Urdu Blog

  • Home
  • Softwares
  • اسلامی کتب »
    • ڈاکٹر اسرار احمد
    • دیگر اسلامی
  • شاعری
  • تاریخی کتب
  • اردو کتب »
    • علامہ اقبال
    • نسیم حجازی
    • محمد علی جناح
    • واصف علی واصف
    • ڈاکٹر یونس بٹ

ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

امیر المومنین کی چوکیداری

ایک دلچسپ واقعہ

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

26 فروری، 2012

شراب اور انگور

اتوار, فروری 26, 2012  اسلامی, تاریخ, islahi  No comments
‎




 مشہور شامی مصنف عادل ابو شنب نے اپنی کتاب شوام ظرفاء میں عرب مُلک شام میں متعین فرانسیسی کمشنر کی طرف سے دی گئی ایک ضیافت میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اُن دنوں یہ خطہ فرانس کے زیر تسلط تھا اور شام سمیت کئی آس پاس کے مُلکوں کیلئے ایک ہی کمشنر (موریس سارای) تعینات تھا۔ کمشنر نے اس ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔

اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے دودھ کی طرح سفید ڈاڑھی والے بزرگ بھی آئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اُنکی نشست کمشنر کے بالکل آمنے سامنے تھی۔ کمشنر نے دیکھا کہ یہ بزرگ کھانے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہاتھوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے جبکہ چھری کانٹے اُس کی میز پر موجود ہیں۔ ایسا منظر دیکھ کر کمشنر کا کراہت اور غُصے سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے کی بہت کوشش کی مگر اپنے آپ پر قابو نا پا سکا۔ اپنے ترجمان کو بُلا کر کہا کہ اِس شیخ صاحب سے پوچھے کہ آخر وہ ہماری طرح کیوں نہیں کھاتا؟


شیخ صاحب نے ترجمان کو دیکھا اور نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا؛ تو تمہارا خیال ہے کہ میں اپنئ ناک سے کھا رہا ہوں؟

کمشنر صاحب نے کہا، نہیں ایسی بات نہیں، ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم چھری اور کانٹے کے ساتھ کیوں نہیں کھاتے؟
شیخ صاحب نے جواب دیا؛ مُجھے اپنے ہاتھوں کی صفائی اور پاکیزگی پر پورا یقین اور بھروسہ ہے، کیا تمہیں بھی اپنے چھری اور کانٹوں پر کی صفائی اور پاکیزگی پر اتنا ہی بھروسہ ہے؟

شیخ صاحب کے جواب سے کمشنر جل بھن کر رہ گیا، اُس نے تہیہ کر لیا کہ اس اہانت کا بدلہ تو ضرور لے گا۔

کمشنر کی میز پر اُس کے دائیں طرف اُسکی بیوی اور بائیں طرف اُسکی بیٹی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔

چہ جائیکہ کمشنر عربوں کی ثقافت، روایات اور دینداری سے واقف تھا، مزید براں اُس نے اس ضیافت میں شہر کے معززین اور علماء کو مدعو کر رکھا تھا۔ مگر ان سب روایتوں کو توڑتے ہوئے اُس نے اپنے لئے شراب منگوائی اور شیخ صاحب کو جلانے کی خاطر نہایت ہی طمطراق سے اپنے لیئے، اپنی بیوی اور بیٹی کیلئے گلاسوں میں اُنڈیلی۔ اپنے گلاس سے چُسکیاں لیتے ہوئے شیخ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا؛ سنو شیخ صاحب، تمہیں انگور اچھے لگتے ہیں اور تم کھاتے بھی ہو، کیا ایسا ہے ناں؟


شیخ صاحب نے مختصراً کہا، ہاں۔


کمشنر نے میز پر رکھے ہوئے انگوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ شراب ان انگوروں سے نکالی ہوئی ہے۔ تم انگور تو کھاتے ہو مگر شراب کے نزدیک بھی نہیں لگنا چاہتے!

ضیافت میں موجود ہر شخص کمشنر اور شیخ صاحب کے درمیان پیش آنے والی اس ساری صورتحال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ سب کے چہروں سے نادیدہ خوف کے سائے نظر آ رہے تھے اور ہر طرف خاموشی تھی۔ مگر اس شیخ صاحب کے نا تو کھانے سے ہاتھ رُکے اور نا ہی چہرے پر آئی مسکراہٹ میں کوئی فرق آیا تھا۔

کمشنر کو مخاطب کرتے ہو ئے شیخ صاحب نے کہا؛ یہ تیری بیوی ہے اور یہ تیری بیٹی ہے۔ یہ والی اُس سے آئی ہوئی ہے۔ تو پھر کیوں ایک تو تیرے اوپر حلال ہے اور دوسری حرام ہے؟

مصنف لکھتا ہے کہ اسکے بعد کمشنر نے فوراً ہی اپنی میز سے شراب اُٹھانے کا حُکم دیدیا تھا۔

▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬



مکمل تحریر پڑھیے
فراز اکرم
Tweet

اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی

اتوار, فروری 26, 2012  اسلامی, تاریخ, خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق  No comments
 
‎


 

حضرت ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ایک روز چلتے پھرتے مدینے میں یہودیوں کے محلے میں پہنچ گئے۔

وہاں ایک بڑی تعداد میں یہودی جمع تھے اس روز یہودیوں کا بہت بڑا عالم فنحاس اس اجتماع میں ایا تھا۔


صدیق اکبر رضی الله نے فنحاس سے کہا اے فنحاس! اللہ سے ڈر اور اسلام قبول کر لے اللہ کی قسم تو خوب جانتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور وہ اللہ کی طرف سے حق لے کر آئے ہیں او تم یہ بات اپنی تورات اور انجیل میں لکھی ہوئی پاتے ہو اس پر فنحاس کہنے لگا۔


وہ اللہ جو فقیر ہے بندوں سے قرض مانگتا ہے اور ہم تو غنی ہیں۔ غرض فحناس نے یہ جو مذاق کیا تو قرآن کی اس آیت پر اللہ کا مذاق اڑایا۔


من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا ( سورہ البقرہ ٢٤٥) صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب دیکھا کہ اللہ کا دشمن میرے مولا کا مذاق اڑا رہا ہے تو انہوں نے اس کے منہ پر طمانچہ دے مارا اور کہا:

”اس مولا کی قسم جس کی مٹھی میں ابوبکر کی جان ہے اگر ہمارے اور تمہارے درمیان معاہدہ نہ ہوتا تو اے اللہ کے دشمن ! میں تیری گردن اڑا دیتا-“

فنحاص دربار رسالت میں آگیا- اپنا کیس حکمران مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آیا- کہنے لگا: ”اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیکھئے! آپ کے ساتھی نے میرے ساتھ اس اور اس طرح ظلم کیا ہے-“


اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا:
” آپ نے کس وجہ سے اس کے ٹھپڑمارا - “

تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی :”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس اللہ کے دشمن نے بڑا بھاری کلمہ بولا -اس نے کہا اللہ فقیر ہے اور ہم لوگ غنی ہیں-

اس نے یہ کہا اور مجھے اپنے اللہ کے لئے غصہ آگیا -
چنانچہ میں نے اس کا منہ پیٹ ڈالا -“یہ سنتے ہی فنحاص نے انکار کردیا اور کہا :” میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی-“

اب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی گواہی دینے والا کوئی موجود نہ تھا-


یہودی مکر گیا تھا اور باقی سب یہودی بھی اس کی پشت پر تھے-


یہ بڑا پریشانی کا سماں تھا- مگراللہ نے اپنے نبی کے ساتھی کی عزت وصداقت کا عرش سے اعلان کرتے ہوئے یوں شہادت دی-


لَقَد سَمِعَ اَللَّہُ قَولَ الَّذِینَ قَالُو ااِنَّ اللَّہ َ فَقِیر وَنَحنُ اَغنِیَائُ(آل عمران : ۱۸۱)

”اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی جنہوں نے کہا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں-“

قارئین کرام ! ….صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے مولا کی گستاخی پر رب کے دشمن کے طمانچہ مارا اور جب صدیق کی صداقت پہ حرف آنے لگا تو رب تعالیٰ نے صدیق کی صداقت کا علان عرش سے کر دیا۔۔


(¯`v´¯)
 `•.¸.•´`•.¸.¸¸.•*¨¨*•.¸¸❤`•.¸.¸¸.•*❤ ❤`•.¸.¸¸.•*❤
♥♥.....Join Us on facebook............. *• ♥♥♥♥♥♥
❤ http://www.facebook.com/apni.zuban.urdu ❤

Tags:
Hazrat, abubakar, sadeeq, Allah, faqeer, ghani, qarz, sadiq akbar, Khuda ki gawahi, yahoodi, 
مکمل تحریر پڑھیے
فراز اکرم
Tweet

Ungli uthana

اتوار, فروری 26, 2012  islahi  No comments
‎




كسان كى بيوى نے جو مكهن كسان كو تيار كر كے ديا تها وه اسے ليكر فروخت كرنے كيلئے اپنے گاؤں سے شہر كى طرف روانہ ہو گيا،

یہ مكهن گول پيڑوں كى شكل ميں بنا ہوا تها اور ہر پيڑے كا وزن ايک كلو تها۔
شہر ميں كسان نے اس مكهن كو حسب معمول ايک دوكاندار كے ہاتھوں فروخت كيا
اور دوكاندار سے چائے كى پتى، چينى، تيل اور صابن وغيره خريد كر واپس اپنے گاؤں كى طرف روانہ ہو گيا.
 
كسان كے جانے بعد…… دوكاندار نے مكهن كو فريزر ميں ركهنا شروع كيا….
اسے خيال گزرا كيوں نہ ايک پيڑے كا وزن كيا جائے.
وزن كرنے پر پيڑا 900 گرام كا نكلا، حيرت و صدمے سے دوكاندار نے سارے پيڑے ايک ايک كر كے تول ڈالے
مگر كسان كے لائے ہوئے سب پيڑوں كا وزن ايک جيسا اور 900 – 900 گرام ہى تها۔

اگلے ہفتے كسان حسب سابق مكهن ليكر جيسے ہى دوكان كے تهڑے پر چڑها،
دوكاندار نے كسان كو چلاتے ہوئے كہا کہ وه دفع ہو جائے، كسى بے ايمان اور دهوكے باز شخص سے كاروبار كرنا اسكا دستور نہيں ہے. 900
گرام مكهن كو پورا ایک كلو گرام كہہ كر بيچنے والے شخص كى وه شكل ديكهنا بهى گوارا نہيں كرتا.

كسان نے ياسيت اور افسردگى سے دوكاندار سے كہا:

“ميرے بهائى مجھ سے بد ظن نہ ہو ہم تو غريب اور بے چارے لوگ ہيں،
ہمارے پاس تولنے كيلئے باٹ خريدنے كى استطاعت كہاں.
آپ سے جو ايک كيلو چينى ليكر جاتا ہوں اسے ترازو كے ايک پلڑے ميں رکھ كر دوسرے پلڑے ميں اتنے وزن كا مكهن تول كر لے آتا ہوں.

اس تحریر کو پڑھنے کہ بعد آپ کیا محسوس کرتے ہیں۔

کسی پر انگلی اٹھانے سے پہلے کیا ہم پہلے اپنے گریبان چیک نہ کرلیں۔ کہیں یہ خرابی ہمارے اندر تو نہیں ؟ شکریہ

کیونکہ اپنی اصلاح کرنا مشکل ترین کام ہے





(¯`v´¯)
 `•.¸.•´`•.¸.¸¸.•*¨¨*•.¸¸❤`•.¸.¸¸.•*❤ ❤`•.¸.¸¸.•*❤ 
♥♥.....Join Us on facebook............. *• ♥♥♥♥♥♥ 
❤ http://www.facebook.com/wakeup.muslimz ❤
مکمل تحریر پڑھیے
فراز اکرم
Tweet

25 فروری، 2012

خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا

ہفتہ, فروری 25, 2012  اسلامی, islahi  No comments
‎




وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا
☆سورة الإسراء آیت 32 ☆

Do not even go close to fornication. It is indeed a shameful act, and an evil way to follow.

خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے
----------------------------------------------

زنا کے راستے اور ان کے قریب جانے سے ممانعت:۔

اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ زنا نہ کرو بلکہ یوں فرمایا کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ یعنی وہ تمام راستے اور طور طریقے جو زنا کا سبب بن سکتے ہیں۔ ان سب سے اجتناب کرو۔ ایسے راستوں کا مفصل بیان تو سورہ نور اور سورہ احزاب میں آیا ہے۔ مختصراً یہ کہ ہر وہ چیز جو انسان کی شہوت کی انگیخت کا سبب بن سکتی ہے۔ وہ زنا کا راستہ ہے مثلاً عورتوں سے آزادانہ اختلاط، عورتوں کا بے پردہ ہو کر بازاروں میں نکلنا، اجنبی مرد و عورت کی گفتگو بالخصوص اس صورت میں کہ وہ اکیلے ہوں۔ نظر بازی، عریاں تصویر، فلمیں، فحش لٹریچر، گندی گالیاں، ٹی وی اور ریڈیو پر فحش افسانے اور ڈرامے اور مردوں اور عورتوں کی بے حجابانہ گفتگو وغیرہ سب شہوت کو ابھارنے والی باتیں ہیں اور یہی زنا کے راستے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو۔ اور زنا کی طرف لے جانے والے تمام راستوں پر پابندیاں لگا دیں۔


زنا کاری اور اس کے اردگرد کی تمام سیاہ کاریوں سے قرآن روک رہا ہے زنا کو شریعت نے کبیرہ اور بہت سخت گناہ بتایا ہے وہ بدترین طریقہ اور نہایت بری راہ ہے ۔

مسند احمد میں ہے کہ ایک نوجوان نے زنا کاری کی اجازت آپ سے چاہی لوگ اس پر جھک پڑے کہ چپ رہ کیا کر رہا ہے ، کیا کہہ رہا ہے ۔ آپ نے اسے اپنے قریب بلا کر فرمایا بیٹھ جا جب وہ بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا کیا تو اس کام کو اپنی ماں کے لئے پسند کرتا ہے ؟
اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ پر اللہ فدا کرے ہرگز نہیں ۔ آپ نے فرمایا پھر سوچ لے کہ کوئی اور کیسے پسند کرے گا؟ آپ نے فرمایا اچھا تو اسے اپنی بیٹی کے لئے پسند کرتا ہے ؟ اس نے اسی طرح تاکید سے انکار کیا ۔ آپ نے فرمایا ٹھیک اسی طرح کوئی بھی اسے اپنی بیٹیوں کے لئے پسند نہیں کرتا اچھا اپنی بہن کے لئے اسے تو پسند کرے گا ؟ اس نے اسی طرح سے انکار کیا آپنے فرمایا اسی طرح دوسرے بھی اپنی بہنوں کے لئے اسے مکروہ سمجھتے ہیں ۔ بتا کیا تو چاہے گا کہ کوئی تیری پھوپھی سے ایسا کرے ؟ اس نے اسی سختی سے انکار کیا ۔ آپ نے فرمایا اسی طرح اور سب لوگ بھی ۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر دعا کی کہ الہٰی اس کے گناہ بخش ، اس کے دل کو پاک کر ، اسے عصمت والا بنا ۔ پھر تو یہ حالت تھی کہ یہ نوجوان کسی کی طرف نظر بھی نہ اٹھاتا ۔

ابن ابی الدنیا میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے شرک کے بعد کوئی گناہ زنا کاری سے بڑھ کر نہیں کہ آدمی اپنا نطفہ کسی ایسے رحم میں ڈالے جو اس کے لئے حلال نہیں ۔
▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬

Tags : 
Zina, prohibited, Islam, Qur'an, Quran, fornication, adultery,
مکمل تحریر پڑھیے
فراز اکرم
Tweet

24 فروری، 2012

ننگ دیں ننگ ملت

جمعہ, فروری 24, 2012    No comments
 

 
گزشته رات بگرام میں امریکی وحشی فوجیوں کے ہاتھوں قرآن عظیم الشان کو جلانے پر افغانستان میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، احتجاج کرنے والوں نے صلیبیوں کے مراکز و دیگر کو نشانہ بنایا اور جلانے میں کامیاب ہوئے۔ مگر افسوس پاکستانی میڈیا کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہیں کہ اس خبر کو نشر کرے

 
 



امریکی اور نیٹو اھلکاروں کے ھاتھوں قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف افغانستان کے طول و عرض میں مظاھرے شدت اختیار کر چکے ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ افغان مسلمانوں کا غم و غصہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے. سرکاری املاک نذر آتش کرنے کے واقعات پر مظاھرین پر شدید فائرنگ کی گئی جس کے بعد کابل میں امریکی سفارت خانہ بند کر کے امریکی اور مغربی لوگوں کے سفر کرنے پر پابندی لگا دی گئی ھے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

توھین اسلام کے عادی مجرم صلیبیوں کے خلاف ھم نہ صرف خاموش ھیں بلکہ گستاخ قرآن نیٹو فورسز کی سپلائی لائن بھی بحال کر دی گئی ھے ۔۔۔۔۔۔ افسوس کہ ھم اپنے محبوب سیاسی لیڈروں پر تنقید کرنے والے یا برا بھلا کہنے والے کو گالیاں دینے یا جان سے مارنے پر بھی تیار ھو جاتے ھیں لیکن اپنے پیارے نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کے پاک کلام قرآن مجید کی توھین کرنے والوں کے حوالے سے خاموشی اختیار کر کے اپنی قومی و دینی غیرت کی موت کا کھلا اعلان کرتے ھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



جب سے خلافت چھنی مسلم امۃ پر ایک بے حسی اور غلامی چھائی ہوئی ہے اس بے حسی کو ختم کرنے کے لیے افغانوں نے دو مرتبہ قربانی دی ایک سپر پاور سرخ ریچھ کو ختم کرنے کے لیے اور دوسری مرتبہ پوری دنیا کی صلبیی قوتوں کا غرور خاک میں ملانے کے لیے ، مگر مسلم امہ بیدار نہ
ہوئی تو پھر ہماری بہنوں نے قربانی دی مگر مسلم امہ بیدار نہ ہوئی ، پھر ہماری مساجد نے قربانی دی ،مدارس نے قربانی دی مگر امت مسلمہ نے انگڑائی نہ لی ،تو اب رب قہار وجبار کی نازل کردہ کتاب نے بھی قربانی دے دی اس امید پر کہ شاید امت مسلمہ غلامی کے طوق سے جان چھڑاے اور اعلاے کلمۃ اللہ کےلیے سردھڑ کی بازی لگادے ، قرآن کریم کی قربانی سے رہے سہے غیور افغانوں کی تو مذہبی غیرت جاگ گئی  مگر شاید ہم اب بھی نہ جاگیں ، لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہمارا رب حلیم تو ہے لیکن قہار اور جبار بھی ہے ، اس کی پکڑ سے قرآن کی بے حرمتی کرنے والے بھی نہیں بچیں گے اور قرآن کی حفاظت سے غافل رہنے والے بھی محفوظ نہیں رہیں گے.



کیا صرف ھمارے غدار حکمران ھماری بربادی کے ذمہ دار ھیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کو اچھا لگے یا برا ہم ملی اور دینی غیرت سے عاری خاموش لوگ خود بھی اپنی تباھی و بربادی کے ذمہ دار ھیں.


قرآن کی توہین ہوئی تو افغان علماء عوام کو لے کر امریکی سفارت خانوں اور کیمپوں پر ٹوٹ پڑے اس کو آگ لگا دی۔

پاکستان کے مولوی کو دیکھو ابھی تک کوئی سفارت خانہ ہی نہیں ملا حتکہ دفاع پاکستان والوں کو 40 فٹ بڑا کنٹینر ہی نظر نہیں آتا جو کراچی سے ائیر پورٹ اور چمن تورخم بارڈر تک سفر کرتا ہے- ہمارا مولوی نکلتا ہے تو ہڈی کی تلاش میں گلی کا چکر کاٹتا ہے شور مچاتا ہے ہڈی اٹھاتا ہے عوام اسکے پیچھے الووں کے غول کی طرح شور مچاتی واپس گھروں کو گھس جاتی ہے۔ اگر غصہ زیادہ ہو تو کسی غریب کے بچے کی موٹر سائیکل کو آگ لگا دیتے ہیں۔


خبر ہے کہ

""امریکی فوجیوں کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی، افغان فوجی نے فائرنگ کرکے 2 نیٹو فوجی ہلاک کردئے۔۔""
 
افغان فوجی کو غیرت آ گئی افسوس پاکستانی فوجی کو اب بھی نہ آئی۔

ہم سے زیادہ غیرت مند تو وہ کتا ہے جو توہین رسالت برداشت نہ کرتے ہوئے عیسائی پادری کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔

بلکہ حکمرانوں، علماء اور جرنیلوں کا تو کیا ہے تذکرہ... ہم عوام کی اپنی حالت یہ ہے ہم ناچ گانے اور فضولیات میں مشغول ہیں۔ 

تاریخ میں لکھا جائے گا کہ جب امریکی فوجی قرآن پاک کو جلا رہے تھے، بلوچستان میں الگ ملک بنانے کی تحریک چل رہی تھی، اس وقت بھی یہ بےغیرت ننگ دیں ننگ ملت گانے بجانے اور ڈانس کی محفلوں میں مشغول تھے
۔ انھیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ کلام الہی جل رہا ہے، ناپاک اور پلید لوگ اس کی بے حرمتی کر رہے ہیں.. انہیں اس بات کی بھی پروا نہی تھی کہ مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے..... 


اس کے بعد تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ وہ قوم کتے کی موت ماری گئی..
انا للہ و انا الیہ راجعون







مکمل تحریر پڑھیے
فراز اکرم
Tweet

21 فروری، 2012

بیٹیوں کی سوداگری

منگل, فروری 21, 2012    1 comment
‎


ڈاکٹرعافیہ سے لے کر معصوم آمنہ تک
بیٹیوں کی سوداگری

وہ چیخ رہی تھی....چلارہی تھی ....فریاد کررہی تھی ....وہ گیارہ سالہ معصوم سی بچی تھی....سر پر اسکارف اوڑھے ....اسلامی مملکت کہلانے والے ....اور اسلامی آئین کی چھاپ کے ساتھ....ملک میں لگنے والی عدالت کے جج سے ....مسلمان ہونے کے ناطے ....اپنے بنیادی حق کی بابت ....جرح اور بحث و مباحثہ کررہی تھی کہ انکل....!مجھے میرے ”کافر“ماں کے حوالے نہ کیا جائے....میری ماں اگر مسلمان ہوجائے ....تو میں اس کے ساتھ جانے کو تیار ہوں....ورنہ اگر مجھے ”کچھ“ہوا تو....ذمہ دار آپ ہوں گے.......

سب جانتے ہیں کہ ....شرعی اعتبار سے یہ بات متفقہ ہے کہ.... ماں بچوں کو اپنے پاس رکھ سکتی ہے....لیکن اگر اس دوران بھی بچوں کی رضامندی.... باپ کے ساتھ رہنے میں ہو....تو بچے باپ کو ہی ملتے ہیں....لیکن جب معاملہ یہ ہو کہ....بچی بلوغت کی عمر کو پہنچ رہی ہو....اور اس کی رضامندی بھی باپ کے ساتھ رہنے میں ہو....تو پھر کسی صورت بھی.... بچی کو باپ کے ساتھ رہنے سے محروم نہیں کیا جاسکتا....

مگرکیا کیا جائے کہ جس ملک میں ”شریعت “کی نہیں....انسانی ہاتھوں کے لکھے ہوئے” آئین“ کی حکمرانی ہو....اور آئین بھی وہ ....جس کی حیثیت موم کی ناک سے بڑھ کرنہیں .... جس کو آئے دن حکمران ....اپنی خواہشات اور بیرونی آقاﺅں کی ہدایت پر....”ترمیمی بل “کے ہتھوڑے سے ....اپنے اپنے سانچوں کے مطابق ڈھالتے رہتے ہوں....تو وہاں کچھ بھی ہونا بعید نہیں........

ہوسکتا ہے کہ اس معاملے میں کچھ لوگ یہ کہیں کہ....” اس کے باپ نے کون سی شریعت کی پابندی کی.... کہ اس نے ایک کافر عورت سے شادی کی“....

معاملہ یہ ہے کہ ماضی میں جس حیثیت سے بھی دونوں نے شادی کی ہو....مگر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بچی....اب ایک ”مسلمان بچی “ہے....اور قرآن نے اس عورت کے بارے میں ....جو کافروں کے پاس سے چلی آئے ....اور مسلمان ہوجائے ....اس کے بارے میں فرمایا...


فَلَا تَرْجِعُوْہُنَّ اِلَی الْکُفَّارِ (الممتحنۃ:۱۰)


ترجمہ:

”توہرگز ان(مسلمان) عورتوں کوکفار کی طرف نہ لوٹاﺅ“۔



مگرچونکہ غلام کی اپنی کوئی مرضی ....یا اپنی کوئی چاہت نہیں ہوتی ....اور وہ اپنے آقا کے ہر اچھے برے حکم کا تابعدار ہوتا ہے....اسی قائدے کے مصداق .... ملک کے(نام نہاد) ”اسلامی “آئین کے تحت چلنے والی عدالت کے جج نے....کفریہ فرانسیسی عدالت کے فیصلے کو ....من وعن تسلیم کرتے ہوئے.... اُس معصوم کو....اس کی مرضی اور رضامندی کے برعکس....” مسلمان“ باپ کے حوالے کرنے کے بجائے ....گھسیٹتے ہوئے ”کافر“ماں کے حوالے کردیا ....اور دو دن کے وقفے کے بعد....جبکہ اس بچی کا پاسپورٹ ابھی اس کے باپ کے پاس ہی تھا .... اس کی ”کافر “ماں....اُس کواپنے کفر کی سرزمین فرانس لے گئی ....جہاں ایک مسلمان عورت کو....اپنی ناموس کے تحفظ کی خاطر.... حجاب کی نہیں....بلکہ سرپر اسکارف لینے کی پابندی ہے....اور اس دوران ”سو موٹو ایکشن “بھی سوتا رہا .... اور عورتوں کو ”بااختیار “بنانے کا دعویٰ کرنے والے بھی ....اوراسلام اور پاکستان کے ”دفاع“ کرنے کا دم بھرنے والے بھی.... صحیح کہا تھا کچھ دنوں پہلے .... ڈاکٹر عبد القدیر خان نے....


”ہمارا امریکہ (اور اس کے اتحادیوں )کے ساتھ آقا اور غلام کا رشتہ ہے“


ہوسکتا ہے کہ ہمیشہ کی طرح ....


”اب پچھتاوے کیا ہوت کہ چڑیا چک گئی کھیت“


کے مصداق....اے آمنہ ....تمہاری ہمدردی میں ....پرجوش جلسے اور جلوس نکلیں ....دھرنے اور احتجاج مظاہرے بھی ہوں اور ”ملین مارچ“ بھی....اور اس کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کی قراردادیں بھی ....اور شاید ”سوموٹوایکشن “بھی جاگ جائے اورتمہارے بارے میں ”استفسار“کرلے....

مگراے میری بہن اور.... اے میری بیٹی .... آمنہ.... ہم شرمندہ ہیں (جوکہ ہم عرصہ دراز سے ہوتے چلے آرہے ہیں)....سیاسی کھلاڑیوں سے لے کر جمہوری مداریوں تک.... جرنیلوں سے لے کر ججوں تک .... منبر و محراب پر خطبے دینے والوں سے لے کر .... قال اللہ قال الرسول کا درس دینے والوں تک.... اور جانوروں کی مانند ظلم و ستم کی چکی میں پسی ہوئی بیچاری عوام الناس تک (سوائے چند ایک کے).... سب کے سب احساس زیاں سے عاری ....اور اخلاقی و انسانی اقدارسے بے بہرہ ہیں....دین فروش اور ضمیر فروش بھی تو تھے ہی....اب اپنی ماﺅں اور بیٹوں کو بھی ....ڈالروں کے عوض ....کافروں کو بیچنے والے ہوگئے....ڈاکٹر عافیہ کی داستان غم سے لے کر....جامعہ حفصہ کی نہتی بچیوں کے قتل عام تک....اور اب آمنہ کی روح فرسا چیخوں تک....ہم نے من حیث القوم ثابت کردیا کہ ....ہم اپنی مسلمان بیٹیوں کے سوداگر بن گئے ....صحیح کہا تھاغالباً ایمل کانسی کے معاملے میں امریکی وکیل نے ہمارے بارے میں....


”یہ لوگ تو اپنی ماں کو پچاس ڈالر میں بیچ دیں“


علامہ اقبال نے ”ابلیس “کے شکوے کو ان الفاظ نقل کیا تھا:

الحذر ، الحذر، آئین پیغمبری سوبار الحذر

تحفظ ناموسِ زن، مرد آزما مرد آفریں


ترجمہ:

”پناہ مانگتا ہوں، پناہ مانگتاہوں، آئین پیغمبری سے سو بار پناہ مانگتا ہوں، جس کا اصول یہ ہےعورتوں کی عصمت کی حفاظت ہو اور مرد ہی زمانے کے حالات کا مقابلہ کریں“

لیکن جب مسلمان قومیں ہی اپنی ماﺅں اور بہنوں کی عزتوں کے بھاﺅں دینے لگیں.... تو پھر کوئی کرشمہ ہی اُس قوم کو تباہی وبربادی سے بچا سکتا ہے.... بحیثیت قوم ہمارے جرائم اس قدر شدید اور خطرناک ہیں ....جس پر ہم نہ نادم ہیں اور نہ تائب....زلزلوں کے جھٹکے تو آئے روز ہم ریکٹر اسکیل پر محسوس کرہی رہے ہیں....اور اب کے ہونے والی رکارڈ توڑ برف باری تو .... کسی اورچیز کی ہی نشاندہی کررہی ہے.... لہذا اب ہمیں جلد یا بدیر.... بس کسی ”قدرتی چنگھاڑ“کے انتظار میں رہنا چاہیے ....جو یا توہمیں سیلاب کی صورت میں بہا کر لے جائے اور سمندر برد کردے....یا کوئی آسمانی چیخ سنائی دے اورزلزلے کی صورت ہمیں زمین میں دھنسادے....اب کی بار ہمارے بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ....انا للہ وانا الیہ راجعون -----
▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬


(¯`v´¯)
  `•.¸.•´`•.¸.¸¸.•*¨¨*•.¸¸❤`•.¸.¸¸.•*❤ ❤`•.¸.¸¸.•*❤
♥♥.....Join Us on facebook............. *• ♥♥♥♥♥♥
❤ http://www.facebook.com/wakeup.muslimz ❤
مکمل تحریر پڑھیے
فراز اکرم
Tweet

20 فروری، 2012

The Last Crusade. Aakhri Maarka-e-Khair-o-Sharr

پیر, فروری 20, 2012  Orya maqbool jan  No comments
‎






(¯`v´¯)
 `•.¸.•´`•.¸.¸¸.•*¨¨*•.¸¸❤`•.¸.¸¸.•*❤ ❤`•.¸.¸¸.•*❤
 ♥♥.....Join Us on facebook............. *• ♥♥♥♥♥♥
 ❤ http://www.facebook.com/wakeup.muslimz ❤

Tags: Orya Columns, Orya Maqbool Columns, Orya Maqbool Jan, Urdu Columns, last crusade, akhri maarka, aakhri marka, khair, shar, khilafat
مکمل تحریر پڑھیے
فراز اکرم
Tweet

18 فروری، 2012

پاکستان کو ایک بھیانک انجام سے بچانے کیلئے جاگو، آواز اٹھاؤ

ہفتہ, فروری 18, 2012    1 comment


سمجھ نہیں آتی کہ اس کہانی کو کہاں سے شروع کروں۔ وہاں سے شروع کروں جب اپنوں سے دھوکہ کیا یا وہاں سے شروع کروں جب دھوکے سے بغاوت نے جنم لیا اور پھر اس بغاوت میں غیر ملکی سازشیں بھی شامل ہوگئیں؟ جہاں سے بھی شروع کروں یہ کہانی کم اور قومی المیہ زیادہ ہے۔ یہ بلوچستان اوربلوچوں کی کہانی ہے جنہیں پاکستان میں پاکستان سے بیگانہ بنایا جا رہا ہے۔
 
آیئے اس کہانی کو 1947ء سے شروع کر لیتے ہیں۔ 1947ء میں بلوچستان کے کچھ علاقوں میں ریفرنڈم ہوا۔ ریفرنڈم میں پوچھا گیا کہ آپ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا ہندوستان میں؟ ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کا حق شاہی جرگہ میں شامل قبائلی سرداروں اور کوئٹہ میونسپلٹی کے ارکان کو تھا۔ نواب اکبر بگٹی سمیت اکثریت نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا لیکن ریاست قلات کی طرف سے آزادی کا اعلان کر دیا گیا۔ قلات کی منتخب اسمبلی کے ارکان کی اکثریت پاکستان سے فوری الحاق کے لئے تیار نہ تھی۔ خان آف قلات کی قائداعظم کے ساتھ پرانی نیاز مندی تھی۔ قائداعظم نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنی ریاست کو پاکستان میں شامل کر دیں تو دونوں کو فائدہ ہوگا۔ خان نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی اسمبلی کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کریں گے۔ 14  دسمبر 1947ء کو ڈھاڈر میں قلات اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔
 
اسمبلی میں میرغوث بخش بزنجو نے کہا کہ خان آف قلات نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کیا لیکن مسلم لیگ نے پاکستان بناتے ہی لسبیلہ اور خاران پر زبردستی قبضہ کر لیا اور ہم سے پوچھا بھی نہیں ہم کسی کے غلام نہیں بنیں گے۔ اسمبلی کے ارکان کی اکثریت الحاق کی مخالف تھی چنانچہ خان آف قلات نے دارالامراء سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے پاکستان قائم ہوگیا۔ پاکستان کو بلوچوں کی مدد کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کو مہاجرین سنبھالنا ہیں، کشمیر کا تنازعہ اور ہندوستان سے تصادم کا خطرہ بھی موجود ہے۔  ہم پاکستان کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں اور تمام تنازعات بات چیت سے حل کرلیں گے۔ خان آف قلات اپنے علاقے کے قبائلی سرداروں کو پاکستان میں شامل کرنے کے لئے بات چیت کر رہے تھے لیکن دوسری طرف بیورو کریسی اور انگریز فوجی کمانڈر، وزیراعظم لیاقت علی خان اور ان کی کابینہ کو گمراہ کر رہے تھے۔ انگریزوں نے ہندوستان کو ریاست جموں و کشمیر، حیدر آباد اور دیگر ریاستوں پر فوجی قبضے کی ترغیب دی۔ جب قائداعظم نے پاکستانی فوج کے انگریز کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو کشمیر میں فوج بھیجنے کا حکم دیا تو اس نے حکم کی تعمیل نہ کی لیکن دوسری طرف یہی گریسی قلات کے بارے میں پاکستان کی حکومت کو غلط مشورے دیتا رہا۔


17مارچ 1948ء کو لسبیلہ اور خاران کے بعد مکران کو بھی پاکستان میں شامل کر لیا گیا۔ قائداعظم علیل ہوچکے تھے۔ خان آف قلات کا ان سے رابطہ کم ہو چکا تھا۔ بلوچستان کی سب سے بڑی ریاست قلات میں فوجی کارروائی کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں لہٰذا 30مارچ 1948 کو خان آف قلات نے کراچی میں قلات کے پاکستان سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے حالانکہ ان کی اسمبلی اس فیصلے کے خلاف تھی۔ کوئٹہ میں موجود انگریز افسران قائداعظم کے نام پر فیصلے کر رہے تھے اور قائداعظم اکثر معاملات سے بے خبر تھے۔ اپریل 1948ء میں فوج کو قلات پر کنٹرول قائم کرنے کا حکم ملا جس کے بعد جھالاوان کے علاقے میں خان آف قلات کے بھائی عبد الکریم نے بغاوت کر دی۔ عبد الکریم نے بلوچ نیشنل لبریشن کمیٹی قائم کی اور مسلح ساتھیوں کے ساتھ پہاڑوں میں چلے گئے۔ غوث بخش بزنجو مسلح بغاوت کے حق میں نہ تھے۔ عبد الکریم کو مذاکرات پر راضی کیا گیا اور قرآن کو ضامن بنا کر یقین دلایا گیا کہ وہ پہاڑوں سے نیچے اتر آئیں تو انہیں معافی دیدی جائے گی، وہ ہربوئی کے پہاڑوں سے نیچے اتر آئے تو انگریز فوجی افسروں نے وعدے توڑتے ہوئے اپنے ماتحت پاکستانی فوجی افسروں کو حکم دیا کہ عبد الکریم کو گرفتار کر لیا جائے۔ یہ ایک عظیم دھوکہ تھا۔ اس کے بعد بھی دھوکے بازی کا سلسلہ چلتا رہا۔ خان آف قلات میر احمد یار خان اپنی ریاست کی بحالی کی کوششوں میں مصروف تھے تاکہ پاکستان کے اندر رہ کر کچھ حقوق حاصل کرلیں۔ اس دوران صوبے ختم کرکے ون یونٹ قائم کر دیا گیا۔ 1955ء میں عبد الکریم جیل سے رہا ہوئے اور انہوں نے صوبہ بلوچستان کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ اب وہ پاکستان سے آزادی نہیں بلکہ پاکستان کے اندر صوبہ مانگ رہے تھے۔ وہ ایک دفعہ پھر غدار قرار پائے اور 6اکتوبر1958ء کو قلات میں نیا فوجی آپریشن شروع ہوگیا۔ اس آپریشن میں قلات کی مرکزی جامع مسجد پر بھی بمباری کی گئی لہٰذا خان آف قلات اپنے ہاتھ میں قرآن لے کر نکلے اور خود کو فوج کے حوالے کر دیا۔ اس آپریشن کے خلاف نواب نوروز خان نے مزاحمت کی اور وہ ایک سو سے زائد عسکریت پسندوں کے ساتھ پہاڑوں میں چلے گئے۔


1960ء میں ان سے مذاکرات کئے گئے۔ ایک دفعہ پھر قرآن پر حلف دیا گیا کہ ہتھیار پھینک دو تو معافی مل جائے گی۔ 90سالہ نواب نوروز خان نے ہتھیار ڈال دیئے لیکن جنرل ایوب خان نے دھوکہ کر دیا۔ بوڑھے بلوچ سردار کو جیل میں ڈال کر اس کے بیٹوں کوپھانسی دیدی گئی۔


1961ء میں مری قبائل کے خلاف تیسرا فوجی آپریشن شروع ہوا جس کی میرشیر محمد مری نے مزاحمت کی۔ جنرل ایوب خان کی حکومت ختم ہوئی تو جنرل یحییٰ خان نے بلوچوں سے نئے مذاکرات شروع کئے۔ نواب اکبر بگٹی، خیر بخش مری، سردار عطاء اللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو اکٹھے ہوئے تو ون یونٹ ختم کرکے بلوچستان کو ایک نئے صوبے کے طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ 1970ء کے انتخابات میں بلوچ قوم پرست پھر تقسیم ہوگئے لیکن اس کے باوجود وہ جمعیت علماء اسلام کی مدد سے بلوچستان میں حکومت بنانے میں قائم ہوئے۔
 
سردارعطاء اللہ مینگل وزیراعلیٰ بنے لیکن 1973ء میں انہیں برطرف کر دیا گیا۔ ۔ بلوچستان میں چوتھا فوجی آپریشن شروع ہوگیا۔ پاکستانی فوج کے کمانڈوز نے سردار عطاء اللہ مینگل کے صاحبزادے اسد اللہ مینگل کو کراچی سے اغواء کرکے شہید کر دیا اور لاش غائب کر دی۔ یہ آپریشن 1978ء میں ختم ہوا۔ 2006ء میں جنرل پرویز مشرف نے بلوچستان میں پانچواں فوجی آپریشن شروع کیا اور26  اگست 2006ء کو نواب اکبر بگٹی پہاڑوں میں شہید ہوگئے۔ ایک ایسے شخص کو شہید کیا گیا جس نے تمام عمر پاکستان کے خلاف کچھ نہ کہا بلکہ 1947ء میں پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ نواب اکبر بگٹی کی شہادت نے نفرتوں کی ایسی آگ بھڑکائی جس میں اپنوں پرایوں کی پہچان گم ہوگئی۔ آج ہر دوسرا بلوچ نوجوان ناراض ہے۔ ہزاروں بلوچ نوجوان لاپتہ ہیں اور سینکڑوں کی مسخ شدہ لاشیں نفرتوں کی دہشت ناک کہانی کو آگے بڑھا چکی ہیں۔ بلوچ نوجوان ایف سی اور فوج کو قاتل کہتے ہیں اور فوج انہیں پاکستان کا دشمن قرار دیتی ہے۔ سمجھ نہیں آرہی کہ اگر افغانستان کے راستے سے اسلحہ اور رقم لے کر پاکستان میں قتل و غارت غلط ہے تو پاکستان کے آئین سے وفاداری کا حلف اٹھا کر بار بار اس آئین کو توڑنا ملک دشمنی کیوں نہیں؟

چند دن پہلے کراچی میں نامعلوم افراد نے نواب اکبر بگٹی کی پوتی اور براہمداغ بگٹی کی بہن بیگم میر بختیار ڈومکی کو کراچی میں ان کی بیٹی سمیت شہید کر دیا۔ سپریم کورٹ نے اس قتل کا از خود نوٹس لیا ہے لیکن قاتلوں کا پکڑے جانا مشکل نظر آتا ہے۔ ایک خاتون کو صرف اس لئے قتل کیا گیا کہ وہ براہمداغ بگٹی کی بہن تھی، اپنے بھائی کے ساتھ فون پر بات کرتی تھی اور لاپتہ بلوچوں کے خاندانوں کی عورتوں کی مدد کرتی تھی۔ اس خاتون کے فون کا ریکارڈ منگوا لیا جائے تو کم ازکم قتل کی وجہ سامنے آجائے گی۔ اس قتل سے پاکستان کی کوئی خدمت نہیں کی گئی بلکہ پاکستان کے ساتھ دشمنی کی گئی ہے۔ پاکستان کے ساتھ محبت کا تقاضا ہے کہ بلوچوں کے ساتھ بار بار دھوکے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ اگر بلوچوں کو اپنے ساتھ رکھنا ہے تو ان کے ساتھ بات کرنی ہوگی، لاپتہ بلوچوں کو رہا کرنا ہوگا، اکبر بگٹی اور بیگم میر بختیار ڈومکی کے قاتلوں کو پکڑنا ہوگا اور بلوچستان میں مشرف دور کی پالیسی ختم کرکے سیاسی پالیسی شروع کرنا ہوگی۔
اگر ہم بھی ناکام ہوگئے تو پھر اس کہانی کا انجام بہت بھیانک ہوگا۔ پاکستان کو ایک بھیانک انجام سے بچانے کیلئے جاگو، آواز اٹھاؤ اور بلوچوں کو بچاؤ۔




‎(¯`v´¯) 
`•.¸.•´`•.¸.¸¸.•*¨¨*•.¸¸❤`•.¸.¸¸.•*❤ ❤`•.¸.¸¸.•*❤ 
♥♥.....Join Us on facebook............. *• ♥♥♥♥♥♥ 
❤ http://www.facebook.com/wakeup.muslimz ❤
مکمل تحریر پڑھیے
فراز اکرم
Tweet

16 فروری، 2012

سیب حرام ہے!

جمعرات, فروری 16, 2012  islahi  No comments

سیب حرام ہے!

یہ ایک شخص کی آب بیتی ہے جو کہتا ہے کہ:
میں مسجد میں تحیۃ المسجد ادا کر رہا تھا کہ سگریٹ کی ناگوار بدبو نے مجھے بے چین کر کے رکھ دیا،
خشوع و خضوع قائم رکھنا تو بعد کی بات تھی بدبو کی شدت سے نماز پوری کرنا بھی محال لگ رہا تھا۔
سلام پھیر کر دیکھا تو قریب ہی ایک آدمی نماز  ادا کر رہا تھا۔ سگریٹ نوشی کی کثرت سے اس کے ہونٹ سیاہ پڑ چکے تھے۔
میں نے سوچا یہ نماز سے فارغ ہو چکے تو اس سے بات کرونگا، شاید میری نصیحت سے اس پر کوئی مثبت اثر پڑ جائے۔

لیکن مجھے اس وقت حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب اس شخص کے ساتھ بیٹھے ایک نوجوان نے اسکی نماز سے فراغت پر
مجھ سے پہلے ہی  اس سے گفتگو کرنا شروع کی، سننے کیلئے میں نے بھی کان لگائے تو کچھ اس قسم کی بات چیت ہو رہی تھی:

نوجوان: السلام و علیکم، چچا آپ کون ہیں؟
وہ آدمی: میں ۔۔۔۔۔ ہوں۔

نوجوان: چچا، کیا آپ نے شيخ عبدا لحميد كشك کا نام سنا ہے؟
وہ آدمی: جی، میں جانتا ہوں انہیں۔

نوجوان: اچھا تو آپ شيخ جاد الحق کو بھی جانتے ہونگے؟
وہ آدمی: جی، میں انہیں بھی جانتا ہوں۔

نوجوان: تو آپ شيخ محمد الغزالی کو بھی جانتے ہیں؟
وہ آدمی: جی، میں انہیں بھی اچھی طرح جانتا ہوں۔

نوجوان: تو  پھر آپ ان کی کیسٹیں اور فتاویٰ جات بھی سنتے ہونگے ناں؟
وہ آدمی: جی، میں ان کی کیسٹیں بھی سنتا ہوں اور انکے فتاویٰ جات بھی۔

نوجوان: آپ جانتے ہیں ناں یہ سارے شیوخ سگریٹ کو حرام کہتے ہیں، تو پھر آپ کیوں پیتے ہیں سگریٹ؟
وہ آدمی: (جو  اب اس ساری گفتگو سے بیزاری سی محسوس کر رہا تھا) نہیں سگریٹ نوشی حرام  نہیں ہے۔

نوجوان: نہیں،  حرام ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی تو یہی ہے ناں کہ (پلید چیزوں کو تم پر حرام کر دیا گیا ہے)۔
کیا کبھی سگریٹ شروع کرتے  وقت آپ نے بسم اللہ پڑھی ہے یا سگریٹ ختم ہونے پر الحمدللہ کہی ہے؟
وہ آدمی: (تقریبا بھناتے ہوئے) مجھے قرآن شریف کی ایک آیت دکھا دو جس میں کہا گیا ہو کہ
(ويحرم عليكم الدخان) اور ہم نے تم پر سگریٹ نوشی حرام قرار دی ہے۔


نوجوان: چچا یقین کیجیئے اسلام میں سگریٹ نوشی بالکل ویسے ہی حرام ہے جس طرح  سیب حرام ہے۔
اس  آدمی کا صبر کا پیمانہ لبریز ہی ہو چکا تھا، جھلاتے ہوئے خونخوار لہجے میں بولا
اوئے لڑکے، تو ہوتا کون ہے کہ جس چیز کو چاہے حرام قرار  دے اور جس چیز کو  چاہے حلال قرار دیدے؟

وہ نوجوان نہایت ہی تحمل سے بولا کہ پھر لایئے اک آیت جس میں لکھا ہو کہ
(ويحل لکم التفاح) اور ہم نے تم پر سیب کو حلال کر دیا ہے۔

نوجوان کی گفتگو نے اس آدمی کو ششدر ہی کر کے رکھ دیا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ اب رویا کہ تب،
مسجد میں اقامت کی آواز گونج اٹھی تھی اور لوگ جماعت کیلیئے کھڑے ہو رہے تھے۔

نماز کے بعد وہ آدمی پھر اس نوجوان کی طرف متوجہ ہوا اور بولا
دیکھو نوجوان، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آئندہ کبھی سگریٹ نوشی نہیں کرونگا۔






‎(¯`v´¯)
 `•.¸.•´`•.¸.¸¸.•*¨¨*•.¸¸❤`•.¸.¸¸.•*❤ ❤`•.¸.¸¸.•*❤
♥♥.....Join Us on facebook............. *• ♥♥♥♥♥♥
❤ http://www.facebook.com/wakeup.muslimz ❤
مکمل تحریر پڑھیے
فراز اکرم
Tweet

عبرت اور سبق آموز واقعہ

جمعرات, فروری 16, 2012  اسلامی, تاریخ, islahi  1 comment
‎



عبرت اور سبق آموز واقعہ

امام ابن جوزی رحمة اللہ علیہ نے ایک نہایت ہی سبق آموز واقعہ بیان کیا ہے
اصفہان کا ایک بہت بڑا رئیس اپنی بیگم کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھا ہوا تھا دسترخوان اﷲ کی نعمتوں سے بھرا ہوا تھا اتنے میں ایک فقیر نے یہ صدا لگائی کہ اﷲ کے نام پر کچھ کھانے کے لیے دے دو اس شخص نے اپنی بیوی کو حکم دیا کہ سارا دستر خوان اس فقیر کی جھولی میں ڈال دو عورت نے حکم کی تعمیل کی جس وقت اس نے اس فقیر کا چہرہ دیکھا تو دھاڑیں مارکر رونے لگی اس کے شوہر نے اس سے پوچھا........جی بیگم آپ کو ہوا کیا ہے ؟

اس نے بتلایا کہ جو شخص فقیر بن کر ہمارے گھر پر دستک دے رہا تھا وہ چند سال پہلے اس شہر کا سب سے بڑا مالدار اور ہماری اس کوٹھی کا مالک اور میرا سابق شوہر تھا چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہم دونوں دسترخوان پر ایسے ہی بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے جیسا کہ آج کھارہے تھے اتنے میں ایک فقیر نے صدا لگائی کہ میں دو دن سے بھوکا ہوں ﷲ کے نام پر کھانا دے دو یہ شخص دسترخوان سے اٹھا اور اس فقیر کی اس قدر پٹائی کی کہ اسے لہولہان کردیا نہ جانے اس فقیر نے کیا بد دعا دی کہ اس کے حالات دگرگوں ہو گئے کاروبار ٹھپ ہوگیا اور وہ شخص فقیر و قلاش ہوگیا اس نے مجھے بھی طلاق دے دی اس کے چند سال گذرنے کے بعد میں آپ کی زوجیت میں آگئی شوہر بیوی کی یہ باتیں سن کر کہنے لگا

بیگم کیا میں آپ کو اس سے زیادہ تعجب خیز بات نہ بتلاوں؟
اس نے کہا ضرور بتائیں
کہنے لگا جس فقیر کی آپ کے سابق شوہر نے پٹائی کی تھی وہ کوئی دوسرا نہیں بلکہ میں ہی تھا... ( کتاب العبر )

گردش زمانہ کا ایک عجیب نظارہ یہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے اس بدمست مالدار کی ہرچیز ، مال ، کوٹھی ، حتیّٰ کہ بیوی بھی چھین کر اس شخص کو دے دیا جو فقیر بن کر اس کے گھر پر آیا تھا اور چند سال بعد پھر اﷲ تعالیٰ اس شخص کو فقیر بنا کر اسی کے در پر لے آیا

واﷲ علی کل شی ءقدیر

تاریخ ایسے عبرت آموز واقعات سے بھری پڑی ہے شرط ہے کہ انسان اس سے عبرت پکڑے



(¯`v´¯)
 `•.¸.•´`•.¸.¸¸.•*¨¨*•.¸¸❤`•.¸.¸¸.•*❤ ❤`•.¸.¸¸.•*❤ 
♥♥.....Join Us on facebook............. *• ♥♥♥♥♥♥
❤ http://www.facebook.com/wakeup.muslimz ❤
مکمل تحریر پڑھیے
فراز اکرم
Tweet

14 فروری، 2012

بے حیائی کا ایک دن

منگل, فروری 14, 2012    No comments
‎
بے حیائی کا ایک دن

چند سال قبل کی بات ہے 14 فروری کا دن عام دنوں کی طرح آتا اور چپکے سے گزر جاتا۔ کوئی اس دن کی خصوصیت سے آشنا تھا نہ کوئی ویلنٹائن کو جانتا تھا اور نہ کپویڈ کے کارناموں سے آگاہ تھا۔ اب کی طرح اس دن کوئی ہنگامہ ہوتا تھا نہ کوئی دل آویز واقعہ سننے کو ملتا۔
 
ایک عشرے میں نہ جانے کہاں سے وبا آئی کہ پاکستان میں بھی بڑے اہتمام سے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ منایا جانے لگا۔ مغربی تہذیب نے مشرق کا رخ کیا اور بے ہودگی و بے حیائی کا ایک سیلاب امڈتا چلا آیا۔ اب 14 فروری کے آتے ہی ویلنٹائن ڈے کی تیاری ہونے لگتی ہیں۔ میڈیا پہ خصوصی تشہیر اور پروگرام ہوتے ہیں۔ نسل نو مقصد حیات سے بے پرواہ ہو کر بے ہودگی کے وہ کھیل کھیلتی ہے کہ شیطان بھی شرمندہ ہوتا نظر آتا ہے۔ پہلے پہل یہ وبا خاص طبقے تک محدود تھی آہستہ آہستہ خاص و عام کی تمیز بھی ختم ہو گئی اور ہر طبقے کا فرد اس کی زد میں آ گیا اور تو اور ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی اس بے حیائی کا باقاعدہ سبق دیا جانے لگا ہے۔


14 فروری کو آپ بھی نظارہ کر سکتے ہیں، ویلنٹائن ڈے جسے ہم اپنی تہذیب کے منافی کہتے نہیں تھکتے، کی سب سے زیادہ دھوم ہمارے ہی محلوں اور گھروں میں پائی جاتی ہے۔ کالج کی بات جانے دیں پرائمری اور مڈل کے طلباء و طالبات بھی اب پابندی سے ویلنٹائن ڈے منانے لگے ہیں حالانکہ یہ دن منانے والوں کی ایک بڑی تعداد اس کی اہمیت و معنویت سے ناواقف ہوتی ہے مگر فلموں اور ٹی وی اشتہارات کے ذریعہ انہیں اتنا ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اونچی سوسائٹی اور پوش کلچر کے چونچلے ہیں اور یہ کہ اس کے نہ منانے والے پسماندہ اور دقیانوسی کہلاتے ہیں، لہٰذا خوشی خوشی عشق فرمانے کا کارنامہ انجام دینے لگتے ہیں اور کم عمری میں ہی ’’بالغ‘‘ ہو جانے کا کریڈٹ حاصل کر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ اس دن کا انتظار بڑی شدت سے کرتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے گدھ کسی جانور کے مرنے کا۔ ایسے لوگوں پر نظر رکھنے والوں کی بات اگر درست مان لیں تو یہ لوگ انتخاب کے دنوں میں خصوصی مقررین کی طرح ایک ہی دن میں کئی کئی میٹنگیں منعقد کر ڈالتے ہیں اور ہر جگہ وہی رٹے رٹائے جملے دہراتے ہیں کہ ’’ہم صرف تمہارے لئے ہیں‘‘۔


پاکستان میں یہ تہوار تیزی سے پھیلنے لگا ہے بالخصوص طبقہ اشرافیہ کو تو ایسی عیاشی کا کوئی بہانہ چاہئے ہوتا ہے۔ یوں اندازہ لگایئے کہ
گزشتہ سال 14 فروری کے ویلنٹائن ڈے پر باقاعدہ کراچی کے ایک روزنامے میں ایک اشتہار شائع ہوا۔ لکھا تھا۔
 
’’زندہ دل عاشقوں کے لئے ویلنٹائن ڈے کا خاص پروگرام 14 فروری کی رات محفل رقص (ڈانس پارٹی) منعقد ہو رہی ہے خواہشمند جوڑے اس محفل میں 1999ء روپے کا ڈنر ٹکٹ خرید کر شرکت کر سکتے ہیں البتہ ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کے ممبران کو خصوصی رعایت دی جائے گی‘‘۔
اس سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ تہوار اور اس کو منانے والے جوڑوں کی خواہشات کیا ہیں۔ رقص و سرود میں محبت کا ’’اظہار‘‘ کیا گل کھلاتا ہے۔ صاحب عقل خوب جانتے ہیں۔

کچھ سال پہلے کی بات ہے لاہور میں این سی اے کے طلبہ و طالبات نے اخبارات میں بیانات جاری کرنے اور تصاویر شائع کرنے کے لئے باقاعدہ اہتمام کیا۔ طالبات نے بے ہودہ انداز کے ساتھ تصویر اتروائیں جو پاکستان کے تمام بڑے اخبارات نے خصوصی طور پر شائع کیں۔ طلبہ و طالبات نے بڑے فخر سے کہا کہ ہم کارڈ، پھول اور چاکلیٹ کی بھرپور خریداری کے ساتھ ویلنٹائن ڈے بڑے اہتمام سے منائیں گے۔
 
لاہور میں طالبات کی ایک اہم درس گاہ کنیئرڈ کالج میں بھی ویلنٹائن ڈے کی خصوصی تقریب ہوئی جس میں خصوصی جوڑوں کو دعوت دی گئی اور کالج کی طالبات نے ایک دوسرے کو محبت بھرے تحائف اور پھول دیئے اس موقع پر کالج میں ایک میوزیکل شو بھی ہوا جس میں مختلف گلوکاروں نے اپنے ’’فن‘‘ کا مظاہرہ کیا شرکاء نے ڈانس کر کے دل بہلایا اس شو میں شرکت کرنے والے بعض نوجوان کالج اور تقریب کا ماحول دیکھ کر بے اختیار یہ کہنے یہ مجبور ہو گئے کہ ہم نے ایسا بے ہودہ ماحول پاکستان میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
 
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے اور ان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات مغربی تہذیب کی دلدل میں ایسے گھر چکے ہیں کہ ان سے سوچنے سمجھنے کا شعور بھی ختم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کے طلباء کی تقلید میں ہر وہ کام کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں جس میں بے حیائی و بے شرمی کا عنصر ہوتا ہے لیکن چونکہ یورپ کی نقالی کرنا ہے تو بڑی ڈھٹائی سے اس کو منایا جاتا ہے نہ اس میں کوئی پشیمانی ہوتی ہے اور نہ ندامت۔ افسوس اس بات کا ہے کہ نسل نو اپنی تہذیب سے بیگانہ ہوتی جا رہی ہے اپنے سلف اور آباء و اجدا سے ناآشنائی کا عالم یہ ہے کہ ہماری اکثریت کو عشرہ مبشرہ صحابہ کرامؓ کے نام تک یاد نہیں۔ اس کے برعکس دنیا بھر کے کرکٹرز کے نام ذہن نشین ہوتے ہیں۔ روزمرہ زندگی میں اپنی تہذیب کو اپنانے کی بجائے مغربی تہذیب اپنانے پر توجہ صرف کرتے ہیں حتیٰ کہ اسلامی تہواروں (عیدین وغیرہ) کو بھی مغربی انداز سے گزارا جاتا ہے اور بہت سے لوگ اس کی وجہ جواز یہ پیش فرماتے ہیں کہ ہم اکیسویں صدی میں بحیثیت ایشین ٹائیگر (ایشیائی شیر) دنیا کے نقشے پر اپنا ظہور چاہتے ہیں، حالانکہ یہ اصول ہے کہ کسی قوم کا اپنی تہذیب اور تمدن کو ترک کر دینا اور اغیار کی تہذیب کو اپنانا ترقی نہیں بلکہ تنزلی کی علامت ہے۔
 
اس طرف کوئی دھیان نہیں دیتا کہ یہ دن منانا غلط ہے اور اس دن کی مناسبت سے ہونے والی تقاریب میں شمولیت گناہ کی بات ہے مسلمانوں کو ایسے اجتماعات، تقریبات اور ایام سے دور رہنا چاہئے لیکن ایسا کوئی نہیں سوچتا بلکہ الٹا ایسا ماحول سرکاری اداروں میں پیش کیا جانے لگا ہے حالانکہ سرکاری سرپرستی میں منعقد کئے جانے والے ان ایام کا واحد مقصد شعائر اسلام کی توہین ہے وہ افراد، گروہ، ادارے اور تنظیمیں جو ان غیر شرعی، غیر اسلامی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں انہیں چاہئے کہ ان سے کنارہ کشی اختیار کریں کیونکہ شعائر اسلام کی توہین عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان تقریبات کا مقصد محض ثقافت کا اظہار ہے تو وہ غلط فہمی کا شکار ہیں اسلام نے جن ایام کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے ان میں خصوصیت کے ساتھ عیدین، خلفائ، راشدین کے ایام قابل ذکر ہیں، بدقسمتی سے سیکولر اذہان کی حامل شخصیات نام نہاد ترقی پسندیت کے قائل افراد اور یہود و ہنود کے پیسوں پر پلنے والی این جی اوز ان تقریبات کو میڈیا کے ذریعے زیادہ سے زیادہ فروغ دے رہی ہیں ان کے مقاصد یہی ہیں کہ مسلمان اپنی دینی تعلیمات سے دور ہو کر ایسے معاملات میں الجھ جائیں جو انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور احکامات نبویﷺ سے دور کر دیں۔
ویلنٹائن ڈے منانے کا مطلب مشرک رومی اور عیسائیوں کی مشابہت اختیار کرنا ہے اللہ کے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے‘‘ (احمد، ترمذی)
 
بلاشبہ موجودہ دور میں ویلنٹائن ڈے منانے کا مقصد ایمان اور کفر کی تمیز کے بغیر تمام لوگوں کے درمیان محبت قائم کرنا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کفار سے دلی محبت ممنوع ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’آپﷺ نہیں دیکھیں گے ان لوگوں کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہیں خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان کے لوگ ہی ہوں‘‘ (المجادلہ: 22)
 

کون نہیں جانتا کہ ویلنٹائن ڈے پر نکاح کے بندھن سے قطع نظر ایک آزاد اور رومانوی قسم کی محبت کا اظہار کیا جاتا ہے جس میں لڑکے لڑکیوں کا آزرادانہ ملاپ، تحائف اور کارڈز کا تبادلہ اور غیر اخلاقی حرکات کا نتیجہ زنا اور بداخلاقی کی صورت میں نکلتا ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ ہمیں مرد اور عورت کے درمیان آزادانہ تعلق پر کوئی اعتراض نہیں، اہل مغرب کی طرح ہمیں اپنی بیٹیوں سے عفت مطلوب نہیں اور اپنے نوجوانوں سے پاک دامنی درکار نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ (النور19)
 
نبی اکرمﷺ نے جو معاشرہ قائم فرمایا اس کی بنیاد حیا پر رکھی جس میں زنا کرنا ہی نہیں اس کے اسباب پھیلانا بھی ایک جرم تھا مگر اب لگتا ہے کہ آپﷺ کے امتی حیاء کے اس ’’بھاری بوجھ‘‘ کو زیادہ دیر تک اٹھانے کے لئے تیار نہیں بلکہ اب وہ حیاء کے بجائے وہی کریں گے جو ان کا دل چاہے گا۔ فرمان نبویﷺ ہے: ’’جب تم میں حیا نہ رہے تو جو تمہارا جی چاہے کرو‘‘۔ (بخاری)



(¯`v´¯)
 `•.¸.•´`•.¸.¸¸.•*¨¨*•.¸¸❤`•.¸.¸¸.•*❤ ❤`•.¸.¸¸.•*❤
♥♥.....Join Us on facebook............. *• ♥♥♥♥♥♥
 ❤ http://www.facebook.com/wakeup.muslimz ❤
مکمل تحریر پڑھیے
فراز اکرم
Tweet

10 فروری، 2012

ویلنٹائن ڈے ، عید محبت

جمعہ, فروری 10, 2012  islahi  No comments

::::: ویلنٹائن ڈے ، عید محبت :::::



الحمد للّہ والصلاۃ والسلام عَلی أشرف الأنبیاء والمُرسلین نبینا محمد و علی آلہ وسلم ، 

پچھلے چند سالوں سے ہماری امت میں اور ہمارے پاکستانی معاشرے میں بھی ایک " دن منانے" کی رسم کو بڑے شد و مد سے رائج کیا جا رہا ہے ، دیگر بیسویں رسموں ، اور عادات کی طرح ہم مسلمان اپنی وسعت قلبی کا ثبوت پیش کرنے کے لیے اسے بھی قبول کرتے جا رہے ہیں ، جبکہ اس رسم اور اس طرح کی دوسری غیر اسلامی رسموں کو قبول کرنے کا اصل اور حقیقی سبب وسعت قلبی نہیں ، اپنے دین سے جہالت اور دین کے مخالفین کی فکری یلغار سے ہارنا ہے ،
 
جی میں یہاں اس رسم کی بات کرنے والا ہوں جسے " ویلنٹائن ڈے " اور "عید محبت" کہا جاتا ہے ، اور اس رسم کو پورا کررنے کے لیے ایک خاص دن " چودہ فروری " مقرر ہے ، جس دن میں اس رسم کی تکمیل کے لیے نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں ، بلکہ مرد و عورت ایک دوسرے کو تحفے تحائف دے کر اپنی محبت اور دوستی کا اظہار و اقرار کرتے ہیں ، اور ناجائز حرام تعلقات کا آغاز یا تجدید کرتے ہیں ، 

جی ہاں ، ناجائز اور حرام کام کرتے ہوئے ، ناجائز اور حرام تعلقات قائم کرتے ہیں ، آغاز بھی جہنم اور آخرت بھی جہنم ،
ٹھہریے ، "بنیاد پرستی" ، " دقیانوسیت" ، اور جدید دور کے نئے مفاہیم کے مطابق " دہشت گردی" کی بات سمجھ کر غصہ مت کیجیے ، میں نے جو کچھ کہا اس کا ثبوت اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین میں دینے سے پہلے ضروری ہے کہ اس " ویلنٹائن ڈے " یا " عید محبت " کی اصلیت اور تاریخ جانی جائے ، اور یہ تاریخ میری نہیں ان کی لکھی ہوئی ہے جن کے گھر کی بات ہے ، 


علم و حق کی کیسی مفلسی ہے کہ جس عادت اور رسم کو اپنائے ہوئے ہیں اس کی اصلیت و تاریخ بھی ایک نہیں جانتے ، یہ مفلسی اُدھر ہی نہیں اِدھر بھی ہے کہ ہم مسلمان بھی کئی ایسے عقائد اور عبادات اور رسمیں اپنائے ہوئے ہیں جن کی حقیقیت اور اصلیت نہیں جانتے بس """ بل نتبع ما الفینا علیہ آباونا ::: بلکہ ہم اس کی پیروی کریں گے جس پر اپنے بڑوں کو پایا """ کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں ,


جی تو بات تھی " ویلنٹائن ڈے " یا " عید محبت" کی اصلیت اور تاریخ کی ، اس کی تاریخ کے بارے میں مختلف باتیں ملتی ہیں ، ان کو بہت مختصر طور پر یہاں ذکر کرتا ہوں ،


::::: (1) ::::: کہا گیا کہ تقریبا 1700 سال پہلے جب روم میں بہت سے رب مانے جاتے تھے بہت سے معبودوں کی عبادت کی جاتی تھی ، بارش والا معبود الگ ، روشنی والا الگ ، اندھیرے والا الگ ، محبت والا الگ ، نفرت والا الگ ، طاقت والا الگ ، کمزوری والا الگ ، کفر و شرک کا ایک لامتناہی سللسہ تھا ، ایسے میں رومیوں کے ایک مذہبی راہنما """ ویلنٹائن """ نے عیسائت قبول کر لی ، پس حکومت روم کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی حل نہ تھا کہ اس کو قتل کر دیا جاتا تا کہ ان کے آباو ا جداد کا اور حکومتی دین محفوظ رہے ، پس """ ویلنٹائن""" کو قتل کر دیا ، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جب روم میں عیسائیت عام ہو گئی تو لوگوں """ ویلنٹائن""" کے قتل کا دن """ منانا """ شروع کیا ، تا کہ اس کو یاد رکھا جائے اور اس کے قتل پر ندامت کا اظہار کیا جائے ، ( وہ اظہار کیسے کیا جاتا تھا اس کا ذکر ان شاء اللہ ابھی کروں گا )


::::: ( 2) ::::: کہا گیا ، 14 فروری رومیوں کی ایک مقدس معبودہ (معبود کی مونث ، دیوی ) " یونو یا جونو " کا دن تھا ، اس معبودہ کے بارے میں رومیوں کا عقیدہ تھا کہ وہ ان کے سب معبودوں کی ملکہ ہے اور اس کو عورتوں اور شادی کے معاملات کے لیے خاص سمجھا جاتا تھا ، پس اسی کفریہ عقیدے کی بنا پر اس معبودہ کا دن منانا عورتوں ، محبت اور شادی یا بغیر شادی کے ہی شادی والے تعلقات بنانے کے لیے خاص جان کر """منایا """ جانے لگا ، 


::::: (3) ::::: رومیوں کی ایک اور معبودہ " لیسیوس" نامی بھی تھی ، جو ایک مونث بھڑیا تھی ، رومیوں کا عقیدہ تھا کہ اس " لیسیوس " نے روم کے دونوں بانیوں Rumulusاور Remusکو ان کے بچپن میں دودھ پلایا تھا ، پس اس 14 فروری کو انہوں نے " محبت" نامی عبادت گاہ میں اس بھیڑیا معبودہ کا دن "منانا" شروع کیا ، اس عبادت گاہ کو" محبت" نام اس لیے دیا گیا کہ ان کے کفریہ عقیدے کے مطابق ان کی یہ بھڑیا معبودہ روم بنانے والے دونوں بچوں کو محبت کرتی تھی
 

::::: ( 4) ::::: قدیم رومی بادشاہ کلاڈیس 2 نے رومی مردوں کی مطلوبہ تعداد کو اپنی فوج میں شامل کرنے میں کافی مشکلات محسوس کیں ، کلاڈیس نے جب اس کا سبب تلاش کرنا چاہا تو پتہ چلا کہ شادی شدہ مرد اپنی بیویوں اور خاندانوں کو چھوڑ کر فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتے تو کلاڈیس نے یہ شادیوں سے ممانعت کا فیصلہ صادر کر دیا ، اسوقت کے روم کے ایک بڑے پادری "ویلنٹائن" نے اپنے بادشاہ کی بات کو غلط جانتے ہوئے اس کی خلاف ورزی کی اور اپنے گرجا میں خفیہ طور پر محبت کرنے والے جوڑوں کی شادیاں کرواتا رہا کچھ عرصہ بعد یہ بات بادشاہ کو معلوم ہو گئی تو اس نے بتاریخ 14 ، فروری ، 269عیسوئی ویلنٹائن کو قتل کروا دیا ، اور یوں یہ ویلنٹائن محبت کرنے کروانے کے سلسلے میں ایک مثالی شخصیت بن گیا ،


::::: ( 5) ::::: قتل کیے جانے سے پہلے ویلنٹائن اور اس کے ایک اور ساتھی پادری ماریوس کو جیل میں قید رکھا گیا ، اس قید کے دوران ویلنٹائن ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو گیا ، جو غالبا جیلر کی بیٹی تھی ، جو اس کو قتل والے دن یعنی 14 فروری کو دیکھنے یا ملنے آئی تو ویلنٹائن نے اسے ایک محبت نامہ دیا ، 


:::: ( 6 ) ::::: قدیم روم میں جوان لڑکے اور لڑکیوں کی ملاقات اور میل جول پر سخت پابندی تھی ، سوائے ایک میلے یا عید کے موقع پر جسے"Lupercalia لیوپیرکالیا" کہا جاتا تھا ،
یہ عید بھی ایک جھوٹے باطل معبود " Lupercus لیوپرکاس" کی تعظیم کے لیے منائی جاتی تھی جسے رومی اپنے چرواہوں اور جانوروں کی حفاظت اور مدد کرنے والا سمجھتے تھے ،
اس دن جوان لڑکیاں اپنے نام کی پرچیاں بوتلوں میں ڈال کر رکھ دیتیں اور مرد یا لڑکے ان پرچیوں کو نکالتے جس کے ہاتھ جس کے نام کی پرچی لگتی ان کو ایک سال تک یعنی اگلی عید Lupercalia تک ایک دوسرے کے ساتھ تعلق استوار کرنے کی عام چھٹی ہو جاتی کبھی وہ جوڑا شادی کر لیتا اور کبھی بغیر شادی کے ہی سال بھر یا سال سے کم کسی مدت تک میاں بیوی جیسے تعلق کے ساتھ رہتا ،
 
اس میلے یا عید کی تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فروری تھی ، اور یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ سے فروری تک یہ عید منائی جاتی رہتی تھی ،
 
ویلنٹائن کی موت کی یادگار منانے کی تاریخ اسی میلے کے ساتھ جا ملی اور دونوں کی کہانیاں اور گناہ مل کر ایک دن منائے جانے لگے اور نام بدنام کیا جانے لگا محبت کا ، جو ایک مثبت جذبہ ہے اور صرف اسی کیفیت تک محدود نہیں جس کی تعلیم اس عید اور اس کی کہانی اور اس جیسی دوسری گناہ آلود کہانیوں میں دی جاتی ہے ،
١٩٦٩
  عیسوئی تک تو بین الاقوامی طور پر یہ دن اُس ویلنٹائن سے منسوب کر کے رومی بنیادی گرجا کی طرف سے """ منایا """ جاتا رہا ، اور اس سے کچھ عرصہ پہلے تک اسی گرجا کی طرف سے یہ دن بھیڑیا معبودہ کی طرف منسوب کیا جاتا رہا
 

::::: (7 ) ::::: پندرھویں صدی کے آغاز میں """ اگن کورٹ Agincourt """کی جنگ میں ایک فرانسی ریاست اورلینز کا نواب """ Duke of Orleans """ انگریزوں کے ہاتھ قید ہوا جسے کئی سال تک لندن کے قلعے میں بند رکھا گیا ، وہاں سے وہ اپنی بیوی کے لیے عشقیہ شاعری بھیجتا رہا ، جن میں سے تقریبا ساٹھ نظمیں اب بھی برٹش میوزم میں موجود ہیں ، اس کی شاعری کو جدید دور کے """ ویلنٹائنز """ کا آغاز سمجھا جاتا ہے ،


::::: ( 8 ) ::::: اس کے تقریبا دو سو سال بعد " ویلنٹائن کے دن " پر پھول وغیرہ دینے کی رسم کا یوں آغاز ہوا کہ فرانس کے بادشاہ ہنری چہارم Henry IV کی ایک بیٹی نے " پادری ویلنٹائن کا دن " مناتے ہوئے یہ اہتمام کیا کہ ہر عورت اور لڑکی کو اس کا اختیار کردہ مرد یا لڑکا پھولوں کا ایک گلدستہ پیش کرے ، 


::::: ( 9 ) ::::: انیسویں صدی کے درمیان میں اس گندگی کو پھیلانے میں تیزی پیدا ہوئی کہ طرح طرح کارڈز اور پیغامات کی چھپائی ہونے لگی ، امریکہ وغیرہ نے ان کارڈز کی ترسیل کے لیے ڈاک کے نرخ بھی کم کر دیے ، اور آہستہ آہستہ ابلیس کا شکار ہو کر بہت سے لوگ اپنی اپنی دنیا کمانے کے چکر میں طرح طرح کی ایجادات کرتے اور ان کو ہر ممکن طور نشر کرتے چلے آ رہے ہیں ،



مسلمانو، اس دن کی نسبت ، اور اس کی اصلییت ، ان مندرجہ بالا قصوں میں سے کسی کے ساتھ بھی ہو ، بہر صورت اس کی اصلییت کفر و شرک گناہ و غلاظت ہی ہے ، اور اب بھی اس دن کو غیر اخلاقی اور یقینا ہمارے دین کے مطابق حرام میل ملاقات رکھنے والے مرد و عورت یا لڑکے اور لڑکیوں کے لیے شیطان ایک "عید" کا نام دے کر ، دھوکے کا ایک لباس مہیا کیا ، جسے اوڑھ کر کھلے عام ایک دوسرے کو ناجائز تعلقات کی دعوت دی جاتی ہے ، بلکہ ایسے تعلقات قائم کیے جاتے ہیں ، اور ابلیس کا دیا ہوا یہ لباس ہر دفعہ مزید خوش منظر ہو کر آتا ہے کہ اہل معاشرہ بھی اس کے پیچھے ہونے والے شیطانی کاموں کو اچھا اور بہتر اور فطری سمجھتے ہیں ، 
 
اس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ عید یا دن مسلمانوں کا ہر گز نہیں اور جو کچھ اس دن میں کیا جاتا ہے اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ، اسلام تو بہت بلند و برتر ہے ، عیسائی کنیسا نے بھی اس ویلنٹائن دن میں ہونے والی حرافات کو کسی دین کے ساتھ منسوب رکھنا نا مناسب سمھتے ہوئے اس کی باقاعدہ سرپرستی ترک کر دی ، لیکن افسوس ، مسلمانوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ، اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل ، اپنی تجارت کو بڑھانے چمکانے کے لیے اس غیر اسلامی حرام دن منانے کی رسم کی تمام تر ضروریات کو بدرجہ اتم مہیا کیا جاتا ہے ، اور لوگوں کو اس کی طرف مائل کرنے کے لیے ہر ممکن ذریعہ اور وسیلہ اختیار کیا جاتا ہے ، 

اس عید یا دن کو منانے میں اب ہمارے مسلمان بھائی بہن بھی ابلیسی نعروں اور فکر کے زیر اثر شامل ہوتے ہیں ، اور اس کے گناہ کا کوئی شعور نہیں رکھتے ،
اس کفر و شرک اور بے حیائی اور بے غیرتی اور گناہ کی بنیاد پر منائے جانے والے دن اور اس میں کیے جانے والے کاموں کی تاریخ اور اصلییت بتانے کے بعد اب میں کوئی لمبی چوڑی تفصیلی بات کرنے کی بجائے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین سناتا ہوں کہ ایمان والوں کے لیے اس سے بڑھ کر حجت کوئی اور نہیں اور نہ ہی اور کی ضرورت رہتی ہے اور جو نہ مانے یا کسی تاویل کے ذریعے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرے یا کسی فلسفے کا شکار ہو کر اس گناہ کو گناہ سمجھنے میں تردد محسوس کرے وہ اپنے ایمان کی خبر لے ، 


::::::: اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حکم ہے اور تنبیہ ہے((((( لاَّ یَتَّخِذِ المُؤمِنُونَ الکَافِرِینَ أَولِیَاء مِن دُونِ المُؤمِنِینَ وَمَن یَفعَل ذَلِکَ فَلَیسَ مِنَ اللّہِ فِی شَیء ٍ إِلاَّ أَن تَتَّقُوا مِنہُم تُقَاۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّہُ نَفسَہُ وَإِلَی اللّہِ المَصِیرُ::: ایمان والے ، ایمان والوں کی بجائے کافروں کو اپنا دوست ( راہبر ، راہنما ، پیشوا ) نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کے لیے اللہ کی طرف سے کوئی مددگاری نہیں ہاں اگر تم لوگوں (کافروں کے شر سے ) کوئی بچاو کرنا چاہو تو (صرف اس صورت میں اسیا کیا جا سکتا ہے ) ، اور اللہ تم لوگوں کو خود اُس (کے عذاب ) سے ڈراتا ہے اور اللہ کی طرف ہی پلٹنا ہے ( پس اسکے عذاب سے بچ نہ پاؤ گے ))))) سورت آل عمران / آیت 28 

::::::: اور مزید حکم فرمایا اور نافرمانی کا نتیجہ بھی بتایا ((((( یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَتَّخِذُوا الیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَولِیَاء بَعضُہُم أَولِیَاء بَعضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُم فَإِنَّہُ مِنہُم إِنَّ اللّہَ لاَ یَہدِی القَومَ الظَّالِمِینَ ::: اے ایمان لانے والو یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست ( راہبر ، راہنما ،پیشوا ) نہ بناؤ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں (تمہارے ہر گز نہیں ) اور تم لوگوں میں سے جو کوئی انہیں دوست بنائے گا تو بے شک وہ ان ہی میں سے ہے بے شک اللہ ظلم کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا ))))) سورت المائدہ / آیت ٥١


یہ بات واضح ہے کہ ویلنٹائن کا دن یا محبت کی عید غیر اسلامی دینی تہوار ہے اور اس کو منایا جانا اسلام کی بجائے دوسرے دین کے لیے رضامندی کا اظہار ہے اور اس باطل دین کو پھیلانے کی کوشش اور سبب ہے ، اور اللہ توتعالیٰ کا فرمان ہے ((((( وَمَن یَبتَغِ غَیرَ الإِسلاَمِ دِیناً فَلَن یُقبَلَ مِنہُ وَ ہُوَ فِی الآخِرَۃِ مِنَ الخَاسِرِینَ ::: اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کچھ اور کو دین چاہے گا تو اس کا کوئی عمل قُبُول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں نقصان اُٹھانے والوں میں ہو گا ))))) سورت آل عمران / آیت ٨٥
 
::::::: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فیصلہ ہے ((((( مَن تشبَّہ بِقومٍ فَھُو مِنھُم ::: جِس نے جِس قوم کی نقالی کی وہ اُن ہی ( یعنی اُسی قوم ) میں سے ہے ))))) سُنن أبو داؤد /حدیث 4025 /کتاب اللباس / باب 4 لبس الشھرۃ ۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ عام ہے اور اِس میں سے کِسی چیز کو نکالنے کی کوئی گُنجائش نہیں ، لہذا لباس ، طرز رہائش ، عادات و اطوار ، رسم و رواج ، کِسی بھی معاملے میں کافروں کی نقالی کرنا جائز نہیں ، اپنی بُرائی کو اچھائی بنانے کے لیے اُسے اچھائی سے تبدیل کرنا ہوتا ہے ، کوئی اچھا نام دینے سے وہ بُرائی اچھائی نہیں بنتی ،
جی یہ سمجھ میری نہیں ، انبیاء کے بعد سب سے پاک ہستیوں کی ہے ، جنہیں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کہا جاتا ہے ، ملاحظہ فرمایے ، 

::::::: دوسرے بلا فصل خلیفہ امیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ((((( أجتنبُوا أعداء اللَّہ فی أعیادھم ::: اللہ کے دشمنوں سے ان کی عیدوں (کے دنوں ) میں دور رہو ))))) سنن البیہقی الکبُریٰ ، کتاب الجزیۃ ، باب 56 ، اسنادہ صحیح ،
یعنی جب کسی جگہ پر کفار کے ساتھ معاشرتی ساتھ ہو تو خاص طور پر ان کی عیدوں کے دنوں میں ان سے دور رہا کرو ، 

::::::: چوتھے بلا فصل خلیفہ ، امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ کو ایک دن کچھ تحفہ موصول ہوا ، دریافت فرمایا (((((ما ہذہ ؟ ::: یہ کیا ہے ؟ ))))) بتایا گیا "" اے امیر المؤمنین یہ نیروز (تہوار )کا دن ہے (اور یہ اس تہوار کا تحفہ ہے ) """ فرمایا ((((( فاصنعوا کل یوم نیروز::: تو ہر ایک دن کو ہی نیروز بنا لو ))))) ابو اسامہ اس روایت کے ایک راوی فرماتے ہیں کہ " کرہ أن یقول نیروز ::: (امیر المؤمنین )علی رضی اللہ عنہ نے اس چیز سے کراہت کا اظہار فرمایا کہ کسی دن کو نیروز کہا جائے """ سابقہ حوالہ ، باسناد صحیح
 

غور فرمایے ، کہ علی رضی اللہ عنہ نے کسی دن کو وہ نام تک دینا پسند نہیں فرمایا جو کافروں نے دیا ہوا تھا ، اور یہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام کی قلبی قبولیت اورعملی تطبیق کی ایک بہترین مثال ہے ،
آج ہم انہی شخصیات سے محبت اور ان کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں ، لیکن ہماری سوچ و فکر ، ایمان و عمل ان سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے ، انا للہ و انا الیہ راجعون،
::::::: عبداللہ بن عَمرو العاص رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے ((((( مَن بَنیٰ ببلاد الأعاجم و صنع نیروزھم و مھرجانھم ، و تشبھ بھم حتیٰ یَموت و ھو کذلک حُشِرَ معھم یوم القیامۃ ::: جس نے کفار کے شہروں میں رہائش گاہیں بنائیں اور ان کے تہوار اور میلے منائے اور ان کی نقالی کی یہاں تک کہ اسی حال میں مر گیا قیامت والے دِن اُس کا حشر اُن کافروں کے ساتھ ہی ہو گا ))))) سابقہ حوالہ ، صحیح الاسناد ، 

ایسی روایات کو حُکماً مرفوع یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا قول سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ غیب کی خبر اور غیب کی خبر صرف اللہ کو ہے اور اللہ کی طرف سے جتنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دی گئی پس کسی صحابی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایسی کوئی خبر اس کی اپنی بات نہیں ہو سکتی ، 

اس ویلنٹائن کے دن ، یا عیدء ِ محبت منانے کو ایک اور زوایے سے بھی دیکھتے چلیں کہ اس دن ، اس نسبت سے اور اس کو منانے کے لیے جو کچھ بھی کیا جاتا ہے وہ قطعا غیر ضروری ہے اور ان غیر ضروری چیزوں پر ایک پائی بھی خرچ کرنا فضول خرچی ہے ، اور فضول خرچی کرنے والوں کا اللہ کے ہاں کیا رتبہ ہے وہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے ((((( اِنَّ المبذِرِینَ کان أِخوان الشیاطین و کان الشیطنُ لِربِّہِ کَفُوراً ::: فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے ))))) سورت الا سراء َ ، ( بنی اسرائیل )/آیت ،27 ،
کفر وشرک ، گناہ و غلاظت کے اس دن کو مناتے ہوئے اگر ایک پیسہ بھی خرچ کیا جائے ، ایک لمحہ بھی خرچ کیا جائے تو وہ سوائے اللہ کے عذاب کے کچھ اور نہیں کمائے گا ، اور اگر یہی کچھ ، کسی مسلمان کی مدد کے لیے خرچ کیا جائے ، یا اپنی اور اپنوں کی کوئی جائز ضرورت پوری کرنے کے لیے خرچ کیا جائے تو ان شاء اللہ تعالیٰ نتیجہ بالعکس ہو گا ،
جو لوگ اس عیدء ِ محبت کو گوارہ کرتے ہیںاور دوسروں کی خواتین کو پھانسنے کی کوشش کرتے ہیں یا ایسا کر گذرنے کو بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں اور اس کارنامے کی انتہا جنسی بے راہ روی تک لے جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں ، انہیں یہ شعر سناتا چلوں

::: إن الزنا دین فإن أقرضتہ ::: کان الوفاء من أہل بیتک فاعلم
زنا قرض ہے اگر تم نے یہ قرض لیا تو یاد رکھو ::: اس کی ادائیگی تمہارے گھر والوں میں سے ہو گی
من یَزنی یُزنی ولَو بجدارہ ::: إن کنت یا ہذا لبیباً فافہم
جو زنا کرے گا ، اس کے ساتھ زنا ہو گا خواہ اس کی دیوار کے ساتھ کیا جائے ::: اگر اے سننے والے تم عقل مند ہو تو (میری بات )سمجھ جاؤ ( اور ایسے کاموں سے باز رہو )
اللہ تعالیٰ میرے یہ الفاظ ، میرے اور ہر پڑھنے والے کے دین دنیا اور آخرت کی خیر کے اسباب میں بنا دے، ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم کسی ضد ، تعصب اور منطق و فلسفے کا شکار نہ ہوں اور حق پہچانیں ، قبول کریں اور اسی پر عمل کرتے ہوئے ہماری زندگیاں تمام ہوں اور اسی پر یوم قیامت ہمارا حشر ہو ، و السلام علیکم۔
 


ہر پڑھنے والا اس خیر کو نشر کرے اور کفر و شرک اور گناہ و غلاظت کی رسم کو اپنے معاشرے میں پنپنے سے روکنے کی کوشش میں شامل ہو،

 






(¯`v´¯) 
 `•.¸.•´`•.¸.¸¸.•*¨¨*•.¸¸❤`•.¸.¸¸.•*❤ ❤`•.¸.¸¸.•*❤ 
♥♥.....Join Us on facebook............. *• ♥♥♥♥♥♥ 
❤ http://www.facebook.com/wakeup.muslimz ❤

Tags
valentines day
14 february
History of valentines day, urdu
مکمل تحریر پڑھیے
فراز اکرم
Tweet
جدید تر اشاعتیں قدیم تر اشاعتیں
سبسکرائب کریں در: اشاعتیں (Atom)

Random Post

Follow Us

Become a Fan

Popular Posts

  • یوم تکبیر--جب بھارت کا غرورچاغی کے پہاڑوں میں دفن ہو گیا  
    History . Pakistan’s nuclear weapons program was established in 1972 by Zulfiqar Ali Bhutto, who founded the program while...
  • Books of Tariq ismail sagar
    Download Books of Tariq Ismail Sagar طارق اسماعیل ساگر  Download all books written by Tariq Ismail sagar آخری گناہ کی مہل...
  • Books by Dr israr Ahmed
    Multimedia Listing download Books of Dr israr Ahmed Item Details Download Title: (توحیدِ عملی (سورۃ زمر تا سورۃ...
  • حضرت سعد الاسودؓ کی شادی
    حضرت سعد الاسودؓ کا اصل نام تو سعد تھا لیکن ان کی غیر معمولی سیاہ رنگت کی وجہ سے لوگ ان کو ’’سعد الاسود‘‘ یا ’’اسود‘‘ کہا کرتے تھے۔ حضر...
  • Download book zavia by Ishfaq ahmed all three parts
    Download book zavia by Ishfaq ahmed all three parts Zavia by ishfaq ahmed part 1 زاویہ از اشفاق احمد جلد اول  DOWNLOAD  (Right ...
  • ahadess related to Ghazwa e Hind
    Authencity of ghazwa e hind Hadees . ghazwa e hind accuracy.   (1) FIRST HADEES OF HAZRAT AB...
  • اصلی مساوات
    سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں ایک دفعہ مدینہ اور اس کے ارد گرد قحط سالی ہو گئی۔ ہوا چلتی تو ہر طرف خاک اڑتی نظر آتی ۔ چنانچ...
  • یوم تکبیر اور بیتے لمحات ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان
    یوم تکبیر اور بیتے لمحات ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان Tags: youm e takbeer ore beetay lahmaat urdu article by dr abdul qadeer k...

Blog Archive

  • ◄  2009 (1)
    • ◄  اپریل (1)
  • ◄  2010 (212)
    • ◄  اپریل (6)
    • ◄  جون (3)
    • ◄  جولائی (22)
    • ◄  اگست (12)
    • ◄  ستمبر (44)
    • ◄  اکتوبر (66)
    • ◄  نومبر (28)
    • ◄  دسمبر (31)
  • ◄  2011 (216)
    • ◄  جنوری (19)
    • ◄  فروری (26)
    • ◄  مارچ (23)
    • ◄  اپریل (40)
    • ◄  مئی (11)
    • ◄  جون (24)
    • ◄  جولائی (16)
    • ◄  اگست (22)
    • ◄  ستمبر (7)
    • ◄  اکتوبر (8)
    • ◄  نومبر (8)
    • ◄  دسمبر (12)
  • ▼  2012 (132)
    • ◄  جنوری (13)
    • ▼  فروری (12)
      • ویلنٹائن ڈے ، عید محبت
      • بے حیائی کا ایک دن
      • عبرت اور سبق آموز واقعہ
      • سیب حرام ہے!
      • پاکستان کو ایک بھیانک انجام سے بچانے کیلئے جاگو، آ...
      • The Last Crusade. Aakhri Maarka-e-Khair-o-Sharr
      • بیٹیوں کی سوداگری
      • ننگ دیں ننگ ملت
      • خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا
      • Ungli uthana
      • اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی
      • شراب اور انگور
    • ◄  مارچ (12)
    • ◄  اپریل (13)
    • ◄  مئی (15)
    • ◄  جون (2)
    • ◄  جولائی (8)
    • ◄  اگست (15)
    • ◄  ستمبر (10)
    • ◄  اکتوبر (7)
    • ◄  نومبر (10)
    • ◄  دسمبر (15)
  • ◄  2013 (76)
    • ◄  جنوری (4)
    • ◄  فروری (5)
    • ◄  مارچ (5)
    • ◄  اپریل (7)
    • ◄  مئی (5)
    • ◄  جون (6)
    • ◄  جولائی (2)
    • ◄  اگست (5)
    • ◄  ستمبر (4)
    • ◄  اکتوبر (10)
    • ◄  نومبر (12)
    • ◄  دسمبر (11)
  • ◄  2014 (93)
    • ◄  جنوری (8)
    • ◄  فروری (14)
    • ◄  مارچ (14)
    • ◄  اپریل (7)
    • ◄  مئی (15)
    • ◄  جون (6)
    • ◄  جولائی (9)
    • ◄  اگست (6)
    • ◄  ستمبر (2)
    • ◄  اکتوبر (5)
    • ◄  نومبر (1)
    • ◄  دسمبر (6)
  • ◄  2015 (15)
    • ◄  جنوری (3)
    • ◄  مارچ (4)
    • ◄  اپریل (3)
    • ◄  مئی (2)
    • ◄  جولائی (1)
    • ◄  ستمبر (2)
  • ◄  2016 (1)
    • ◄  جولائی (1)
  • ◄  2018 (3)
    • ◄  جولائی (3)

Labels

  • پاکستان (158)
  • اسلامی (106)
  • halat e hazra (93)
  • تاریخ (72)
  • Orya maqbool jan (70)
  • افغانستان (47)
  • علامہ اقبال (39)
  • علمی (39)
  • شاعری (28)
  • معاشرتی (27)
  • سنہرے اوراق (21)
  • Quaid e Azam (19)
  • میڈیا (19)
  • خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق (17)
  • صحابہ کرام (15)
  • 23 march (14)
  • 14 August (10)
  • ahadees books (8)
  • 1947 Migration Pictures (6)
  • kashmir (6)
  • جمہوریت (6)
  • رمضان المبارک (6)
  • بنگال (5)
  • خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق (5)
  • غزوہ بدر (4)
  • لیلۃ القدر (4)
  • Dr AQ khan (3)
  • Quotes (3)
  • امریکہ (3)
  • ٹیپو سلطان (3)
  • wasif ali wasif (2)
  • قربانی (1)

Categories

پاکستان اسلامی تاریخ افغانستان علامہ اقبال علمی طارق اسماعیل ساگر شاعری معاشرتی سنہرے اوراق میڈیا خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق صحابہ کرام جمہوریت رمضان المبارک بنگال خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق غزوہ بدر قبول اسلام، لیلۃ القدر امریکہ ٹیپو سلطان گرافکس قربانی

Random Posts

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

 
  • Followers

  • رابطہ فارم

    نام

    ای میل *

    پیغام *

  • فیس بک پر شامل ہوں

Copyright © Urdu Blog | Designed by Templateism | Planet40