ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

29 اپریل، 2012

قبر سےایک ایمیل





قبر سےایک ایمیل

میرے ایک واقف کار نے یہ واقعہ سنایا۔ کہتا ہے اُس کا ایک بہت اچھا دوست تھا جو پچھلے دنوں روڈ ایکسیڈنٹ میں مارا گیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اُس پر اپنا رحم فرمائے اور اُس کی خطاوں کو معاف فرمائے۔ مرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ وہ مر گیا، سب نے مرنا ہے۔ لیکن اس کی موت سے کچھ قباحتیں اور مشکلات کھڑی ہوئی ہیں۔ اور وہ یہ ہیں کہ مرنے والا انٹرنیٹ سے متعلقہ امور میں مہارت رکھنے والا شخص تھا۔ فحش مواد والی ویب سائٹس اُسکی کمزوریاں تھیں اور ننگی تصاویر جمع کرنا اُس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

حتیٰ کہ اُس نے اپنی ایک ویب سائٹ بھی بنا رکھی تھی جس پر ہر طرح کی فحش تصاویر کا ایک بہت بڑا مجموعہ لوگوں کی تفریح طبع کیلئے موجود تھا۔ ویب سائٹس کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ رجسٹرڈ ممبران کو نئی تصاویر یا ہر کچھ دنوں کے بعد چند تصاویر کا ایک مجموعہ خود بخود ہی ان کے ایمیل پر پوسٹ ہو جاتا تھا۔

اب میرے اس دوست کی ناگہانی موت نے ہمارے لیئے یہ مصیبت کھڑی کر دی ہے کہ ہمیں اس کی ویب سائٹ کا پاس ورڈ معلوم نہیں ہے تاکہ کم از کم اس ویب سائٹ کو بند کریں یا کوئی دوسرا حل نکالیں۔

کہتا ہے: جب میں مسجد میں بیٹھا اس کی نماز جنازہ کا انتظار رہا تھا تو یہی سوچ رہا تھا اور جب ہم سب اس کی لاش کو اُٹھا کر قبر کی طرف جا رہے تھے تو بھی میں یہی سوچ رہا تھا کہ یہ قبر میں جا کر کس چیز کا سامنا کرے گا؟ ننگی تصاویر کا؟ حسبنا اللہ و نعم الوکیل

قبرستان میں قبروں کی وحشت اور ویرانگی مگر جنازے کے ساتھ آئے ہوئے لوگوں کے رش کے باوجود میرا دماغ بس یہی بات ہی سوچتا رہا۔ میں نے قبر کے اندر ایک نظر ڈالی اور افسوس کے ساتھ سوچا پتہ نہیں میرے دوست کا یہاں کیا حشر ہوگا؟

میرے دوست کے کچھ قریبی احباب تو رو بھی رہے تھے اور میں یہ سوچ رہا تھا کیا انکا رونا میرے دوست کے کسی کام آ سکے گا؟

ہم نے میت دفنائی اور واپس چل دیئے۔ جی ہاں اپنے دوست کو قبر میں اکیلا چھوڑ کر، اسکا سارا مال اور اس کے سارے اھل خانہ واپس، وہاں رہا تو اس کے اعمال تھے، اور کیا پتہ اس کے کیسے اعمال تھے؟

میرے دوست کی ماں اکثر خواب میں دیکھتی کہ لڑکے اس کے بیٹے کی قبر پر آتے ہیں اور پیشاب کر کے چلے جاتے ہیں۔ وہ ہمیشہ مجھ سے پوچھتی کہ یہ کیسا خواب ہے اور اسکی کیا تعبیر ہوگی؟ اس بیچاری کو کیا پتہ کہ اس خواب کے پیچھے کیا راز تھے!

میں اپنے آپ کو کہتا کہ خواب کی تعبیر تو واضح ہے لڑکے وہ لوگ تھے جن کو میرا دوست ننگی تصاویر بھیجا کرتا تھا اور وہ لڑکے یہ تصاویر آگے سے آگے پہنچاتے تھے۔ اللہ اکبر، یہ کیسا جال سا پھیلا ہوا تھا اور کس کس کے گناہ میرے دوست کو ڈس رہے ہونگے؟

میں نے اپنے دوست کی ویب سائٹ کی ہوسٹنگ کمپنی سے رابطہ کیا تاکہ وہ اس ویب سائٹ کو بند کردیں۔ مگر انہوں نے معذرت کر لی کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ میرے اصرار پر انہوں نے مجھے یہاں تک بھی کہا کہ وہ مجھ پر یقین نہیں کر سکتے کیونکہ جس نام اور جس پاس ورڈ سے یہ ویب سائٹ خریدی اور بنائی گئی تھی وہ معلومات میرے پاس نہیں تھیں۔ میں نے انہیں غصے میں بھی لکھا کہ لوگو، میرے دوست پر رحم کر دو، وہ بیچارہ مر گیا ہے مگر سب بے سود تھا۔

میں اکثر بیٹھ کر اپنے دوست کی حالت پر سوچتا جو کہ مجھے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک کے مصداق نظر آتا جس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں میں سے کچھ شر کے راستے کھولنے والے اور خیر کے بند کرنے والے ہوتے ہیں۔ اور میں تڑپ کر رہ جاتا میرا دوست کس طرح لوگوں کے گناہ اُٹھائے گا جن کیلئے اس نے شر کے دروازے کھولے تھے۔ اور کس طرح قیامت کے دن ان سب گناہوں کو اپنے کندھے پر لاد کر محشر میں جائے گا؟

میں جانتا ہوں کہ میری ان باتوں کا کسی پر کچھ اثر نہیں ہونے لگا، کیونکہ نوجوان تو اس کو محض وقت گزاری جانتے ہیں، جب کہ اللہ کی پناہ؛ ان تصاویر کے نتائج کسی سے ڈھکے چھپے نہیں لڑکوں نے ایسی تصاویر دیکھیں، اپنی خواہشات کے سامنے بے بس ہوئے اور گناہوں کے گڑھوں میں کرتے چلے گئے اور کتنی ہی معصوم بچیاں بربادیوں میں پھنستی چلی گئیں۔

میرا دوست تو مر گیا مگر میں جانتا ہوں کہ روز قیامت اس سے ضرور سوال کیا جائے گا کہ تو نے کتنی ایسی تصاویر ہر اپنی نظریں ڈالیں اور تیری دوسروں کو بھجی ہوئی تصویروں پر کس کس کی نظریں گئیں؟ تو نے کدھر کدھر یہ تصاویر پھیلائیں اور اور جن تک تیری بھیجی ہوئی تصاویر گئیں انہوں نے کس قدر آگے ان کو آگے پھیلایا؟

مجھے اب بالکل کچھ نہیں سوجھ رہا کہ اس سلسلے کو میں کس طرح روک دوں؟ اللہ میرے دوست پر رحم فرمادے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ہمار خاتمہ اچھا لکھ دے۔ اور اللہ کرے یہ قصہ عقل والوں کیلئے عبرت کا سامان ہو۔ آمین یارب

tags:
email, qabar, e mail from grave.
fahashi phailanay walay ki kahani,

27 اپریل، 2012

ابوجہل سے اسفندیار تک




 ابوجہل تا اسفندیار

بہت سارے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ہم نے جماعت نہم دہم کے کورس سے اسلامی آیات کیوں حذف کیے؟ جواب بہت سادہ سا ہے کہ ہمیں اور اسامہ بن لادن، ملا عمر اور بیت اللہ محسود جیسے دہشت گرد نہیں پیدا کرنے بلکہ انجئنیرز اور ڈاکٹرز پیدا کرنے ہیں
اسفندیار ولی خان




محبِ وطناسفندیار کی اردو اپنے اعلیٰ اسلوب سے عیاں ہے۔ عبارت کے آخر میں دیا گیا لنک کلِک کیجئے، یہ اسفندیار کے اپنے فیس بک پیج سے لیا گیا ہے۔ اسفندیار ولی کے الفاظِ زریں! اسلام کے شیروں کی سرزمین پر نحوست کا نشان! عزت دار پختونوں کے عظیم نام پر ایک بدنما داغ! ‘جماعت نہم دہم کے کورس سے اسلامی آیات کو حذف کرنے’ کا برملا اعتراف ہی نہیں ہورہا، دادطلب نگاہوں سے میرے اور آپ کی طرف دیکھا بھی جارہا ہے۔ بھلا میں اور آپ اس پر داد دینے میں لیٹ کیوں ہوگئے؟ تف ہے ہم پر! نصاب سے آیاتِ قرآن کو ہی تو خارج کیا گیا ہے، اس پر تعجب؟ سوالات؟ اتنی سادہ اور سامنے کی بات، اور لوگ کس سادہ لوحی سے ابھی تک ‘پوچھ’ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے، کوئی سہو ہوگیا ہے۔ اسفندیار کی بابت ایسی بدگمانی!
 
تکبر اور گھمنڈ دیکھتے جائیے:جواب بہت سادہ ہے۔ یعنی یہ کوئی شرمانے اور جھینپنے کی بات تھوڑی ہے؛ آپ کے سامنے اسفندیار ہے جس کو آپ کم از کم تین نسل سے جانتے ہیں، ایک ایسی مخلوق جس کو اپنی وفاداری اور کاسہ لیسی کے لیے وقت کے سب سے بڑے دشمنِ اسلام کی تلاش رہتی ہے، اور اپنی دشمنی اور زہرافشانی کے لیے اسلام کے عظیم ترین جاں نثاروں کی: تبھی تو جواب بہت سادہ ہے!

 
کھودا پہاڑ نکلا چوہا، آیاتِ قرآنی کو نصاب سے ہمیشہ کے لیے حذف کردینے کا سبب؟ ملین ڈالر انکشاف:ہمیں مزید اسامہ اور ملاعمر پیدا نہیں کرنے ڈاکٹر اور انجینئر پیدا کرنے ہیں۔
   
یعنی حماقت کے ساتھ جہالت بھی۔۔۔! کون نہیں جانتا، اسامہ انجینئرنگ کے ایک ماڈرن ادارے کا گریجوایٹ تھا، اسفندیار کینہم دہمپڑھا ہوا وہ نالائق نہیں جس کو اپنی قومی زبان کا مذکر مؤنث بھی ڈھنگ سے بولنا نہ آتا ہو! ایمن الظواھری مصر کے ایک اعلیٰ ادارے کا پڑھا ہوا میڈیکل ڈاکٹر ہے اور فرفر انگریزی بول سکتا ہے۔ جبکہ اسفندیار، ڈاکٹر اور نہ انجینئر۔ شاید سمپل بی اے، جس کے بل بوتے پر ڈاکٹری اور انجینئری کا رعب جھاڑا جارہا ہے! قوم کی قسمت سنورنے کا وقت تو اب آیا ہے؛ نظامِ تعلیم اسفندیار ولی ایسےماہرینکے ہاتھ میں نہ آتا تو دنیا ڈاکٹروں اور انجینئروں کو پیدا ہوتے ہوئے دیکھ ہی کیسے سکتی تھی؟ ہاں مگرپاکستان ریلوےکے ناکارہ انجنوں جیسے انجنئر اور ڈاکٹر! نحوست برسنے کے لیے بھی تو شرط یہی ہے کہ ایک جگہ کو قرآن کی برکات سے تہی دامن کردیا جائے!
    ہوئے تم دوست جس کے۔۔۔!
    اِسسادہ جوابپر، اگر آپ اوپر کا لنک دیکھیں، خدا کے فضل سے کئی سو آدمی نے لعن طعن کر رکھی ہے۔ یہاں؛ جناب اسفندیار نے ضروری خیال کیا کہ اِسسادہ جوابکے ساتھ ساتھ ایک عدد وضاحت بھی دی جائے:

  اس پوسٹ کا مقصد ہر گز ہر گز کسی کی دل آزاری نہیں جس طرح ہمارے سکولوں میں اسلامی نصاب کو غلط انداز میں تھوڑ مروڑ کر پڑھایا جاتا ہے اس سے اپ سب اچھی طرح واقف ہیں کہ آیت کا اصل مقصد و معنی کچھ اور ہوتا ہے لیکن قاری حضرات کم علمی کی وجہ سے اس آیت کا غلط ترجمہ کرتے ہیں اور چوٹھے بچوں کے ذہنوں میں اسی غلط تشریح کو بٹھاتے ہیں جب بچہ بڑا ہوجاتا ہیں تو اس کو اپنے علاوہ سب کافر دکتھے ہیں. اس کی مثال وہ سب لوگ ہیں جنہوں نے میرے اس پوسٹ کو سمجھے بغیر گالیاں دیے اور غدار تک کہہ دیا
    ( http://www.facebook.com/KhanAsfandyarWali)

    عذرگناہ بدتر از گناہ! جس طرح آپ نظامِ تعلیم پر اتھارٹی ہیں اور اسامہ وملاعمر کے وجود میں نہ آنے کو ’یقینی‘ بنانے کے لیے آیات کو نصاب سے نکال دینے کا اِک نسخۂ نایاب پیش فرماتے ہیں۔۔۔ اسی طرح آپ آیات کی تفسیر پر بھی کمال اتھارٹی ہیں۔ کون آیات کی غلط تشریح کرتا ہے، اس کا فیصلہ بھی اِسی دربارِ اکبری سے ہوگا۔ اور اس کا تدارک یوں کیا جائے گا کہ قرآن کی آیات ہی نصاب سے خارج کردی جائیں۔ رہے بانس نہ بجے بانسری!

    وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَـٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ
    حم السجدۃ: ٢٦
    اور کافر کہنے لگے کہ اس قرآن کو سنا ہی نہ کرو اور (جب پڑھنے لگیں تو) شور مچا دیا کرو تاکہ تم غالب رہو

    مثالیں کونسی دیں؟ اسامہ، جس نے اسفندیار کے صوبے کا نصاب کبھی پڑھا اور نہ دیکھا۔ ملا عمر، جس کو اِس ملک کے نصاب پڑھنے کا شرف کبھی حاصل نہیں ہوا۔ محسود جو دینی مدارس میں پڑھا نہ کہ اِن سرکاری سکولوں میں جس کا نصاب – بقول اسفندیار – اسامہ، ملاعمر اور محسود پیدا کررہا ہے!

 
پس اِن تین مثالوں – اسامہ، ملا عمر، بيت الله محسود – سے ثابت ہوا کہ سکولوں کے نصاب سے آیات حذف کردینا کس قدر ضروری ہے!

 اِس کو کہتے ہیں سائنٹیفک طرزِ استدلال! اور ایسی گہری نظر کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے!
اور اگر سرکاری سکولوں کے اِس نصاب سے آیات خارج کردینا بھی مطلوبہ نتائج نہ دے، اور ظاہر ہے کہ محض ’ نہم دہم‘ کے سرکاری نصاب سے خارج کردینا اسفندیار کے مطلوبہ نتائج کبھی نہیں دے سکتا۔۔۔ تو پھر آیات واحادیث کو کہاں کہاں سے خارج کردینا ضروری ہوگا؟ معاملہ کی اصل جہت یہ ہے؛ جوکہ کسی سے پوشیدہ نہیں!

    کون اِس قدر سادہ لوح ہے کہ واقعتاً اِس مسئلے کی زد سرکاری سکولوں کے ’نہم دہم‘تک محدود مان لے! اسفندیار کو جرأت حاصل ہے تو وہ ذرا کھل کر بات کریں۔ دل کے پھپھولے ذرا کھل کر پھولیں۔ اِس قرآن سے پورا سرمایہ دار مغرب تنگ ہے، جو آج اسفندیار کی پشت پر ہے۔ اِس قرآن سے کمیونسٹ روس تنگ تھا، جس نے بڑی دیر تک’مغرب کے ایجنٹ مجاہدین‘ کے خلاف ’علمِ حق‘بلند کیے رکھا تھا اور اسفندیار کے بزرگوار کی پشت تھپکتا تھا، یہاں تک کہ اپنے یہاں (پورے سوویت یونین میں) قرآن کی تعلیم پر پابندی عائد کررکھی تھی۔ اِس قرآن کے ہاتھوں دنیا کا ہر باطل نظریہ روہانسا ہے۔ دنیا کا ہر شیطان اِس قرآن سے سرتاسر آزردہ ہے۔ کوئی کہے نہ کہے، اسفندیار ایسے لوگوں کو آپ ہی اِس آئینے میں اپنا چہرہ نظر آتا ہے۔ کسی نے اسفندیار کو ’ کافر‘کہا ہو یا نہیں، ایسی ذہین ہستیوں کو قرآن سن کر آپ اپنے اوپر شک گزرتا ہے کہ ایمان اور اطاعت اور وفاداری جس چیز کا نام ہے اُس سے اِن جیسوں کا کیا رشتہ! ایسا آئینہ دنیا میں موجود ہی کیوں ہے؟ ’نہم دہم‘کے نصاب سے اس کو نکال بھی دیا جائے تو اس سے کیا بنے گا، اِس کو تو جہان سے نکال دینے کے لیے سرگرم اداروں کا ساتھ دینا ہوگا۔
    بہت صحیح جگہ پہنچے آپ، اسفندیار صاحب! آپ کی جنگ قرآن کے ساتھ ہے۔ بات آخر زبان پر آجاتی ہے۔ یہی قرآن بتاتا ہے کہ خدا نے منافقین کو بے نقاب کرنے کا ایک خاص انتظام فرما رکھا ہے، جس کے باعث وہ اپنا آپ دکھائے بنا نہیں رہ سکتے:

    أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَن لَّن يُخْرِجَ اللَّـهُ أَضْغَانَهُمْ
    محمد: ٢٩
    کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ خدا ان کے کینوں کو ظاہر نہیں کرے گا؟

    تم بہت صحیح جگہ پہنچے ہو، اور جوکہ سب سے سنگین مقام ہے۔ ہردور کے بدبخت ترین لوگوں کے لیے مختص کررکھا گیا مقام۔ قرآن کے ساتھ ٹکر لینا اور قرآن کا راستہ روکنا۔ ہردور کا ابوجہل! علم اور تعلیم کے شعبے کو ایسے ہی ’’جہل‘‘ کی ضرورت تھی حضرتِ اسفندیار، سو وہ تمہارے دم سے پوری ہونے لگی۔ سچ پوچھو تو کمی ہی اِک تمہاری تھی؛ ورنہ اس قوم کے پاس کیا نہیں تھا! جہل کی اصل شان یہی ہے کہ مطلق علم اور دانائی کے منبع ’’القرآن العظیم‘‘سے دشمنی کی جائے اور اپنی کامیابی کو اس کی پسپائی سے مشروط کیا جائے۔

تم کامران ہو اسفندیار، اور تمہارے ساتھ وہ قوم بھی جو اپنی تقدیر تم جیسوں کو سونپے گی! تم یونہی ادھر ادھر پھرتے رہے۔ کبھی اسامہ، تو کبھی ملا عمر، اس سے پہلے کبھی مودودی تو کبھی اقبال۔ کبھی مجاہدین کے لتے تو کبھی صوفی محمد کے۔ کبھی جلی کٹی محمد بن قاسم کو تو کبھی محمود غزنوی کو۔ انسان تو بہرحال خطا کا پتلا ہے۔ صحیح دیدہ دلیری تو یہی ہے جو اَب تمہارے نصیب میں آنے لگی ہے۔ قرآن کے ساتھ ٹکر لے کر تم نے اپنی بدبختی کے لیے بہت صحیح دشمن چنا ہے۔ اس کا انجام تمہیں معلوم ہو نہ ہو، ہم قرآن پڑھنے والوں کو یقینی طور پر معلوم ہے۔
    لگتا ہے خدا اِس بھلے خطے کا جلد کوئی فیصلہ کرنے والا ہے۔

Tags:
asfandyar wali khan
abu jehal, dushman quran, remove Quranic verses(ayats) from 9th and 10th class
reply to asfandyar

26 اپریل، 2012

مرنے کے بعد انسان کیسے دوبارہ زندہ ہو گا؟

موت کے بعد زندگی

آدمی کو اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ جب وہ مر جائے گا تو کس طرح پیدا کیا جائے گا۔ آدمی کے اندر حیرانی کا یہ عنصر اس سطح تک پہنچا ہوا ہے کہ بہت سارے لوگ مرنے کے بعد زندہ کئے جانے پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ موت کے بعد زندہ کئے جانے کو ایک نہ ہونے والا واقعہ سمجھتے ہیں۔ مثلا ً انگریزی کے معروف مصنف خوشونت سنگھ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ ” مرنے کے بعد زندہ کئے جانے پر یقین نہیں رکھتے ،اور نہ ہی جنت پر اور نہ ہی جہنم پر اور نہ ہی فیصلہ کے دن پر“ ۔

ظاہر ہے جنت ، جہنم اور فیصلہ کے دن کا معاملہ تو بہت بعد میں آتا ہے اگر ایک آدمی صرف حیات بعد موت سے انکار کردے تو باقی چیزوں سے خود بخود انکار ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے باضابطہ بیان جاری کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

حیرانی اس بات پر ہوتی ہے کہ آدمی اس واقعہ پر کس طرح شک کرتا ہے جس کا ہونا اتنا ہی یقینی ہے جتنا کہ خود انسان کا پیدا ہونا۔ کیا انسان نے اپنی تخلیق پر غور نہیں کیا کہ وہ کس طرح پیدا کیا جا تا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ موت کے بعد زندگی پر ایمان لانے کے لیے صرف یہی کافی ہے کہ انسان کو اپنی تخلیق کا ادراک ہوجائے ۔ سچی بات تویہ ہے کہ موت کے بعد زندگی پر صرف وہی لوگ شک کرتے ہیں جن کو خود اپنی تخلیق کا ادراک نہیں ہو سکا ہے ، جو یہ نہیں جان سکے کہ انہیں اللہ نے کس طرح عدم سے وجود میں لایا اور نیست سے بود کردیا ۔

آپ نے کبھی آم کھایا ہے؟اچھا چلئے ایک آم اٹھائیے اور اسے کھا لیجئے ۔ ٹھیک سے کھا لیا؟ ٹھیک ہے۔ اب گٹھلی کو اٹھائیے اور دیکھئے، اسے اچھی طرح صاف کر لیجئے۔ صاف کر لیا؟ اب اسے مٹی میں گاڑ دیجئے۔ دیکھئے مٹی تھوڑی نم ہونی چاہئے۔ اچھا اب اسے 10سے 20روز تک بھول جایئے۔ اچھا دیکھئے، اب بیس دن گزر گئے۔ اب ذرا وہاں جایئے، جہاں آپ نے بیس روز پہلے اس گٹھلی کو زمین میں گاڑ دیا تھا۔ دیکھا آپ نے یہاں کیا ہے؟ ارے ، یہ کیا، یہاں تو ایک شاداب پودا ہے! گٹھلی میں جان کہاں سے پیدا ہوگئی؟ حیران نہ ہوں۔ اللہ اسی طرح آپ کو مرنے کے بعد زندہ کرے گا۔


کھجور: کبھی آپ نے کھجور کھائی ہے۔ نہیں! جائیے، جا کر ایک کھجور خرید لیجئے اور اسے کھایئے۔ اچھا کھا لیا؟ اندر سے کیا نکلا؟ گٹھلی ! ارے یہ کیا یہ تو گودے کے اندر لکڑی ہے! گودے کے اندر لکڑی کہاں سے پیدا ہوگئی؟ چھوڑئے اس میں مت پڑیئے، اسے جلا دیجئے۔ دیکھ لیا آپ نے یہ لکڑی ہی تھی جو جل گئی۔ اب کھجور کی دوسری گٹھلی لیجئے اور اسے مٹی میں گاڑ دیجئے اب اسے کچھ دنوں کے بعد دیکھئے۔ دیکھا آپ نے گٹھلی نے پودے کی شکل اختیار کرلی۔ ارے، اس میں تو جان آگئی۔ اسی طرح اللہ آپ کو مرنے کے بعد زندہ کرے گا۔ اب آپ نے بہت کھا لیا اب کچھ پی لیجئے۔

ناریل: کیا پئیں گے آپ؟ چلئے ایک ناریل پی لیجئے۔ ٹھہریئے۔ پہلے اس کی بناوٹ پر غور کیجئے کہ اسے کس طرح بنایا گیا ہے۔ یہ اوپر سے لکڑی ہے۔ بہت سوکھی ہوئی۔ اتنی سوکھی کہ اگر آپ اسے چولہے میں ڈالیں تو بھبک کر جل اٹھے۔ اب اسے پھاڑیئے۔ ارے یہ کیا اندر تو پانی بھرا ہے! اب اسے اٹھایئے اور پی لیجئے۔ یہ پانی آپ کو بہت ساری بیماریوں سے محفوظ کر دے گا اور آپ کی پیاس بھی کسی حد تک بجھ جائے گی۔ جو اللہ لکڑی کے اندر پانی پیدا کر رہا ہے اور جو گودے کے اندر لکڑی پیدا کر رہا ہے وہی اللہ آپ کو مرنے کے بعد زندہ کرے گا۔

انڈا: آپ نے کبھی انڈا دیکھا ہے۔ ضرور دیکھا ہوگا۔ مرغی انڈے کو ایک مدت تک اپنے پنکھ میں چھپائے رہتی ہے۔ پھر اچانک ایک دن وہ انڈے پھٹ جاتے ہیں اور بچے چوں چوں کرتے ہوئے نکل آتے ہیں۔

جو آپ کے سامنے مردہ کو زندہ میں تبدیل کر رہا ہے وہی اللہ آپ کو مرنے کے بعد زندہ کرے گا