ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

9 مارچ، 2012

آسکر ایوارڈ برائے تذلیل مسلماں



آسکر ایوارڈ برائے تذلیل مسلماں 

پچھلے دو ہفتوں سے ہر طرف ایک  ہی شور سن رہے ہیں کہ ایک  پاکستانی عورت نے آسکر ایوارڈ جیت  کر پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کردیا ہے، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے آسکر ایوارڈ جیتنے پر شرمین عبید چنائے کو اس کارنامے کی وجہ سے سو ل ایوارڈ دینے کا کہا ہے، سارا میڈیا رٹے لگا رہا ہے  کہ یہ اعزاز ہمارے ملک و قوم کے لئے  ایک بہت ہی فخر کی بات ہے ،  اخبارات میں رنگین سپلیمنٹس شائع ہورہے ہیں ، میگزین اس کی تصویریں اپنے  فرنٹ پیج پر لگارہے کہ  اس عورت نے اپنی محنت سے پاکستان  کو ایک بہت بڑے اعزاز سے نوازا ہے.۔
ہم  انگشت بدنداں ہیں کہ یاالہی اس عورت نے  آخر ایسا کیا ہمالیائی کارنامہ سرانجام دے دیا ہے جسکی اتنی تعریف کی جارہی ہے ؟ کیا  دنیا میں دو عورتوں کے چہرے پر تیزاب  گرانے سے  بڑا ظلم عورتوں کے ساتھ کہیں نہیں ہوا  اورکیا  اس ظلم پر کوئی ڈاکومینڑی موجود نہیں۔۔؟ کیا اس موضوع پر  شرمین سے بڑا  کارنامہ کوئی  اور فلمساز آج تک نہیں سرانجام دے سکا؟
  ہمارے ناقص علم کے مطابق صرف امریکہ محکمہ انصا ف کی رپورٹ  ہے کہ  امریکہ میں ہر پانچ منٹ میں  ایک عورت کے ساتھ ریپ کی واردات ہوتی ہے، یورپ میں ہزاروں لڑکیاں ریپ کے بعد قتل کردی جاتیں ہیں، یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ  فلسطین میں اسرائیلی ، کشمیر میں انڈین ، عراق  اور  افغانستان  نیٹو فوجوں نے  عورتوں کے ساتھ کیا  سلوک کیا اور کررہے ہیں؟  امریکی حکومت نے پندرہ لاکھ سے ذیادہ عراقی اور افغانی معصوم شہریوں کے خون میں ہاتھ رنگے ،   افغانستان اور عراق  کی  ہزاروں  جوان لڑکیاں انہی یورپ ، امریکہ کے بازار حسن میں بک گئیں ،   بھائیوں کی آنکھوں کے سامنے ان کی بہنوں کے ساتھ ریپ کیے گئے، بمباری سے   لاکھوں عورتیں بیوہ اور بچے یتیم اور معذور   ہوگئے اور ہورہے ہیں، خود  اسی پاکستان میں ہزاروں بچے، عورتیں ،بوڑھے ڈرون حملوں میں جل کر راکھ ہوگئے ہیں ،  'انسانوں کا غم رکھنے والے ان منافقوں نے یہود  کے ایک ہولوکاسٹ کے واقعے پر کئی سو ڈاکو منٹریاں  تو بنا لیں  ان  پر کوئی فلم کیوں نہیں بنائی،  ویت نام پر امریکہ  نے  تاریخی مظالم  کیے  تھے اس پر کوئی ڈاکو مینٹری نہیں بنی۔ اس آسکرایوارڈ دینے والی تنظیم کی منافقت اور  تعصب سے خود انکے اپنے لوگ آگاہ ہیں   ۔یہی وجہ تھی کہ فلم دی گاڈ فادر  کے ہیرو مارلن برانڈو نے  اپنا آسکر ایوارڈ لینے سے انکار کردیا وہ جانتا تھا کہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں نے  یہاں کے اصلی باشندوں ریڈ اندین پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے ہوئے ہیں    اور  ہالی وڈ کی فلمیں  الٹا انہی مظلوموں کو ظالم شو کررہی  ہیں۔ 
 ادارکار جارج سکاٹ  نے اپنی فلم پر یہ کہہ کر آسکر ایوارڈ لینے سے انکار کردیا کہ یہ انتہائی بدیانت تنظیم ہے۔دنیا کے کئی اہم موضوعات اور مظالم پر  کئی  حساس دل لوگوں نے  دستاویزی فلمیں بنائیں ہیں   ان کو آسکر ایوارڈ دینا تو دور کی بات ان کو فلموں کی لسٹ میں ہی نہیں رکھا جاتا۔خود شرمین کی فلموں پر نظرڈالیں تو  کئی فلمیں ایسی ہیں جن میں  انسانی کرائسز دو عورتوں کے چہرے پر تیزاب گرائے جانے کے واقعہ سے بھی ذیادہ شدید ہیں ۔  اسکی ایک فلم ‘ عراق دی لاسٹ جنریشن  ہے  جس  میں انہی  آسکر ایوارڈ دینے والوں کے ملک اور انکی   اتحادی فوجوں کے   محض عراق کے ذخائر  پر قبضہ کے لیے کئے گئے حملوں سے عراق میں آنے والے تباہی  اور ساری عوام خصوصا مہاجرین کی  افسوسناک حالت کو دکھایا گیا ہے  , شرمین نے تو اس  مغربی دہشت گردی پر ایک لفظ نہیں بولا بلکہ الٹا دفاع کرتے ہوئے اسے فرقہ وارانہ فسادا ت کانتیجہ قرار دیا ۔ یہ چیز  دیکھنے والا اپنے طور پر  محسوس کرسکتا ہے کہ مغربی  اتحادی  فوجوں نے اس قدر درندگی کا مظاہر ہ کیا ہے  کہ نہتی عوام کو بھی نہیں بخشا ۔  ایک اور فلم جس کا نام ہائی وے آف ٹئیررز ہے۔ اس میں کینڈا  میں گمشدہ ہونے والی درجنوں عورتوں اور انکے گھرانوں کا تذکرہ ہے۔ آسکر ایوارڈ والوں کو دوپاکستانی مسلم عورتوں کے چہروں پر گرائےگئے   تیزاب  پر بننے والی ڈاکومینڑی اتنی پسند آئی کہ انہوں نے اسے آسکر ایوارڈ کا حق دار سمجھ لیا،      انہیں  اسی ڈائریکٹر کی عراق میں بننے والی فلم نظر کیوں نہیں آرہی جس میں  انہی کی فوجوں کی بمباری سے بچوں  ، عورتوں،  بوڑھوں  کے صرف چہرے نہیں پورے پورے جسم  جلے  ،  مسخ  اور معذور  ہوئے دکھائی دیتے  ہیں    اور وہ  مہاجر کیمپوں میں سخت حالات میں زندگی گزار رہے ہےجہاں سیونگ فیس کا نہیں سیونگ لائف کا مسئلہ ہے۔  ؟ اگر ان لوگوں کو دنیا کی عورتوں کا اتنا ہی احساس ہے تو یہ   کینیڈا میں  اغوا ہونے والی درجنوں عورتوں پر بننے والی ڈاکومینڑی کو کیوں اگنور کررہے ہیں ۔ ۔ ۔ ؟  دنیا میں مختلف انتہائی اہم ٹاپک پر ہزاروں فلمیں بن چکیں ہیں  ، آخر وہ فلمیں آسکر ایوارڈ کی حق دار کیوں نہیں ٹھہرتیں ۔ ۔ ؟ شرمین کی  اس سیونگ فیس  فلم سے پہلے 2002میں اس  کی فلم ٹیررز چلڈرن پر اسے  کئی بین الاقوامی ایوارڈ دیے گئے۔۔ 2003 میں اس کی دستاویزی فلم   ری انوینٹنگ  دی طالبان کو  چار مختلف بین الاقوامی ایوارڈز ملے ۔  2010  میں پاکستانی طالبان/ جنریشن  چلڈرن آف دی طالبان پر  اسے  ایمی ایوارڈ  دیا گیا ۔ ان تین فلموں  میں کیا دکھایا گیا ہوگا وہ ان کے نام سے ہی ظاہر  ہورہا ہے ۔ ۔ ۔؟ 
 آخر کیا وجہ ہے کہ ایوار ڈ کے لیے ہمیشہ  مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈہ فلمز  اور  مسلم معاشرے کے منفی پہلو کو اجاگر کرنے والی ڈاکومینڑی  ہی منتخب ہوتیں ہیں۔ ۔ ؟اسکا جواب یہی ہے  کہ یہ لوگ اپنے ہی لوگوں کے کیے گئے  ان انسانیت کش کارناموں پر  بننے والی فلموں پر ایوارڈ   دے کر دنیا کے سامنے اپنے لوگوں کو ذلیل کیوں کروائیں  ۔ ۔ ؟ ان  فلسطین ، عراق، افغانستان میں  پر بننے والی فلموں  میں تو ان  مسیحاؤں کی اپنی فوجیں یہ  سب  کارنامے کررہی ہیں ۔ ۔۔ ؟  اس  سے تو  خود ان   انسانی حقوق کے عالمی چیمپئنوں کے چہروں سےخوشنما نقاب اتر جائیں گے ۔ ۔ ۔  ان منافقوں کی اپنی  حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی۔ ۔ ۔  اس ایوارڈ کی ذیادہ حقدار تو  وہ فلمیں ہیں جن میں ظالم مسلمانوں کو شو کیا گیا ہے ۔  ۔ ۔ یہ   ایوارڈ تو  انہوں نے  مسلمانوں کے معاشرے کے منفی پہلو اجاگر کرنے والے اپنے پسندید ہ فلمسازوں کو دینا ہے   ، جیسے انہوں نے شرمین کی چند عورتوں کے تیزاب سے جلنے والی فلم پر ایوارڈ دیا، تاکہ دنیا کو پتا چلے کہ  انہیں مسلمان عورتوں کی کتنی  فکر ہے۔ ۔ ۔ ? وہ ظالموں کے خلاف اور  ان مظلوم عورتوں کے ساتھ ہیں۔ ۔ ۔  اس سے ان کے  چہرے پر شرمندگی بھی نہیں ہوگی  اور انہیں دنیا میں انسانوں کا خیر خواہ بھی کہا جائے گا۔ 
آسکر ایوار ڈ والوں کی  طرح کی یہی منافقت مغرب کے ہر شعبہ میں نظر آتی ہے۔   انکا میڈیا  اپنے  مسلمان ملکوں پر حملہ آور ظالم فوجیوں کو  مظلوم اور شہید ہونے والے معصوم مسلمانوں کو دہشت گرد اور ظالم بنا کر پوری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ۔ ۔ انکے نيشنل چينل پر نشر ہونے والي  اسلام اور مسلمانوں كے متعلق ۸۵ فيصد خبريں مسلمانوں كے خلاف اور منفي ہوتي ہيں۔فلسطين و عراق ميں ناجائز قبضہ ، وحشيانہ حملوں اور مسلمانوں كے اپني سر زمين كے حق دفاع سے چشم پوشي كرتے ہوئے ، حملہ آور  دشمنوں كے مقابلہ میں مسلمانوں كي طرف سے ہونے والي مزاحمت كے مناظر كو دہشت گردی كے عنوان سے نشر كيا جاتا ہے
 غیر وں سے متعلق تو ہماری مذہبی کتابوں نے بھی پہلے سے  گواہی دے رکھی تھی  کہ یہ یہود ونصاری مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے، ہماری  انسانی حقوق کی ملکی تنظیموں کا کردار بھی ان یہودیوں سے مختلف نہیں ہے، ہماری اس  نام نہاد معمار پاکستان، دخترپاکستان ، بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ  عورت  شرمین  نے  تین  سے زائد فلمیں  طالبان کے حملوں اور انکے بچوں پر  تو بنا دیں ، جن  میں  دکھایا گیا ہے کہ اس نے  وہاں کےمہاجر کیمپوں  کے  دورے کیے ، وہاں کے بچوں سے انٹرویو لیے اور  ایک پلاننگ کے تحت مدارس کو خود کش حملہ آوروں کی ٹریننگ کے مراکز شو کیا  اور  طالبان کے حملوں سے چند تباہ شدہ سکولوں کی ویڈیو دکھائیں( ملکی اخبارات میں شایع شدہ رپورٹس کے مطابق کئی جگہوں پر ٹھیکیداروں نے خود سکول تباہ کروائے تاکہ بعد میں انہیں تعمیرات کیلئے ٹینڈر مل سکیں) ۔  اسکو  انہی علاقوں میں ڈرون اٹیک سے زخمی ہونے والے بچوں ، عورتوں کا انٹرویو کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا،  ڈرون حملوں سے تباہ شدہ گھروں کی ویڈیو بنانے سے اسے کس نے روکا۔ ہماری نظر میں ایک  مستند رپورٹ کے مطابق ان  ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والوں کی تعداد 2711 ہے۔ ہلاک شدگان میں سیکڑوں عورتیں ہیں اور 178 معصوم بچے بھی شامل ہیں ۔ ان  جل کر راکھ ہونے والے ان ہزاروں بچوں، عورتوں کے متعلق   اس عورت نے یا کسی اور نے کوئی فلم کیوں نہیں بنائی ۔ ?? یہاں ان  معماروں ، پاکستان کا درد رکھنے والوں کی زبانیں، قلم ، کیمرے کیوں رک جاتے ہیں ؟
جنگ کے معروف کالم نگار عرفان صدیقی صاحب مغرب اور انکے پسند یدہ لوگوں  کی اسی مخصوص مکروہ ذہنیت اور کام کے طریقہ کار  کے  متعلق تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایک کالم میں  لکھتے ہیں۔
ایک تاثر تو یہ ہے کہ آسکر ہو یا کوئی اور عالمی اعزاز صرف اسی صورت میں کسی پاکستانی شخصیت، ادارے، تنظیم یا این جی او کا مقدر بنتا ہے جب زیر نظر فلم، تخلیق، کارنامے یا ادب پارے میں پاکستانی معاشرے کی کوئی گھناؤنی، متعفن اور نفرت انگیز تصویر پیش کی گئی ہو۔ یوں پاکستان کی کسی شخصیت ادارے، تنظیم یا این جی او کے سینے پر ایک تمغہ سجا کر بظاہر پاکستان کو شاباش دی جاتی ہے لیکن درحقیقت پاکستان کا تیزاب زدہ مسخ چہرہ ساری دنیا کو دکھا کر ، یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان، درندوں کی کمین گاہ ہے جہاں اس نوع کے بھیانک جرائم معمولات حیات کا درجہ رکھتے ہیں۔ عزتیں بانٹنے والے یہ بڑے بڑے ادارے، کسی تخلیق کو جانچنے کی اپنی کسوٹی رکھتے ہیں۔ ان کے کچھ من پسند موضوعات اور پرکشش نعرے بھی ہیں۔ لازم ہے کہ تخلیق کا نفس مضمون ان موضوعات اور ان نعروں سے ہم آہنگ ہو اور اُن وسیع تر مقاصد کی آبیاری کرتا ہو جو اعزازت کے عالمی تقسیم کاروں کے پیش نظر ہوتے ہیں۔



0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں