کسی رنگ ساز کی ماں نے کہا بیٹا اُٹھو نا۔۔ ناشتہ کرلو
کہ قسمت میں لِکھے دانوں کو چُگنے کے لئے بیٹا
پرندے گھونسلوں سے اُڑ چکے ہیں تم بھی اُٹھ جاؤ
خُمارِ نیند میں ڈُوبا ہوا بیٹا تڑپ اُٹھا
ارے ماں آج چُھٹی ہے ذرا سی دیر سونے دے
مِری آنکھوں کے تارے کون سی چُھٹی بتا مُجھ کو۔۔؟؟
ارے ماں!! آج دُنیا بھر میں مزدوروں کا چرچا ہے
میں پچھلے سال بھی گھنٹوں برش لے کر تو بیٹھا تھا
کوئی بھی آج کے دِن ہم کو مزدوری نہیں دیتا
میں پیدل چل کے چورنگی پہ جا بیٹھوں گا لیکن ماں!!
تِرے تو عِلم میں ہو گا کہ پیدل چلنے پِھرنے سے
تِرے اِس لال کو اے ماں غضب کی بھوک لگتی ہے
تو بہتر ہے مُجھے تُو ناشتہ کُچھ دیر سے دے دے
صبح دِن رات کے ہم تین کھانے روز کھاتے ہیں
جو آٹا دِن کی روٹی کا بچے گا رات کھا لیں گے
یہ مزدوروں کا دِن ہے اِس پہ مزدوری نہیں مِلتی
ذرا سی دیر سونے دے مُجھے بھی دِن منانے دے!!!!
۔۔۔۔۔شاعر : عابی مکھنوی۔۔۔۔