ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

29 اکتوبر، 2013

’کان لیوا موسیقی‘




زمانۂ امن کے کراچی کا ذکر ہے۔ اُس روز کراچی کے باہر سے آئے ہوئے ایک نقاد ٹائپ بزرگ کو ہم صدر کی سیر کروا رہے تھے۔ اُن کا تبصرہ جاری و ساری تھا:’’ ارے میاں! یہاں کوئی قیامت سی قیامت ہے؟ دیکھو تو سہی۔۔۔ ایک طرف اگرڈسکو میوزک سینٹرز نامی موسیقی فروشی کی دکانوں کے مابین شوروشَین کامقابلہ ہورہاہے تو دوسری طرف یہ ’بَن کبابیے‘ کھٹاکھٹ،کھٹاکھٹ،اپنے توے پِیٹ پِیٹ کرگویا طبلے پر سنگت کر رہے ہیں۔ تیسری طرف موٹر سائیکلوں اور آٹو رکشوں والے اپنے اپنے سائلنسرنکالے باہم صور پھونکنے کا میچ کھیل رہے ہیں۔صاحب ایک سے بڑھ کر ایک کریہہ آواز نکالی جارہی ہے۔چوتھی سمت میں بسوں اور ویگنوں والے اپنے ہاتھوں، اپنی ہی ،بسوں اور ویگنوں کو’’دھمادھم، دھمادھم‘‘ کُوٹے ڈال رہے ہیں۔اس میدانِ حشر سے آدمی بھاگے گا نہیں تو کیا اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی سزا پانے کے شوق میں یہیں ڈٹا کھڑا رہے گا؟ارے دیکھو تو سہی کہ لوگ بے چارے کس طرح۔۔۔گرتے، سنبھلتے، جھومتے۔۔۔ سڑکوں کے کھمبے چومتے ۔۔۔ بھاگے چلے جارہے ہیں۔‘‘

دورانِ تقریر میں یکایک اُنھیں سانس لینے کی ضرورت پڑگئی۔ لمحہ بھر کو تھمے تو ہم نے اس نادر موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے فی الفور وضاحت کی کہ:’’ ملک کی طرح ہمارے شہر کا بھی مرکزی مقام ’’صدر‘‘ہی ہے۔یہاں پر آپ کو جو اس قدر ہجومِ خلائق نظر آرہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں سے ہرطرف کو راستے نکلتے ہیں۔شہر کے گوشے گوشے میں جانے کی سہولت موجود ہے۔‘‘
بڑے برہم لہجہ میں بولے:’’ خاک سہولت موجود ہے۔ہمیں یہاں کھڑے کھڑے گھنٹہ سواگھنٹہ تو ہوہی گیا ہوگا ۔ہم گھنٹہ بھر سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ سامنے والی بس کا کنڈیکٹر اپنی بس سے نیچے اُتر کر اُسی کو دو ہتڑ رسید کیے جارہا ہے اور داد دینی پڑتی ہے کہ گھنٹے ہی بھر سے مسلسل ’’لالیکے ۔۔۔ لالیکے‘‘ کی رَ ٹ لگائے جا رہا ہے۔ لوگ اُس کی بس میں سر کے بل گھسے جارہے ہیں اور گیٹ سے ٹانگوں کے بل اُبلے آرہے ہیں،مگر وہ بندۂ خدا اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ساٹھ منٹ سے بس میں سواریاں ٹھونسے یہیں کھڑا ہے اور مسلسل و متواتر ’’لالیکے ۔۔۔ لالیکے‘‘ کی گردان پڑھے جارہاہے۔اماں ! یہ تو بتاؤ کہ اس ’’لالیکے۔۔۔لالیکے‘‘ کا آخر مطلب کیا ہے؟‘‘

ہم نے عرض کیا کہ:’’ شہرکے ایک مشہور و معروف علاقے ’’لالوکھیت ‘‘جانے کا قصد رکھنے والوں کو متوجہ کر رہا ہے کہ ۔۔۔ جا اینجاست!‘‘
آنکھیں نکال کر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے :’’ اچھا؟ ہرچند کہ اب تو بس میں کنڈیکٹر دھرنے کی بھی جا نہیں رہی، مگر واﷲ ! کیا انداز ہے دامن کھینچنے کا(پکڑ پکڑ کر)۔ مزید برآں شارٹ کٹ اور شارٹ ہینڈ کے شوق نے اس شہرِ عُجلت و اختصار پسند کے شہریوں ہی کا نہیں شہر کی بستیوں کے ناموں کا بھی بیڑا غرق کر دیا ہے۔‘‘

ایک بار پھر شہر کی صفائی (پیش) کرنے کی کوشش کی:’’ در اصل ہمارا شہر پھیلتا جارہا ہے۔ دور دراز جگہوں تک پہنچنے کی اتنی جلدی ہوتی ہے کہ کسی کے پاس درست شین قاف کے ساتھ آواز نکالنے کا وقت ہے نہ کسی کے پاس وہاں کھڑے ہوکر اپنی نگرانی میں نکلوانے کا(ہمیں مولانا سے ڈر تھا کہ اب یہ کام نہ شروع کردیں) یہاں کوئی کسی کی نہیں سُنتا ، بس سُنی ان سُنی کرکے گزر جاتا ہے۔‘‘
اب ذرا بلند آواز سے ڈانٹنے کے انداز میں بولے:’’ سُنے کیسے؟ اس شہر میں گونجتی ہوئی یہ ’کان لیوا موسیقی‘ کسی کو کچھ سننے دے توکوئی کسی کی سُنے نا! یہ موسیقی ہی سن سن کر سب کے کان سُن ہوچکے ہیں۔شہر بھر میں موسیقی کا ایک ہیجان برپا ہے۔ یوں تو گھر گھر ریڈیو، ٹیلی وژن اور گانوں کے کیسٹ مسلسل بجتے ہی رہتے ہیں۔ مگر کل جب تمھارے محلے میں کسی کی دُخترنیک اختر کی شادی ہورہی تھی تو جو عزیز ، رشتہ دار اور اہلِ محلہ تقریب میں آ موجود ہوئے تھے اُنھی کا دِل بہلانے کو نہیں،بلکہ شہر کے مختلف حصوں سے جو مہمان ضعیفی ،بیماری یا کسی اور عذر سے نہیں آسکے تھے ، اُنھیں بھی محظوظ کرنے کو لاؤڈ اسپیکر کی پوری آواز کھول کر گانے بجائے جا رہے تھے۔ممکن ہے کہ مرحوم اعزہ بھی بینڈباجے بجنے کی آواز سن کر اپنی اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہوئے ہوں۔‘‘

مضحکہ اُڑانے کے بعد غصہ میں استفسار فرمایا:’’ میں پوچھتا ہوں کہ اس تکلیف دہ مشغلہ کا کسی کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟‘‘
ہم نے اُن کی اطلاع کے لیے عرض کیا:’’ اس طرزِ عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ تقریب میں آئے ہوئے تمام مہمان اپنی سماعت زائل ہوجانے کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونسے خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور یوں وہ شادی بیاہ کی محفلوں کی روایتی برائیو ں مثلاً میزبان کی بد انتظامی پر نکتہ چینی یا غیرحاضر رشتہ داروں کی غیبت وغیرہ کے گناہ میں مبتلا ہوجانے سے بچے رہتے ہیں۔‘‘
یہ سن کرتو ایک بار پھر بدک اُٹھے:’’ سماعت زائل ہوجانے کا خوف چہ معنی دارد؟ ہم نے تو یہ دیکھا ہے کہ سماعتیں زائل ہو چکی ہیں۔تم ہمیں جس ویگن میں چڑھا کر ۔۔۔بلکہ نیہوڑا کر ۔۔۔یہاں تک لے آئے ہو،ہم نے اُسی میں دیکھا کہ ڈرائیور بریکوں کے دھچکوں پر دھچکے دے دے کر اور کنڈیکٹر دھکوں پر دھکے دے دے کرلوگوں کو ڈانٹتا رہا کہ:’’ باؤ جی آگے بڑھو۔۔۔ آگے بڑھو باؤجی!‘‘ مگر باؤجی ہیں کہ باؤلے بنے جہاں کے تہاں کھڑے ہیں۔ٹس سے مس نہیں ہورہے ہیں۔جس طرح کنڈیکٹر ویگن کو باہر سے پِیٹ رہاتھا اُسی طرح مسافرویگن کو اندر سے پیٹ رہے تھے کہ:’’ اُستاد جی گاڑی چلاؤ. ۔۔۔گاڑی چلاؤ اُستاد جی!‘‘مگر اُستاد جی بھی موسیقی کی دھن میں کھوئے اپنا سر دھنتے رہے، جب کہ گاڑی دونوں طرف سے دھُنی جاتی رہی۔کوئی کسی کی سننے کے قابل نہیں رہا۔‘‘ہم نے دبی دبی زبان سے کہا:’’ دراصل سب کہیں نہ کہیں پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔اپنے اپنے روحانی ارتقا کے باعث۔ہم نے تو یہی سنا ہے کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔۔۔‘‘
جلدی سے بات کاٹ کر ہمیں خونخوار نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے:’’ ہے۔۔۔ مگر تمھاری یہ موسیقی ۔۔۔ کسی بد روح کی غذا ہے ہمارا تو مشاہدہ یہ ہے کہ تمھارے شہر کی ٹریفک پولیس کی سماعت بھی جاتی رہی ہے۔کیوں کہ یہ ویگنیں اُن کی ناک ،ان کے منہ اور اُن کے دیگر اعضاء کے آگے سے گاتی بجاتی گزر جاتی ہیں اور وہ نابیناؤں کی طرح کھڑے خلاؤں میں گھورتے رہ جاتے ہیں۔ خواتین کی موجودگی میں ایسے ایسے بے ہودہ،واہیات اور ذوالمعنین گانے بجتے رہتے ہیں کہ گمان گزرتا ہے کہ پوری انتظامیہ کے کان ’’کر‘‘ ہوچکے ہیں۔کسی کو یہ شور شرابا قطعاً سنائی نہیں دیتا۔‘‘

ہم نے پھر اپنی شہری انتظامیہ کی لاج رکھنے کی کوشش کی:
’’ نہیں نہیں ،ایسی بات نہیں۔ ہم تو اسی شہر میں پیدا ہوئے ہیں۔یہیں پلے بڑھے ہیں۔ہمیں یہاں آج تک کوئی شہری انتظامیہ دکھائی تو کیا سنائی بھی نہیں دی۔‘‘
بس یہ سنتے ہی اُن کے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ سنسنی دوڑتے ہی وہ خود بھی دوڑ گئے، ہمارا ہاتھ چھڑاکر۔ہم نے اُن کوایک بریک مارتی ہوئی ویگن کی زد میں آنے سے کود کود کر بچتے ہوئے تو دیکھا مگر اُس کے بعد وہ ہجوم میں ایسے گم ہوئے کہ دوبارہ نظر نہیں آئے۔
اب ہم اتنے بھیڑ بھڑکے میں اُنھیں کہاں کہاں ڈھونڈتے؟

ابو نثر

28 اکتوبر، 2013

America Ki Rukhsati aur Secular, Liberal Hazraat Ka Aalmiya – Orya Maqbool Jan





امریکہ کی رخصتی اور لبرل سیکولر حضرات کا المیہ، اوریا مقبول جان 
اصل معاملہ یہ ہے کہ اس ملک کے سیکولر اور لبرل طبقے کے سر سے پہلے پرویز مشرف کا سایہ اٹھا اور اب امریکہ بھی اپنا بوریا بستر لپیٹ کر جا رہا ہے. ان کی حالت سعادت حسن منٹو کے افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پاگل خانے کے دو کرداروں جیسی ہو گئی ہے. یہ کردار یوروپین وارڈ میں دو اینگلو انڈین پاگل تھے. ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کر کے انگریز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا. وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں ان کی حیثیت کس قسم کی ہو گی. یوروپین وارڈ رہے گا یا اڑا دیا جائے گا بریک فاسٹ ملا کرے گا یا نہیں. کیا انھیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاتی تو زہر مار نہیں کرنا پڑے گی.

19 اکتوبر، 2013

یہ بھی تو کسی ماں کا دُلارا کوئی ہوگا




گلشن اقبال میں ’عید بازار‘ لگا ہوا تھا۔بیل، بکروں اور دُنبوں والا نہیں۔خواتین کو اس عید پر بھی اپنے ہتھیار تیز رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ اشیائے ضروریہ کی خریداری کرنی ہوتی ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ یہ بازارِ اسلحہ و ہتھیار تھا۔ یہاں ہماری طرح کے اکثر ’شکار‘ خود ’شکاریوں‘ کو اپنے خرچہ پر ہتھیار خریدوا رہے تھے۔صاحب! بیویوں کو آج تک کوئی شوہر یہ باور نہیں کراسکا کہ:
قتل کے ساماں ہیں جس کے واسطے، وہ چل بسا
آپ تزئینِ لب و رُخسار رہنے دیجیے
بازار کیا تھا؟ ۔۔۔ ’نگار خانۂ انجم، نگار خانۂ گل‘۔حضرت علامہ اگر بقید حیات ہوتے تو یہ دیکھ کر کس قدر خوش ہوتے کہ اُن کی یاد میں اور اُن کے نام پر بسائی جانے والی بستی کا بازار بھی ’گُل بن‘ کا منظر پیش کر رہا ہے۔یہ منظر دیکھ کر وہ یقیناًاپنے اس خیال سے رجوع فرما لیتے :
حسن بے پروا کو اپنی بے حجابی کے لیے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن؟
اور ساتھ ہی وہ اپنے ایک اور شعر میں بھی ذرا سی ترمیم کر لیتے کہ:
پھول ہیں ’’گلشن‘‘ میں یا پریاں قطار اندر قطار
اُودے اُودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن
(واضح رہے کہ یہاں ’’گلشن‘‘ سے مراد گلشن اقبال کا مذکورہ بالا بازارہی لیا جائے گا)
قصہ مختصر ۔۔۔ کہ ہم ان ہی مناظر اور ایسے ہی خیالات میں کھوئے ہوئے، اہلیہ کے خرید کردہ سامان(بلکہ بقولِ اقبالؔ ؒ شیشہ گرانِ فرنگ کے احسان) کے بوجھ تلے دبے جارہے تھے کہ ہمیں ایک ننھا منا، سرخ و سفید، گولو مٹولو سابچہ ہر مال بردار اور فرماں بردار شوہر سے دوڑ دوڑ کر یہ پوچھتا نظر آیا:’’بائی! سامان اُٹوائے گا؟ ۔۔۔ بائی سامان اُٹوائے گا؟‘‘
جی تو یہی چاہتا تھا کہ اِس ببلو گبلو کو خود ہی اُٹھا لیا جائے اور گود میں چھپا لیا جائے۔عمر بمشکل آٹھ یا نو سال ہوگی۔اس کے چہرے پر ہمیں خود اپنے بچوں والی معصومیت نظر آئی۔ آنکھوں میں التجا تھی۔سر اوپر اُٹھاکر دیکھنے والا ملتجیانہ انداز ایسا تھا کہ اگر اُس کی جگہ اپنا کوئی جگر گوشہ ہوتا تو دل تڑپ جاتا۔چلتے چلتے یوں ہی پوچھ لیا:’’کتنے پیسے لیتے ہو؟‘‘
بڑی کاروباری ڈپلومیسی کے ساتھ جواب دیا:’’صاب لوگوں کا مرضی ہوتا اے۔دس بیس روپیہ اَم کو دے دیتا اے۔صاب! یہ سامان اَم کو دو۔ تُم ’تک‘ جائے گا۔جو مرضی آئے دے دینا‘‘۔
ہم نے پہلے یہ عذر کیا کہ:’’برخوردار! ہم تو ایک مدت کے تھکے ہوئے ہیں، اور ابھی نہ جانے کب تک تھکنا ہے۔ مگر کیا تم نہ تھک جاؤ گے؟‘‘پھر اپنے سامان میں سے تھوڑا سا سامان اُس کی دلجوئی کے لیے اُسے تھما دیا۔اُس نے بڑی شوخ سی چائیں چائیں کرتی آواز میں احتجاج کیا:’’اَم نئیں تکتا صاب! ۔۔۔ لاؤ سارا سامان اَم کو دو۔۔۔اِدَر لاؤ‘‘۔
یہ کہہ کر سارا سامان ہم سے لے کر اپنی پیٹھ پر لاد لیا اور حالت رکوع میں چلا گیا۔یہ دیکھ کر ہم نے زبردستی کچھ سامان واپس لیا تو سیدھا کھڑے ہونے کے قابل ہوکر پھر احتجاج کیا:’’ تم کیوں اُٹاتا اے صاب؟ ۔۔۔ تم تو پیسا دیتا اے ۔۔۔ چوڑو۔۔۔ سارا سامان اَم کو دو‘‘۔
ہم نے اُس کی سنی اَن سنی کرتے ہوئے اُسی کی گرامر میں اُس سے کہا:’’دیکو! بیگم صاب آگے نکل گیا اے، تیز چلو ۔۔۔ تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
نام پوچھنے کا مطلب شاید اُس نے غلط لے لیا۔یا شاید تجربات نے اُسے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ کہنے لگا:
’’امارا نام فدائے محمد اے۔مگر صاب! فِکرمَکوا۔ اَم چوری نئیں کرے گا۔اَم چور نئیں اے۔تم کتنا بی دور جائے گا، اَم تمارا سات جائے گا۔تمارا مال حفاظت سے لے جائے گا۔ یہ تمارا امانت اے۔چوری نئیں کرے گا۔۔۔ صاب! اَم چوری کیوں کرے؟۔۔۔ تم اَم کو مزدوری دیتا اے ۔۔۔ اَم حلال کمائی کرتا اے صاب! ۔۔۔‘‘
وہ بولے چلا جارہا تھا۔ ہم نے سوچا کہ ماں باپ نے اس کا نام رکھ کر جس ذاتِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر اس کو فدا کیا ہے، اگر نام کا کچھ اثر ہوتا ہے تو یہ واقعی کبھی چوری نہیں کرے گا۔ ہم نے پوچھا:’’تم یہاں کہاں سے آئے ہو؟‘‘
اُس نے جو جواب دیا اُسے سن کر ہمارے رونگٹے ہی نہیں، چلتے چلتے ہم خود بھی کھڑے ہوگئے:’’صاب! اَم اِدَر وزیرستان سے آیا اے!‘‘
ہم نے ٹٹولنے والی نظروں سے جانچنے کی کوشش کیکہ کہیں اس نے اپنے کرتے کے نیچے کوئی جیکٹ وغیرہ تو نہیں پہنی ہوئی ہے۔مگر ملگجے کرتے کے اندر اس کا سرخ و سنہرا پیٹ اور سینہ لشکارے مارتا نظر آ رہا تھا۔ گھبرا کر پوچھا:’’وزیرستان سے تم یہاں کیوں آگئے؟‘‘
کہنے لگا: ’’امارا گاؤں پر کافروں نے بم مارا۔پورا گاؤں مرگیا۔ امارا بابا شہید ہو گیا۔امارا بڑا بائی مجاہد بن گیا۔امارا امّاں نانا کے سات ام کو اور امارا چوٹا بائی کو لے کر اِدَر آگیا‘‘۔
اب ہمیں اور کوئی بات نہ سوجھی تو ہم نے یہی پوچھ لیا:’’تم مزدوری کیوں کرتے ہو؟ پڑھتے کیوں نہیں؟دُنیا بھر میں تعلیم کے فروغ کی مہم چل رہی ہے۔ بلکہ مہم جو کو نوبل پرائز بھی۔۔۔‘‘
ہماری بات کاٹ کر کہنے لگا:’’صاب! اَم خود بی پڑے گا۔مگر اَم اپنا چوٹا بائی کو ضرور پڑائے گا۔اُس کے واسطے اَم مزدوری کرتا اے!‘‘
ہم نے پوچھا: ’’تو کیا تمھارا چھوٹا بھائی پڑھ رہا ہے؟‘‘
بڑا دِلنشین قہقہہ لگا کر بولا: ’’ابی کیسے پڑے گا؟ ابی تو وہ دو سال چے مہینے کا ہے‘‘۔
اتنے میں ہم گاڑی تک پہنچ چکے تھے۔ اُس نے سامان گاڑی میں رکھ دیااور دونوں ہاتھ پشت پر ٹیک کر اپنی کمر سیدھی کی۔ اہلیہ نے سخاوت کا مظاہر کرتے ہوئے پانچ پانچ اور دو دو روپئے کے سکوں پر مشتمل سارا چینج اُس کو تھما دیا۔وہ حیرت سے تکنے لگا۔ہم نے پوچھا:
’’پیسے کم تو نہیں ہیں؟‘‘
اُس نے ایک بار پھر اپنی بھری ہوئی مٹھی کو دیکھااور بولا:’’نئیں صاب! بہت ہیں۔۔۔ شکر خدائے پاکا ۔۔۔ یہ بہت ہیں!‘‘
ہم نے پھر پوچھا:’’فدائے محمد!تم خوش تو ہو۔۔۔ ناراض تو نہیں ہو؟‘‘
اُس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ ’’نئیں صاب!‘‘ کہتے ہوئے وہ مسکرا دیا۔ایسی معصوم مسکراہٹ شاید ہی کبھی دیکھی ہو۔ جیسے گہرے سیاہ بادلوں سے اچانک چاند طلوع ہوجائے ۔۔۔ جیسے تند وتیز لو کے تھپیڑے سہنے والے تھکے ہارے مسافر کو یکایک کسی نخلستان کے بیچ ایک سرد چشمہ اُبلتا دکھائی دے جائے ۔۔۔ جیسے ۔۔۔ مگرسچ پوچھیے تو اُس مسکراہٹ کو اب بیان نہیں کیا جاسکتا۔
ہم اُسے دیر تک اور دور تک واپس جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ ہمیں دیکھتے دیکھ کر ایک صاحب قریب آئے اورہمدردی سے مشورہ دیا:
’’انھیں سر نہ چڑھایا کریں۔یہی لوگ خود کُش بمبار بنتے ہیں۔یہ لوگ اسلام کے بھی دشمن ہیں اور انسانیت کے بھی!‘‘

ابو نثر


15 اکتوبر، 2013

قربانی: سوچنے کی کچھ باتیں

قربانی :  سوچنے کی کچھ باتیں 

ابویحییٰ

12 اکتوبر، 2013

امن کا نوبل انعام


ملالہ اور عبیرقاسم حمزہ الجنابی


جب تک ملالہ نوبل انعام کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی، اس ملک کے میڈیا میں ایک شور برپا تھاہمارا سر فخر سے بلند ہے، ایک بچی جس کی جدوجہد علم کیلئے تھی، جو خواتین کے حقوق کی پاسداری کیلئے نکلی تھی اور آج پوری دنیا میں ہمارے ملک کا نام روشن کررہی ہے۔ پوری دنیا اس کی جرات کو سلام کررہی ہے، اس کے مشن کو جاری رکھنے اور تعلیم کو عام کرنے کیلئے سرمایہ دے رہی ہے۔ اس ملک کےعظیم اورباشعور دانشوروں کے یہ نعرے میرے کانوں میں گونجتے تھے اور میں سوچتا تھا کہ وہ امن کا نوبل انعام، جسے یہ قوم عزت کا تاج سمجھ رہی ہے، کیسے کیسے ظالموں، قاتلوں اور انسانیت کے دشمنوں کے سر سجتا رہا ہے۔

ملالہ کا سب سے بڑا وکیل گورڈن برائون وہی ہے جس نے عراق پر حملہ کرنے کیلئے نہ صرف برطانوی پارلیمنٹ میں ووٹ دیا بلکہ دھواں دار تقریر بھی کی تھی ۔ عراق پر وہ جنگ مسلط کی گئی جس نے لاکھوں لوگوں سے صرف تعلیم کا نہیں بلکہ زندگی کا حق بھی چھین لیا۔عورتوں کے حقوق کے یہ عالمی چمپین وہ ہیں جن کے ہاتھ مظلوم عورتوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور سروں میں عورتوں کی عزت سے کھیلنے کی ہوس رچی ہوئی ہے۔

12 مارچ 2006 کو ملالہ کی ہم عمر عمر چودہ سالہ عبیر قاسم حمزہ جو عراق کے چھوٹے سے قصبے المحمدیہ میں رہتی تھی، اس پر کیا بیتی؟ دل تھام کر پڑھیے: عبیر کا والد قاسم حمزہ رحیم اور ماں فخریہ طہٰ محسن اپنی اس بیٹی عبیر،6 سالہ بیٹی حدیل،9 سالہ احمد اور 11 سالہ محمد کے ساتھ اپنے گھر میں خوش و خرم رہ رہے تھے۔ عبیر کو اس کے والدین بہت کم گھر سے باہر جانے دیتے کہ سامنے گورڈن براؤن کے جمہوری ووٹ سے شروع ہونے والی عراق جنگ کے سپاہیوں کی چیک پوسٹ تھی جس پر چھ سپاہی پاول کورٹر، جیمز بارکر، جیسی سپل مین، برائن ہاورڈ، سٹیون گرین اور انتھونی پرایب موجود تھے۔ جب کبھی یہ بچی باہر نکلتی تو وہ اسے چھیڑتے اور وہ گھبرا کر اندر بھاگ جاتی۔ ایک دن یہ ان کے گھر گھسے، تلاشی لی اور عبیر کے گال پر سٹیون گرین نے انگلی پھیری جس نے سارے گھر کو خوفزدہ کر دیا۔ جب کبھی وہ اپنے والدین کے ساتھ باہر نکلتی، وہ اس کی طرف دیکھ کر غلیظ اشارہ کرتے ہوئے ویری گڈ کہتے۔ 12 مارچ 2006 کی صبح وہ شراب پینے میں مشغول تھے کہ عبیر کے دونوں بھائی سکول کے لیے روانہ ہوئے۔ عبیر کو اس لیے سکول سے اٹھا لیا گیا تھا کہ والدین ان سپاہیوں سے خوفزدہ تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ مکان میں داخل ہوئے۔ انہوں نے ماں باپ اور چھوٹی بہن کو ایک کمرے میں بند کیا اور عبیر کو دوسرے کمرے میں۔ سٹیون گرین نے اس کے ماں باپ اور چھوٹی بہن کو ایک کمرے میں لے جا کر قتل کر دیا اور دوسرے کمرے میں باقی دو سپاہی اس چودہ سالہ بچی سے زیادتی کرتے رہے۔ اس کے بعد گرین کی آواز آئی، میں نے انہیں قتل کر دیا اور پھر وہ بھی عبیر پر پل پڑا۔ اس کے بعد ان سپاہیوں نے اس کے سر پر گولی مار کار قتل کر دیا۔ جاتے ہوئے ایک سپاہی نے اس کے زیر جامے کو لائٹر سے آگ دکھائی اور کمرے میں پھینک دیا۔ گھر سے دھواں نکلا تو پڑوسی دوڑے ہوئے آئے اور انہوں نے جس حالت میں اس مظلوم چودہ سالہ بچی کو دیکھا وہ ناقابل بیان ہے۔ میں نے جب یہ واقعہ پڑھا اور چودہ سالہ عبیر قاسم حمزہ الجنابی کی تصویر دیکھی تو کئی راتیں بے چینی اور اضطراب سے سو نہ سکا تھا۔

نوبل پرائز دینے والوں اور ملالہ یوسف زئی  کی وکالت کرنے والوں کے ہاتھ عبیر جیسی بے شمار معصوم لڑکیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جو ان کے خوف سے گھروں سے نہیں نکلتی تھیں۔ جنہوں نے ان کی بدمعاش اور غلیظ نظروں کے خوف سے اسکول جانا چھوڑ دیا تھا۔ عبیر تو ان کے خلاف کوئی ڈائری بھی تحریر نہیں کر رہی تھی جو دنیا کا کوئی بڑا چینل نشر کرتا۔ اس نے تو انھیں ظالم، تعلیم کے دشمن اور انسانیت کے قاتل بھی نہیں کہا تھا۔ اس کا والد کسی این جی او کا سربراہ یا کارپرداز نہیں تھا کہ اپنی بیٹی تو ان سپاہیوں کے خلاف اکساتا، اس کی ایک فرضی نام سے ڈائری لکھنے میں مدد کرتا اور پھر دنیا بھر میں داد سمیٹتا۔ عبیر کو اس ظلم کی وجہ سے سہم سی گئی تھی۔ اس کے زندہ بچ جانے والے بھائیوں نے بتایا کہ جس دن سٹیون گرین نے اس کے گال پر انگلی پھیری، ہمارے والد نے اسی دن اسے اسکول سے اٹھا لیا تھا۔ وہ اس دن بہت روئی۔ اسے گھر کے باہر لگی ہوئی سبزیوں کو پانی دینے، دیکھ بھال کرنے کا بہت شوق تھا، لیکن اس دن کے بعد سے وہ بس کھڑکی سے انھیں دیکھتی رہتی۔

اس عالمی یا مقامی میڈیا میں کوئی ایسا شخص ہے جس کے سینے میں دل ہو، جس کے دل میں بیٹی کی محبت جاگتی ہو، جس کی آنکھ سے ظلم پر آنسو نکل آتے ہوں؟ وہ اٹھے اور کہے، آؤ ہم مل کر ایک اور امن انعام کا آغاز کرتے ہیں، ان بچوں کے لیے جوصابرہ و شطیلہ میں مارے گئے، ان مظلوموں کے لیے جو ٹینکوں تلے کچل دیے گئے، ان قیدیوں کے لیے جن پر کتے چھوڑے گئے، ان بہنوں کے لیے جو ان درندوں کے ہاتھوں اس وقت تک درندگی کا شکار ہوتی رہیں جب تک ان کا سانس باقی تھا، عبیر کے لیے جس سے اس کا اسکول چھوٹ گیا، جس کے لیے گھر سے نکلنا عذاب ہو گیا۔

لیکن ہم بے حس ہیں۔ نوبل انعام کی چکا چوند نے ہماری غیرت کے بچے کچے گھروندے کو بھی ملیامیٹ کر دیا ہے۔ اٹھارہ کروڑ کی قوم نے ایک مغربی چینل کے پروگرام میں اپنی اس ہونہار بیتی کا یہ فقرہ کیسے سن لیا کہ ہم عورتیں وہاں قیدیوں کی طرح ہیں، ہم مارکیٹ نہیں جا سکتیں۔ کراچی سے پشاور اور گوادر سے گلگت تک کیا پاکستان یہ ہے جس کی تصویر ملالہ نے اس پروگرام میں پیش کی؟ اس نے کہا، ایسے لگتا تھا ہم جیل میں ہیں۔ میں نے بلوچستان کے دور دراز گائوں سے لے کر لاہور، کراچی، پشاور اور چھوٹے چھوٹے قصبوں تک عورتوں کو ہر موڑ اور ہر مقام پر دیکھا ہے۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں، دفتروں اور فیکٹریوں میں، بازاروں اور ہوٹلوں میں۔ کیا یہ ہے ملالہ کا قیدخانہ؟ کیا یہ کالک ہے جو وہ اس قوم کے منہ پر مل کر نوبل انعام کی سیڑھی پر چڑھنا چاہتی ہے؟ اس قوم کا ہردانشور،مفکر اور اینکر پرسن عوام کو خوشخبری سناتا ہے، اسے پاکستان کا وقار بلند ہونے کی نوید قرار دیتا ہے۔ ملالہ نوبل امن انعام حاصل کرنے والوں کی صف میں ہی ٹھیک تھی جس میں اسرائیل کے تین قاتل وزرائے اعظم بیگن، اسحق رابین اور شمعون پیرس بھی کھڑے ہیں۔ نوبل انعام لیتے ہوئے ان کے ہاتھ ہزاروں معصوم فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ اس فہرست میں ڈرون حملوں سے معصوموں کی جانیں لینے والا بارک اوباما اور مسلم امہ کا سب سے بڑا دشمن ہنری کسنجر بھی کھڑا ہے۔ یہ غیرت کے سودے ہوتے ہیں جو غیرتمند قوموں کے غیرت مند افراد کیا کرتے ہیں کہ ایسے امن انعامات پر لعنت بھیج دیتے ہیں۔ ویتنام کا لیڈر لوڈو تھو (LU DUE THO) امریکہ سے امن مزاکرات کر رہا تھا۔ جب اسے ہنری کسنجر کے ساتھ امن کا انعام دیا تھا تو اس نے انکار کر دیا۔ ژاں پال سارتر کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا تو اس نے بھی یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے اپنے نام کے ساتھ نوبل انعام یافتہ لکھ کر اپنے ساتھ گھٹیا مذاق نہیں کرنا۔

پاکستان کی ایک مسلمان بیٹی کو مغرب کے قاتل حکمران ہمارے منہ پر کالک ملنے کیلئے استعمال کرتے رہے، اس کے سر پر ایسے ہاتھ امن کا تاج پہنانا چاہتے ہیں جن کے ہاتھ عبیر قاسم جیسی کئی مسلمان بچیوں سے رنگے ہوئے ہیں، یہ بچیاں جنہیں ان ظالموں کے خوف سے گھروں میں قید ہونا پڑا، ان کا اسکول چھوٹ گیا، وہ گھروں میں قید ہوگئیں لیکن پھر بھی وہ ان کی ہوس سے اپنی عفت بچا سکیں نہ زندگی۔

اوریا مقبول جان






11 اکتوبر، 2013

دیدئہ عبرت


وہ منظر دیدئہ عبرت سے دیکھنے والا تھا… ہوا یوں کہ میں حسبِ معمول کالج گیا۔ میں نے بی اے کی کلاس میں قدم رکھا… میرے سامنے گریجویشن کے مراحل طے کرنے والے طلباء بیٹھے تھے… میرا آج کا لیکچر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان پر تھا… میں ان طلباء کے روبرو کھڑا ہو گیا… ارادہ یہ تھا کہ ان کی معلومات کا جائزہ لوں تاکہ میں ان کا علمی معیار جانچ سکوں… میں نے ان سے پوچھا:

طلبائے عزیز! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سی چار بیویوں کے نام بتائو… اتنا آسان سوال میں نے شرماتے شرماتے ان کے گوش گزار کیا تھا… مبادا یہ کہیں: بھلا، بی اے کے طلباء سے یہ بھی کوئی پوچھنے والا سوال ہے؟ چالیس طلباء تھے… ان میں سے ایک طالب علم نے ہاتھ اٹھایا اور کہا: ڈاکٹر صاحب!… میں نے کہا: جی، بولیے!

اس نے کہا: خدیجہr … میں نے انگلیوں پر گننا شروع کیا اور کہا: شاباش! … وہ خاموش ہو گیا… اتنے میں دوسرے طالب علم نے ہاتھ اٹھایا: ڈاکٹر صاحب! عائشہ!… میں نے کہا: واہ، بہت خوب!… اب یہ نوجوان بھی خاموش ہو گیا… باقی سب انگشت بدنداں رہ گئے… چالیس کے چالیس طلبہ بالکل خاموش ہو گئے!!…ہاں! چالیس کے چالیس خاموش ہو گئے!!… میں نے اپنی اشکبار آنکھوں سے انھیں دیکھا… اور اپنے پاش پاش دل کی گہرائیوں سے نکلنے والے کلماتِ تأسف ان کے سامنے دہراتا رہا… حیف ہے تم پر! کیا تم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ناآشنا ہو؟… کیا تم اپنی مقدس مائوں کو بھی نہیں جانتے؟… کیا تم واقعی بے خبر ہو!!… تمھارا کیا بنے گا؟

اتنے میں ایک اور طالب علم نے آواز دی: ڈاکٹر صاحب! ڈاکٹر صاحب! مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور بیوی کا نام یاد آیا ہے۔
میں نے کہا: بتایئے!
کہنے لگا: آمنہ!! آمنہ… میں نے نہایت رنج و ملال سے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا اور اس سے کہا: اے نادان نوجوان! سیدہ آمنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ماں تھیں… اللہ تجھے تیری ماں سے جدا کر دے!… وہ شرم کے مارے خاموش ہو گیا… ان میں سے ایک نوجوان نے سوچا کہ ایسا خوشنما اور حیران کن جواب دوں جس سے ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر چھائی ہوئی رنج و ملال کی گھٹا چھٹ جائے۔
کہنے لگا: ڈاکٹر صاحب! مجھے ایک بیوی کا نام یاد آگیا ہے… میں نے کہا: بتائو! اُن کا اسم گرامی کیا ہے؟ وہ بولا: فاطمہ!!

کچھ طلباء ہنس پڑے… کچھ تعجب کے بحرِ بے کراں میں ڈوب گئے… تیسرا گروپ ان طلبا کا تھا جنھیں کچھ پتہ ہی نہ چلا کہ کیا ہوا ہے… کیونکہ وہ اسی جواب کو درست سمجھ رہے تھے… ان کی نظر میں فاطمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کا نام تھا… استغفراللہ! میرے رنج و غم میں اور زیادہ اذیت ناک اضافہ ہو گیا… میں نے کہا: اے بے خبر! اللہ تجھے ہدایت دے… فاطمہرضی اللہ تعالٰی عنہا  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں… اُس پر بھی سکوت طاری ہو گیا… بلکہ سب طلباء بالکل چپ ہوکر بیٹھ گئے

میں نے کہا: اچھا تم ایسا کرو مجھے فٹ بال کی کسی ٹیم کے پانچ کھلاڑیوں کے نام بتائو… میں نے کسی قریبی ٹیم کا نام نہیں لیا بلکہ اس ٹیم کا نام لیا جس کے کھلاڑیوں کے نام میرے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں تھے۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ میرے اس سوال کے جواب میں بھی انگشت بدنداں رہ جائیں گے… میں نے کہا: مجھے برازیل کی فٹ بال ٹیم کے کھلاڑیوں کے نام بتائو

بس یہ سوال کرنے کی دیر تھی کہ کلاس روم ’’میں بتاتا ہوں… میں بتاتا ہوں‘‘ کی آوازوں سے گونج اُٹھا… اور پھر کھلاڑیوں کے نام دم بدم میرے دامنِ سماعت سے ٹکرانے لگے… رونا لدو… ٹیٹو… وغیرہ وغیرہ… میں نے ان ناموں کو شمار کرنے کے لیے اپنی انگلیوں پر گنتی شروع کر دی… گنتے گنتے ایک ہاتھ کی انگلیوں کی پوریں ختم ہو گئیں… پھر میں نے دوسرے ہاتھ پر گننا شروع کر دیا… اس ہاتھ کی پوریں بھی مکمل ہو گئیں… میں نے پھر دائیں ہاتھ سے دوبارہ گننا شروع کیا… جب وہ پندرہویں کھلاڑی تک پہنچے تو میں نے کہا: بس کرو! بس کرو! جہاں تک میں جانتا ہوں کسی ٹیم کے کھلاڑی گیارہ سے زیادہ نہیں ہوتے… پھر تم نے پندرہ کھلاڑیوں کے نام کیسے بتا دیے؟ وہ کہنے لگے: ہم نے احتیاطًا پرانے کھلاڑیوں کے نام بھی بتا دیے ہیں

ڈوب مرنے کا مقام یہ ہے کہ جب یہ طلباء کھلاڑیوں کے نام بتا رہے تھے اور میں اپنے ہاتھ کی انگلیوں پر گنتا اور ان کا نام زبان پر دہراتا جارہا تھا… اس دوران اگر میں بھول کر کوئی نام غلط لے بیٹھتا تو اس غلطی کو وہ میری جہالت سمجھ کر ہنسنے لگتے تھے کہ اسے تو کھلاڑیوں کا نام لینا بھی نہیں آتا… وہ دوبارہ نام لے کر مجھے بتاتے کہ جس طرح آپ نے نام لیا ہے، وہ غلط ہے… صحیح نام وہ ہے جو ہم بتا رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا:
’’
کیا انھوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا؟ پس وہ اس کا انکار کرنے والے ہیں۔‘‘¡ المؤمنون 69:23۔

انھیں میرے چہرے پر نمودار ہونے والے غم اور پریشانی کے آثار کا اندازہ ہو چکا تھا، چنانچہ وہ معذرت کرنے لگے: ڈاکٹر صاحب! ہمیں ملامت نہ کیجیے… ہمارا کوئی قصور نہیں… ان کھلاڑیوں کو میڈیا والے مشہور کر دیتے ہیں… اس لیے ہمیں ان کے نام یاد ہوجاتے ہیں… اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ میں نے انھیں کہا: یہ جھوٹے عذر پیش نہ کرو… میڈیا کو کھلی اور چھپی خبریں بتانے اور منظر عام پر لانے کا اختیار حاصل ہے… مگر اسے یہ قدرت ہرگز حاصل نہیں کہ وہ تمھیں غیر مسلم کھلاڑیوں جیسی شکل و شباہت بنانے اور ان کے رویے اور رواج اپنانے پر مجبور کرے اور تمھیں حکم دے کہ تم ان کے نقش قدم پر چلو… اخبار کو ٹٹول ٹٹول کر ان کی خبریں تلاش کرو… ان کے نام یاد کرو… ان کے قصوں اور واقعات کا بار بار چرچا کرو… ذرائع اطلاعات و نشریات نے ہمیں اس بات پر تو مجبور نہیں کیا کہ ہم ان کھلاڑیوں کو اپنی روز مرہ کی گفتگو کا موضوع بنا لیں، اپنی مجلسوں میں انھی کے تذکرے کریں اپنا اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، سونا جاگنا، شکل و صورت، رنگ و ڈھنگ، کپڑوں کے ڈیزائن اور بودوباش حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی مبارک زندگی جیسی بنانے کے بجائے کافر کھلاڑیوں کی طرح بنائیں

کیا تم نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا:
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ
’’
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انھی میں شمار ہو گا۔‘‘¡ سنن أبي داود، حدیث: 4031۔

پھر میڈیا کے بہانے تمھارا عذر سراسر بے بنیاد ہے… کیونکہ جہاں کھیلوں، ڈراموں اور فلموں کو فروغ دینے والے عناصر موجود ہیں… وہیں ثقافتی، دینی، ادبی اور علمی تہذیب و تمدن کی نشرو اشاعت کے ذرائع بھی تو موجود ہیں… بلاشبہ عریانی اور فحاشی کے کلچر کے مقابلے میں دینی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے والے ذرائع کم ہیں، مثلاً: اچھے اور معیاری جرائد کی کمی ہے اور انٹرنیٹ کے بہت سے پروگرام گمراہ کن ہیں… مگر اس کے باوجود ہمیں کسی نے مجبور تو نہیں کیا کہ ہم دینی تعلیم و تربیت کو چھوڑ کر ان کے نقش قدم پر چلیں جو خود بھی دین سے بے بہرہ ہیں اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی دین سے دوری کا سازو سامان مہیا کر رہے ہیں

ایک اور انوکھی بات سنو چند دن ہوئے… میں نے ایک بستی میں لیکچر دیا… میں دوبارہ بتاتا چلوں کہ وہ شہر نہیں بلکہ بستی تھی… لیکچر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر تھا… لیکچر کے اختتام پر میں نے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو سیکھنے اور اس کی مکمل پیروی کی کوشش کرنے کی اہمیت واضح کی… پھر میں نے انھیں وہی واقعہ سنایا جو میرے اور میرے طلباء کے درمیان گزر چکا ہے… میرے روبرو چند کمسن بچے بیٹھے تھے… ان کی عمریں 10سال سے زیادہ نہیں ہوں گی… وہ واقعہ بیان کرتے ہوئے میں نے انھیں بتایا کہ میں نے اپنے طلباء سے پوچھا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سی چار بیویوں کے نام بتائو… پھر میں نے وہ مکمل سرگزشت اسی طرح سنائی جس طرح عموماً ہر شخص بیان کرتا ہے… لیکن جب میں نے انھیں یہ بتایا کہ میں نے اپنے طلباء سے برازیل کے پانچ کھلاڑیوں کے نام پوچھے… تو میرے سامنے بیٹھے ہوئے سب بچوں نے چلا کر کہا: میں بتائوں… میں بتائوں… وہ بے چارے یہ سمجھے کہ میں نے خود انھی سے یہ سوال کر دیا ہے… اس پوزیشن اور صورت حال کو بھی محفوظ کرنے اور لوگوں کو عبرت دلانے کے لیے میں نے اس موقع کو بھی بطور مثال غنیمت سمجھا… چنانچہ میں ان میں سے ایک بچے کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے کہا: ہاں، اُوبدمعاش! چل تو ہی جواب دے… اس نے کہا: رونالدو… اور… وہ مزید نام بھی لینا چاہتا تھا مگر میں نے کہا: بس، اتنا ہی کافی ہے… میں نے اس سے پوچھا: ارے اُو مسخرے! تو کس کلاس میں پڑھتا ہے؟ اس نے بغیر ہچکچاہٹ کے مطمئن ہو کر جواب دیا: چہارم (حصہ ب) میں…!! اب میں دوسرے بچے کی طرف پلٹا اور پوچھا: ہاں تم بتائو، اس نے کہا: ٹیٹو… میں نے پوچھا: تو کس کلاس میں پڑھتا ہے؟ اس نے کہا: پنجم (حصہ ج) میں… قریب تھا کہ میرے آنسو ٹپک پڑتے…اور میں نے کئی لوگوں کودیکھا بھی ہے کہ یہ افسوس ناک واقعہ سن کر ان کی حسرت بھری آنکھیں اشکبار ہو گئیں… حق بھی یہی بنتا ہے کہ جب لوگ اپنے رہبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھول کر ان لوگوں کی تقلید کرنے لگیں جن کا ہر ہر قول و فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی اور گستاخی پر مبنی ہے

اور جب مسلمانوں کے بچوں کا کردار غیر مسلموں کے کلچر کی عکاسی کرتا ہو… تو پھر آسمان کو پھٹ جانا چاہیے… زمین کو شق ہو جانا چاہیے… اور لوگوں کی آنکھوں سے آنسوں کے بجائے قُلزم خون بہنا چاہیے… جب میں نے مسلمانوں کے بچوں کو جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر ناآشنا اور بے گانہ دیکھا تو میرے ضمیر نے مجھے ملامت کی کہ سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ آج ہمیں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کو پوری کائنات میں عام کر دیں…، پھر گلی گلی اور کوچے کوچے میں اگر صدا بلند ہو واقعات سنائے جائیں… کسی کو آئیڈیل بنایا جائے… اپنے معاشرے کی تطہیر اور تہذیب و تمدن کے لیے کسی کو نمونہ بنایا جائے تو صرف محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو بنایا جائے… انھی کے نام کی محفلیں اور مجلسیں منعقد کی جائیں… اور اپنی ہر کمی کوتاہی کو ان کے ارشاد و عمل کی روشنی میں دور کیا جائے… ہر بچے کی زبان پر کھلاڑیوں کے بجائے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی ہو… کیونکہ وہ ہمیں اپنے ماں باپ، بیوی بچوں اور پوری انسانیت بلکہ اپنی روحوں سے بھی زیادہ محبوب ہیں




8 اکتوبر، 2013

دو ہزار پانچ کا زلزلہ ذہن میں آج بھی تازہ

دو ہزار پانچ کا زلزلہ ذہن میں آج بھی تازہ

وہ اکتوبر دو ہزار پانچ کی ہی ایک دوپہر تھی جب مجھ سے کچھ فاصلے پر میرے بھانجے بھانجیاں کھیلنے میں مصروف تھے۔ایک چھ سالہ بچی دوپٹہ اوڑھے بیٹھی ہے، ایک چار سالہ بچہ آتا ہے اور ایک فرضی دروازے پر دستک دیتا ہے۔ بچی دروازہ کھولتی ہے اور اسے دیکھ کر خوشی سے گلے لگاتی ہے اور کہتی ہے ’میرا بچہ نہیں رہا لیکن شکر ہے بھائی صاحب آپ زندہ ہیں۔‘ بچہ اذیت اور امید بھرے لہجے میں کہتا ہے ’بہن جی میرے بچوں کی کوئی خبر‘؟؟؟

میرے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا تھا۔ جو ہوا تھا بھولنا اتنا آسان نہیں تھا جب ایک ہنستی مسکراتی صبح قیامت میں تبدیل ہوگئی تھی۔
کشمیر میں آٹھ اکتوبر 2005 کو آنے والے بھیانک زلزلے سے سب سے زیادہ بچے متاثر ہوئے تھے۔ جہاں بڑی تعداد میں بچے اپنے سکولوں میں ہی دفن ہو گئے وہیں بچ جانے والے ننھے دماغوں پرگہرے نقوش ثبت ہو گئے۔ بچوں کے کھیل بھی زلزلے کی ہی کہانیوں کے اردگرد گھومنے لگے۔

ایک قیامت تھی جو آ کر گزر گئی تھی۔ لوگ سکتے کی کیفیت میں تھے۔ یقین آتا بھی تو کیسے؟ نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔ یوں بھی کبھی ہوتا ہے کہ آن کی آن میں گاؤں کے گاؤں اور بستیوں کی بستیاں خاک ہو جائیں؟ لینڈ سلائیڈنگ کے باعث راستے معدوم ہو چکے تھے۔ میلوں پیدل دشوار راستوں پر سفر کر کے لوگ اپنے آبائی علاقوں تک جا رہے تھے کہ کسی اپنے کو زندہ سلامت دیکھ سکیں۔

کئی بچے سکولوں کے نام سے گھبرانے لگے۔ خوف کیسے نہ محسوس ہوتا اپنے ہی کئی ہم جماعتوں کو اپنے ارد گرد جس حال میں وہ دیکھ کر آئے تھے ان کے معصوم ذہنوں کے لیے وہ سب ناقابلِ قبول تھا۔

ایک نو عمر لڑکی اپنی ہم جماعت کے اُس پیغام کا بوجھ اٹھائے نڈھال تھی جو اس کے ہمراہ ملبے تلے دبی زندگی کی جستجو کرتے اس نے دیا تھا۔ جس میز پر وہ کتابیں رکھ کر پڑھا کرتی تھی اسی کا ایک کونہ اس کے پیٹ میں پیوست تھا۔ اس نے اپنے آخری پیغام میں اپنی سہیلی سے کہا تھا’ اگر میرے ماں باپ سے ملو تو انہیں بتانا میں بہت اذیت میں مری ہوں۔‘


کئی بچوں کو اس آفت نے وقت سے پہلے بڑا کر دیا ۔

مجھے یاد ہے وہ چودہ سالہ بچی جس کے ماں باپ زلزلے کی نذر ہو گئے اور اس پر پانچ بہن بھائیوں کے ساتھ ضعیف نانی اور دادی دونوں کی ذمہ داری آن پڑی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھی ہوتے اور کمزور نہ پڑنے کی لگن بھی ہوتی۔

اتنے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے بعد اچھی خبر کو جیسے کان ترسنے لگے تھے وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کا ایک دوسرے سے حال احوال پوچھنے کا انداز بدلنے لگا ۔ پہلے لوگ ملتے تو پوچھتے زلزلے میں آپ کا کون گیا؟ لیکن اب کوئی شناسا چہرے دکھائی دیتا تو لوگ کہتے شکر ہے آپ زندہ ہیں۔

یہ شاید مثبت زندگی کی طرف پہلا قدم تھا۔ آج آٹھ برس بعد ان علاقوں میں جانے پر شاید ہی اس زلزلے کی کوئی یاد دکھائی دے۔ کیونکہ تعمیرِ نو کے بعد مظفرآباد سمیت کئی علاقے پہلے سے بہتر تعمیر ہو چکے ہیں۔ مگر ایک جگہ شاید آج بھی آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کا منظر پیش کر رہی ہے وہ ہے اس قدرتی آفت کو جھیلنے والوں کے دل اور دماغ جہاں آج بھی کئی کہانیاں ان کہی ہیں۔

اتنی سی کہانی۔۔مجھے اب مرنا ہوگا؟


اتنی سی کہانی۔۔مجھے اب مرنا ہوگا؟

تابندہ کوکب




مظفرآباد میں میرے والدین کے ساڑھے تین مرلے کے گھر میں کوئی صحن نہیں تھا اور اکثر میں کھڑکی سے نظر آنے والے چاند کو دیکھ کر سوچا کرتی تھی کہ کیا کبھی کسی رات کھلے آسمان تلے بھیگی ہوئی گھاس پر لیٹے میں ستاروں سے باتیں کر پاؤں گی۔ لیکن یہ سب یوں بے سروسامانی کی حالت میں ہوگا ایسا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کی صبح میں سکول جانے کے لیے بس سٹاپ پر پہنچی تو پوری سڑک چھوٹے چھوٹے کرکٹ گراؤنڈز میں بدلی ہوئی تھی۔ حسبِ معمول نوجوان لڑکے سحری کے بعد کرکٹ کھیل رہے تھے۔ کوئی گاڑی آتی تو کچھ پل کے لیے وِکٹیں سڑک سے اٹھا لی جاتیں۔

میرا سفر شروع ہوا تو دل ایک مرتبہ پھر وسوسوں سے بھر گیا۔ جانے کیوں مجھے کئی دن سے لگ رہا تھا کہ گاڑی اگلا موڑ مڑے گی تو سامنے کوئی حادثہ ہو گا۔ دریا کے ساتھ سفر کرتے مجھے پانی کو دیکھنے سے ڈر لگتا تھا۔ ایک خوف سا تھا کہ یونہی کوئی لاش پانی میں بہتی دکھائی دے جائے گی۔

میں کارکہ نامی گاؤں پہنچی تو روزانہ سکول کے راستے میں ملنے والا بطخوں کا گروہ مجھے آگے جانے ہی نہیں دے رہا تھا کچھ دیر وہاں کھڑے رہنے کے بعد ایک مقامی شخص کی مدد سے آگے بڑھ پائی۔

پہلی کلاس ختم ہونے کو تھی اور میں بچوں کی کاپیاں چیک کر رہی تھی کہ در و دیوار زور دار جھٹکے سے لرز اٹھے۔ میں اس آفت کو سمجھ نہیں پائی سوچا باہر جاکر دوسری ٹیچرز سے پوچھتی ہوں کہ اگر یہ زلزلہ ہے تو بچوں کو باہر نکالیں۔ ابھی ایک قدم ہی اٹھا تھا کہ سامنے کی دیوار پھٹ گئی۔ کئی بچے مجھ سے آکر لپٹ گئے۔ میری چادر اور قمیض سے لپٹے بچے نہ خود دروازے کی طرف بڑھ پا رہے تھے اور نہ میں۔۔۔ پانچ سیکنڈ ۔۔۔۔ ہاں پانچ سیکنڈ ہی کا وقت لگا ہوگا جب میں نے سکول کی دو منزلہ عمارت کو خود پر گرتے دیکھا تھا۔

منہ کہ بل گرے ہوئے میں نے سوچا تھا کہ بس۔۔۔ اتنی سی کہانی۔۔۔ مجھے اب مرنا ہوگا؟ میں نے کلمہ پڑھا تھا یہ مانتے ہوئے کہ میری کہانی ختم ہوگئی۔۔۔ یونہی آسمان کو دیکھنے کی کوشش کی تو وہ دکھائی دے گیا میں نے فوراً اُٹھنے کی کوشش کی تو سارے پتھر میرے اوپر سے ایسے ہٹتے چلے گئے جیسے روئی کے گالے ہوں۔ مجھے نئی زندگی کی نوید مل گئی تھی میں نے اپنے باقی دبے جسم کو کھینچ کر نکالا اور یہ دیکھ کر میں دنگ رہ گئی کہ دو منزلہ عمارت کی اُوپری چھت زمین سے لگی تھی۔

ارد گرد دیکھا تو مٹی اور گرد کی ایک گہری چادر پھیلی ہوئی تھی، پہاڑوں پر کوئی گھر سلامت نہیں تھا۔ میں چیخ رہی تھی کوئی تو آؤ ان بچوں کو نکالو۔ تین کلاسوں کے لگ بھگ سو بچے سکول کی عمارت تلے دبے ہوئے تھے۔ کون آتا؟ سبھی گھروں اور دکانوں تلے دبے تھے جو باہر تھے وہ گھروں سے اپنے پیاروں کو نکالنے میں لگے تھے۔

زلزلے کے جھکٹے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ملبے تلے دبے اپنے پیاروں کو روئیں یا اپنی موت کے ڈر کو۔۔۔ کتنے اجنبی چہرے تھے مگر سب پر درد اور خوف کا ایک سا رنگ تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا ’قیامت آگئی ہے‘۔۔۔ کوئی چِلا رہا تھا کہ ’بھارت نے حملہ کر دیا ہے‘۔ یہ گاؤں لائن آف کنٹرول کے قریب تھا اس لیے اکثریت یہی مان رہی تھی کہ وہاں کوئی بم گرا ہے۔

معلوم نہیں کتنے گھنٹے گزرے تھے مگر یوں لگ رہا تھا کہ گویا صدیاں گزر گئیں ۔ مجھے غصہ آ رہا تھا کہ مظفرآباد سے کوئی آ کیوں نہیں رہا۔ یہاں اتنے لوگ ہلاک ہو گئے ہیں اور وہاں کسی کو احساس تک نہیں۔ پھر میں نے کسی سے کہا کہیں سے ریڈیو لے کر آؤ شاید خبروں میں آ رہا ہو کہ کیا ہوا ہے۔ سبھی ڈھونڈنے لگے مگر منہدم گھروں سے کچھ بھی کیسے ملتا۔

بڑی دیر بعد ایک ہیلی کاپٹر دکھائی دیا تو سب کو امید نظر آنے لگی کہ اب ہمیں بچانے کوئی آ گیا ہے مگر ہیلی کاپٹر لوگوں کی چیخ و پکار کو نظر انداز کرتا واپس چلا گیا۔ مجھے اور بھی غصہ آنے لگا وہ نیچے کیوں نہیں آیا پوچھا کیوں نہیں۔۔۔ میرا دل کسی انہونی کی گواہی دے رہا تھا۔۔۔۔۔ کچھ گھنٹوں کے بعد گرد بیٹھنے لگی تو سامنے پہاڑ پر ایک بہت بڑی لینڈ سلائیڈ سے پورا گاؤں تباہ ہوئے دیکھا تو سب جان گئے کہ یہ آفت صرف ہمارے لیے نہیں ہے۔

دن کے بارہ بجے کے قریب مظفر آباد کی طرف جانے والا ایک شخص جانے کس طرح پیدل واپس وہاں پہنچا۔ سب اس سے پوچھنے لگے مظفرآباد والے کیوں نہیں آ رہے۔ یہاں سب برباد ہوگیا ہے۔وہ شخص دونوں ہاتھ سر پر مارتے ہوئے بیٹھ گیا اور چِلانے لگا’ مظفرآباد تو خود تباہ ہوگیا۔ وہاں کچھ نہیں بچا۔ ہسپتال، سکول، کالج اور ہوٹلز سب غرق ہو گئے۔‘ میں نے اس وقت سب لوگوں کے چہروں پر آخری امید کے ٹوٹنے کا درد دیکھا تھا۔

شام ہوئی تو بارش ہونے لگی۔ تیز بارش اور اچانک ہونے والی سردی نے سبھی کی آنکھوں سے آنسو چھین لیے۔ مسلسل زلزلے کے جھٹکوں میں تیز بارش اور ژالہ باری سب ہی خدا سے رحم اور گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے۔ چھ دن اور پانچ راتیں میں نے وہیں مقامی لوگوں کے ساتھ پلاسٹک شیٹوں سے بنے خیموں میں کاٹیں۔ ہر روز جب کسی گھر کے ملبے سے کوئی لاش نکلتی تو کوئی بھاگ کر نہیں جاتا۔ بس پوچھتا کون ملا؟ لوگ شاید تھکنے لگے تھے۔

دو دن میرے پاس بیٹھ کر اپنی نو ماہ کی بچی کو یاد کرنے والی وہ نوجوان لڑکی مجھے آج بھی یاد ہے۔ وہ اپنی بچی کو سُلا کر کام کرنے صحن میں آئی تو زلزلے سے مکان گر گیا۔ اس کی بچی اندر دب گئی۔ تیسرے دن اس نے مجھے آ کر بتایا کہ اس کی بچی مل گئی۔ میں نے بے ساختہ اس سے پوچھا ’کیسی ہے وہ؟‘ اس کا جواب اس کی درد بھری آنکھوں میں پا کر میں اپنے لب بھینچ گئی تھی۔ میرے سکول کی ایک آٹھ سالہ بچی اپنی چھ سالہ بہن کی لاش ملنے پر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اور میرے پاس اس معصوم کو تسلی دینے کے لیے لفظ نہیں تھے۔

چھ دن بعد میرا رابطہ اپنے گھر والوں سے ہوا۔ دل کو کچھ کو تسلی ہوئی۔ مظفرآباد تک جانے والے سڑکیں لینڈ سلائڈ کے باعث ختم ہو گئی تھیں۔ لینڈ سلائڈ سے گزرتے ہوئے سات گھنٹے کا پیدل سفر کرکے میں مظفرآباد پہنچی۔ یہاں دیکھاکہ وہ شہر جہاں مجھے ماں کی آغوش جیسا سکون ملتا تھا اجڑا پڑا تھا۔ میرا چھوٹا بھائی اپنے کئی دوستوں کے ساتھ سکول کی عمارت تلے ابدی نیند سو گیا تھا۔

میں اپنے گھر کی طرف بڑھ رہی تھی، گلیاں اور چوراہے ویران پڑے تھے۔جابجا خون کے دھبے یہاں کسی انہونی کے گزرنے کی داستان سنا رہے تھے۔ دوسرے شہروں سے اپنوں کی تلاش میں آئے ہوئے لوگ ہر چہرے کو اس امید سے دیکھ رہے تھے کہ وہ شاید ان کا رشتہ دار ہو۔

میں اپنے گھر والوں سے جا ملی تھی۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بچ جانے والوں کے لیے خوشی مناؤں یا جانے والوں کا غم۔ کوئی گھرانہ ایسا نہیں تھا جہاں میت نہ آئی ہو۔ میری سہیلی مجھے تسلی دے رہی تھی اور میں اسی کے بھائی کے مرنے پر آنسو بہا رہی تھی۔ ابھی پچھلے آٹھ اکتوبر کو ہی تو ہم اُن کی شادی پر اپنی مرضی کے فنکشن کرنے کی ضد کر رہے تھے۔
آٹھ سال گزر گئے گئے مگر لگتا ہے وہ حادثہ گزرے کچھ پل ہی ہوا ہے۔ اب تو خواہشوں سے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں کسی خواب کی قیمت کسی درد کی صورت 
میں نہ دینی پڑ جائے۔ ابھی تو آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ کے زخم ہی نہیں بھرے۔