موت کے بعد
زندگی
آدمی کو اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ جب وہ مر جائے گا تو
کس طرح پیدا کیا جائے گا۔ آدمی کے اندر حیرانی کا یہ عنصر اس سطح تک پہنچا ہوا ہے کہ
بہت سارے لوگ مرنے کے بعد زندہ کئے جانے پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ موت کے بعد زندہ کئے
جانے کو ایک نہ ہونے والا واقعہ سمجھتے ہیں۔ مثلا ً انگریزی کے معروف مصنف خوشونت سنگھ
نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ ” مرنے کے بعد زندہ کئے جانے پر یقین نہیں رکھتے ،اور
نہ ہی جنت پر اور نہ ہی جہنم پر اور نہ ہی فیصلہ کے دن پر“ ۔
ظاہر ہے جنت ، جہنم اور فیصلہ کے دن کا معاملہ تو بہت بعد
میں آتا ہے اگر ایک آدمی صرف حیات بعد موت سے انکار کردے تو باقی چیزوں سے خود بخود
انکار ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے باضابطہ بیان جاری کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
حیرانی اس بات پر ہوتی ہے کہ آدمی اس واقعہ پر کس طرح شک
کرتا ہے جس کا ہونا اتنا ہی یقینی ہے جتنا کہ خود انسان کا پیدا ہونا۔ کیا انسان نے
اپنی تخلیق پر غور نہیں کیا کہ وہ کس طرح پیدا کیا جا تا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ موت
کے بعد زندگی پر ایمان لانے کے لیے صرف یہی کافی ہے کہ انسان کو اپنی تخلیق کا ادراک
ہوجائے ۔ سچی بات تویہ ہے کہ موت کے بعد زندگی پر صرف وہی لوگ شک کرتے ہیں جن کو خود
اپنی تخلیق کا ادراک نہیں ہو سکا ہے ، جو یہ نہیں جان سکے کہ انہیں اللہ نے کس طرح
عدم سے وجود میں لایا اور نیست سے بود کردیا ۔
آپ نے کبھی آم کھایا ہے؟اچھا
چلئے ایک آم اٹھائیے اور اسے کھا لیجئے ۔ ٹھیک سے کھا لیا؟ ٹھیک ہے۔ اب گٹھلی کو اٹھائیے
اور دیکھئے، اسے اچھی طرح صاف کر لیجئے۔ صاف کر لیا؟ اب اسے مٹی میں گاڑ دیجئے۔ دیکھئے
مٹی تھوڑی نم ہونی چاہئے۔ اچھا اب اسے 10سے 20روز تک بھول جایئے۔ اچھا دیکھئے، اب بیس
دن گزر گئے۔ اب ذرا وہاں جایئے، جہاں آپ نے بیس روز پہلے اس گٹھلی کو زمین میں گاڑ
دیا تھا۔ دیکھا آپ نے یہاں کیا ہے؟ ارے ، یہ کیا، یہاں تو ایک شاداب پودا ہے! گٹھلی
میں جان کہاں سے پیدا ہوگئی؟ حیران نہ ہوں۔ اللہ اسی طرح آپ کو مرنے کے بعد زندہ کرے
گا۔
کھجور: کبھی
آپ نے کھجور کھائی ہے۔ نہیں! جائیے، جا کر ایک کھجور خرید لیجئے اور اسے کھایئے۔ اچھا
کھا لیا؟ اندر سے کیا نکلا؟ گٹھلی ! ارے یہ کیا یہ تو گودے کے اندر لکڑی ہے! گودے کے
اندر لکڑی کہاں سے پیدا ہوگئی؟ چھوڑئے اس میں مت پڑیئے، اسے جلا دیجئے۔ دیکھ لیا آپ
نے یہ لکڑی ہی تھی جو جل گئی۔ اب کھجور کی دوسری گٹھلی لیجئے اور اسے مٹی میں گاڑ دیجئے
اب اسے کچھ دنوں کے بعد دیکھئے۔ دیکھا آپ نے گٹھلی نے پودے کی شکل اختیار کرلی۔ ارے،
اس میں تو جان آگئی۔ اسی طرح اللہ آپ کو مرنے کے بعد زندہ کرے گا۔ اب آپ نے بہت کھا
لیا اب کچھ پی لیجئے۔
ناریل: کیا
پئیں گے آپ؟ چلئے ایک ناریل پی لیجئے۔ ٹھہریئے۔ پہلے اس کی بناوٹ پر غور کیجئے کہ اسے
کس طرح بنایا گیا ہے۔ یہ اوپر سے لکڑی ہے۔ بہت سوکھی ہوئی۔ اتنی سوکھی کہ اگر آپ اسے
چولہے میں ڈالیں تو بھبک کر جل اٹھے۔ اب اسے پھاڑیئے۔ ارے یہ کیا اندر تو پانی بھرا
ہے! اب اسے اٹھایئے اور پی لیجئے۔ یہ پانی آپ کو بہت ساری بیماریوں سے محفوظ کر دے
گا اور آپ کی پیاس بھی کسی حد تک بجھ جائے گی۔ جو اللہ لکڑی کے اندر پانی پیدا کر رہا
ہے اور جو گودے کے اندر لکڑی پیدا کر رہا ہے وہی اللہ آپ کو مرنے کے بعد زندہ کرے گا۔
انڈا:
آپ نے کبھی انڈا دیکھا ہے۔ ضرور دیکھا ہوگا۔ مرغی انڈے کو ایک مدت تک اپنے پنکھ میں
چھپائے رہتی ہے۔ پھر اچانک ایک دن وہ انڈے پھٹ جاتے ہیں اور بچے چوں چوں کرتے ہوئے
نکل آتے ہیں۔
جو آپ کے سامنے مردہ کو زندہ میں تبدیل کر
رہا ہے وہی اللہ آپ کو مرنے کے بعد زندہ کرے گا
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں