ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

30 مئی، 2012

جادو نگری یا ایک معجزاتی دنیا




شہد کا چھتّہ – جادو نگری یا ایک معجزاتی دنیا


اس حقیقت سے تقریبا ہر شخص واقف ہے کہ شہد انسانی جسم کی ایک اہم اوربنیادی ضرورت ہے لیکن شہد پیدا کرنے والی مکھی کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس بات سے تو سبھی واقف ہیں کہ شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس Nectar) ( اورزرگل((Pollen اکٹھاکر کے شہد بناتی ہے لیکن چونکہ سردیوں میں پھول نہیں ہوتے اس لیے وہ یہ فریضہ گرمیوں کے موسم میں سرانجام دیتی ہیں۔شہد محض پھولوں کا رس یا زرگل ہی نہیں ہوتا بلکہ شہد کی مکھی پھولوں کے رس کے علاوہ اس میں قدرت کی عطا کردہ خصوصی رطوبتیں شامل کرکے اسے تخلیق کے مرحلوں سے گذارتی ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ شہد کی وہ مقدار جو مکھیاں گرمیوں کے موسم میں آنے والے موسمِ سرما کے لیے جمع کرتی ہیں وہ ان کی اپنی ضرورت سے بہت زیادہ ہو تاہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتی ہیں؟ اپنی ضرورت سے زیادہ شہد کی پیداوار وقت اور توانائی کا ضیاع نہیں ہے؟ اس سوال کا جواب قرآنِ پاک میں سورہ جاثیہ کی آیت نمبر 13میں پوشیدہ ہے۔ترجمہ: اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے (حکم) سے تمہارے کام میں لگا دیا ہے۔ جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لیے اس میں (قدرتِ خدا) کی نشانیاں ہیں۔
اللہ کے اس حکم کے عین مطابق شہد کی مکھیاں نہ صرف اپنے لیے شہد بناتی ہیں بلکہ بنی نوع انسان کی خدمت کا فریضہ بھی سرانجام دیتی ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح جیسے مرغی تقریبا ایک انڈہ روزانہ دیتی ہے حالانکہ اسے اتنے انڈوں کی ضرورت نہیں ہوتی یا گائے اتنا دودھ دیتی ہے جو اس کے بچھڑے کی ضرورت سے بہت زیادہ ہو تا ہے۔شہد کی مکھیاں چھتے میں رہتی ہیں اور حیرت زدہ کر دینے والے ایک نظام کے تحت شہد تخلیق کرتی ہیں۔ بہت زیادہ تفصیل میں جائے بغیر آئیے شہد کے معاشرتی نظام پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔یہ بات ذہن میں رکھئے کہ شہد کی مکھی کو شہد کی تخلیق کے لیے بہت سے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے اور وہ اس عمل کو انتہائی منظم اور خوبصورت طریقے سے ترتیب دیتی ہے۔

چھتے میں ہوا اور نمی کا نظام: شہد کا چھتہ جہاں شہد کی تخلیق کا عمل مکمل ہوتا ہے ایک دل موہ لینے والے نظام کا حامل ہوتاہے۔ چھتے کی اندرونی فضا میں نمی کی مقدار میں اپنی مقررہ حد سے کمی بیشی واقع ہو جائے تو شہد کی غذائیت اور حفاظتی اجزا کے ضائع ہونے کا پورا امکان موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح شہد کے چھتے کا درجہ حرارت پورے دس ماہ تک32درجے سنٹی گریڈ پر قائم رہنا ضروری ہے۔چھتے میں دونوں چیزوں کا تناسب مقررہ حدود میں قائم رکھنے کے لیے مکھیوں کا ایک پورا گروہ اپنے ذمہ داریاں سنبھالتا ہے۔

گرمیوں کی کسی دوپہر میں شہد کے چھتے کے پاس کھڑے ہو کر اس امر کا بخوبی مشاہدہ کیاجا سکتا ہے کہ مکھیاں کس طرح اپنے پروں سے چھتے کو ہوا پہنچانے کا انتظام کر تی ہیں۔چھتے کے داخلی دروازے پر مکھیوں کا پورا ایک گروہ ایک دوسرے سے چمٹ کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنے پروں کی حرکت سے چھتے کو ہوا بہم پہنچاتا ہے۔ مکھیاں پروں کی حرکت سے ہوا کو اندر دھکیل دیتی ہیں۔ مکھیوں کے اس گروہ کے علاوہ کچھ اور مکھیاں مختلف جگہوں پر بیٹھ کر اندر آنے والی ہوا کو اپنے پروں کے ذریعے چھتے کے کونے کھدروں میں پہنچانے کا بندوبست کرتی ہیں۔ ہوا کا یہی نظام چھتے کو دھوئیں اور فضائی آودگی سے بچانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
شہد کا معیار: شہد کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے مکھیوں کی کوششیں صرف نمی اور درجہ حرارت تک ہی محدود نہیں بلکہ شہد کو بیرونی منفی اثرات سے بچانے کے لیے ایک مضبوط اور موثر نظام ان کے پاس موجود ہوتا ہے۔ اس خاص نظام کا مقصد ایسے تمام عوامل سے چھتے کی حفاظت کرنا ہے جو جراثیم پیدا کرنے کا باعث ہوسکتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ بیرونی منفی اثرات کو چھتے تک پہنچنے سے روکنا اس نظام کا بنیادی مقصد ہے۔ اس مقصد کے لیے دو بڑی مکھیاں چھتے کے داخلی دروازے پر ہر وقت موجود ہوتی ہیں اور ہر آنے والی چیز کو سنسر کرتی ہیں اور کوئی بھی جراثیم آلود چیز چھتے میں گھسنے نہیں دیتیں لیکن اتنی احتیاط کے باوجود اگر کوئی نقصان دہ چیز چھتے میں داخل ہوجائے تو اسے وہاں سے نکالنے کے لیے تمام مکھیاں مل کر اس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیتی ہیں۔اگر کوئی ایسی شے چھتے میں داخل ہوجائے جسے مکھیاں باہر نکالنے میں ناکام ہوجائیں تو پھر ایک دوسرے مشینی نظام کو حرکت میں لایا جاتا ہے ۔ مکھیاں اس چیز کو ’’وارنش ‘‘ کر دیتی ہیں۔ یہ وارنش وہ اپنے جسم سے خارج ہونے والے مادے Propolis کو چنار، انناس اور کیکر سے حاصل کردہ گوندکے ساتھ ملا کر تیار کرتی ہیں۔چھتے میں ہونے والی توڑپھوڑ اور دوسرے کئی کاموں کے لیے بھی یہی وارنش استعمال کی جاتی ہے۔چھتے میں کسی وجہ سے اگر دراڑیں پڑ جائیں تو انہیں اس وارنش سے پر کر دیا جاتا ہے اور ہوا لگتے ہی یہ وارنش خشک ہو کر بیرونی اثرات سے مکمل طور پر محفوظ ہو جاتی ہے۔آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہوگی کہ باہر سے چھتے میں داخل ہونے والی کوئی سخت شے جسے مکھیاں ہٹا نہ سکتی ہوں، اس پر جب یہ وارنش چھڑک دی جاتی ہے تو وہ چیز کسی قسم کے جراثیم اور برے اثرات پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتی اور چھتہ اس سے مکمل طور پر محفوظ ہوجاتا ہے۔

ذرا سوچئے کہ مکھیوں کو یہ علم کس نے دیا کہ چھتے میں باہر سے داخل ہونے والے مردہ اجسام جراثیم پیدا کرنے کا باعث ہو سکتے ہے اور ان کے منہ سے خارج ہونے والا مادہ کیا کام کرسکتا ہے ؟ساتھ ہی یہ کہ مکھیا ں ایسا مادہ کیسے بنالیتی ہیں جس کو اگر انسان بنانا چاہے تو اسے کیمسٹری کا خاطرخواہ علم حاصل کرنا پڑے گا اور پھر اسے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ساتھ اسے ایک پوری لیبارٹری کی ضرورت ہوگی۔اس سوال کے جواب کی نشاندھی سورہ جاثیہ کی آیت نمبر 4میں کردی گئی ہے۔
ترجمہ:اور تمہاری پیدائش میں بھی اور جانوروں میں بھی جن کو وہ پھیلاتا ہے،یقین کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ مکھی کو خود ان صلاحیتوں کا علم ہے اور نہ ہی وہ یہ بات جانتی ہے کہ اس کے وجود میں کوئی لیبارٹری موجود ہے۔ وہ تو 1-2سنٹی میٹر لمبا کیڑا ہے۔ وہ تو وہی کچھ کرتی ہے جس کا اسے اس کے خالق نے حکم دیا ہے۔

کم سے کم مادے کا استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ شہد ذخیرہ کرنے کی صلاحیت: شہد کی مکھیاں جو چھتہ بناتی ہیں وہ نہ صرف اس قابل ہوتا ہے کہ تیس ہزار مکھیاں اس میں رہ سکتی ہیں بلکہ آزادی سے کام بھی کرسکتی ہیں۔شہد کا چھتہ موم کی دیواروں سے بنائی ہوئی کنگھیوں کا ایک مجموعہ ہوتا ہے جس میں ہزارہا خانے موجود ہوتے ہیں۔یہ ایک ایسا ’’حیرت کدہ ‘‘ ہے جس میں بنائے جانے والے ہزاروں خانے ناقابلِ یقین حد تک ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں۔ان خانوں کو مکھیاں شہد کو ذخیرہ کرنے، بچوں کی پیدائش اور افزائش کے لیے استعمال کرتی ہیں۔فنِ تعمیر کا یہ معجزہ ہزاروں مکھیوں کی مشترکہ کاوشوں سے تکمیل کے مراحل سے گذرتا ہے۔
 
ایک سو ملین سال پہلے چٹانوں کے اندر سے ملنے والے شہد کے نشانات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ شہد کی مکھیاں لاکھوں سال سے چھتہ بناتے ہوئے چھ کونوں والا خانہ بناتی ہیں۔یہ امر باعثِ حیرت ہے کہ مکھیاں چھتہ بناتے ہوئے چھ کو نوں والا خانہ ہی کیوں بناتی ہیں آٹھ کونوں والا یاپانچ کونوں والا خانہ کیوں نہیں بناتیں۔ریاضی دان اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ چھ کونوں والا خانہ کسی جگہ کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے جیومیٹری کی موزوں ترین شکل ہے۔اگر شہد کے چھتے کے خانے کسی اور شکل میں بنائے جاتے تو بہت سی جگہ خالی رہ جاتی، شہد کا کم ذخیرہ ہوتا اور مکھیوں کی بہت کم تعداد اس سے فائدہ اٹھاسکتی۔جہاں تک خانوں کی گہرائی کا تعلق ہے تو تین یا چار کونوں والے خانے میں بھی اتنا شہد ذخیرہ کیا جاسکتا ہے جتنا چھ کونوں والے میں خانے میں۔ لیکن جیومیٹری کی تمام شکلوں میں چھ کونوں والا خانہ سب سے کم جگہ گھیرتا ہے اور ان خانوں کی مدد سے تعمیر کیے جانے والے چھتے میں دوسری تمام شکلوں کی نسبت کم موم استعمال ہوتاہے۔
 
نتیجہ یہ نکلا کہ مکھیاں چھتے میں چھ کونوں والا والے ہزاروں خانوں کی مدد سے کم سے کم جگہ استعمال کرتی اورزیادہ سے زیادہ شہد ذخیرہ کرتی ہیں۔ انسان اگر اسی طرح کے چھ کونوں والے ہزاروں خانوں کی مدد سے کوئی چھتہ تعمیر کرنا چاہے تو پہلے اسے جیومیٹری کے بہت سے اصولوں پر عبور حاصل کرناہوگا اور بہت سی جمع تفریق کر کے وہ اس اصول تک پہنچے گا جس اصول پر مکھیاں لاکھوں سال پہلے سے کام کر رہی ہیں۔شہد کی مکھی نے جیومیٹری کا کوئی کورس نہیں کیاہے۔ اس چھوٹے سے جانور کے چھوٹے سے دماغ میں ربِ کائنات نے جو اصول مرتب کر دیا ہے یہ لاکھوں سال سے اس پر عمل پیرا ہے۔
یاد رہے کہ چھ کونوں والا خانہ کئی لحاظ سے قابلِ عمل ہے۔ دیواروں کے ایک بہترین اشتراک سے یہ خانے ایک دوسرے میں آسانی سے فٹ ہو جاتے ہیں۔ شہد کے چھتے میں بنائے جانے والے خانوں کی دیواریں بہت پتلی ہوتی ہیں لیکن ان میں اتنی مضبوطی ضرور ہوتی ہے کہ اگر اصل مقدار سے کئی گنا زیادہ شہد بھی ان میں بھر دیا جائے تو ٹوٹتی نہیں ہیں۔چھتے کی سلائس نما کنگھیاں بناتے ہوئے مکھیاں ایک اور حیران کن کام کرتی ہیں کہ وہ دونوں طرف کے خانوں کو زمین کے متوازی رکھنے کی بجائے انہیں 13ڈگری اوپر کی طرف اٹھا دیتی ہیں اور اس طرح شہد لیک ہو کر زمین پر گرنے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
 
مکھیاں درختوں پر جاکر اپنی ٹانگوں پر بنے ہوئے کنڈوں کی مدد سے موم حاصل کرتی ہیں اور منہ میں ڈال کر چباتی ہیں۔ جب وہ مطلوبہ حد تک نرم ہوجاتا ہے تو اسے چھتے کے بہت پتلے خانے بنانے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔مکھی کے پیٹ میں ایک چھوٹی سی تھیلی ہوتی ہے جس سے ایک شفاف مادہ خارج ہوتا ہے جو خانوں کی پتلی دیواروں کو مضبوط کرنے کے لیے مدد دیتا ہے۔مکھیاں جب موم کو نرم کرنے کا کام کررہی ہوتی ہیں اس وقت انہیں ایک مخصوص درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔اس مقصد کے لیے بہت سی کارکن مکھیاں دائرے کی شکل میں گچھوں کی طرح ایک دوسرے کو پکڑکر لٹک جاتی ہیں۔اس طرح موم بنانے کے لیے وہ مطلوبہ درجہ حرارت مہیا کرتی ہیں۔
ایک اور عمل جو دلچسپی کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ مکھیاں سلائس نما کنگھیوں کی تعمیر کا کام دو یا تین قطاروں میں چھتے کے اوپرسے نیچے کی طرف بیک وقت شروع کرتی ہیں جبکہ کنگھیوں کا پھیلاؤ باہر کی طرف ہوتا ہے۔پہلے ان کنگھیوں کے پیندے جوڑے جاتے ہیں۔ان کنگھیوں کی تعمیر میں حیران کن حد تک موافقت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ حتی کہ یہ سمجھنا ناممکن

ہوتا ہے کہ تین مختلف ٹکڑے تعمیر ہورہے ہیں۔ آپ تینوں ٹکڑوں کو ہزاروں زاویوں سے بھی دیکھیں تو آپ کومحسوس ہوگا کہ تین مختلف چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی چیز تعمیر ہورہی ہے۔
ایسی عمدہ تعمیر کے لیے مکھیوں کو دونوں یا تینوں ٹکڑوں کے ایک ایک خانے کا پہلے سے حساب لگانا پڑتا ہوگا۔کئی ہزار مکھیاں ایسی شاندار اور جادوئی تعمیر کا حساب پہلے سے کیسے لگا لیتی ہیں یہ امر سائنسدانوں کے لیے اب تک حیرت کا باعث ہے۔
 
تعمیر میں جس قدر درستگی کا اظہار مکھیاں کرتی ہیں اس کا انتظام اگر انسان کو کرنا پڑے تو اس کے لیے یقیناًایک مشکل عمل ہوگا۔ یہ اتنا مشکل اور تفصیل طلب کام ہے جو کسی ’’پوشیدہ قوت‘‘ کی رہنمائی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔مکھیاں کیسے کر لیتی ہیں ؟ اس سوال کا جواب تو روحانی علم کا کوئی ماہر ہی دے سکتاہے کہ وہ کونسی پوشیدہ قوت ہے جو کئی ہزار مکھیوں کو ایک ہی وقت میں ایک ہی جیسے مجموعی کام کے لیے ہدایات دیتی اور ان کی رہنمائی کرتی ہے۔ہر مکھی اگر اپنی اپنی عقل کے مطابق کام کر رہی ہوتی تو اس معجزاتی تخلیق کو اس قدر حیران کن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانا شاید ممکن نہ ہوتا۔اس پوشیدہ قوت کو محض ایک نام دے کر اس عظیم کام کا سزاوار ٹھہرایا جائے تو یہ ایک ناانصافی ہوگی۔کیونکہ ان ناموں کے بارے میں اللہ کریم نے سورہ یوسف کی آیت نمبر40میں فرمایا ہے کہ:جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہووہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ خدا نے ان کی کوئی سند نازل نہیں کی۔(سن رکھوکہ) خدا کے سوا کسی کی حکومت نہیں۔
 ربِ کائنات اگر مکھیوں کے اس مربوط نظام کی رہنمائی نہ کرتا تو یہ سب کچھ ممکن نہ تھا۔ سورہ نحل میں اللہ نے کھل کر اپنے خالق ہونے کا اظہار کیاہے۔ ترجمہ: اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو ارشاد فرمایا کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور (اونچی اونچی) چھتریوں میں جو لوگ بناتے ہیں، گھر بنا اور ہر قسم کے میوے کھا اور اپنے پروردگار کے صاف رستوں پر چلی جا۔ اس کے پیٹ سے پینے کی چیزیں نکلتی ہیں۔ جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ اس میں لوگوں (کے کئی امراض) کی شفا ہے۔بے شک سوچنے والوں کے لیے اس میں بھی نشانی ہے۔ (سورہ نحل 68:69)اس لیے مکھیاں تو وہی کچھ کرتی ہیں جس کے لیے ان کے مالک نے حکم دیا ہے۔

مکھیاں رس کی تلاش میں اپنی سمت کیسے متعین کرتی ہیں؟ شہد کی مکھیوں کو پھولوں کے رس کی تلاش میں لمبے لمبے سفر کرنا پڑتے ہیں اور بہت سے علاقوں کا سروے کرنا ہوتا ہے۔وہ شہد کے اجزاء اور پھولوں کا رس چھتے کے اردگرد 800میٹر تک کے علاقے میں تلاش کرتی ہیں۔ ایک مکھی جب پھول تلاش کر لیتی ہے تو وہ دوسری مکھیوں کو پھولوں کے محلِ وقوع کے بارے کیسے بتاتی ہے؟ یہ ایک اور دلچسپ حقیقت ہے۔
رقص کرتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔!! جی ہاں وہ پھولوں کو دیکھنے کے بعد رقص کرتی ہوئی چھتے کی طرف آتی ہے۔یہ رقص اس کے تاثرات کا ایک ایسا اظہار ہوتا ہے جسے وہ کئی بار دہراتی ہے۔اس رقص کے دوران وہ مسلسل 8کا ہندسہ بناتی ہے۔یوں سمجھ لیں کہ وہ 8کے ہندسے کے درمیانی حصے کی طرح اپنے جسم کے نچلے حصے کو تیزی سے حرکت دیتی ہے اور ٹیڑھے میڑھے زاویے بناتی ہے۔ان زاویوں کے ذریعے وہ سورج اور چھتے کے درمیان لائن کی وضاحت کرکے خوراک کی صحیح سمت کا تعین کردیتی ہے لیکن دوسری کارکن مکھیوں کے لیے خوراک کی صحیح سمت کا تعین ہی کافی نہیں ہے بلکہ انہیں یہ معلومات بھی درکار ہوتی ہیں کہ اس سمت میں انہیں خوراک کے لیے کتنا فاصلہ طے کرنا ہوگا۔یہ معلومات بھی وہ جسم کی حرکات ہی کے ذریعے بہم پہنچاتی ہے۔مثلا اگر اس نے 250میٹر فاصلے کا اظہار کرنا ہو تو وہ اپنے جسم کے نچلے حصے کو آدھے منٹ میں پانچ دفعہ حرکت دیتی ہے۔اس طرح دوسری مکھیوں کو خوراک کے محلِ وقوع، فاصلے اور دوسری تفصیلات کا بخوبی علم ہو جاتا ہے۔

یہاں ایک اور مسئلہ مکھیوں کو درپیش ہوسکتا ہے وہ یہ کہ پھولوں تک جانے اور رس لانے میں کافی وقت لگ جاتاہے۔جب کوئی مکھی رس لے کر واپس آتی ہے اور دوسری مکھیوں پر سمت کا اظہار کرتی ہے اس وقت تک سورج اپنی جگہ سے حرکت کرچکا ہوتاہے کیونکہ سورج ہر چار منٹ بعد ایک ڈگری سفر طے کر لیتا ہے۔اس طرح اگر مکھی کو پھولوں سے چھتے تک آتے ہوئے چار منٹ لگ جاتے ہیں تو لامحالہ سمت کے تعین میں ایک ڈگری کی غلطی ہوسکتی ہے لیکن آپ کو حیرانگی ہوگی کہ مکھیوں کو اس طرح کی کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔شہد کی مکھی کی آنکھیں سینکڑوں چھوٹے چھوٹے چھ کونوں والے عدسوں سے مل کر بنی ہوتی ہیں۔ ہر عدسہ خوردبین کی طرح نزدیک ترین جگہ کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دن کے کسی بھی حصے میں اڑتی ہوئی مکھی سورج کو دیکھ کر اپنی منزل کا پتا لگا لیتی ہے۔ سورج کی طرف سے آنے والی شعاؤں میں جونہی تبدیلی ہوتی ہے مکھی اس میں جمع تفریق کر کے اپنی سمت درست کر لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی منزل تک جانے میں کبھی غلطی نہیں کرتی۔
 
پھولوں کی نشاندھی کا طریقہ: جب کوئی مکھی کسی پھول سے رس چوس لیتی ہے تو وہ وہاں ایک خوشبودار مادہ چھوڑ دیتی ہے۔ بعد میںآنے والی مکھی اس خوشبو کو محسوس کرتے ہی سمجھ جاتی ہے کہ اس پھول میں رس نہیں ہے۔ اس طرح وہ وقت ضائع کیے بغیر دوسرے پھول کی طرف بڑھ جاتی ہے۔
شہد کی تخلیق کا معجزہ: شہد انسانی جسم کو قوت فراہم کرنے کا انتہائی اہم ذریعہ ہے جسے اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کے لیے ایک چھوٹے سے کیڑے کے ذریعے تیار کروایا ہے۔ شہد
ایک ایسا مرکب ہے جس میں گلوکوز کی طرح کی چینی، فرکٹوز، میگنیشیم ، پوٹاشیم، کیلشیم، سوڈیم کلورین، گندھک، لوہا اور فاسفیٹ قسم کی معدنیات موجود ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس

میں وٹامن B2, ،سی،B6, B5, اور B3پائے جاتے ہیں۔ ان وٹامنز میں پھولوں کے رس اور ان سے حاصل کیے جانے والے زرگل Pollenکے معیار کے مطابق تبدیلی آتی رہتی ہے۔ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ تانبا، آیوڈین اور زنک کی کچھ مقدار بھی شہد کا حصہ ہوتی ہے اور کئی قسموں کے ہارمونز بھی اس میں موجود ہوتے ہیں۔
سورہ نحل آیت نمبر69 ترجمہ: ان کے پیٹوں میں سے مختلف رنگوں کا مشروب نکلتا ہے جس میں بنی نوع انسان کے لیے شفا ہے۔
سورہ یاسین آیت نمبر 72-73 ترجمہ:کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جو چیزیں ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنائیں ان میں سے ہم نے چارپائے پیدا کر دیے اور یہ ان کے مالک ہیں اور ان کو ان کے قابو میں کر دیاتو کوئی تو ان کی سواری ہے اور کسی کو یہ کھاتے ہیں اور ان میں ان کے لیے (اور) فائدے کی اور پینے کی چیزیں ہیں۔ تو کیا یہ شکر نہیں کرتے؟
 
جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآنِ پاک میں فرمایا ہے کہ شہد میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ 20-26ستمبر 1993 کو چین میں مکھیوں کی بڑے پیمانے پر افزائش کے بارے میں ہونے والی World Apiculture Conference میں شامل سائنسدانوں نے اس قرآنی حقیقت کی تصدیق کر دی ہے۔ کانفرنس کے دوران شہد سے حاصل شدہ اجزاء کے ذریعے علاج کو زیرِ بحث لایا گیا۔امریکی سائنسدانوں نے خصوصی طور پر کہا کہ شہد، شاہی جیلی ، زرگل (Pollen) اور’’وارنش‘‘ Proplis کئی بیماریوں کا علاج ہیں ۔ ایک رومی ڈاکٹر نے وضاحت کی کہ اس نے ایسے مریضوں کا علاج شہد سے کیا جو Contaract(آنکھ کی پتلی کا سکڑ جانا)کاشکار تھے تو 2094مریضوں میں سے 2002مریض مکمل طور پر صحتیاب ہوگئے۔ پولینڈ کے ڈاکٹروں نے بھی کانفرنس کو بتایا کہ مکھیوں کی بنائی ہوئی ’’وارنش‘‘ جلد کی بیماریوں، حمل کے دوران ہونے والی بیماریوں اور انسانی جسم کی دوسری بہت سی بے ترتیبیوں کا علاج ہے۔آجکل سائنسی لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک میں اور شہد پر تحقیق کے لیے نئے دروازے کھل گئے ہیں۔ شہد کی کچھ دوسری خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
 
زود ہضم ہے: شہد میں بہت زیادہ تیزابیت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجوداس میں چینی کے اجزاء آسانی سے گلوکوز اور فرکٹوز میں تبدیل ہوجاتے ہیں اس طرح انتہائی حساس معدے میں بھی شہد جلدی ہضم ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ گردوں اورآنتوں کے لیے ایک بہترین معاون اور مدد گار کا کردار ادا کرتا ہے۔

حراروں کی کم مقدار: شہد کی ایک دوسری خاصیت یہ ہے کہ اس کا اگر چینی کی اتنی ہی مقدار سے موازنہ کیا جائے تو یہ جسم کو چینی کے مقابلے میں 40%کم حرارے مہیا کرتا ہے اور اس کے برعکس چینی کی نسبت جسم کو بہت زیادہ قوت دیتا ہے اور وزن نہیں بڑھاتا۔
تیزی سے خون تک رسائی: شہد کو اگر تازہ پانی کے ساتھ ملاکر پیا جائے تو یہ سات منٹ کے اندر اندر دورانِ خون تک جا پہنچتا ہے۔ اس کے شوگر سے پاک ما لیکیولزدماغ کی کارکردگی کو بہتر بناتے ہیں ۔ انسانی دماغ، اس میں پائی جانے والی چینی کا سب سے بڑا صارف ہے۔
خون بنانے میں مدد دیتاہے: شہد خون بنانے کے لیے جسمانی توانائی کا ایک اہم حصہ فراہم کرتا ہے۔مزید یہ کہ خون صاف کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔دورانِ خون کے لیے اس کے اثرات انتہائی مثبت ہوتے ہیں۔ یہ انسانی وجود کی چھوٹی بڑی تمام رگوں کے مختلف مسائل کے خلاف بھی بڑا موثر کردار ادا کرتا ہے۔
جراثیم پیدا نہیں ہونے دیتا: شہد کی جراثیم کش خصوصیات کی وجہ سے اس کو’’رکاوٹ اثر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ پانی میں حل کر کے شہد کے استعمال سے اس کی جراثیم کش صلاحیت دوگنی ہوجاتی ہے۔یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ مکھیاں اپنی نومولود بچوں کو حل شدہ شہد ہی دیتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شہد کی اس خاصیت سے واقف ہیں۔
شاہی جیلی: شاہی جیلی شہد کا وہ جزو ہے جو کارکن مکھیاں چھتے کے اندر بناتی ہیں۔ یہ چینی، پروٹین، حراروں اور بہت سے وٹامن اس کے غذائی اجزاء ہیں۔ یہ بافتوں کی کمی اور جسمانی کمزوری کے لیے استعمال ہوتی ہے۔


فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ


تو (اے گروہ جن وانس) تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟

عافیت سے محروم قوم






عافیت سے محروم قوم



تم کیسی قوم ہو؟؟!

نہ تمہارے فیصلے تمہارے ہاتھ میں ہیں
نہ تمہارے معاملے تمہارے اختیار میں ہیں
تم جو فصل اُگاتے ہو اُس کے حقوق کسی اور کے نام ہوتے ہیں
تم جو کپڑا بنتے ہو اس کی قیمت کسی اور کی جیب میں جاتی ہے
تم پسینہ بہاؤ، تو کسی اور کو اِس کا صلہ ملے
تم لہو ٹپکاؤ، تو کسی اور کو اِس کا خراج نصیب ہو
تمہاری جانوں کے نذرانے کسی اور کے دَر پر سجائے جاتے ہیں
تمہارے ’شہیدوں‘ کے لاشے استعمار کی چوکھٹ پر نیلام ہوتے ہیں
تمہاری محنت و قربانی سے کسی اور کے شب و روز سنورتے ہیں
کسی اور کی سرفرازی و سر بلندی کے لیے تمہیں سب رُسوائی جھیلنی ہوتی ہے
نا آسودہ تمہاری رُوحیں آرزوؤں کے صحراؤں میں بھٹکتی ہیں
تمہارے شکستہ ڈھانچوں کی خشت پر قصرِ استعمار کی تعمیر ہوتی ہے
تمہاری خواہشوں کی لحد پر فراعینِ وقت کی مملکت اُستُوار ہوتی ہے
تمہارے ضمیر کا رونا ہی کیا کہ تم ایک غلام قوم ہو
تمہاری غیرتوں کا سودا کیا معنی؟ کہ غلامی میں کیا سودے بازی!!

تم کیا جانو غیرت کا مفہوم!!!
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں!“....

دو صدیاں ’ بحرِ غلامی‘ میں ڈبکیاں کھاتی قوم کیا جانے ضمیر کیا شے ہے!!
غلام کیا جانیں کہ ٓازاد قوموں کے ہاں ’عزت‘ اور’زندگی‘ میں کوئی فرق نہیں ہوا کرتا!

جس قوم کو عزت کے بغیر جینے کا ڈھنگ آتا ہو، اُس کا مقدر غلامی نہ ہو تو پھر کیا ہو؟!
نگاہِ بندہ ٔ حُر‘ پھراِس قوم کو نصیب ہو تو کیسے ہو !؟
کسی ’مردِ آزاد‘ کا نورِ بصیرت اِسے عطا ہو تو کیونکر ہو!؟
تمہی تو ہو جس سے غلامی کے نئے دور کی تاریخ شروع ہوتی ہے

وہ دورِ غلامی، جس میں ہر ’فرد‘ اپنی من مانیوں میں آزاد ہوتا ہے۔ ’قوم‘ البتہ غلام رہتی ہے!!!
وہ دورِ غلامی جس میں ہر فکرِ خام کو آزادی ٔ افکار سے بہرہ یاب کرکے انسان سے حیوان بنایا جاتا ہے

تمہیں کیا خبر کہ مادر پدر آزادی ٔ افکار ہی تو دراصل ’قومی غلامی‘ کا پہلا باب ہے
عقیدے سے اُبھرنے والی قوم ، افکار کے سیلاب میں ڈوبی دنیا کے اندر فکر کی آزادی قبول کرلے تو اُس کی نئی غلامی دراصل یہیں سے شروع ہوتی ہے

تم عجیب قوم ہو!
تمہارا ہر فرد ’آزاد‘ ہے، لیکن تم پوری کی پوری غلام ہو!!
تمہارا کونسا مسئلہ ”قومی مسئلہ“ ہے؟؟؟
تمہاری قوم نے کبھی کسی معاملے پر اتفاق بھی کیا ہے؟؟؟
تمہارے ہاں کوئی ایسا معاملہ بھی پایا جاتا ہے جس پر پوری قوم کے اُٹھ کھڑے ہونے کا سوال پیدا ہو سکتا ہو؟؟؟
تمہارا کوئی مسئلہ ایسا بھی ہے جس میں بات محض بیانات، مذاکرات، مطالبات اور احتجاجوں تک پہنچ کر نیست و نابود نہ ہو جاتی ہو؟؟

تم کوئی قوم بھی ہو یا محض ’افراد‘ کا مجمع؟؟
یا زیادہ سے زیادہ گروپوں، تنظیموں، پارٹیوں، جماعتوں اور اداروں کا معجونِ مرکب!!؟؟
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو ’اِک قوم‘ بھی ہو!
تمہارے جوانوں کے گبرو جسم سرِ بازار لہو میں سجتے رہیں
تمہارے بیٹوں کے دریدہ لاشے سرِ شام گھروں میں جاتے رہیں
تمہاری بیٹیوں کی چادریں سرِ عام نیلام ہوتی رہیں
تمہاری ماؤں کی بوڑھی آنکھیں ہر روز کسی کی راہ تکتی رہیں
تمہارے کم سنوں کو شب و روز کسی کا انتظار ہوتا رہے
تمہارے معمولات میں کوئی فرق نہیں آنا
تمہارے کارپردازوں کے ’کاروبار‘ میں کوئی تعطل واقع نہیں ہونا!
جب قوم محض ’افراد‘ یا پارٹیوں کا مجمع رہ جائے تو پھر کوئی مسئلہ قومی نہیں ہوتا!

پھر مسائل یا تو افراد کے ہوتے ہیں یا پارٹیوں کے
حکومت بھی ایک پارٹی ہی ہوتی ہے
وہ صرف ’حکومتی مسائل‘ اپنی صوابدید پر حل کرتی ہے
باقی جس کا جو بس چلتا ہے اُتنا ہی کر پاتا ہے
ایسے میں تمہاری حکومت تمہاری ”عافیت“ کا سودا کر آئے
اُسے پامال ہونے کے لیے دشمن کے حوالے کر آئے
تو یہ بھی بس ایک گھر یا ایک گروہ کا ہی مسئلہ ہے!
لوگ لاکھ احتجاج کر لیں اور مطالبات سے آسمان سر پر اُٹھا لیں
حکومت اور اُن کے آقاؤں کو پتہ ہے کہ اِنہوں نے اِس سے زیادہ کچھ نہیں کرنا

اِس کے بعد اِنہوں نے پچھلے تمام ’قومی‘ و ’دینی‘ مسائل کی طرح اِس پر بھی بالآخر ٹھنڈا پڑ جانا ہے!
وقت کی گرد نے آہستہ آہستہ اِس کو بھی دھند لا دینا ہے۔ ’قوم‘ کو آخر ’صبر‘ آجانا ہے!!
وہ بھی کیا سادہ دور تھا جب سٹلائیٹ تھا نہ ریڈیو، نہ فون، نہ موٹریں، نہ ہوائی جہاز، نہ انٹر نیٹ
کافروں کے ملک سے ایک مسلمان عورت دشمن کی ایک بد تمیزی پر پکار لگاتی ہے

وا معتصماہ !!!!“ کہاں ہے او معتصم!

ہزاروں میل دور بغداد میں مسلمانوں کے خلیفہ معتصم باللہ کو جونہی اِس پُکار کی خبر پہنچتی ہے، بے اختیار ”لبیک یا اختاہ لبیک یا اختاہ“ پکارتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوتا ہے
ایک لشکرِ عظیم کے ساتھ کفار کے اُس ملک پر ایسی یلغار کرتا ہے کہ اُس کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی ہے۔ تب تک خلیفہ گویا نہ کچھ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ سوتا ہے
شہر فتح ہوتا ہے۔ تب خلیفۃ المسلمین اپنی مسلمان بہن کو بدلہ دلواتا ہے

آہ!!!!!

یہ ”وا معتصماہ“ محض ایک واقعہ نہیں، مسلمانوں کی بارہ سو سالہ عظمت و سطوت، غیرت و خودداری، سرفروشی و جانبازی اور سَربلندی و سرفرازی کی تاریخ ہے

تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟! ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِفردا ہو!!

اُف، وہ غیرت اب کہاں سے لائی جائے!
وہ ایمانی عزت کا مفہوم کیسے دوبارہ زندہ کیا جائے!
آہ، وہ تمام دنیا میں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و عصمت کی محافظ اور اُن کی ”عافیت“ کی ضامن خلافت ِ اسلامیہ ہمارے پاس نہیں
مسلمان اپنی ملت سے کٹ کر اپنی اپنی وطنیتوں میں گُم ہیں
مسلم تنظیموں اور جماعتوں کے درمیان مقاصد اور عمل میں کوئی قابلِ ذکر اشتراک اور یکجہتی نہیں پائی جاتی! ابھی وہ شاید یہ سوچنے پر ہی نہیں آئے کہ اُمّت کی سطح پر مل جُل کر کوئی مفید کام کس طرح کیا جا سکتا ہے!!
بہت سے داعی ابھی اِسی میں بھٹک رہے ہیں کہ انہیں دراصل کرنا کیا ہے!!
بہت سوں کے ہاں خلافت کے لیے مہدی کے انتظار سے بڑھ کر تسلّی بخش شے کوئی اور نہیں!
ہماری تحریکوں اور دینی رہنماؤں کی توقعات ہیں کہ اپنے دختر فروش حکمرانوں سے ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں
ہمارے حکمران!! کہ اپنوں میں سے جس کے دوست ہوں اُسے پھر کسی دشمن کی ضرورت نہ رہے!!!
جس پر مہربان ہو جائیں اُس کی عاقبت پر سوالیہ نشان پڑ جائے!

سونے پہ ہاتھ رکھ دیں تو مٹی ہو جائے!!!
آخر کوئی حد ہے ان ’نیک اُمیدوں‘ کی، حسین تمناؤں کی، سنہرے خوابوں کی؟؟!!....
اِس طرح اگر گھر بیٹھ کے انتظار کیا جاتا رہے گا تو یہ انتظار قیامت تک کبھی ختم نہ ہوگا
یہاں کی دینی تحریکوں کو خود ہی کچھ کر دکھانا ہوگا
دین اور ملت ِ اسلامیہ کا درد رکھنے والے مسلمانوں کو ابھی اپنا کردار نبھانا ہوگا
اِس قوم کو حقیقتاً ایک قوم میں تبدیل کرنے کے لیے....
تمام سرحدیں چیر کر مسلم قوم کو ایک جسد ِ واحد بنا دینے کے لیے....

وطنیتوں اور علاقائیتوں کے بتوں کو پاش پاش کر دینے کے لیے....
یوں.... خلافت ِ اسلامیہ بحال کرنے کی راہ ہموار کرنے کے لیے
تاکہ ایک طرف اسے اپنے عاقبت نا اندیش اور ضمیر فروش حکمرانوں سے چھٹکارا ملے
پھر کبھی کوئی اِس قوم پر مسلط ہو کر اِس کی ”عافیت“ کا سودا کرنے کا خیال بھی دِل میں نہ لا سکے
اور دوسری طرف عالمی بدمعاشوں کے منہ میں لگام ڈال کے انہیں اُن کی اوقات پہ رکھا جائے
اور وہ کسی زندہ قوم کی بیٹی کو اُس کے ملک سے اغواء کر کے اور برسوں محبوس رکھ کے انسانیت سوز سلوک کرنے کا سوچتے ہوئے بھی تھر تھر کانپیں

پھر اپنے ہی ملک کی اپنی عدالت میں اپنے گواہوں کی روشنی میں ایک کافر، حربی، معاند ملک کو کسی معصوم و مجبور ”عافیہ“ کو چھیاسی برس تک پسِ زِنداں دھکیل دینے کا کوئی سوال ہی ہرگز ہر گز پیدا نہ ہو سکتا ہو!

اور اگر کبھی کسی گما شتہ ٔ ابلیس کو کوئی شیطانی کیڑا کلبلائے تو تاریخ ایک بار پھر دیکھے کہ محض ایک ”وا معتصماہ“ سے یہ مسلم قوم دنیا کا نقشہ کس طرح پلٹ کر رکھ دیتی ہے