ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

12 اپریل، 2012

منی کی بدنامی سے شیلا کی جوانی تک

 

منی کی بدنامی سے شیلا کی جوانی تک


میرے ایک دوست فرمانے لگے کہ بھئی میرا بیٹا تو منی بدنا م ہوئی  کے گانے پر بہت اچھا ڈانس کرتا ہے۔ انہی کے برابر ایک اور صاحب بھی بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ” جناب اب تو یہ گانا پرانا ہوگیا ، میرا بیٹا تو شیلا کی جوانی پر تھرکتا ہے اور ہم سب اسے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں”۔ میں ان کی باتیں سن کر چپ نہ رہ سکا۔ میں نے کہا ” جناب اگر کل آپ کے بیٹے جوان ہو کر کسی اصلی شیلا اور حقیقی منی کی محفلوں میں تھرکتے نظر آئیں تو برا مت مانئے گا۔

اس وقت منی اور شیلا کے گانےہماری اکثریت کے علامتی ٹائٹل سونگز ہیں۔لوگ ان گانوں پر تھرکتے، ان طوائفوں کی عریانی سے آنکھیں سیکتے، شراب و سرور کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے اور فحش کلام سے محظوظ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔لیکن جب اس ماحول میں تربیت پا کر ان کی بہنیں منی بنتیں ، بیٹیاں شیلا کی جوانی میں ڈھلتیں اور لڑکے آوارہ عورتوں کو آئیڈیل بناتے ہیں تو یہی لوگ شور مچاتے ، روتے ، چلاتے ، ماحول کو بر ا کہتے اور مقدر کو کوستے دکھائی دیتے ہیں۔
اس مسئلے کے دو حل نظر آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ یا تو سوسائٹی میں اخلاقیات کو ختم کرکے ہر شخص کو عریاں، بے حیا اور بے اخلاق کردیا جائے تاکہ کسی کو اپنے ننگے پن کا احساس ہی نہ ہو۔ ظاہر ہے یہ حل تو مغرب میں بھی ممکن نہیں ہو پایا کیونکہ خدا کی بنائی ہوئی فطرت کو مسخ تو کیا جاسکتا ہے لیکن مٹایا نہیں جاسکتا۔دوسرا حل یہ اس معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے اور انفرادی و اجتماعی سطح پر کوششیں کی جائیں۔

اس مسئلے کو اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو بے اخلاقی اور بے راہ روی کے اسباب جاننا لازم ہے۔ سوسائٹی میں بے راہ روی کے کئی اسباب ہیں لیکن سب سے اہم پہلو میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلز کا ہے۔ آج کی تاریخ تک بیسیوں چینلز پاکستان میں اپنی خبریں، ڈرامے، فلمیں، گانے اور اسپورٹس کے پروگرام نشر کررہےہیں۔ ان تمام چینلز کا اثر معاشرے پر بہت زیادہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس وقت عملی طور پر قوم کی تربیت، ذہن سازی، ثقافت، طرز فکر غرض ہر اہم تربیتی پہلو ان چینلز ہی کے ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ ان کی بے راہ روی پوری قوم کو گمراہ کر سکتی ہے۔ا ن چینلز کی اخلاقیات کا جائزہ لینے کے لئے چند مثا لوں پر غو ر کرتے ہیں ۔

۱۔ پہلا مسئلہ ایڈورٹز مینٹ یعنی اشتہارات کا ہے۔ منافع کمانے کی تگ و دومیں کمپنیز کسی بھی حد تک جانے پر تلی ہوئی ہیں۔ چنانچہ نوجوان لڑکے اورلڑکی کو ساری رات بات کرنے پر ترغیب ، عریانی کا غیر محسوس طریقے سے فروغ ، فحش گفتگو کی روزمرہ میں شمولیت ، جھوٹ اور لفاظی سے اشیاء کی فروخت اور مادہ پرستانہ سوچ کا ملبوسات اور دیگر ذرائع رواج وہ چند منفی پہلو ہیں جو اخلاق باختہ اشتہار بازی سے جنم لیتے ہیں ۔

۲۔ دوسرا پہلو ٹی وی ڈرامے اور فلمیں ہیں۔ آج پاکستانی ڈرامے کسی طور انڈیا کے غیر اخلاقی پروگراموں سے پیچھے نہیں ۔ ان ڈراموں میں طوائفوں کی سرگرمیوں ،شادی شدہ افراد کے خفیہ معاشقوں اور نوجوانوں کی ناآسودہ خواہشات کا پرچار کرکے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ہر دوسر ے گھر میں یہی سب کچھ ہورہا ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ مادہ پرستی، جھوٹ، بد دیانتی، جرائم اور جنسیات کو ایک مختصر لباس میں پیش کردیا جاتا ہےتاکہ دیکھنے والے خود ہی اس جامے کو چاک کرکے عریانیت سے ملبوس ہوجائیں ۔

۳۔موسیقی کے چینلز تو آرٹ کے نام پر کسی بھی حد سے گذرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ چنانچہ بے ہنگم طور پر تھرکتے ہوئے لڑکے اور لڑکیاں ایک طرف تو مایوسی ، افسردگی اور بے ترتیبی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب وہ اس سے چھٹکارہ پانے کےلئے کپڑوں کو مختصر کرتے، اچھل کود سے مصنوعی ولولہ پیدا کرتے اور شہوانی جذبات جو برانگیختہ کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ موسیقی اور بے ہودہ شاعری کے ذریعے ہر شہوانی جذبے کو محبت کے نام سے منسوب کیا جاتا اور غلاظت پر پردہ ڈالنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔

۴۔ سب سے اہم پہلو رول ماڈل کی پیروی کرنا ہے۔ میڈیا گلوکاروں، اداکاروں، کھلاڑیوں اور اینکرز کو غیر ضروری طور پر فرش سے عرش تک پہنچاتا ہے۔ چنانچہ لوگوں کے آئڈیل مختصر لباس والی اداکارائیں، وجیہہ شکل کے فنکار، مادیت میں لتھڑے ہوئے گلوکار اور تعلیم و تربیت سے عاری کھلاڑی ہوتے ہیں ۔ ان سب لوگوں کی حیثیت ماضی میں بندر کا ناچ دکھا کر محظوظ کرنے والے مداری سے زیادہ نہیں ہوتی تھی ۔ لیکن آج پوسٹ ماڈرنزم کی بنا پر یہ لوگوں کے رول ماڈل بن جاتے ہیں ۔ اس طرح سائینس دان ، فلسفی، اساتذہ ، مفکرین اور دیگر سنجیدہ اور تعمیری طبقے پس پشت چلے جاتے اور سرخی پائوڈر سے مزین جدید بھانڈ نوجوانوں کی منزل بن جاتے ہیں۔

اس بحث سے یہ نتیجہ نکلا کہ یہ چینلز قوم کی اخلاقی تربیت میں ناکام دکھائی دیتے بلکہ مزید اخلاقی انحطاط کا سبب بنتے نظر آتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب ایک تو یہ ہے کہ ان چینلز کے مالکان کا بنیاد مقصد منافع میں اضافہ کرنا ہے نا کہ اخلاقیات کا درس دینا دوسری وجہ ٹی وی کے ذمہ داروں کی اپنی تربیت نہ ہونا شامل ہیں۔

ان مسائل کے حل پر اگر غور کیا جائے تو درج ذیل ہدایات پر عمل کرنا لازمی نظر آتا ہے ۔

۱۔انفرادی طور پر ہم سب کو چاہئے کہ برائی کو برائی سمجھیں ۔ دقیانوسیت اور اخلاقی اقدار میں تفریق کریں۔گناہ کا سبب بننے والے گانوں ، مناظر، فلموں اور گفتگو سے اسی طرح نفرت کریں جیسے بدن پر لگنے والی کیچڑ سے کرتے ہیں۔

۲۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ کے استعمال میں احتیاط اور کمی کریں۔ نیز خود کو اور اپنی اولاد کو برائی سے محفوظ رکھنے کے لئے ٹی وی یا کمپیوٹر کو بیڈ روم سے نکال کر لائونج یا کسی مناسب جگہ پر رکھا جائے تاکہ ہر آنے جانے والا دیکھتا رہے کہ کیا دیکھا جارہا ہے۔

۳۔ اجتماعی سطح پر حکومت کے ذریعے سنسر بورڈ بنایا جائے جس کے ممبران کم علم دینی علماء کی بجائے پڑھے لکھے مذہبی اور سوشل اسکالرز ہوں۔

۴۔ اجتماعی سطح پر ٹی وی کے حکام یہ فیصلہ کریں کہ وہ کوئی ایسا اشتہار یا پروگرام نشر نہیں کریں گے جو اخلاقی بگاڑ کا باعث بنے۔

۵۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر تہیہ کرلیں کہ آج سے کسی بھی ایسے پروگرام ،گفتگو، تفریح یا محفل کا حصہ نہیں بننا جو غیر اخلاقی ہو اور جس سے اللہ کی ناراضگی کا خدشہ ہو۔


Munni ki badnamis e shela ki jawani tak
professor aqeel

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں