ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

30 مئی، 2012

عافیت سے محروم قوم






عافیت سے محروم قوم



تم کیسی قوم ہو؟؟!

نہ تمہارے فیصلے تمہارے ہاتھ میں ہیں
نہ تمہارے معاملے تمہارے اختیار میں ہیں
تم جو فصل اُگاتے ہو اُس کے حقوق کسی اور کے نام ہوتے ہیں
تم جو کپڑا بنتے ہو اس کی قیمت کسی اور کی جیب میں جاتی ہے
تم پسینہ بہاؤ، تو کسی اور کو اِس کا صلہ ملے
تم لہو ٹپکاؤ، تو کسی اور کو اِس کا خراج نصیب ہو
تمہاری جانوں کے نذرانے کسی اور کے دَر پر سجائے جاتے ہیں
تمہارے ’شہیدوں‘ کے لاشے استعمار کی چوکھٹ پر نیلام ہوتے ہیں
تمہاری محنت و قربانی سے کسی اور کے شب و روز سنورتے ہیں
کسی اور کی سرفرازی و سر بلندی کے لیے تمہیں سب رُسوائی جھیلنی ہوتی ہے
نا آسودہ تمہاری رُوحیں آرزوؤں کے صحراؤں میں بھٹکتی ہیں
تمہارے شکستہ ڈھانچوں کی خشت پر قصرِ استعمار کی تعمیر ہوتی ہے
تمہاری خواہشوں کی لحد پر فراعینِ وقت کی مملکت اُستُوار ہوتی ہے
تمہارے ضمیر کا رونا ہی کیا کہ تم ایک غلام قوم ہو
تمہاری غیرتوں کا سودا کیا معنی؟ کہ غلامی میں کیا سودے بازی!!

تم کیا جانو غیرت کا مفہوم!!!
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں!“....

دو صدیاں ’ بحرِ غلامی‘ میں ڈبکیاں کھاتی قوم کیا جانے ضمیر کیا شے ہے!!
غلام کیا جانیں کہ ٓازاد قوموں کے ہاں ’عزت‘ اور’زندگی‘ میں کوئی فرق نہیں ہوا کرتا!

جس قوم کو عزت کے بغیر جینے کا ڈھنگ آتا ہو، اُس کا مقدر غلامی نہ ہو تو پھر کیا ہو؟!
نگاہِ بندہ ٔ حُر‘ پھراِس قوم کو نصیب ہو تو کیسے ہو !؟
کسی ’مردِ آزاد‘ کا نورِ بصیرت اِسے عطا ہو تو کیونکر ہو!؟
تمہی تو ہو جس سے غلامی کے نئے دور کی تاریخ شروع ہوتی ہے

وہ دورِ غلامی، جس میں ہر ’فرد‘ اپنی من مانیوں میں آزاد ہوتا ہے۔ ’قوم‘ البتہ غلام رہتی ہے!!!
وہ دورِ غلامی جس میں ہر فکرِ خام کو آزادی ٔ افکار سے بہرہ یاب کرکے انسان سے حیوان بنایا جاتا ہے

تمہیں کیا خبر کہ مادر پدر آزادی ٔ افکار ہی تو دراصل ’قومی غلامی‘ کا پہلا باب ہے
عقیدے سے اُبھرنے والی قوم ، افکار کے سیلاب میں ڈوبی دنیا کے اندر فکر کی آزادی قبول کرلے تو اُس کی نئی غلامی دراصل یہیں سے شروع ہوتی ہے

تم عجیب قوم ہو!
تمہارا ہر فرد ’آزاد‘ ہے، لیکن تم پوری کی پوری غلام ہو!!
تمہارا کونسا مسئلہ ”قومی مسئلہ“ ہے؟؟؟
تمہاری قوم نے کبھی کسی معاملے پر اتفاق بھی کیا ہے؟؟؟
تمہارے ہاں کوئی ایسا معاملہ بھی پایا جاتا ہے جس پر پوری قوم کے اُٹھ کھڑے ہونے کا سوال پیدا ہو سکتا ہو؟؟؟
تمہارا کوئی مسئلہ ایسا بھی ہے جس میں بات محض بیانات، مذاکرات، مطالبات اور احتجاجوں تک پہنچ کر نیست و نابود نہ ہو جاتی ہو؟؟

تم کوئی قوم بھی ہو یا محض ’افراد‘ کا مجمع؟؟
یا زیادہ سے زیادہ گروپوں، تنظیموں، پارٹیوں، جماعتوں اور اداروں کا معجونِ مرکب!!؟؟
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو ’اِک قوم‘ بھی ہو!
تمہارے جوانوں کے گبرو جسم سرِ بازار لہو میں سجتے رہیں
تمہارے بیٹوں کے دریدہ لاشے سرِ شام گھروں میں جاتے رہیں
تمہاری بیٹیوں کی چادریں سرِ عام نیلام ہوتی رہیں
تمہاری ماؤں کی بوڑھی آنکھیں ہر روز کسی کی راہ تکتی رہیں
تمہارے کم سنوں کو شب و روز کسی کا انتظار ہوتا رہے
تمہارے معمولات میں کوئی فرق نہیں آنا
تمہارے کارپردازوں کے ’کاروبار‘ میں کوئی تعطل واقع نہیں ہونا!
جب قوم محض ’افراد‘ یا پارٹیوں کا مجمع رہ جائے تو پھر کوئی مسئلہ قومی نہیں ہوتا!

پھر مسائل یا تو افراد کے ہوتے ہیں یا پارٹیوں کے
حکومت بھی ایک پارٹی ہی ہوتی ہے
وہ صرف ’حکومتی مسائل‘ اپنی صوابدید پر حل کرتی ہے
باقی جس کا جو بس چلتا ہے اُتنا ہی کر پاتا ہے
ایسے میں تمہاری حکومت تمہاری ”عافیت“ کا سودا کر آئے
اُسے پامال ہونے کے لیے دشمن کے حوالے کر آئے
تو یہ بھی بس ایک گھر یا ایک گروہ کا ہی مسئلہ ہے!
لوگ لاکھ احتجاج کر لیں اور مطالبات سے آسمان سر پر اُٹھا لیں
حکومت اور اُن کے آقاؤں کو پتہ ہے کہ اِنہوں نے اِس سے زیادہ کچھ نہیں کرنا

اِس کے بعد اِنہوں نے پچھلے تمام ’قومی‘ و ’دینی‘ مسائل کی طرح اِس پر بھی بالآخر ٹھنڈا پڑ جانا ہے!
وقت کی گرد نے آہستہ آہستہ اِس کو بھی دھند لا دینا ہے۔ ’قوم‘ کو آخر ’صبر‘ آجانا ہے!!
وہ بھی کیا سادہ دور تھا جب سٹلائیٹ تھا نہ ریڈیو، نہ فون، نہ موٹریں، نہ ہوائی جہاز، نہ انٹر نیٹ
کافروں کے ملک سے ایک مسلمان عورت دشمن کی ایک بد تمیزی پر پکار لگاتی ہے

وا معتصماہ !!!!“ کہاں ہے او معتصم!

ہزاروں میل دور بغداد میں مسلمانوں کے خلیفہ معتصم باللہ کو جونہی اِس پُکار کی خبر پہنچتی ہے، بے اختیار ”لبیک یا اختاہ لبیک یا اختاہ“ پکارتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوتا ہے
ایک لشکرِ عظیم کے ساتھ کفار کے اُس ملک پر ایسی یلغار کرتا ہے کہ اُس کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی ہے۔ تب تک خلیفہ گویا نہ کچھ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ سوتا ہے
شہر فتح ہوتا ہے۔ تب خلیفۃ المسلمین اپنی مسلمان بہن کو بدلہ دلواتا ہے

آہ!!!!!

یہ ”وا معتصماہ“ محض ایک واقعہ نہیں، مسلمانوں کی بارہ سو سالہ عظمت و سطوت، غیرت و خودداری، سرفروشی و جانبازی اور سَربلندی و سرفرازی کی تاریخ ہے

تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟! ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِفردا ہو!!

اُف، وہ غیرت اب کہاں سے لائی جائے!
وہ ایمانی عزت کا مفہوم کیسے دوبارہ زندہ کیا جائے!
آہ، وہ تمام دنیا میں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و عصمت کی محافظ اور اُن کی ”عافیت“ کی ضامن خلافت ِ اسلامیہ ہمارے پاس نہیں
مسلمان اپنی ملت سے کٹ کر اپنی اپنی وطنیتوں میں گُم ہیں
مسلم تنظیموں اور جماعتوں کے درمیان مقاصد اور عمل میں کوئی قابلِ ذکر اشتراک اور یکجہتی نہیں پائی جاتی! ابھی وہ شاید یہ سوچنے پر ہی نہیں آئے کہ اُمّت کی سطح پر مل جُل کر کوئی مفید کام کس طرح کیا جا سکتا ہے!!
بہت سے داعی ابھی اِسی میں بھٹک رہے ہیں کہ انہیں دراصل کرنا کیا ہے!!
بہت سوں کے ہاں خلافت کے لیے مہدی کے انتظار سے بڑھ کر تسلّی بخش شے کوئی اور نہیں!
ہماری تحریکوں اور دینی رہنماؤں کی توقعات ہیں کہ اپنے دختر فروش حکمرانوں سے ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں
ہمارے حکمران!! کہ اپنوں میں سے جس کے دوست ہوں اُسے پھر کسی دشمن کی ضرورت نہ رہے!!!
جس پر مہربان ہو جائیں اُس کی عاقبت پر سوالیہ نشان پڑ جائے!

سونے پہ ہاتھ رکھ دیں تو مٹی ہو جائے!!!
آخر کوئی حد ہے ان ’نیک اُمیدوں‘ کی، حسین تمناؤں کی، سنہرے خوابوں کی؟؟!!....
اِس طرح اگر گھر بیٹھ کے انتظار کیا جاتا رہے گا تو یہ انتظار قیامت تک کبھی ختم نہ ہوگا
یہاں کی دینی تحریکوں کو خود ہی کچھ کر دکھانا ہوگا
دین اور ملت ِ اسلامیہ کا درد رکھنے والے مسلمانوں کو ابھی اپنا کردار نبھانا ہوگا
اِس قوم کو حقیقتاً ایک قوم میں تبدیل کرنے کے لیے....
تمام سرحدیں چیر کر مسلم قوم کو ایک جسد ِ واحد بنا دینے کے لیے....

وطنیتوں اور علاقائیتوں کے بتوں کو پاش پاش کر دینے کے لیے....
یوں.... خلافت ِ اسلامیہ بحال کرنے کی راہ ہموار کرنے کے لیے
تاکہ ایک طرف اسے اپنے عاقبت نا اندیش اور ضمیر فروش حکمرانوں سے چھٹکارا ملے
پھر کبھی کوئی اِس قوم پر مسلط ہو کر اِس کی ”عافیت“ کا سودا کرنے کا خیال بھی دِل میں نہ لا سکے
اور دوسری طرف عالمی بدمعاشوں کے منہ میں لگام ڈال کے انہیں اُن کی اوقات پہ رکھا جائے
اور وہ کسی زندہ قوم کی بیٹی کو اُس کے ملک سے اغواء کر کے اور برسوں محبوس رکھ کے انسانیت سوز سلوک کرنے کا سوچتے ہوئے بھی تھر تھر کانپیں

پھر اپنے ہی ملک کی اپنی عدالت میں اپنے گواہوں کی روشنی میں ایک کافر، حربی، معاند ملک کو کسی معصوم و مجبور ”عافیہ“ کو چھیاسی برس تک پسِ زِنداں دھکیل دینے کا کوئی سوال ہی ہرگز ہر گز پیدا نہ ہو سکتا ہو!

اور اگر کبھی کسی گما شتہ ٔ ابلیس کو کوئی شیطانی کیڑا کلبلائے تو تاریخ ایک بار پھر دیکھے کہ محض ایک ”وا معتصماہ“ سے یہ مسلم قوم دنیا کا نقشہ کس طرح پلٹ کر رکھ دیتی ہے

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں