اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بھائیو اور بہنو کل ایک معروف یہودی سکالر”ڈاکٹر طوواہرٹمین“ کا پاکستانیوں کے نام
ایک خط دیکھنے کو ملا. خط کا عنوان ہے
”پاکستانی ہم سے
کب تک بلاوجہ نفرت کرتے رہیں گے“
یہ خط اصل غلیظ یہودی ذہنیت سے بھرپور ہے. اس خط کے زریعے ایک طرف تو مسلمانوں
میں آپس میں نفرتیں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور دوسری طرف اسرائیل اور یہودیوں
کو معصوم اور مظلوم ثابت کرنے کی کوشش. خط کا مدھا یہ تھا کہ پاکستان کو چاہئیے کہ
وہ اسرائیل کو تسلیم کر لے اور دوستانہ تعلقات رکھے.
یہ خط پاکستانیوں کو بیوقوف بنانے اور اپنے حق میں رائے تیار کرنے کی ایک کوشش
ہے. یہ تحریر تفصیل کی متحمل نہیں لہٰذا پہلے ہم ڈاکٹر طوواہرٹمین کے کلمات نقل کریں
گے اور ساتھ ساتھ ان پر مختصر تبصرہ کر تے جائیں گے.
محترمہ فرماتی ہیں کہ
"پاکستان
کے بارے میں قائدِاعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلمانانِ ہند کیلئے ایک
ایسی تجربہ گاہ ہوگا جہاں اسلام کے بتائے ہوئے زریں اصولوں عملی طور پر نافذ کیے جا
سکیں۔ مسلمانانِ ہند کی لازوال جدوجہد بالآخر رنگ لے آئی اور مسلمانوں کی ایک نظریاتی
آزاد ریاست پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر 14 اگست 1947 پر ابھر آئی۔
ایسی ہی ایک آزاد ریاست کا خواب بنی اسرائیل کے راہنماؤں
نے بھی دیکھا۔ ایک ایسی امن پسند ریاست جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے دربدر ظلم و ستم
کا شکار یہودیوں کا اپنا گھر کہلا سکے، جہاں دنیا کے ذہین ترین لوگ بلا خوف و خطر اپنی
صلاحتیں بنی نوح انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کر سکیں، نئی نئی ایجادات کی جاسکیں،"
جواب(
کہنے کی حد تک تو یہ میٹھی میٹھی باتیں بہت پیاری ہیں پر
حقیقت اس کے برعکس ہے.
اگر”امن پسند ریاست“اسے کہتے ہیں جو لاکھوں فلسطینی مسلمانوں کی
لاشوں پر تعمیر کی جائے تو ایسی امن پسند ریاست کو صفہ ہستی سے مٹانا ہم اپنا فرض جانتے
ہیں۔ اور ہم آپ کی اس تقسیم یعنی عربی مسلمان، عجمی مسلمان، پاکستانی مسلمان اور افغانی
مسلمان کو بھی تسلیم نہی کرتے، آپ نے پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست تو کہا لیکن شاید
آپ کو سہی طرح ہمارے نظریات سے واقفیت نہی. ہمارے نظریات بہت واضح ہیں۔ ہم امت مسلمہ
کا حصہ ہیں اور دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والا مسلمان چاہے کسی بھی رنگ، کسی بھی
نسل کا ہو، جو بھی زبان بولتا ہو وہ ہمارا بھائی ہے۔ اس کی تکلیف ہماری تکلیف ہے، اس
کا درد ہمیں محسوس ہوتا ہے۔ یہ امت ایک جسد واحد کی طرح ہے۔ اس لیے آپ کی یہ دلیل کہ
چوں کہ آپ نے پاکستانیوں پر کوئی ظلم نہی کیا عربوں پر کیا ہے، اس لیے ہمیں آپ سے پیار
محبت کا رشتہ بنانا چاہئیے بالکل بھی کارآمد نہی ہو سکتی۔۔
آپ کے پورے خط کی بنیاد صرف ایک ہے نقطہ ہے کہ یہ جنگ یہودیوں
اور عربوں کی ہے اس لے پاکستانیوں کو بیچ میں نہی کودنا چاہئیے۔ اس لیے آپ کے پورے
خط کی عمارت کو گرانے کے لیے میرا اتنا جواب ہی کافی ہے۔ لیکن میں کچھ اور باتوں کی وضاحت بھی کرنا چاہوں
گا۔
آپ کا پاکستان اور اسرائیل کے قیام کو ایک جیسا کہنا بھی
بالکل خرافات ہے. قیام پاکستان کے لیے اس سرزمین پر بسنے والوں کا قتل عام کر کے باہر
سے کسی قوم کو لا کر نہی بسایا گیا. پاکستان جہاں قائم ہے وہ مسلمانوں کو اپنی زمین
ہے۔
اس کے برعکس یہودی ریاست اسرائیل کے قیام کے لیے پوری دنیا
سے یہودیوں کو فلسطین منتقل کیا گیا، فلسطین کے اصلی و حقیقی باسیوں کی زمین پر بزور
طاقت قبضہ کیا گیا. بات صرف مسلمانوں کے ایک علاقے پرغاصبانہ قبضے تک ہی محدود نہیں
ہے بلکہ اس حصے کو مسلمانوں کی صفوں پر حملے کرنے اور ان کی خواہشات اور آرزؤں کو کچلنے
کے لئے محاذ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
-------------------------------------------------------------------------------
ڈاکٹر طوواہرٹمین)
عجمی مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے کہ عرب مسلمان حضرت اسماعیل کی اولاد ہیں اور یہودی حضرت یعقوب کی اولاد جنکا لقب اسرائیل تھا جبکہ دونوں کے دادا جان حضرت ابراہیم ایک ہی ہیں جن پر سلامتی اور انکی اولاد آلِ ابراہیم کی سلامتی جس میں لامحالہ یہودی بھی شامل ہیں، کیلئے ہر مسلمان دن میں پانچ مرتبہ نماز میں درود بھیجتا ہے۔ ایک ہی مذہب، زبان، کلچر کے ہوتے ساتے امتِ مسلمہ کو تقسیم در تقسیم کرنے والے خلافتِ عثمانیہ کے باغی عربوں کی مملکت اسرائیل سے ناحق دشمنی سراسر نسلی منافرت ہے جسے انہوں نے اسلام اور کفر کی جنگ کا رنگ دیکر دیگر عجمی مسلمان ممالک کو بھی اسرائیل کی مخالفت میں جھونک ڈالا ہے۔
مسلمانوں کی اپنی لاعلمی یا پھر عربوں سے عقیدت ہے تو انہیں یہ باور کرنا چاہیے کہ ابو جہل بھی عرب تھا اور کفارِ مکہ بھی عرب تھے جنکی اولاد آج آلِ سعود کے نام سے سرزمینِ حرمینِ شریفین پر پھر سے قابض ہے
----------------------------------------------------------------------------------------------------------
جواب(
میں اس بات کی وضاحت پہلے بھی کر چکا ہوں کہ ہماری محبت اور
نفرت کا معیارعرب اور غیرعرب نہی، اسلام ہے۔ اور دنیا میں بسنے والے ہر مسلمان سے ہم
محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔ کفار مکہ اسلام قبول کرنے کے بعد اصحاب رسول کے درجے پر فائز
ہوے تھے۔ حضرت خالد بن ولید کا نام تو آپ نے سنا ہی ہو گا اور آپ چوں کہ ایک سکالر
ہیں تو بہت کچھ جانتی بھی ہوں گی۔ خالد بن ولید نے مسلمانوں کے خلاف جنگوں میں حصّہ
لیا، مسلمانوں کو نقصان پہنچایا، غزوہ احد کا
پانسہ مسلمانوں کے خلاف پلٹنے میں ان کا اہم کردار تھا پر حقیقت کا ادراک ہونے
کے بعد سیف الله یہنی اللہ کی تلوار کا لقب ملا اور اسلام کے عظیم مجاہد بنے۔
ہم آپ کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ فلسطینیوں کی زمین پر ناجائز
قبضے کو چھوڑ دیں، ان کا علاقہ انھیں لوٹا دیں۔ اور الله کی زمین پر فساد برپا مت کریں۔
آپ نے تاریخ کی بہت سی باتیں بھی کیں (جنھیں میں کہوں گا
کہ آپ نے گپ لگائی) ۔ آپ کی تاریخ تھوڑی سی کلیئر کرتا چلوں۔ تفصیل لمبی ہو جائے گی
صرف ایک دو باتیں یاد کروا دیتا ہوں۔
صہیونیت اپنی شرارتوں، اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبروں (علیہم
السلام) کی گستاخیوں حکم عدولیوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے ایک معروف سزایافتہ قوم
ہے۔ اس پر مزید قتل انبیاء (علیہم السلام ) کا جرم ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور
انسانوں کی نگاہ میں بھی ایک جرم عظیم ہے۔ یہ قوم آخری وحی کے مطابق ایک ’مغضوب علیہم‘
قوم ہے۔
صہیونیت کو ایک سزا ملی حضرت عیسیٰ کے بزعم خویش قتل اور
سولی دینے کے منصوبے پر عمل کرنے سے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے حضرت عیسیٰ کو بچا
لیا کہ اپنے رسولوں کو دشمنوں سے بچانا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے مگر اس
منصوبے کے مطابق بنی اسرائیل کے اس گروہ نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ سزا
تھی ۔۔۔آج سے1940ء سال پہلے مشرق وسطی پر ایک رومی فاتح ٹائٹس نامی جنرل حملہ آور ہوا
اس نے یروشلم کو برباد کیا اور یہود کو جلاوطن کر دیا۔ یہ سزا تھی بنی اسرائیل کے لئے۔
اس طرح یہ بنی اسرائیل جہاں سینگ سمائے پھیل گئے اور ہوتے ہوتے ساری دنیا کے اہم مراکز
میں جا قدم جمائے۔ صہیونیت ایک نسلی مذہب اور اجتماعیت ہونے کی وجہ سے دنیا میں منتشر
ہونے کے باوجود حد درجہ منظم رہے۔ یہ اُن کا دورِ انتشار
(DIASPORRA) کہلاتا ہے۔ یہ دورتقریباً دوہزار سال پر پھیلا
ہوا ہے۔
اس دوران یہ اصفہان، عراق، ہند، یونان، یورپ ، قسطنطنیہ،
چین ،سپین وغیرہ میں سرگرم رہے۔ اس دورِ انتشار کا (خود ان کے بقول) سب سے اچھا پرامن
حسین اور یادگار دور۔۔۔ مسلم سپین میں ان کا قیام ہے۔ جو آٹھ صدیوں پر محیط ہے مگر
عربی محاورے کے مطابق”اپنے لاغر کتے کو کھلا پلا
کر موٹا کرو وہ ایک دن تمہیں ہی کاٹ لے گا“سپین
میں مسلم اقتدار کے خاتمے کا سبب یہی یہود۔۔۔ بنی اسرائیل کا بگڑا ہوا گروہ یا صہیونیت
کے علمبردار تھے۔ صہیونی ڈکشنری میں نیکی اور احسان کے بدلے میں شاید ایسا ہی درج ہے۔
یہ بات بھی صہیونیت پر مسلمانوں اور بالخصوص حضرت عمر کا
احسان ہے (جس کا بدلہ وہ انہیں گالیاں دے کر ادا کرتے ہیں) کہ جب بیت المقدس عیسائیوں
کے پاس تھا تو یہودیوں کو وہاں داخلے کی بھی اجازت نہیں تھی اور جب مسلمانوں نے فتح
کیا تو حضرت عمر نے یہودیوں کا مقدس مقام ہونے کی وجہ سے ان کو بھی وہاں آنے جانے کی
اجازت دے دی۔ مگر اس پر پابندی رہی کہ صہیونیت کے علمبردار بیت المقدس میں آباد نہیں
ہوسکتے۔
صہیونیت کا چہرہ مکروہ اور کرتوت سیاہ ہیں جس کی وجہ سے ماضی
میں بھی بدنام ہوئے اور اب بھی ان شاء اللہ ناکام و مامراد ہوں گے۔
آپ نے یہ بھی فرمایا کہ
----------------------------------------------------------------------------------------------------------
ڈاکٹر طوواہرٹمین)
"پاکستانی عوام کو اسرائیل کی ایکچیومنٹس کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ انکے پاسپورٹ پر یہ ہدایت درج کی جاتی ہے کہ یہ پاسپورٹ ماسوائے اسرائیل تمام ممالک کیلئے کارآمد ہے۔ حالانکہ حکم الہیٰ ہے کہ تمام کی تمام دنیا اللہ کی ہے "
----------------------------------------------------------------------------------------------------------
جی یقیناً تمام کی تمام زمین الله کی ہے۔ اور اللہ کی زمین
کو فساد سے پاک کرنے کا حکم بھی ہے۔ جو ابھی تک ہماری کوتاہی کی وجہ سے نہی ہو سکا،
ہم نقشے میں دیکھ سکتے ہیں کہ یہ فساد(اسرائیل) دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ آپ نے یہ خط
لکھ کر اچھا کیا کہ اہمیں یاد کروا دیا۔ ہم یہ بات بھولے بیٹھے تھے(سب نہی کچھ)۔ اب
یاد رکھیں گے کہ ہم نے الله کی زمین کو فساد(اسرائیل) سے پاک کرنا ہے۔
فلسطینی ریاست پر فلسطینی عوام اور مسلمانوں کی حکومت کے
علاوہ کوئی بھی اقتدار غاصبانہ اقتدار ہے اور الله کی زمین میں فساد ہے۔
----------------------------------------------------------------------------------------------------------طوواہرٹمین)
پاکستان ہم سے بلا کسی وجہ کے کب تک نفرت کرتا رہے گا؟
----------------------------------------------------------------------------------------------------------
”اور
ان سے اس وقت تک لڑتے رہنا کہ فساد نابود ہوجائے اور (ملک میں) خدا ہی کا دین ہوجائے
اور اگر وہ (فساد سے) باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں (کرنی چاہیئے“(
یہ نفرت تب تک رہے گی جب تک آپ فساد برپا کر رہے ہیں۔ فساد
سے باز آجائیں نفرت ختم ہو جائے گی۔ پر آپ کی تاریخ یہ بتاتی ہے (اور آپ کا خط بھی
یہی بتاتا ہے) کہ آپ فساد سے باز آنے والوں میں سے نہی۔ آپ کو تاریخ میں ہمیشہ جو مار
پڑی ہے وہ آپ کے اپنے فسادات کی وجہ سے پڑی ہے۔ یہاں ایک غور طلب بات آپ کو بتاتا چلوں
کہ یہودیوں کو جتنی مار پڑی ہے تاریخ میں وہ زیادہ تر عیسائیوں سے پڑی ہے.اب یہ بتانے
کی ضرورت تو نہی ہے کہ کہاں کہاں اور کتنی پڑی ہے اور پڑی اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہے.
مسلمانوں نے آپ کو ہمیشہ سکون فراہم کیا ہے پر آپ کی کتے والی فطرت اب آپ کو اس مقام
پر لے آئی ہے کہ اس بار آپ کا سارا شر مسلمانوں کے خلاف ہے لیکن یاد رکھیے گا کہ یہ
شرارت آپ کی آخری شرارت ہو گی۔ ان شا الله