر پاکستان کے خلاف کچھ نہ کہا بلکہ 1947ء میں پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ نواب اکبر بگٹی کی شہادت نے نفرتوں کی ایسی آگ بھڑکائی جس میں اپنوں پرایوں کی پہچان گم ہوگئی۔ آج ہر دوسرا بلوچ نوجوان ناراض ہے۔ ہزاروں بلوچ نوجوان لاپتہ ہیں اور سینکڑوں کی مسخ شدہ لاشیں نفرتوں کی دہشت ناک کہانی کو آگے بڑھا چکی ہیں۔ بلوچ نوجوان ایف سی اور فوج کو قاتل کہتے ہیں اور فوج انہیں پاکستان کا دشمن قرار دیتی ہے۔ سمجھ نہیں آرہی کہ اگر افغانستان کے راستے سے اسلحہ اور رقم لے کر پاکستان میں قتل و غارت غلط ہے تو پاکستان کے آئین سے وفاداری کا حلف اٹھا کر بار بار اس آئین کو توڑنا ملک دشمنی کیوں نہیں؟

چند دن پہلے کراچی میں نامعلوم افراد نے نواب اکبر بگٹی کی پوتی اور براہمداغ بگٹی کی بہن بیگم میر بختیار ڈومکی کو کراچی میں ان کی بیٹی سمیت شہید کر دیا۔ سپریم کورٹ نے اس قتل کا از خود نوٹس لیا ہے لیکن قاتلوں کا پکڑے جانا مشکل نظر آتا ہے۔ ایک خاتون کو صرف اس لئے قتل کیا گیا کہ وہ براہمداغ بگٹی کی بہن تھی، اپنے بھائی کے ساتھ فون پر بات کرتی تھی اور لاپتہ بلوچوں کے خاندانوں کی عورتوں کی مدد کرتی تھی۔ اس خاتون کے فون کا ریکارڈ منگوا لیا جائے تو کم ازکم قتل کی وجہ سامنے آجائے گی۔ اس قتل سے پاکستان کی کوئی خدمت نہیں کی گئی بلکہ پاکستان کے ساتھ دشمنی کی گئی ہے۔ پاکستان کے ساتھ محبت کا تقاضا ہے کہ بلوچوں کے ساتھ بار بار دھوکے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ اگر بلوچوں کو اپنے ساتھ رکھنا ہے تو ان کے ساتھ بات کرنی ہوگی، لاپتہ بلوچوں کو رہا کرنا ہوگا، اکبر بگٹی اور بیگم میر بختیار ڈومکی کے قاتلوں کو پکڑنا ہوگا اور بلوچستان میں مشرف دور کی پالیسی ختم کرکے سیاسی پالیسی شروع کرنا ہوگی۔
اگر ہم بھی ناکام ہوگئے تو پھر اس کہانی کا انجام بہت بھیانک ہوگا۔ پاکستان کو ایک بھیانک انجام سے بچانے کیلئے جاگو، آواز اٹھاؤ اور بلوچوں کو بچاؤ۔




‎(¯`v´¯) 
`•.¸.•´`•.¸.¸¸.•*¨¨*•.¸¸❤`•.¸.¸¸.•*❤ ❤`•.¸.¸¸.•*❤ 
♥♥.....Join Us on facebook............. *• ♥♥♥♥♥♥ 

1 comments: