ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

1 مارچ، 2012

پھر نہ کوئی منہ سلامت رہے گا نہ سر

 



مجھے آج ایک مرثیہ کہنا ہے۔ ایک جیتی جاگتی، سانس لیتی اٹھارہ کروڑ عوام کا مرثیہ جو چند ہزار لوگوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہے، سہمی ہوئی معصوم سی ایک استاد جس کے گال پر رعونت، تکبر اور تفاخر سے آگ الگتی ایک خاتون طمانچے مارتی رہی. ایک عمر رسیدہ عورت کی آنکھ سے بہتے آنسو ہیں جو تھپڑوں اور دھکوں کے بعد اس کی آنکھ سے نکل آئے تھے۔ یہ تھپڑ اور طمانچے پہلی دفعہ قوم نے کیمرے کی آنکھ سے دیکھے ہیں ورنہ اس غلیظ اور بدبودار معاشرے میں یہ روز کا معمول ہے۔ گلیوں، بازاروں، چوکوں اور چوراہوں پر عام آدمی کے ساتھ یہ فرعون صفت افراد یہی رویہ اختیار کیے ہوتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جنھیں اپنے شجرہ نسب پر ناز ہے، اپنی وسیع وعریض پھیلی ملکیت زمین پر گھمنڈ ہے، اپنے کارخانوں کی سلطنت پر بھروسہ ہے اور اپنے نسل دار نسل سردار، وڈیرے، جاگیردار، ملک اور چودھری ہونے پر ان کی گردنیں اکڑی ہوئی ہیں۔ اس رویے میں میرے ملک کا کوئی خطہ یا صوبہ مختلف نہی۔ پنجاب کا چودھری، سندھ کا وڈیرہ، بلوچستان کا سردار اور خیبر پختوں خوا کا خان سب ایک جیسے ہیں۔ اور یہ سب اس جمہورت کے تحفے ہیں اور اس کی بقا کے علمبردار بھی۔۔۔

میڈیا نے جو تھپڑ دکھائے یہ صرف ایک علامت ہے ورنہ اگر کبھی یہ خاتون گھر میں، حویلی میں یا کسے کے ڈیرے پر ہوتی تو اس کی چمڑی ادھیڑ دی جاتی ۔ اسے رومن بادشاہوں کی طرح اوباشوں کے حوالے کر دیا جاتا جو اپنے ملک سے خوبصورت اورغلام عورتوں کو اکھٹا کرتے تھے ۔ سالانہ رومن کھیلوں کے دوران ان کو پالتو کتوں کی طرح پلے ہوئے مضبوط جسم لوگوں کے حوالے کردیا جاتا تھا جو ان کے ساتھ لاکھوں لوگوں کے سامنے بدسلوکی کرتے تھے اور پورے کا پورا مجمع ان عورتوں کی چیخ و پکار پر خوش ہو کر تالیاں بجاتا تھا ۔ ان لوگوں کا بس چلے تو اپنے محکوم افراد اور مجبور عورتوں کے ساتھ یہی سلوک کریں. اگرچہ ایسا سلوک ہوتا ضرور ہے مگر اس کو دیکھنے والے اور اس کے ظلم کی شدت سے لطف اندوز ہونے والے اسی گاؤں یا علاقے کے لوگ ہوتے ہیں جو خوف سے زبان نہی کھولتے۔۔


المیہ یہ نہی کہ ایک معصوم استاد کو ایک فرعون صفت خاتوں نے سرعام تھپڑ رسید کیے، المیہ یہ ہے کہ یہ فرعون صفت خاتوں ایک منتخب نمائندہ ہے ۔ عوام کی اجتمائی را ئے ہے جس کے احترام کا ہمیں درس دیا جاتا ہے۔ یہ ہے جمہوریت کا وہ اصل چہرہ جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا


ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب کبھی آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر


یھنی ایک بادشاہ، ایک حکمران یا ایک فرعون کا اختیار چار سو فرعونون میں تقسیم کر دیا ہے. اب یہ چار سو فرعون سڑکوں پر دندناتے پھرتے ہیں ۔ کالے شیشے لگا ئے ہو ئے گاڑیاں، بڑی بڑی نمبر پلیٹوں پر اپنے جمہوری عہدے لکھے ہو ئے ، ٹریفک کے سگنل توڑتے ہو ئے ، ناکے پر کھڑے سپاہیوں کو ذلیل و رسوا کرتے، تھانوں کے گیٹ توڑ کر اپنے چہیتے مجرموں کو اپنے ساتھ لے جاتے اور بڑے بڑے افسران کے ساتھ مل کر اپنے مخالفین پر قتل، اغوا، دہشتگردی اور دیگر جرائم کے جھوٹے مقدمے قائم کرواتے، ان کے خلاف جھوٹی گواہیاں پیش کرواتے اور سچے گواہوں کو عدالت جانے سے روکتے، بیواؤں یتیموں، معزوروں اور مسکینوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرتے، قاتلوں، چوروں، ڈاکوؤں اور غنڈوں کو اپنوں ڈیروں پر پناہ دیتے بلکہ اپنے ساتھ ذاتی گارڈوں کی حیثیت سے گھماتے، یہ ہیں وہ کئی سو فرعون جو منتخب ہوتے ہیں. جو جمہوریت کی اساس ہیں. جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ "عوام کی را ئے پارلیمنٹ میں بولتی ہے"

ایسا کیوں ہے؟؟؟

اس لیے ہے کہ یہ جمہوری نظام بنایا ہی اس طرح گیا تھا کہ وہ چند ہزار لوگ جو کبھی ایک بادشاہ کے فرمان سے حکمران بنتے تھے ان کو اس انداز سے حکمران بنا دو کہ لوگ فریاد نہ کر سکیں.. میں حیرت میں گم ہو جاتا ہوں جب ٹی وی پر کوئی کال کرنے والا ان فرعونون کی شکایات کرتا ہے تو اینکر پرسن الٹا اس کو ڈانٹتا ہے کہ تم نے ہی تو ووٹ دے کر بھیجھا تھا اور وہ بیچارہ چپ سادھ کر بیٹھ جاتا ہے.. ہم کس قدر منافق ہیں کہ بیٹی یا بیٹے کا رشتہ کرنے جایئں تو کسی غنڈے، بدمعاش، چور اچکے، بددیانت کو اپنی دہلیز پر قدم نہی رکھنے دیتے. ہمیں صرف یہ پتا چل جا ئے کہ اس کی شہرت بدنام ہے تو ہم اس گلی کا رخ نہی کرتے لیکن پوری قوم کی عزت و عصمت جس کے حوالے کرتے ہیں اس کی شہرت بدنام ترین بھی ہو تو ہمارے منہ پر تھپڑ یوں لگتا ہے، ""تمھارے پاس ثبوت ہیں تو جاؤ عدالت میں اور ثابت کرو""""


یہ ہے وہ معاشرہ جو خوفزدہ ہے، یرغمال ہے. دنیا میں جہاں بھی تبدیلی آئ، حالات بدلے، وہاں سب سے پہلے لوگوں کا ایک جم غفیر اٹھا ، دیوانوں کی طرح.. انہوں نے سب سے پہلے ان دس پندرہ ہزار ظالموں، فرعونوں اور اجارہ داروں کو صفحہ ہستی سے مٹایا اور پھر کہا، اب ہم سب برابر ہیں. آؤ اب ہم اپنے آپ ہی سے حکمران چنتے ہیں... یہ زمین جس پر کتنے سالوں سے ظلم کی آندھیاں چل رہی ہیں، بہت پیاسی ہے.. اس کی پیاس بجھنے کے دن بہت قریب ہیں.. کسی کو اندازہ ہی نہی کہ جب وہ خاتون ٹیچر کو تھپڑ مار رہی تھی اس وقت پچیس کے قریب مفلوک الحال خواتین وہاں موجود تھیں. بس ایک لمحے کی بات ہے، جس دن اس کمزور خاتون نے وہ ہاتھ واپس رعونت سے بھرے منہ پر لوٹا دیا، پھر نہ کوئی منہ سلامت رہے گا نہ سر...

اوریا مقبول جان
☀▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬
Waheeda shah, ppp, slapped, teacher, orya maqbool jan, article, election,  polling agent,

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں