ٹیپو سلطان کا سفر آخرت

وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے

مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں

زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔

پاپا نے پادری بنانا چاہا ۔۔۔مگر۔۔۔؟

میں اپنے کسی کام کے سلسلہ میں ’’تیونس‘‘ گیا۔ میں اپنے یونیورسٹی کے دوستوں کے ساتھ یہاں کے ایک گاؤں میں تھا۔ وہاں ہم دوست اکٹھے کھا پی رہے تھے۔ گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک اذان کی آواز بلند ہوئی اللہ اکبر اللہ اکبر۔۔۔

داستان ایک متکبر کی

سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف

میں اپنا ثواب نہیں بیچوں گا

عموریہ کی جنگ میں پیش آنے والا ایک دلچسپ واقعہ

31 مئی، 2014

محبوب یا بیکار؟


 ایک فقیر ایک پھل والے کے پاس گیا اور کہا کہ اللہ کے نام پر کچھ د ے دو۔ پھل والے نے فقیر کو گھور کے دیکھا اور پھر ایک گلا سڑا آم اٹھا کر فقیر کی جھولی میں ڈال دیا۔
فقیر کچھ دیر وہیں کھڑا کچھ سوچتا رہا اور پھر پھل والے کو بیس روپے نکال کر دیے اور کہا کہ بیس روپے کے آم دے دو، دکاندار نے دو بہترین آم اٹھائے اور لفافے میں ڈال کر فقیر کو دے دیے۔
فقیر نے ایک ہاتھ میں گلا سڑا آم لیا اور دوسرے ہاتھ میں بہترین آموں والا لفافہ لیا اور آسمان کی طرف نگاہ کر کے کہنے لگا :
"دیکھ اللہ تجھے کیا دیا اور مجھے کیا دیا"

(مو منو!) جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمہیں عزیز ہیں (راہ خدا) میں صرف نہ کرو گے کبھی نیکی حاصل نہ کر سکو گے اور جو چیز تم صرف کرو گے خدا اس کو جانتا ہے۔
سورة آل عمران-92

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم لوگ اللہ کے نام پر اپنی بہترین چیز دیتے ہیں

بخاری و مسلم کی حدیث ہے کہ حضرت ابو طلحہ انصاری مدینے میں بڑے مالدار تھے انہیں اپنے اموال میں بیرحا (باغ) بہت پیارا تھا جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے بارگاہ رسالت میں کھڑے ہو کر عرض کیا مجھے اپنے اموال میں بیرحا سب سے پیارا ہے میں اس کو راہِ خدا میں صدقہ کرتا ہوں حضور نے اس پر مسرت کا اظہار فرمایا اور حضرت ابو طلحہ نے بایمائے حضور اپنے اقارب اور بنی عم میں اس کو تقسیم کردیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابو موسی اشعری کو لکھا کہ میرے لئے ایک باندی خرید کر بھیج دو جب وہ آئی تو آپ کو بہت پسند آئی آپ نے یہ آیت پڑھ کر اللہ کے لئے اس کو آزاد کردیا۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اپنا ایک گھوڑا لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے، اور عرض کیا کہ مجھے اپنی املاک میں یہ سب سے زیادہ محبوب ہے میں اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قبول فرمالیا۔

الغرض آیت متذکرہ کا حاصل یہ ہے کہ حق اللہ کی مکمل ادائیگی اور خیر کامل اور نیکی کا کمال جب ہی حاصل ہوسکتا ہے جب کہ آدمی اپنی محبوب چیزوں میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرے ۔ خراب اور بےکار چیزوں کا انتخاب کر کے صدقہ کرنا مقبول نہیں ۔

29 مئی، 2014

لٹل فرعون

 قلم تلوار...قاری نوید مسعود ہاشمی
 آج کوئی کتنا بڑا ہی روشن خیالی کا دعویدار کیوں نہ ہو۔۔۔ اپنے آپ کو لبرل اور سیکولر کیوں نہ سمجھتا ہو مگر وہ اپنا اور اپنی اولاد میں سے کسی کا نام بھی’’فرعون‘‘ رکھنا گوارہ نہیں کرتاتو کیوں؟ کیونکہ فرعون تاریخ انسانی کا وہ گمراہ اور بدترین کردار ہے۔۔۔ کہ جو نہ صرف یہ کہ اللہ کا باغی بلکہ مخلوق خدا پر بھی ظلم و ستم ڈھانے میں بڑا مشہور تھا۔۔۔ ’’فرعون‘‘ کہ جس کی مذمت میں شعراء اور ادباء نے کئی کئی سو صفحات لکھ ڈالے۔۔۔’’فرعون‘‘ وہ کہ خود خالق کائنات نے قرآن مقدس میں جس کی مذمت بیان فرمائی۔۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے درمیان ہونے والی معرکہ آرائیوں کا تذکرہ بھی قرآن پاک میں موجود ہے۔۔۔ تو اس لئے تاکہ قیامت تک آنے والے انسان اس سے سبق حاصل کر سکیں، یہاں معاملہ صرف حکمرانوں تک ہی محدود نہیں۔۔۔ بلکہ طاقت، اقتدار اور دولت کے نشے میں بدمست ہو کر جو شخص بھی آمرانہ اور متکبرانہ انداز و اطوار اختیار کر کے بے گناہوں پر ظلم ڈھائے گا۔۔۔ اسلامی احکامات سے بغاوت کرے گا۔۔۔ اسلام کے مقابلے میں مغربی روشن خیالی کو لانے کی کوشش کرے گا۔۔۔ اہل حق پر صرف حق گوئی کی وجہ سے۔۔۔ تشدد کے پہاڑ توڑے گا۔۔۔ اُسے ’’فرعون‘‘ کا ہی جانشین سمجھا جائے گا۔۔۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے لاڈلے پیغمبر تھے۔۔ فرعون انہیں تکلیفیں دیتا تھا۔۔۔ اُن کے پیغام حق کو جھٹلاتا تھا۔۔۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا روشن خیال سمجھتا تھا۔۔۔ بلکہ اس کی فرعونیت کا عالم تو یہ تھا کہ وہ دربار میں آنے والوں کو اپنے سامنے سجدہ ریزی پر بھی مجبور کر دیتا تھا۔۔۔ اتنے کروفر والا فرعون، پروٹوکول میں رہنے والا فرعون۔۔۔ خدائی کا دعویدار فرعون۔۔۔ گر روئے زمین پر آج نہ کوئی اس کی سالگرہ مناتا ہے۔۔۔ اور نہ ہی برسی۔۔۔ ہے کوئی سیکولر، لبرل ، اینکر، اینکرنی یا ڈالر خور این جی او کاخرکار کہ جو’’فرعون‘‘ کی سالگرہ یا برسی منانے کی ہمت کر سکے۔۔۔ اس کے حق میں ٹی وی ٹاک شو کرے یا کالم لکھ سکے؟ہرگز نہیں۔۔۔ ممکن ہی نہیں۔۔۔ ہاں البتہ حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر سلام بھیجنے والے، ان سے عقیدت اور ان پر ایمان لانے والے آپ کو دنیا میں اربوں انسان مل جائیں گے۔۔۔
بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ فرعون نے ایک بار خواب دیکھا کہ ایک آگ روشن ہوتی ہے، وہ آگ پھیلتے پھیلتے مصر تک پہنچ جاتی ہے۔۔۔ پھر وہ بنی اسرائیل کے گھروں کو نقصان پہنچائے بغیر فرعون کے محلات تک پہنچ جاتی ہے۔۔۔’’نجومیوں‘‘ نے فرعون کو اس کی تعبیر یہ بتائی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں فرعون اور اس کی حکومت تباہ ہو جائے گی۔۔۔ فرعون نے اس خطرے سے نبٹنے کے لئے اپنے مشیروں سے مشورہ شروع کر دیا۔۔۔تب نہ اقوام متحدہ نام کا کوئی ادارہ تھا ۔۔۔ نہ ابھی امریکہ معرض وجود میں آیا تھا۔۔۔ نہ وائٹ ہاؤس تھا۔۔۔ نہ جارج ڈبلیو بش اور نہ ہی اس کا ’’دوست‘‘ پرویز مشرف ابھی پیدا ہوا تھا۔۔۔ اس وقت میڈیا بھی ابھی اتنا آزاد نہیں تھا۔۔۔ الیکڑانک چینلز اور اخباری کالموں کے ذریعے۔۔۔ فرعون کی طاقت کا رعب بٹھانے کے لئے منشی نما کالم نگار اور ڈالر خور اینکر بھی نہ تھے۔۔۔ نہ اس وقت وہاں حسن نثار تھا، نہ ایاز امیر تھا اور نہ ہی نجم سیٹھی، اس لئے فرعون کو جاسوس عورتوں کا سہارا لینا پڑا۔۔۔ اور حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے علاقوں میں گشت جاری رکھو۔۔۔ ہر حاملہ عورت کا نام لسٹ میں لکھ لیا جاتا۔۔۔ وضع حمل کے دوران جاسوس عورتیں وہاںموجود رہتیں۔۔۔ اگر لڑکی پیدا ہوتی تو واپس چلی جاتیں۔۔۔ اور اگر لڑکا پیدا ہوتا تو جلادوں کو خبر کر دیتیں، جلاد فوراً تیز چھرے لے کر اس گھر میں پہنچ جاتے۔۔۔۔ اور ماں باپ کے سامنے ان جگر گوشے کو ٹکڑوں میں تبدیل کر کے واپس چلے جاتے۔۔۔۔ ظلم و وحشت کی داستان اتنی سنگین ہے کہ جس کو لکھتے ہوئے قلم بھی تھرا جاتا ہے۔۔۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو روکنے کیلئے۔۔۔ فرعون نے معصوم بچوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دیئے۔۔۔
اُس ’’خبیث‘‘ کے حکم پر نجانے کتنے حسین پھول کچل ڈالے گئے؟ نجانے کتنے نومولود بچوں کے جسموں کو ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا گیا۔۔۔اور نجانے کتنی معصوم جانیں تھیں کہ جو فرعون کی سفاکیت کی بھینٹ چڑھا دی گئیں۔۔۔
ہزاروں سال پہلے والا فرعون ہو۔۔۔ یانائن الیون کے بعد والا جارج ڈبلیو بش ہو۔۔۔یا اس کے غلام حکمران۔۔۔’’ فرعون‘‘ کے مٹے ہوئے نقش پا کو انہوں نے دوبارہ سے زندہ کرتے ہوئے۔۔۔۔ عراق، افغانستان اور پاکستان کے بے گناہ مسلمانوں کا جس قدر قتل عام کیا ہے اسے دیکھ کر فرعون کی روح بھی شرمندہ ہو گئی ہو گی۔۔۔ ہزاروں سال قبل فرعون نے تو صرف بچوں کا قتل عام کروایا تھا۔۔۔ مگر لڑکیوں کو زندہ رکھ لیتا تھا مگر نائن الیون کے بعد۔۔۔ پرویزی سفاکیت ملاحظہ فرمائیے۔۔۔ موصوف نے تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اس کے معصوم بچوں سمیت امریکہ کے ہاتھوں فروخت کرنے میں بھی دریغ نہ کیا۔۔۔طاقت اور اقتدار کو اگر مسلمان اپنے پاس اللہ کی امانت سمجھ کر انسانوں کی خدمت کرے تو پھر ایسا کرنے والے مخلوق کے ماتھے کا جھومر بن جایا کرتے ہیں۔۔۔
اگر بے گناہ انسانوں کے قتل سے ہی عزت مل سکتی۔۔۔ تو آج ’’فرعون‘‘ دنیا کا سب سے عزت مند انسان ہوتا۔۔۔ مگر کرہ ارض پر تمہیں فرعون کی عزت کرنے والا ایک شخص بھی چراغ لے کر ڈھوندنے سے بھی نہ مل پائے گا۔۔۔مگر جناب موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں سے محبت کرنے والے قیامت تک موجود رہیں گے۔۔۔ کیا کبھی فرعون نے اس بات کا تصور بھی کیا ہوگا کہ اس کی طاقت و حشمت۔۔۔ خدائی کے دعوے اور ستر ہزار کے لگ بھگ معصوم بچوں کے قتل عام کے باوجود موسیٰ علیہ السلام نہ صرف پیدا ہو جائیں گے۔۔۔ بلکہ اس کے تخت کا بھی دھڑن تختہ کر ڈالیں گے؟
پھر وہی ہوا۔۔۔ فرعون کی ایک بھی تدبیر کارگر ثابت نہ ہوئی۔۔۔ ہوا وہی جو منظور ِخدا تھا۔۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون ہی کے محلات میں پرورش پا کر جوان ہوئے، مقام نبوت پر سرفراز ہوئے۔۔۔ اور آتش کدہ اور بت کدہ مصر میں توحید کا نہ صرف یہ کہ پرچم سر بلند کرتے ہیں۔۔۔ بلکہ بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی نبوت کا اعلان بھی کرتے ہیں،کیا آج کا کوئی بھی آکسفورڈ اور ایچی سن کا جدید تعلیم یافتہ اور روشن خیال سیکولر پاکستانی قوم کو بتا سکتا ہے کہ آخر فرعون کی طاقت، دولت ، فوج اور جادو گروں کے مقابلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام تن تنہا کیسے کامیاب ہوئے؟
افغانستان کے مجاہدین روس کے بعد امریکہ کو عبرتناک شکست دینے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔۔۔ مگر ڈالر خور سیکولر خرکار، اسے خفیہ ایجنسیوں کا کمال قرار دیتے ہیں جبکہ افغان مجاہدین۔۔۔ یکے بعد دیگرے دو سپرپاورز کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا’’نصرتِ خداوندی‘‘ ہی بتاتے ہیں۔۔۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کرنے والا فرعون تو مر کھپ گیا۔۔۔ اس کی لاش قیامت تک پیدا ہونے والے چھوٹے چھوٹے فرعونوں کو دعوت نظارہ دینے کے لئے مصر کے عجائب گھر میں آج بھی موجود ہے۔۔۔مگر ہے کوئی فرعونی عادتوں، فرعونی رعونت اور فرعونی انداز و اطوار سے نجات حاصل کر کے۔۔۔ پیغمبر احمد مرسل ﷺ کے دامن عافیت میں پناہ ڈھونڈنے والا؟
’’فرعون‘‘ کے مطالبہ پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی نبوت کی دو عظیم نشانیاں’’عصائے کلیمی اور ید بیضائ‘‘ دکھاتے ہیں ۔۔۔ لیکن اس بدبخت کی قسمت میں ایمان کہاں؟ الٹا مقابلے پر اتر آتا ہے۔۔۔ اور جادو گروں کی فوج ظفر موج جمع کرتا ہے تاکہ موسیٰ علیہ السلام کو شکست دی جا سکے۔۔۔ لیکن جادو گر موسیٰ علیہ السلام کے معجزے دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ آپ نبی برحق ہیں، اور پھر وہ سارے کے سارے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آتے ہیں اور فرعون اپنی فرعونیت پر اتر آتا ہے۔۔۔
اور جادو گروں کو ایمان لانے کی پاداش میں درد ناک سزائیں دے کر شہید کر دیا۔۔۔ جب فرعون کا ظلم تمام حدیں کراس کر گیا۔۔۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے راتوں رات قوم بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر مصر سے روانہ ہو جاتے ہیں۔۔۔ فرعون کو اطلاع ملتی ہے تو لشکر ِجرار لے کر تعاقب میں نکلتا ہے۔۔۔ سمندر کے کنارے پر موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو پالیتا ہے۔۔۔ بنی اسرائیل شدید پریشان ہیں سامنے ’’دریا کی موجیں۔۔۔ اور پیچھے فرعون کی فوجیں‘‘ آخر جائیں تو جائیں کہاں؟
اللہ کی نصرت کاپھر نزول شروع ہوتا ہے۔۔۔اور موسیٰ علیہ السلام حکم الہٰی سے ’’عصائ‘‘ کو سمندر میں مارتے ہیں تو سمندر کے پانی سے کشادہ راستے بن جاتے ہیں۔۔۔ چنانچہ وہ اپنے ساتھیوںسمیت نکل جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔۔۔ فرعون بھی تعاقب میں انہی سمندری راستوں پر اپنا لشکر ڈال دیتا ہے تو اس بدترین ظالم کی دراز رسی فوراً اللہ تعالیٰ کھینچ لیتے ہیں۔۔۔ ظلم کی سیاہ رات اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے اور خدائی کا دعویدار فرعون ذلت و رسوائی کی تصویر بنا غرقِ آب ہو تاہے۔۔۔ اور اس کی لاش قیامت تک کے لئے محفوظ کر لی جاتی ہے۔۔۔ جو زبان حال سے ہر ظالم و جابر سے کہہ رہی ہے۔۔۔
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
اِرشاد خداوندی ہے کہ’’پس آج ہم صرف تیرے بدن (لاش) کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد آنے والوں کے لئے (قدرت و عبرت کی) ایک نشانی بن جائے (اگرچہ) لوگوں کی اکثریت ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتی ہے۔
‘‘ سورة يونس-92
آج ہم میں سے ہر ایک کو، پہلے اپنے آپ کو اور پھر اپنے گردو نواح کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم میں سے کسی کے اندر تو فرعونی صفات نہیں پائی جارہیں؟
لبرل اور سیکولر لادینیت پہ۔۔۔ فرعونیت کی گہری چھاپ ہے۔۔۔ ہر پاکستانی مسلمان کو سیکولر لادینیت سے اپنا دامن بچا کر فرعونیت کی چھاپ سے بچنا لازمی ہے۔۔۔ ’’فرعون‘‘ سے لے کر صدر بش، ممنوہن سنگھ، پرویز مشرف اور آصف علی زرداری تک۔۔۔ اپنی اپنی ڈگڈی بجا کر۔۔۔ اور نوٹ کما کر اقتدار سے نکل گئے۔۔۔ بارک اوبامہ ابھی تک امت مسلمہ کے خلاف فرعون کی جانشینی کا حق ادا کر رہا ہے۔۔۔
جبکہ بھارت میں فرعون کا نیا جانشین۔۔۔ نریندر مودی کی شکل میں وزیراعظم بننے جارہا ہے۔۔۔ لیکن ان سارے لٹل فرعونوں کو کوئی بتائے کہ مصر کے عجائب گھر میں رکھے ہوئے اپنے بابا یعنی اصل فرعون کی لاش ایک دفعہ ضرور دیکھ لیں کہ جس کے بارے میں محمد احمد عدوی کتاب ’’دعوۃ الرسل الی اللہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ فرعون کی نعش کی ناک کے سامنے کا حصہ ندارد ہے ۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی حیوان کا کھایا ہوا ہے۔۔۔ غالباً دریائی مگر مچھ نے خراب کیا ہوگا
۔ 
  کوئی کہہ دے ذرا وقت کے فرعونوں سے
خاک ہو جاتے ہیں سورج کو بجھانے والے

24 مئی، 2014

مرقد نبویﷺ کے خلاف گھناونی سازش


خلافت عباسیہ اپنی حکمرانی کی آخری ہچکیاں لے رہی تھی ۔ اسلامی ریاستیں تقسیم ہو رہی تھیں اور ان کے باشندوں میں باہمی تنافس اور افتراق و انتشار کا زہر پھیل رہا تھا۔ گروہی اختلافات ان کی جڑیں گھن کی طرح کھائے جا رہے تھے۔ ادھر یوروپی عیسائیوں نے بیت المقدس اور شام و فلسطین کے ساحلی علاقوں پر قبضہ کر کے ملت اسلامیہ کو بدترین بحران سے دوچار کر دیا تھا۔ اس پرآشوب زمانے میں ایک بہت تشویشناک حادثہ رونما ہوا جس نے مسلم دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
مورخین نے لکھا ہے کہ 557ھ میں عیسائیوں نے اپنی ایک خفیہ مجلس میں متفقہ فیصلہ کیا کہ رسول اللهﷺ کی قبر مبارک سے آپ کا جسد اطہر نکال کر اپنے قبضے میں لے لیا جائے، چنانچہ اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے اپنے دو آدمی منتخب کیے اور انھیں مدینہ منورہ روانہ کر دیا تا کہ وہ رسول اکرم ﷺ کا جسم مبارک نکال لائیں اور اس طرح ان کی ناپاک سازش کامیاب ہو جائے۔ وہ دونوں آدمی مدینہ منورہ پہنچے ۔ انہوں نے مدینہ کے باشندوں کے سامنے اپنے بارے میں یہ ظاہر کیا کہ ہم مغربی ہیں اور ہمارا تعلق اندلس سے ہے ۔ یہ دونوں مسجد نبوی سے باہر قبلے کی جانب آل عمر کی کی رہائش گاہ کے نزدیک ٹھہرے جہاں سے رسول اکرم ﷺکی قبر شریف قریب تھی ۔ وہ رہائش گاہ "دیار عشرہ" کے نام سے مشہور تھی ۔ جب مسجد نبوی کی توسیع کی گئی تو مسجد نبوی کے ارد گرد کے مکانات اس کی زد میں آ گئے اور تمام مکانات کے نشانات مٹا دیے گئے۔
یہ دونوں نصرانی بظاھر وہاں نیکی اور بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، نماز پابندی سے ادا کرتے، قبرستان بقیع اور رسول اکرم ﷺکی قبر مبارک کی زیارت التزام کے ساتھ کرتے تھے۔ اس طرح انہوں نے اپنے آپ کو نہایت نیک، پرہیزگار اور اصحاب خیر کی حیثیت سے متعارف کرا لیا۔ لیکن اندر ہی اندر وہ اپنی ناپاک سازش کی تکمیل کے لیے کوشاں تھے، جب ان کے ارد گرد بالکل سکون ہو جاتا اور لوگ اپنی اپنی ضروریات میں مشغول ہو جاتے یا جب رات ڈھلتی اور سب لوگ نیند کی آغوش میں چلے جاتے تو یہ دونوں نصرانی اپنے ناپاک مقصد کی تکمیل میں لگ جاتے ۔
اصل بات یہ تھی کہ یہ دونوں نصرانی اپنے رہاشی مقام پر خفیہ طور پر ایک سرنگ کھود رہے تھے جس کا رخ قبر نبوی کی طرف تھا ۔ سرنگ کی کھدائی سے جو مٹی نکلتی، یہ دونوں وہ مٹی تھوڑی تھوڑی کر کے کبھی اپنی قریبی کنویں میں ڈال دیتے تھے اور کبھی چمڑے کی تھیلی میں بھر کر قبرستان بقیع میں پھینک آتے تھے اور لوگوں کے سامنے یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ بقیع کی زیارت کو جا رہے ہیں۔
یہ دونوں اپنی گھناونی سازش کی تکمیل کے لیے ایک مدت تک لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے اور اپنا مذموم کام اپنے پروگرام کے مطابق مسلسل انجام دیتے رہے۔ جب انھیں یقین ہو گیا کہ وہ اب رسول اکرم ﷺکی قبر مبارک کے قریب پہنچ چکے ہیں اور مقصد حاصل ہونے والا ہے تو انھیں یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ جسد اطہر کو کس طرح نکالا اور منتقل کیا جائے، چنانچہ وہ رسول اکرم ﷺکا جسد اطہر اپنے ساتھ لے جانے کے لیے خفیہ پلان بنانے لگے۔ انھیں یقین ہو چلا تھا کہ اب بہت جلد ان کی ناپاک سازش کامیاب ہونے والی ہے ۔
لیکن رب العالمین ان کی گھات میں تھا اور انھیں ذلیل و رسوا کرنے اور ان کی ناپاک منصوبہ بندی کا پول کھولنے کے لیے غضب الہی کے شعلے ان کے سروں پر لپک رہے تھے۔ ٹھیک انہی دنوں سلطاں نور الدین محمود زنگی نے خواب میں نبی کریم کی زیارت کی اور دیکھا کہ آپ دو بھورے رنگ کے آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے فرما رہے ہیں:
"اے محمود! مجھے ان دو ظالموں سے بچاؤ۔"
نور الدین زنگی گھبرا کر اٹھا اور نماز پڑھ کر پھر سو گیا۔ لیکن لگاتار تین مرتبہ اس نے بعینہ یہی خواب دیکھا ۔ تیسری مرتبہ جب خواب سے بیدار ہوا تو اپنے وزیر جمال الدین موصلی کو طلب کیا۔یہ وزیر نہایت عقلمند، ہوشیار، دین دار، اور تقویٰ شعار تھا۔ نورالدین زنگی نے اسے اپنا خواب تفصیل سے سنایا اور رات کے بقیہ حصے میں مدینہ منورہ روانگی کی تیاری کی اور بیس آدمیوں کی نگرانی میں بہت سے اونٹ لے کر روانہ ہو گیا۔ سلطان کے ساتھ اس کا وزیر جمال الدم موصلی بھی تھا جو بہت سا مال و متا ع بھی ساتھ لے کر جا رہا تھا۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ سلطان کے ساتھ اس سفر میں ایک ہزار اونٹ تھے، گھوڑے اور دیگر سواریاں ان پر مستزاد تھے۔
شام سے مدینہ کا یہ سفر سولہ دن میں طے ہوا۔ مدینہ پہنچ کر سلطان نے مسجد نبوی کے اندر ریاض الجنه میں نماز ادا کی اور قبر نبوی کی زیارت کے بعد وہیں بیٹھ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ اتنے میں وزیر جمال نے سلطان سے پوچھا: آپ نے جن آدمیوں کو خواب میں دیکھا تھا، کیا آپ ان کی شناخت کر سکتے ہیں؟ سلطان نے کہا: ہاں ۔
وزیر نے مسجد نبوی میوں موجود باشندگان مدینہ سے کہا: سلطان نور الدین زنگی آپ حضرات کے روبرو تشریف فرما ہیں، ان کے پاس بہت سارے اموال ہیں، آپ لوگ اپنا اپنا حصہ ابھی لے لیں اور جو افراد نہیں آ سکے انھیں یہاں لے آئیں تا کہ وہ بھی اپنا اپنا حصہ لے جائیں۔
لوگ حاضر ہوئے اور اموال تقسیم ہونے لگے۔ سلطاں حاضرین کا بغور معاینہ کر رہا تھا لیکن ان میں سے کوئی شخص ان دو آدمیوں کی شکل و شباہت سے ملتا جلتا نہ تھا جنھیں اس نے خواب میں دیکھا تھا ۔ اس لیے سلطاں نے پوچھا: کیا کوئی اور ایسا شخص باقی رہ گیا ہے جو مال لینے حاضر نہیں ہو سکا؟ لوگوں نے جواب دیا: کوئی باقی نہیں رہا ، البتہ دو مغربی آدمی ہیں۔ وہ کسی سے کوئی چیز نہیں لیتے، وہ بہت نیک اور پارسا لوگ ہیں۔ سلطان نے حکم دیا: ان دونوں کو میرے پاس لاؤ!
لوگوں نے جب ان دونوں کو حاضر کیا تو سلطان دیکھتے ہی پہچان گیا کہ یہ وہ دو آدمی ہیں جن کی طرف رسول الله ﷺنے خواب میں اشارہ فرمایا تھا ۔
سلطان نے ان دونوں سے دریافت کیا: تم کہاں کے رہنے والے ہو؟
انہوں نے جواب دیا: ہم مغرب(اندلس) کے ہیں ۔ حج کی نیت سے آئے تھے اور اس سال مسجد نبوی کے قریب رہنے کا ارادہ ہے۔
سلطان نے کہا سچ سچ بتاؤ تم کس نیت سے آئے ہو؟
سلطان نے ان دونوں سے بار بار اصرار کے ساتھ اصل حقیقت سے آگاہی کی بہت کوشش کی لیکن وہ ہر بار ایک ہی بات دہراتے رہے ۔ سلطان نے انھیں وہیں چھوڑا اور اہل مدینہ کے چند لوگوں کے ساتھ ان آدمیوں کی رہائش گاہ پر پہنچا ۔ وہاں لوگوں نے دیکھا کہ بہت سارا مال موجود ہے اور دیوار پر لگی چھجی پر قران پاک کے دو نسخے اور چند کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور چیز ان کی رہائش گاہ میں نہیں تھی۔
سلطان اس رہائش گاہ کا اچھی طرح معائینہ کرنے لگا اور چاروں طرف گھومنے لگا۔ اس نے اچانک رہائش گاہ میں بچا قالین اٹھا کر دیکھا۔ قالین کے نیچے لکڑی کا ایک تختہ تھا ۔ جب تختہ اٹھایا تو اس کے نیچے کھدی ہوئی سرنگ نظر آئی جو سیدھی قبر نبوی کی طرف جا رہی تھی اور مسجد نبوی کی دیوار کی حد پار کر چکی تھی۔
باشندگان مدینہ نے جب یہ منظر دیکھا تو ان پر دہشت طاری ہو گئی اور وہ گھبرا گئے کیونکہ ان دونوں مغربی شخصوں کے بارے میں ان کا اعتقاد بہت اچھا تھا اور وہ انھیں تقویٰ و پرہیزگاری کا مرقع سمجھتے تھے۔
سلطاں نے ان دونوں مجرموں کی پٹائی کی تو انہوں نے اقبال جرم کر لیا اور بتایا کہ عیسائی بادشاہوں نے بھاری مال و دولت دینے کا وعدہ کر کے ہمیں مغربی حجاج کے بھیس میں یہاں بھیجا ہے تا کہ ہم محمد(ﷺ) کی قبر کھود کر کسی طرح ان کا جسد اطہر نکال لے جائیں اور اسے مسیحی بادشاہوں کے حوالے کر دیں۔
جب ان مجرموں کی حقیققت بے نقاب ہو کر منظر عام پر آ گئی اور انہوں نے ساری سازش اگل دی تو سلطان نے حجرہ شریف کی مشرقی جالی کے پاس ان کی گردن مارنے کا حکم دیا، چنانچہ سر عام ان کی گردن اڑا دی گئی اور شام کے وقت انھیں آگ میں جلا دیا گیا۔
پھر سلطان نے حکم دیا کہ حجرہ نبوی کے اردگرد پانی کی سطح تک خندق کھود دی جائے اور اس میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے، چنانچہ سیسہ پگھلا کر پوری خندق بھر دی گئی ۔ اس کے بعد سلطان مدینہ سے رخصت ہو کر شام کی طرف واپس چلا گیا ۔ واللہ اعلم
(فصول من تاریخ المدینہ المنورہ لعلی حافظ )
اسی نوعیت کا ایک واقعہ فاطمی خلافت مصر میں بھی منقول ہے جو 400ہجری میں پیش آیا ۔ مورخین کے مطابق دولتِ فاطمیہ مصر کے شیعہ حاکم ابو علی حسن الحاکم نے اپنے چند گُرگوں کو حکم دیا کہ مدینہ منورہ جاؤ اور حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق( رضی اللہ تعالٰیٰ عنہم) کی قبریں ادھیڑ کر ان کی لاشیں مصر لے آؤ ۔ یہ گرگے مدینہ پہنچے۔ انہوں نے بھاری مال و متاع کا لالچ دے کر ایک علوی کو پھانس لیا۔ اس شخص نے اپنے مکان میں زمین کی کھدائی شروع کر دی اور رسول الله کی قبر تک نقب لگانے کے لیے خفیہ طور پر اپنے مذموم کام میں جُت گیا ۔ ایک دن یہ شخص اسی طرح خفیہ کھدائی میں مصروف تھا کہ اس قدر خوفناک آندھی آئی کہ پورے مدینے کی فضا تاریک ہو گئی، پھر بادل گرجے اور بجلی اتنی زور سے کڑکی کہ یہ شخص لرز گیا اور اپنے مذموم فعل سے باز آ گیا۔ یہ معاملہ حاکم مدینہ کے علم میں آیا تو اس نے علوی اور ان پھانسنے والے مصریوں کو سخت سزا دی۔


(رو ضتہ الصفاء )
سنہرے نقوش- عبد المالک مجاہد


23 مئی، 2014

ثمامہ کی قسمت بدل گئی

  ثمامہ بن اثال، یمامہ کے علاقے کا حکمران تھا، ثمامہ اسلام دشمنی میں پیش پیش تھا ۔اس نے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ الله قتل کرنے کا چیلنج دے رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی الله سے اس پر قابو پانے کی دعا فرمائی تھی۔ ایک مرتبہ ثمامہ عمرہ کرنے کے ارادے سے نکلا۔ اس کی خوش قسمتی کہ وہ راستہ بھول کر مدینہ طیبہ کے قریب آ نکلا اور مسلمان سواروں کی گرفت میں آ گیا۔ چونکہ یہ شخص اپنے کفر میں معروف تھا اور اسلام دشمنی میں اس کے عزائم ڈھکے چھپے نہ تھے، اس لیے اسے گرفتار کر کے مسجد نبوی کے ستوں سے باندھ دیا گیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا اے ثمامہ کیا خبر ہے؟
اس نے عرض کیا اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) خیر ہے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) قتل کریں تو ایک خونی آدمی کو قتل کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان فرمائیں تو شکر گزار آدمی پر احسان کریں گے اور اگر مال چاہتے ہیں تو جتنا دل چاہے مانگ لیجئے ۔آپ کو آپ کی چاہت کے مطابق عطا کیا جائے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ویسے ہی چھوڑ کر تشریف لے گئے یہاں تک کہ اگلے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا حال ہے۔
اس نے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان کریں تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کریں تو ایک خونی آدمی کو ہی قتل کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال کا ارادہ رکھتے ہیں تو مانگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی طرح چھوڑ دیا یہاں تک کہ اگلے روز آئے تو فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا حال ہے۔ اس نے کہا میری وہی بات ہے جو عرض کر چکا ہوں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان فرمائیں تو ایک شکر گزار پر احسان کریں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کریں تو ایک طاقتور آدمی کو ہی قتل کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال کا ارادہ کرتے ہیں تو مانگئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا جائے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ثمامہ کو چھوڑ دو۔ (اسے بغیر کسی شرط کے رہا کر دیا گیا)
ثمامہ پر اس رحم و کرم کا یہ اثر ہوا کہ رہائی پانے کے بعد اسلام کا اسیر ہوگیا۔ وہ مسجد کے قریب ہی ایک باغ کی طرف چلا غسل کیا پھر مسجد میں داخل ہوا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم زمین پر کوئی ایسا چہرہ نہ تھا جو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے زیادہ مبغوض ہو پس اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس مجھے تمام چہروں سے زیادہ محبوب ہو گیا ہے، اور اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے زیادہ ناپسندیدہ شہر میرے نزدیک کوئی نہ تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر میرے نزدیک تمام شہروں سے زیادہ پسندیدہ ہو گیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر نے مجھے اس حال میں گرفتار کیا کہ میں عمرہ کا ارادہ رکھتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مشورہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بشارت دی اور حکم دیا کہ وہ عمرہ کرے۔
جب وہ مکہ آیا تو اسے کسی کہنے والے نے کہا کیا تم صحابی یعنی بے دین ہو گئے اس نے کہا نہیں بلکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا ہوں اللہ کی قسم تمہارے پاس یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہ آئے گا یہاں تک کہ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت مرحمت نہ فرما دیں۔


صحیح مسلم:جلد سوم:باب الجہاد:حدیث نمبر 71
صحیح بخاری:جلد دوم:باب غزوات کا بیان:حدیث نمبر 383
سنن ابوداؤد: جلد دوم: باب الجہاد: حدیث نمبر201

اپنے وطن پہنچ کے حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بات پر عمل کیا اور مکہ مکرمہ کو اناج کی سپلائی بند کر دی ۔ مکہ میں قحط کی کیفیت پیدا ہو گئی ۔ اہل مکہ نے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھا ، جس میں اپنی قرابت داری کا واسطہ دیا اور درخواست کی کہ ثمامہ کے نام گندم کی ترسیل کے لیے حکم جاری فرمائیں۔
قارئین کرام! یہاں تھوڑی دیر کے لیے رک جائیے اور غور کیجیے کہ الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر عالی ظرف اوراعلیٰ اخلاق والے تھے کہ باوجود اہل مکہ کے زبردست مظالم کے آپ نے حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ کو پیغام بھجوایا کہ اہل مکہ کے لیے گندم کی سپلائی بحال کر دیں ۔ کیا ایسے نادر اور اعلیٰ اخلاق کی دنیا میں کوئی اور مثال نظر آتی ہے؟


17 مئی، 2014

دین باختہ چینلوں اور اینکروں کا ’معافی‘ مانگنا!


کیا واقعتاً معاملہ اتنا ہی سادہ ہے کہ کسی دین دشمن پر خدا خدا کرکے جب کبھی ’گرفت‘ کی نوبت آئی تو اس نے یکدم پینترا بدلا اور کہا کہ اس نے استغفار کرلیا ہے لہذا اس کے منصب اور حیثیت پر ہرگز کوئی ہاتھ نہ ڈالا جائے!!!؟
ان ظالموں کی حیاباختگی پر تو اہل دین روز کوئلوں پر لوٹتے ہیں اور ان کا گھناؤنا کردار تو پوری قوم پر واضح ہے، آئیے آپ کو ایک ایسا واقعہ سنائیں جہاں ایک صالح آدمی سے محض نادانستگی میں ایک ایسا فعل سرزد ہوجاتا ہے جو قبلہ کے شایانِ شان نہ تھا۔۔۔ دیکھئے اس پر کس طرح ایکشن لیا جاتا ہے (مسئلہ خدا کی حرمتوں کی دھاک بٹھانا ہے)

یہ حدیث سنن ابی داوٗد ، صحیح ابن حبان اور دیگر کتب میں وارد ہوئی ہے، اور محدث البانی نے اس کی تحسین کی ہے

’’سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا جو ایک قوم کی امامت کروا رہا تھا۔ اس آدمی نے قبلے کی طرف تھوکا جبکہ رسول اللہﷺ اُسے دیکھ رہے تھے۔ جب وہ فارغ ہولیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اب یہ تم لوگوں کو نماز نہ پڑھائے۔ پھر جب اُس نے ان کو نماز پڑھانا چاہی تو انہوں نے اُسے روک دیا اور رسول اللہﷺ کا حکم سنایا۔ تب اُس آدمی نے رسول اللہﷺ سے اس بات کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ہاں۔ اور غالباً یہ بھی فرمایا: ’’تم نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے‘‘

یعنی اس نیک آدمی کا مسلمانوں کی امامت پر فائز رہنا پھر بھی بحال نہیں ہوا۔

آخر کیوں؟

غزوہ تبوک میں رسول اللہﷺ کے حکم عام کی نافرمانی کر بیٹھنے والے تین برگزیدہ اصحاب سے رسول اللهﷺ کے حکم پر مسلسل پچاس روز تک اہل مدینہ کا بائیکاٹ رہا، باوجود اس کے کہ وہ نیک ارواح توبہ کر چکی تھیں، محض اس وجہ سے کہ آئین خداوندی کی ایک دھاک بیٹھ جائے، ورنہ اُن برگزیدہ ہستیوں سے محبت تو سبھی کر رہے تھے اور ان کی جگمگاتی سیرت اور سابقہ کردار ہر کسی سے تحسین پاتا رہا تھا۔

جب ایسا ہے تو پھر جن ظالموں کی پوری سیرت فحاشی اور بےحیائی کی ترویج سے پُر ہے، ان کے دعوائے معافی پر ہم ایک سیکنڈ میں سب کچھ بھول جائیں؟

’معافی‘ مانگنا بندے اور خدا کا معاملہ ہے۔ مگر معاشرے پر اسلامی حرمتوں کی دھاک بٹھا کر رکھنا ایک سماجی معاملہ ہے۔ یہ اتنا آسان نہیں کہ آپ نے خدا کی حرمتوں کی سرعام پامالی کرکے ایک ’س۔و۔ر۔ی‘ بولا اور ہم نے آپ کو پھر سر آنکھوں پر بٹھا لیا اور آپ کے حق میں مولویوں کے فتووں کا تانتا بندھ گیا!!؟

بھائی تم نے معافی مانگ لی ہے تو بہت اچھا کیا۔۔۔ مگر ایسے کرو کہ اپنی اس پوزیشن سے ہٹ جاؤ۔ مسلمانوں کو ’آگہی‘ اور ’راہنمائی‘ دینے کے اس منصب سے سبکدوش ہوجاؤ۔ یہ بھی ایک طرح سے معاشرے کی امامت ہی ہے، اور تم کبھی بھی اس کے اہل نہیں رہے۔ اب اگر مسلمانوں کی گرفت میں تم تھوڑا بہت آئے ہو، تو تمہاری معافی تمہارے اور خدا کے مابین ہوگی، مسلمان تمہیں اس پوزیشن پر بہرحال نہیں دیکھنا چاہیں گے۔ تمہارا چینل بند کردیا جانا پھر بھی ان شاء اللہ ایک نہایت راست اور موافق شریعت اقدام ہوگا۔

مسلمان ہمت کرکے ان بدزبانوں کو لگام ڈال لیں تو ان شاء اللہ اہل الحاد کے حوصلے پست اور اہل شریعت کے حوصلے بلند ہوجائیں گے اور دیگر بدزبانوں کی جانب بڑھنا بھی کچھ نہ کچھ آسان ہوجائے گا۔

بنابریں۔۔۔ ’معافی‘ کی بات ہرگز مسلمانوں کو اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹانے کا باعث نہیں ہونا چاہئے
۔
آئندہ بھی کوئی موذی اہل بیت اور صحابہ کا گستاخ اپنی ’لائیو معافی‘ کا ڈھول پیٹے تو اسے یہی کہا جائے کہ برخوردار معافی مانگنا بہت اچھی بات ہے لیکن تمہیں اپنی پوزیشن سے بہرحال اترنا ہوگا
۔

14 مئی، 2014

کلام اقبال پر تھرکتے ٹھمکتے کولہے ہلاتے نوجوان اور "انقلابی بجلی چور"

سیلانی کے قلم سے 
 
میوزکل اسلامی انقلاب
کل مزار قائد پر طاہر القادری صاحب کا میوزیکل اسلامی انقلاب دیکھا اور دیر تک دیکھتا ہی رہا خوش شکل خوش لباس خوش اطوار اور باخلاق خواتین اور جینز میں ملبوس لڑکیوں کو دلوں کی دھڑکن تیز کر دینے والے میوزک کے ساتھ بنائے گئے کلام اقبال پر جھوم جھوم کر ، لہرا لہرا کر مصطفوی انقلاب کے نعرے لگاتے دیکھنا اچھا لگا مگر کلام اقبال کو ہیجان انگیز میوزک کے ساتھ سننا ایسا ہی لگا جیسے روح افزا کو وہسکی میں ملا کر گھونٹ بھرا جائے۔۔۔۔۔نوجوانوں کو کلام اقبال پر پہلی بار کولہے مٹکاتے دیکھا اگر اقبال رحمہ اللہ حیات ہوتے تو اس نظارے کے بعد یقینا مرثیہ لکھتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔




12 مئی، 2014

آخر تم کس بنیاد پر گواہی دے رہے ہو


نبئ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ایک اعرابی(بدو) سے گھوڑا خریدا، اور اس سے جلدی چلنے کو کہا تا کہ گھر پہنچ کر اس کی قیمت ادا کر دیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جلدی جلدی آگے بڑھ گئے جبکہ بدّو پیچھے رہ گیا۔ راستے میں لوگ بدّو کے پاس آتے اور اس کے گھوڑے کی قیمت لگاتے، انھیں معلوم نہیں تھا کہ پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے یہ گھوڑا خرید لیا ہے۔ ایک آدمی نے گھوڑے کی قیمت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی لگائی ہوئی قیمت سے زیادہ لگائی، چنانچہ بدو نے زور سے چلا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو آواز دی اور کہا:
"اگر آپ کو یہ گھوڑا خریدنا ہے تو خرید لیں، ورنہ میں اسے دوسرے کے ہاتھ بیچ دوں گا۔"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:

"کیا میں نے تجھ سے یہ گھوڑا خرید نہیں لیا ہے؟؟؟؟"

اعرابی نے کہا: نہیں نہیں ابھی خرید و فروخت مکمل نہیں ہوئی۔

پھر اعرابی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے درمیان بحث ہونے لگی۔ یہ دیکھ کر لوگ ان کے پاس اکٹھے ہو گئے۔ اعرابی کہنے لگا:

"آپ اس بات پر کوئی گواہ پیش کریں کہ واقعی میں نے آپ کے ہاتھ اپنا گھوڑا بیچ دیا ہے۔"

جو مسلمان بھی ان کی گفتگو سن کر وہاں آتا وہ بدو سے کہتا: تیرا ناس ہو! کیوں ضد کرتا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ بحث و مباحثہ کر رہا ہے، کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم حق کے خلاف بھی کوئی بات کریں گے؟

اسی دوران حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ وہاں آن پہنچے، جہاں وہ بدّو بار بارایک ہی بات کی رٹ لگاۓ بیٹھا تھا، کہ اگر کوئی گواہ ہے تو پیش کرو، ورنہ مجھے گھوڑا نہیں بیچنا۔ جب حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور اعرابی کے درمیان بحث اور بدو کا یہ قول سنا کہ "آپ اس بات پر کوئی گواہی پیش کریں کہ واقعی میں نے آپ کے ہاتھ اپنا گھوڑا بیچ دیا ہے؟" تو وہ کہنے لگے

"میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا تو نے اپنا گھوڑا پیارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ہاتھوں پر فروخت کر دیا ہے!"

یہ سننا تھا، کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا:

"آخر تم کس بنیاد پر گواہی دے رہے ہو (جبکہ گھوڑے کی خرید و فروخت کے وقت تم ہمارے پاس موجود نہ تھے)؟"

حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
"اے اللہ کے رسول! جب آپ ہمیں آسمان کی خبریں(وحی) سناتے ہیں تو میں ان کی تصدیق کرتا ہوں، (کہ سچ کہا ہے آپ نے) تو پھر کیا میں آپ کے اس قول کی تصدیق نہیں کروں گا؟

ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ عرش پر مستوی بلند و بالا ہستی جب فرش پر مقیم سرور کائنات کے پاس اپنے خصوصی نمائندہ حضرت جبرئیل کے ذریعے سے کوئی وحی بھیجتی ہے جس میں ماضی کی تاریخ اور مستقبل کی پیشن گوئیاں ہوتی ہیں، تو ہم (صحابہ کرام) بلا چون و چرا قبول کر لیتے ہیں اور آپ کی تصدیق کر کے پوری بات من و عن تسلیم کر لیتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس خرید و فروخت میں، میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے قول کی تصدیق نہ کروں؟!

چنانچہ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے پیارے صحابی رضی اللہ عنہ کا یہ جواب سنتے ہی فرمایا،"اے خزیمہ تیری گواہی آج سے دو گواہوں کے برابر ہے"۔ اور انھیں ذوالشہادتین کا لقب دیا۔

ابو داؤد شریف، کتاب الآقضیہ، حدیث 3607
مسند احمد: جلد 5: حدیث 215

(حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کا تعلق قبیلہ اوس سے تھا۔ وہ بدر اور دیگر غزوات میں شریک رہے۔ فتح مکہ کے وقت اوسی قبیلہ حطمہ کا جھنڈا حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا۔)

11 مئی، 2014

لنڈے کے انگریز


 تمام کچے پکے اصلی نقلی کالے پیلے سیکولرز لبرلز اور ملحد حضرات سے گزارش ہے میری پوسٹ پڑھنے سے پہلے منہ میں ہاجمولہ رکھ لیں ورنہ اپنی ذمہ داری پر پڑھیں۔ کیوں کہ میری اطلاعات کے مطابق ہر جگہ مرچیں موسم کے حساب سے لگتیں ہیں لیکن لبرلز کے ہاں جب سچ بولو تب ہی لگ جاتی ہیں۔ آخر ''فریڈم آف سپیچ'' کا زمانہ ہے بئی۔
جانے کب کون کس کو بلاک دے ایکسٹریمسٹ کہہ کر
فیس بک کی فیس بک لبرل ہوئی پھرتی ہے۔

یوں تو دنیا میں ''سانپوں'' اور ''لبرلز'' کی بے شمار اقسام پائی جاتی ہیں مگر تمام ''سانپ'' زہریلے نہیں ہوتے۔ یہاں ہمارا موضوع ''سانپ'' نہیں بلکہ ''لبرلز'' ہیں۔ ''مسلم دنیا'' کے تناظر میں ''لبرلز'' کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ایک باہر کا بنا ہوا ''اصلی'' یا ''اوریجنل'' دوسرا یہاں کا بنا ہوا ''نقلی'' یا ''دو نمبر''۔ ''نقلی لبرلز'' ''دیسی ساختہ'' ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر انہیں ''دیسی لبرلز'' بھی کہا جاتا ہے لیکن چونکہ اس میں لفظ ''دیسی'' استعمال ہوتا ہے اور ''دیسی لبرلز'' کو ہر اس نام، چیز اور جگہ سے نفرت ہوتی ہے جس میں لفظ ''دیسی'' استعمال ہو اس لیئے یہ خود کو ''دیسی لبرلز'' کہلوانا پسند نہیں کرتے. جبکہ ایک تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ''دیسی لبرلز'' خود کو ''امریکی سنڈی'' ''فارمی لبرلز'' اور ''بے غیرت برگیڈ'' کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ مگر ''دیسی لبرلز'' کے لیئے آج تک کا سب سے مناسب نام جو دریافت ہوا ہے وہ ''لنڈے کے انگریز'' ہے۔ تو آج ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ یہ ''لنڈے کے انگریز'' کون کیوں کب اور کیسے ہوتے ہیں۔ چونکہ بات ہونے کی چل رہی ہے اس لیئے ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں۔
پیدا ہوا لبرل تو شیطان نے یہ کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہوگئے۔

ماہرین کے نزدیک ''لنڈے کا انگریز'' ہونا ایک ''مینٹل ڈس آڈر'' ہے۔ وہ لڑکا جسے بچپن سے اس کے ماما پاپا یہ کہتے ہوں ''بےبی! ڈانٹ گو آؤٹ سائیڈ، پلیز کم ان سائیڈ، پلے ود یور سسٹر'' اور وہ بچہ جو کلاس میں سب سے مار کھاتا ہو، جس کا پسندیدہ رنگ گلابی پسندیدہ کھیل گڈے گڑیا کی شادی، پہل دوج، آپا بوا ہو، جس کا سرمایہ حیات اس کی باربی ڈولز کی کلیکشن ہو، تو سمجھ جایئے وہ لڑکا بڑا ہو کر ''لنڈے کا انگریز'' بنے گا۔

یوں تو ''لنڈے کے انگریز'' گاہے بہ گاہے اپنی عالمانہ ٹائیپ جاہلانہ گفتگو سے عوام کو محظوظ کرتے ہی رہتے ہیں مگر پھر بھی ان کے شب روز اسی انتطار میں گزرتے ہیں کہ اسلام یا پاکستان سے متعلق کوئی بری خبر ملے کوئی پاکستانی چوری کرتا پکڑا جائے کوئی دھماکہ ہو کسی ملک کا جہاز گم ہوجائے بس پھر یہ ہوتے ہیں اور چوبیس گھنٹے نہ رکنے والی دانش وڑانہ گفتگو۔ دلیل وہی دی جاتی ہے جو سعادت حسن منٹو نے دی تھی کہ اگر معاشرے میں گندگی غلاظت ہے تو میں تو دکھاوں گا۔ ان ''لنڈے کے انگریزوں'' کی مثال اس مکھی کی طرح ہے جو اگر پھولوں کے اوپر بھی اڑ رہی ہو تو غلاظت ڈھونڈ نکالتی ہے اور بیٹھتی غلاظت پر ہی ہے۔ خیر پسند اپنی اپنی نصیب اپنا اپنا۔
''ویسٹرن لبرل'' گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے اور یہ ''لنڈے کے انگریز'' ''گدھے'' کی طرح ڈھیچو ڈھیچو کرتے ہوئے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ اسلام کے خلاف کینہ بغض اور زہر ان میں ایسے بھرا ہوا ہوتا ہے جیسے ''کوکومو'' میں چاکلیٹ۔ امید ہے آپ کو ''لنڈے کے انگریزوں'' کے بارے میں خوب پہچان ہوگئی ہوگی۔

آخر میں ''لنڈے کے انگریزوں'' کی نذر اکبر الہ آبادی کا یہ شعر۔

ﺍﺭﺗﻘﺎﺀ ﭘﺮ ﺑﻬﻰ ﺁﺩﻣﻰ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ،
ﻳﺎ ﺍﻟﮩﻰ   ﻳﮧ  ﻛﻴﺴﮯ ﺑﻨﺪﺭ ﮨﻴﮟ 



بشکریہ: انگوٹھا چھاپ
 

10 مئی، 2014

ہر مسئلے کاحل جاندار۔۔۔ٹیلی شاپنگ سنٹر کی ’’غدار‘‘


’’خارجی ‘‘ کے بعداب پیش ہے ٹیلی شاپنگ سنٹر کی نئی اپ گریڈ پراڈکٹ ’’غدار‘‘۔۔۔ آپ کی منگنی ٹوٹ جائے، واپڈا والوں سے جھگڑا ہوجائے، ویگن والا کرایہ زیادہ مانگ لے، مالک مکان گھر خالی کرنے کا نوٹس دے دے،ٹریفک پولیس والا چالان کردے،دھوبی کپڑے ٹھیک سے نہ دھوئے،کیبل صاف نہ آرہی ہو،وغیرہ وغیرہ۔۔۔ توہماری پراڈکٹ’’غدار‘‘ استعمال کریں ، پہلی خوراک اثر نہ کرے تو پیسے واپس۔
دشمن کو دھول چٹانے کا نایاب فارمولا، پورے پاکستان سے ٹول فری نمبر پر ابھی کال کریں اور گھر بیٹھے منگوائیں، یاد رہے کہ ہماری پراڈکٹ ’’غدار‘‘ کی بدولت بے شمار لوگوں کی زندگی میں جادوئی تبدیلی آچکی ہے، آئیے اس بارے میں کچھ لوگوں سے بات کرتے ہیں۔ جی فائزہ آپ بتائیے آپ کے ساتھ کیا ہوا اور آپ نے کیا طریقہ اختیار کیا؟؟؟
 ’’میں اپنی ساس کی وجہ سے بہت پریشان رہتی تھی، وہ ہر وقت مجھے جہیز کم لانے کے طعنے دیا کرتی تھیں، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، میرا گھر اجڑنے کے قریب پہنچ چکا تھا، پھر ایک دن میری ایک سہیلی نے مجھے ’’غدار‘‘کے بارے میں بتایا، میں نے فوراً ایک پیکٹ منگوایا اور ہدایات کے مطابق اپنی ساس کو محلے بھر میں ’’غدار‘‘ مشہور کر دیا ، میں حیران ہوں کہ ہر کسی نے فوراً میری بات پر یقین کیا اور میری ساس کا سوشل بائیکاٹ کر دیا، میری ساس کا گھر سے باہر نکلنا مشکل ہوگیا، آخر کار اُس نے میرے پیروں میں گر کر معافی مانگی اور یوں میری زندگی میں خوشیاں واپس لوٹ آئیں‘‘۔ 

دیکھا ناظرین۔۔۔فائزہ اب ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہی ہیں، آپ بھی سکرین پر دیے گئے ہمارے ٹول فری نمبر پر ابھی کال کریں اور ’’غدار‘‘ منگوا کردوسروں کی زندگی عذاب اور اپنی زندگی حسین بنائیں، آئیے! بات کرتے ہیں ہماری پراڈکٹ استعمال کرنے والے ایک اور صاحب اشتیاق سے جوکہ ایک فیکٹری میں ملازم ہیں۔ جی اشتیاق صاحب ! ہمارے ناظرین کو بتائیے کہ آپ نے ہماری پراڈکٹ کیوں منگوائی؟ 

’’میں ایک میڈیسن کی فیکٹری میں پیکنگ کا کام کرتاہوں، میرے پاس کافی عرصے سے پرانا موبائل تھا جس کی وجہ سے فیکٹری کی کوئی لڑکی مجھے لفٹ نہیں کراتی تھی، میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ نیا موبائل لے سکوں لہٰذا میں نے اپنے مینجر کو درخواست دی کہ مجھے چھ ہزار روپیہ ایڈوانس درکار ہے، مینجر نے مجھے ایڈوانس دینے کی بجائے کہا کہ جب تک تمہارا پچھلا ایڈوانس کلیئر نہیں ہوجاتا اگلا ایڈوانس نہیں مل سکتا، یہ سنتے ہی میری امیدوں پر پانی پھر گیا اور میں اداس رہنے لگا، انہی دنوں فیکٹری کی کینٹین والے نے مجھے ’’غدار‘‘ کے بارے میں بتایا ، پہلے تو مجھے یقین نہیں آیا، لیکن پھر میں نے گھر کا پرانا ٹی وی بیچ کر ’’غدار‘‘ کا ایک پیکٹ منگوایا جس کے اندر اس کا سارا طریقہ استعمال بھی لکھا ہوا تھا، میں نے اگلے ہی دن فیکٹری میں مشہور کر دیا کہ ہمارا مینجر وطن کا غدار ہے، شام تک پوری فیکٹری کے مزدور سڑک پر نکل آئے اور مینجر کو غدار غدار کہنا شروع کر دیا، سب نے چندہ کرکے چار بینر بھی بنوا لیے اور سڑک پر آویزاں کر دیے، مینجر کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، وہ بھاگا بھاگا میرے پاس آیا اور چھ ہزار کی بجائے دس ہزار نکال کر میری جیب میں ڈال کر بولا کہ خدا کے لیے اپنا الزام واپس لے لو۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ’’غدار‘‘ کی بدولت مجھے اتنا فائدہ ہوگا، تھینک یو ’’غدار‘‘ ۔

 ناظرین، ہماری پراڈکٹ’’غدار‘‘ خاص طور پر پاکستانیوں کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے،ایک دفعہ استعمال کرکے دیکھیں آپ خود مان جائیں گے۔فون اٹھائیے اور آرڈر کیجئے، پہلے تین سو کالرز کو ’’غدار‘‘ کے ساتھ ہماری سابقہ کامیاب ترین پراڈکٹ ’’خارجی ‘‘ کے تین پیکٹ فری دیے جائیں گے، تو دیر مت کیجئے، کہیں موقع ہاتھ سے نکل نہ جائے، پہلے آئیے پہلے پائیے، ایک حیرت انگیز ایجاد’’غدار‘‘ جو آپ کی بات نہ ماننے والوں کا جینا محال کردے گی۔آئیے بات کرتے ہیں ’’غدار‘‘ استعمال کرنے والے ایک اور صاحب سے،جی سرفراز صاحب ! سب سے پہلے تو یہ بتائیے کہ آپ کام کیا کرتے ہیں؟ 

’’جی میں بڑی محنت سے جوئے کا اڈہ چلاتا ہوں‘‘ ’’ویری گڈ۔۔۔اب ذرا بتائیے کہ آپ کو ہماری پراڈکٹ’’غدار‘‘ استعمال کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ؟ 
’’وہ جی میں ہمیشہ باقاعدگی سے علاقے کے تھانیدار کو اس کا حصہ پہنچایا کرتا تھا، لیکن دو ماہ پہلے ایک نیا تھانیدار آیا جس نے رشوت لینے سے انکار کر دیا اور میرا جوئے کا اڈہ بند کروا دیا،میں نے بڑی منتیں کیں، ڈیڑھ گنا زیادہ رقم کی آفر کی لیکن اُس کے سر پر ایمانداری کا بھوت سوار تھا، میں پریشانی کے باعث بیمار ہوگیا ، ایک دن گھر میں لیٹا ہوا ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ اچانک ’’غدار‘‘ کے اشتہار پر نظر پڑی، میں نے سوچا آزمانے میں کیا حرج ہے لہٰذا ایک پیکٹ منگوا لیا۔شام کو میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ محلے کی مسجد کے باہر کتبے اٹھا کر کھڑا ہوگیا جس پر لکھا تھا کہ ’’تھانیدار اس دھرتی کا غدار ہے، اسے برطرف کیا جائے‘‘۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب پل بھر میں وہاں لوگوں کا مجمع لگ گیا اور پریس والے بھی پہنچ گئے، اگلے دن اخباروں میں خبریں لگ گئیں اور بات ڈی سی او صاحب تک پہنچ گئی، انہوں نے فسادِ خلق کے ڈر سے تھانیدار کو جبری رخصت پر بھیج دیااور میرا جوئے کا اڈہ پھر سے آباد ہوگیا۔ اب میں اپنے ہم پیشہ ہر بندے کو ’’غدار‘‘ استعمال کرنے کا مشورہ دیتا ہوں ،یہ لاجواب ہے‘‘۔

 ناظرین۔۔۔ملک کے کونے کونے میں کروڑوں لوگ ہماری پراڈکٹ’’غدار‘‘ خرید رہے ہیں، یہی ہے وہ چیز جو آپ کو ہر قسم کی ’’ آفات‘‘ سے محفوظ رکھ سکتی ہے، ہمارا دعویٰ ہے کہ ’’غدار‘‘ کے استعمال کے بعد آپ دوسری کمپنیوں کی بنائی ہوئی پراڈکٹ مثلاًصہیونی ایجنٹ، امریکی پٹھو اور ملک دشمن وغیرہ استعمال کرنا چھوڑ دیں گے۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ’’غدار‘‘ کے بے دریغ استعمال پر بھی کوئی آپ کی بات کی تحقیق نہیں کرے گا بلکہ وہ لوگ جنہیں غدار کے ہجے اورمطلب بھی نہیں آتا وہ بھی آپ کی حمایت میں نعرے لگاتے نظر آئیں گے۔ہر قسم کے سائیڈ افکٹس سے پاک، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کردینے والی پہلی ریسرچ بیسڈ پراڈکٹ’’غدار‘‘۔۔۔

اگر آپ کے پاس بھی دلائل ختم ہوچکے ہیں، ثبوت ناکافی ہیں،ٹینشن بڑھ رہی ہے،عزت داؤ پر لگی ہے، شکست فاش کا خطرہ ہے اور کوئی اور حل نہیں سوجھ رہا تو یقیناًآپ کو ’’غدار‘‘ کی ضرورت ہے، ایک فون کال پر ہمارانمائندہ آپ کے پاس حاضر ہوگا۔۔۔تو انتظار کس بات کا، آج ہی منگوائیں اور دشمنوں کے سینے پر مونگ دل دیں، یاد رہے کہ ٹیلی شاپنگ سنٹر کی پراڈکٹ’’غدار‘‘ مارکیٹ میں بالکل بھی دستیاب نہیں لہٰذا ملتے جلتے ناموں سے دھوکا مت کھائیں، ہمیشہ اصلی اور کھری ’’غدار‘‘ منگوائیں اورجس کو چاہیں نیست و نابود کر دیں۔ جلدی کریں ،کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا دشمن آپ سے پہلے یہ پراڈکٹ استعمال کردے۔ہمارے فون نمبرز چوبیس گھنٹے کھلے ہیں۔ہر مسئلے کاحل جاندار۔۔۔ٹیلی شاپنگ سنٹر کی ’’غدار‘‘۔ 

9 مئی، 2014

شیخ بو علی سینا

علم طب میں مسلمانوں کی مہارت قرون اولیٰ سے مانی جاتی ہے،  طب نبوی کی روشنی میں مسلمان حکماء نے بہت سی بیماریوں کے علاج دریافت کیے، جن میں سے ایک معروف نام شیخ بو علی سینا کا بھی ہے، انہوں نے طب اور طبیعات کے شعبوں میں مفید چیزوں کا اضافہ کیا . انہوں نے سب سے پہلے پانی کے ذریعے بیماری کے پھیلنے کا بھی ذکر کیا۔
انہوں نے شہرہ آفاق تصنیف القانون میں انکشاف کیا کہ پانی کے اندر چھوٹے چھوٹے باریک کیڑے ہوتے ہیں جو انسان کو بیمار کر دیتے ہیں
۔
انہوں نے مریضوں کو بیہوش کرنے کی طرہ ڈالی
۔ انہوں نے ہی پھیپڑے کی جھلی کا ورم معلوم کیا، وہ ادویات کے بغیر مریضوں کا نفسیاتی علاج بھی کرتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ زیابیطس کے مریضوں کی تشخیص پیشاب سے کی جا سکتی ہے
۔
اس عظیم مسلمان سائنسدان نے سب سے پہلے الکحل کے جراثیم کش ہونے کا ذکر کیا
۔
شیخ بو علی سینا نے ہرنیہ کے آپریشن کا طریقہ بیان کیا
۔
انہوں نے دماغی گلٹی یعنی برین ٹیومر اور معدہ کے ناسور (stomach ulcer) کا ذکر کیا
۔
  شیخ بو علی سینا نے پہلی مرتبہ انکشاف کیا کہ نظام ہضم لہاب دہن سے شروع ہوتا ہے .
طب کے علاوہ دیگرعلوم میں بھی ابن سینا مہارت رکھتے تھے
۔ 
  علم طبیعات میں ابن سیناسب سے پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے کہا کہ روشنی کی رفتار لا معدود نہیں بلکہ اس کی ایک معین رفتار ۔ 
 تاجکستان کا  20 سومونی کا بینک نوٹ جس پر ابن سینا کی تصویر ہے
  انہوں نے سب سے پہلے آنکھ کی فزیالوجی اور اناٹومی بیان کی . شیخ بو علی سینا نے آنکھ کے اندر موجود تمام رگوں اور پٹھوں کو تفصیل سے بیان کیا ۔
یورپ میں انکی بہت سی کتابوں کے ترجمے ہوئے، ابن سینا کی سب سے مشہور طبی تصنیف “کتاب القانون” ہے جو نہ صرف کئی زبانوں میں ترجمہ ہوکر شائع ہوچکی ہے بلکہ انیسویں صدی عیسوی کے آخر تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہی۔

ابتدائی حالات
صفر 370 ہجری 980ء عیسوی کو فارس کے ایک چھوٹے سے گاؤں “افنشہ” میں پیدا ہوئے، ان کی والدہ اسی گاؤں سے تعلق رکھتی تھیں جبکہ ان کے والد “بلخ” )موجودہ افغانستان سے آئے تھے، بچپن میں ہی ان کے والدین بخارا (موجودہ ازبکستان) منتقل ہوگئے جہاں ان کے والد کو سلطان نوح بن منصور السامانی کے کچھ مالیاتی امور کی ادارت سونپی گئی، بخارہ میں دس سال کی عمر میں قرآن ختم کیا، اور فقہ، ادب، فلسفہ اور طبی علوم کے حصول میں سرگرداں ہوگئے اور ان میں کمال حاصل کیا،
 

حالات زندگی
سلطان بخارا نوح ابن منصور بیمار ہو گئے۔ کسی حکیم کی دوائی کارگر ثابت نہ ہو رہی تھی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں انہوں نے سلطان نوح بن منصور کے ایک ایسے مرض کا علاج کیا تھا جس سے تمام تر اطباء عاجز آچکے تھے، ابن سینا جیسے کم عمر اور غیر معروف طبیب کی دوائی سے سلطان صحت یاب ہوگئے۔ چنانچہ سلطان نے خوش ہوکر انعام کے طور پر انہیں ایک لائبریری کھول کر دی تھی، بیس سال کی عمر تک وہ بخارا میں رہے، اور پھر خوارزم چلے گئے جہاں وہ کوئی دس سال تک رہے (392-402 ہجری) خوارزم سے جرجان پھر الری اور پھر ہمدان منتقل ہوگئے جہاں نو سال رہنے کے بعد اصفہان میں علاء الدولہ کے دربار سے منسلک ہوگئے، اس طرح گویا انہوں نے اپنی ساری زندگی سفر کرتے گزاری ۔

علمی خدمات و کارہائے نمایاں
بو علی کا حافظہ بہت تیز تھا۔ جلد ہی سلطان نوح بن منصور کا کتب خانہ چھان مارا اور ہمہ گیر معلومات اکٹھی کر لیں۔ اکیس سال کی عمر میں پہلی کتاب لکھی۔ ایک روایت کے مطابق بو علی سینا نے اکیس بڑی اور چوبیس چھوٹی کتابیں لکھی تھیں۔ بعض کے خیال میں اس نے ننانوے کتابیں تصنیف میں لائیں۔
علمی خدمات
ابن سینا نے علم ومعرفت کے بہت سارے زمروں میں بہت ساری تصانیف چھوڑیں ہیں جن میں اہم یہ ہیں:

ادبی علوم
اس میں منطق، لغت اور شعری تصانیف شامل ہیں

نظری علوم
اس میں طبیعیات، ریاضی، علومِ الہی وکلی شامل ہیں

عملی علوم
اس میں کتبِ اخلاق، گھر کی تدبیر، شہر کی تدبیر اور تشریع کی تصانیف شامل ہیں
۔
ان اصل علوم کے ذیلی علوم پر بھی ان کی تصانیف ہیں

ریاضی کی کتابیں
ابن سینا کی کچھ ریاضیاتی کتابیں یہ ہیں:
رسالہ الزاویہ،
مختصر اقلیدس،
مختصر الارتماطیقی،
مختصر علم الہیئہ،
مختصر المجسطی،
اور “رسالہ فی بیان علہ قیام الارض فی وسط السماء” (مقالہ بعنوان زمین کی آسان کے بیچ قیام کی علت کا بیان) یہ مقالہ قاہرہ میں 1917 میں شائع ہوچکا ہے
۔

طبیعیات اور اس کے ذیلی علوم
رسالہ فی ابطال احکام النجوم (ستاروں کے احکام کی نفی پر مقالہ)

 رسالہ فی الاجرام العلویہ (اوپری اجرام پر مقالہ)
 اسباب البرق والرعد (برق ورعد کے اسباب)
رسالہ فی الفضاء (خلا پر مقالہ)
رسالہ فی النبات والحیوان (پودوں اور جانوروں پر مقالہ)


طبی کتب
ابن سینا کی سب سے مشہور طبی تصنیف “کتاب القانون” ہے جو نہ صرف کئی زبانوں میں ترجمہ ہوکر شائع ہوچکی ہے بلکہ انیسویں صدی عیسوی کے آخر تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہی، ان کی دیگر طبی تصانیف یہ ہیں:
کتاب الادویہ القلبیہ،
کتاب دفع المضار الکلیہ عن الابدان الانسانیہ،
کتاب القولنج،
رسالہ فی سیاسہ البدن وفضائل الشراب،
رسالہ فی تشریح الاعضاء،
رسالہ فی الفصد،
رسالہ فی الاغذیہ والادویہ،
ارجوزہ فی التشریح،
ارجوزہ المجربات فی الطب،
اور کئی زبانوں میں ترجم ہوکر شائع ہونے والی
“الالفیہ الطبیہ”.

موسیقی
ابن سینا نے موسیقی پر بھی لکھا، ان کی موسیقی پر تصانیف یہ ہیں:
مقالہ جوامع علم الموسیقی،
مقالہ الموسیقی،
مقالہ فی الموسیقی.

اہم تصانیف
کتاب الشفاء
القانون فی الطب
إشارات

تاثرات
یورپ میں انکی بہت سی کتابوں کے ترجمے ہوئے اور وہاں ان کی بہت عزت کی جاتی ہے۔





مسجد قرطبہ کو چرچ میں تبدیل کیا جا رہا ہے

 مسجد قرطبہ کو چرچ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔۔۔ یہ خبر پڑھنے کے بعد پہلا خیال میرے ذہن میں یہ آیا کہ ان احباب کا ردعمل کیا ہے جو پاکستان کے نامساعد حالات میں حقوق انسانی کا علم پورے جذبے سے تھامے ہوئے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے مذہبی آزادیوں کی مالا یوں جپتے ہیں کہ گاہے آدمی کو ان پر رشک آنے لگتا ہے۔عالی مرتبت اعتزاز احسن، جناب قبلہ امتیاز عالم ، محترمہ عاصمہ جہانگیر، محترمہ طاہرہ عبد اللہ، محترمہ ثمر من اللہ۔۔۔ فہرست بہت طویل ہے مگر سوال مختصر،حقوق انسانی اور احترام مذہب کے یہ جملہ علمبردار اس وقت رخصت پر کیوں چلے جاتے ہیں جب ظلم اور نا انصافی کا شکار مسلمان بن رہے ہوتے ہیں؟
میرے جیسا عامی سوچتا ہے، کیا یہ اتفاق ہے یا ان کی ملازمت کی شرطِ اول:
’’ اچھلو، کودو، چیخو، چلاؤ ۔۔۔ مگر خبردار مسلمانوں کے حق میں نہیں‘‘۔
سپین کی حکومت کا رویہ بھی زیر بحث لایا جا سکتا ہے لیکن سر دست وہ میرا موضوع نہیں۔ میرا موضوع اپنی داخلی فکری تقسیم ہے جو ایسی پستی کی جانب لڑھک چکی ہے کہ وجدان خراب ہوتا ہے۔ ہر دوسرا آدمی فیشن کے طور پر روشن خیال ہے۔ رواداری، برداشت، اقلیتوں کے حقوق، احترام مذہب اور نجانے کن کن ناموں سے صاحب لوگ این جی اوز چلا کر اس جاہل قوم کی ’’ اخلاقی تربیت ‘‘ کرنے میں مصروف ہیں۔ آدمی گاہے ساری حیرت کے ساتھ سوچتا ہے : کتنے عظیم اور عالی مرتبت لوگ ہیں ، ایک ناتراشیدہ سماج میں اعلی انسانی اخلاقی قدروں کی بات کرتے ہیں۔ لیکن اس وقت ایک عام آدمی کو شدید حیرت ہوتی ہے جب غیر انسانی رویوں کا شکار مسلمان بنتے ہیں اور اعلی انسانی قدروں کے یہ سارے مبلغین کرام ’’ گونگے ، بہرے اور اندھے‘ بن جاتے ہیں۔
بے حسی اور بے شرمی کی ایک لہر ہے، یوں سمجھیے شہر کا شہر’ روشن خیال‘ ہوا پھرتا ہے۔ ایک نئی لغت وجود میں آ رہی ہے۔ عزت کا جنازہ نکلوا کر مسکراؤ تو روشن خیال ہو اور مزاحمت کرو تو جنونی، پاگل اور انتہا پسند ہو۔ چنانچہ چینلز پر بیٹھے یہ روشن خیال آپ کو یہ تو بتاتے ہیں کہ ناظرین بریکنگ نیوز آپ کو دیتے چلیں کہ کرینہ کپور نے سخت محنت کے بعد زیرو سائز حاصل کر لیا ہے لیکن یہ چلاتے اینکر، بل کھاتی اینکرنیاں اور اٹھلاتی سول سوسائٹی یہ نہیں بتائے گی کہ آج کشمیر میں دن کیسے گزرا۔ بے ہودہ اور واہیات پروگرامز تو نشر ہوں گے تا کہ روشن خیالی کی سند رہے لیکن اذان نشر نہیں ہو گی کہ کہیں جنونی اور شدت پسند نہ سمجھ لیا جائے۔
کارپوریٹ میڈیا نے سماج کی قدریں ہی نہیں ،منظور نظر مہمانان گرامی سے مل کر لغت ہی تبدیل کر دی ہے۔ ایک خاص سوچ مسلط کر کے ایک خاص نسل تشکیل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سیکولر انتہا پسند سماج کی تشکیل کی کوشش ہے جسے دھوکہ دینے کے لیے روشن خیال اور معتدل سوسائٹی کا نام دیا گیا ہے تاکہ سو جوتے اورسو پیاز کھانے کے بعد بھی ہمیں ہم اس بات کے محتاج ہوں کہ جوہی چاولہ آئے اور ہمیں بتائے کہ اب ہر کوئی گائے کے گن گائے۔

فرض کریں یہ واقعہ سپین کی بجائے طالبان کے افغانستان یا آلِ سعود کے عرب میں رونما ہوا ہوتا، اور فرض کریں کہ مسجد کو چرچ میں تبدیل کرنے کی بجائے چرچ کو مسجد بنایا جا رہا ہوتا۔ کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں اس صورت میں ہمارے ان روشن خیال احباب کا رد عمل کتنا شدید ہوتا۔ درد ان کی پلکوں میں جا بیٹھتا اور اب تک پندرہ بیس ٹاک شوز ہو چکے ہوتے۔ لیکن اب یہ کام سپین کی حکومت کر رہی ہے تو یہ حضرات چھٹی پر چلے گئے ہیں۔ پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے؛ بھئی یہ سپین کا مسئلہ ہے ہمیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ بندہ پوچھے اگر مسجد قرطبہ محض سپین کا مسئلہ ہے تو بامیان میں بدھا کا مجسمہ صرف افغانستان کا مسئلہ کیوں نہ بن سکا۔ کیا بامیان میں آپ کے اب وجد مربعے چھوڑ گئے تھے کہ وہاں کے معاملات سے آپ لا تعلق نہ رہ سکے۔ طالبان نے کابل میں ٹی وی توڑے تو یہ ایسے روئے جیسے ان کا کوئی پیارا قتل ہو گیا ہو، قندھار میں لوگوں کو نمازیں پڑھوائی گئیں تو انہیں مذہبی رواداری یاد آ گئی اور ڈاکٹر نجیب کو ٹینک سے لٹکایا گیا تو انہیں حقوق انسانی ستانے لگ گئے۔۔۔ لیکن جب دوسری طرف ملا عبد القادر کو پھانسی دی گئی تو یہ لوگ گونگے بن گئے، مصر میں ڈاکٹر بدیع سمیت سینکڑوں لوگوں کو پھانسی گھاٹ کو بھیجنے کی تیاریاں ہیں لیکن یہ احباب بہرے بنے بیٹھے ہیں اور سپین میں مسلمانوں کی تاریخی مسجد خطرے میں ہے تو یہ سب اندھے ہوئے بیٹھے ہیں۔
غلطی مسلمانوں سے ہو جائے تو یہ لوگ شمشیر بکف نکل آتے ہیں جیسے یاجوج ماجوج کا کوئی لشکر امڈ آ یا ہو۔ لیکن جب مسلمانوں سے زیادتی ہو نے لگے تو یہ بے شرمی کی حد تک لا تعلق ہو جاتے ہیں۔ اب ان رویوں سے چند سواالات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے:

1۔ کیا میڈیا موضوعات کے انتخاب میں آزاد ہے ؟یا کارپوریٹ میڈیا ان دیکھی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے کہ ایساا کچھ نہیں کرنا جس سے بعض ’ مالیاتی سر چشمے‘ ناراض ہو جائیں؟

2۔ کیا اپنے رجحانات کے اعتبار سے میڈیا واقعی آزاد ہے۔ یا اس کا فیصلہ کچھ نادیدہ قوتیں کرتی ہیں کہ کون سے واقعے کو اچھالنا ہے اور کس پر خاموش رہنا ہے؟ آخر ایسا کیوں ہے کہ مسلمانوں کے حق میں کوئی مہم برپا نہیں ہوتی لیکن ان سے سرزد ہونے والی غلطی پر شاندار مہم کھڑی کر دی جاتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلمانوں پر تنقید نہ ہو، ہونی چاہیے اور بلاشبہ شدید ہونی چاہیے لیکن جب وہ مظلوم ہوں تو ان کے حق میں بات کرتے ہوئے ٹانگیں کیوں کانپ جاتی ہیں؟یہ اتفاق ہے یا۔۔۔؟

3۔ پاکستان میں حقوق انسانی اور اس طرح کے خوبصورت ناموں سے جو ادارے بنے ہوئے ہیں ان کا اصل مقصد کیا ہے۔ کیا وہ کسی خاص ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں یا وہ اپنے مقاصد کے تعین میں آزاد ہیں اور ان سے مخلص بھی۔

4۔ بیرون ملک سے پیسے لے کر اگر حکومتیں آزاد نہیں رہتیں تو یہ ادارے کس طرح آزادانہ آپریٹ کر سکتے ہیں جن کی بقا کا دارومدار ہی باہر سے آنے والی امداد پر ہے؟
5۔ ایسے اداروں میں بلاشبہ خیربھی ہو گا۔ کامل شر کوئی نہیں ہوتا لیکن ریاست کا کام ہے کہ ایک چیک اینڈ بیلنس ضرور رکھے کہ آزادی رائے، صحافت اور حقوق انسانی کے نام پر بیرونی قوتوں کی نوکری کرنے والے بے حیا کون ہیں اور کتنے ہیں جو اس کام کو خلوص نیت سے کر رہے ہیں۔

ظلم مسلمان کریں یا غیر مسلم اس کی مذمت ہونی چاہیے۔ مظلوم غیر مسلم ہو یا مسلمان اس کا ساتھ دیا جانا چاہیے۔ لیکن اگر ہم نے خوبصورت لفاظی اور آدرشوں کی آڑ میں صرف پیٹ کے تقاضوں کو مد نظر رکھنا ہے تو ہم سے بدتر آدمی کوئی نہیں۔



Tags: liberals, secular, media, muslim issues, dual standard, pakistan,
aasima jahangir, aitzaz ahsan, imtiaz aalim, tahira abdullah, samar minallah, human right, freedom, injustice,
afghanistan, spain,
masjid quraba church main tabdel, mosque,

5 مئی، 2014

ٹیپو سلطان کا سفر آخرت


 ڈیوک آف ولنگٹن کی سپاہ ایک خونریز معرکہ میں سرنگا پٹم فتح کرچکی تھیں مگر ڈیوک آف ولنگٹن کو ابھی تک اپنی فتح کا یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹم کے میدان میں جمع ہونے والے سپاہیان اسلام کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے، رات کی سیاہی اور گہری ہوتی جا رہی تھی۔ لگتا تھا آسمان نے بھی ٹیپو سلطان کی شکست پر جو اسکے اپنے بے ضمیر درباریوں‘ اور لالچی وزیروں کی وجہ سے ہوئی اپنا چہرہ شب کی تاریکی میں چھپا لیا تھا‘

اتنے میں چند سپاہی ولنگٹن کے خیمے میں آئے‘ انکے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ انہوں نے اسے ٹیپو سلطان کی شہادت اور اسکی نعش برآمد ہونے کی اطلاع دی۔ یہ نعش سلطان کے وفاداروں کے ڈھیر کے نیچے دبی ملی۔ جنرل ولنگٹن خوشی سے حواس باختہ ہوکر سلطان کی نعش کے پاس پہنچا تو وہ نعش وفاداروں کے جمگھٹ میں ایسی پڑی تھی جیسے بُجھی ہوئی شمع اپنے گرد جل کر مرنے والے پروانوں کے ہجوم میں ہو‘ جنرل نے سلطان کے ہاتھ میں دبی اسکی تلوار سے اسے پہچان کر اسکی شناخت کی۔ یہ تلوار آخر وقت تک سلطان ٹیپو کے فولادی پنجے سے چھڑائی نہ جا سکی۔

اس موقع پر جنرل نے ایک بہادر سپاہی کی طرح شیر میسور کو سلیوٹ کیا اور تاریخی جملہ کہا کہ ”آج سے ہندوستان ہمارا ہے، اب کوئی طاقت ہماری راہ نہیں روک سکتی“ اور اسکی نعش اندر محل کے زنان خانے میں بھجوائی تاکہ اہلخانہ اس کا آخری دیدار کریں اس کے ساتھ ہی آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھک گیا۔ جب سلطان کی قبر کھودی جانے لگی تو آسمان کا سینہ بھی شق ہو گیا اور چاروں طرف غیض و غضب کے آثار نمودار ہوئے، بجلی کے کوندے لپک لپک کر آسمان کے غضب کا اظہار کر رہے تھے۔ اس وقت غلام علی لنگڑا، اور دیوان پورنیا جیسے غدارانِ وطن خوف اور دہشت دل میں چھپائے سلطان کی موت کی خوشی میں انگریز افسروں کے ساتھ فتح کے جام لنڈھا رہے تھے، اور انکے چہروں پر غداری کی سیاہی پھٹکار بن کر برس رہی تھی‘

جوں ہی قبر مکمل ہوئی لحد بن گئی تو آسمان پھٹ پڑا اور سلطان میسور کی شہادت کے غم میں برسات کی شکل میں آنسوﺅں کا سمندر بہہ پڑا۔ قبر پر شامیانہ تانا گیا محل سے لیکر قبر تک جنرل ولنگٹن کے حکم پر سلطان میسور کا جنازہ پورے فوجی اعزاز کے ساتھ لایا گیا۔ فوجیوں کے دو رویہ قطار نے کھڑے ہو کر ہندوستان کے آخری عظیم مجاہد، بہادر جنرل اور سپوت کے جنازے کو سلامی دی۔ میسور کے گلی کوچوں سے نالہ و آہ شیون بلند ہو رہا تھا، ہر مذہب کے ماننے والے لاکھوں شہری اپنے عظیم مہربان سلطان کیلئے ماتم کر رہے تھے اور آسمان بھی انکے غم میں رو رہا تھا۔ جنرل ولنگٹن کے سپاہ نے آخری سلامی کے راؤنڈ فائر کئے اور میسور کی سرزمین نے اپنے ایک عظیم سعادت مند اور محب وطن فرزند کو اپنی آغوش میں ایک مادر مہربان کی طرح سمیٹ لیا۔

اس موقع پر سلطان کے معصوم چہرے پر ایک ابدی فاتحانہ مسکراہٹ نور بن کر چمک رہی تھی۔ آج بھی ہندوستان کے ہزاروں باسی روزانہ اس عظیم مجاہد کی قبر پر بلا کسی مذہب و ملت کی تفریق کے حاضر ہو کر سلامی دیتے ہیں۔

اب ننگ ملت غدار کے انجام کا بھی کچھ تذکرہ ہو جائے،
غدار میر صادق کے باپ کا نام میر علی نقی تھا، مذہباً شیعہ اورعجمی النسل تھا۔ جب میرصادق سلطان کی راہ واپسی مسدود کر کے خود راہ فرار اختیار کئے ہوئے تھا تو قادر خان نامی ایک پٹھان مجاہد نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روک لیا اور لعنت ملامت کرتے ہوئے اس سے کہا

''اے ملعون تو شاہ دین پناہ کو دشمنوں کے حوالہ کر کے اپنی جان سلامت لے جانا چاہتا ہے، لے اب تیرے کیے کا پھل تجھے چکھائے دیتا ہوں،"

یہ کہہ کر اس نے تلوار کا ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ وہ غدار گھوڑے پر سے چکرا کر گر پڑا، اسی وقت لوگوں نے ہجوم کر کے اس کو مار مار کر قیمہ کر دیا ۔ لاش اس کی چار دن بعد قلعے کے دروازے پر بے کفن، دفن کی گئی۔ شہر کے لوگ آتے جاتے قصداً اس کی قبر پر تھوکتے ، پیشاب کرتے اور ڈھیر کی ڈھیر پرانی جوتیاں ڈالتے۔

Tags:
Tipu , tipo, sultan, fateh, ali, sher, maisoor, sarangapatam, muslim, jang,
dead body, mir sadiq, mir jafer, meer, ghadar, nanag milat, traitors, 
killed, died, grave,
pathan mujahid qadir khan killed traitor mir sadiq.

3 مئی، 2014

داستان ایک متکبر کی

اس کا نام جبلہ بن الایہم تھا ۔ وہ غسان کا بادشاہ تھا...... اس کے دل میں ایمان کی شمع جگمگا اٹھی۔ اس نے اسلام کے بارے میں سنا، اس پر غور و فکر کیا، پھر اسلام قبول کر لیا۔
یہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور کی بات ہے۔ مسلمانوں کو اس کے اسلام لانے کی خبر ملی تو بہت خوش ہوئے۔ جبلہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ وہ مدینہ طیبہ آنے کی اجازت چاہتا ہے۔ اسے اجازت دے دی گئی کہ تم مدینہ طیبہ آ سکتے ہو،  
"تمھارے لیے وہی کچھ ہے جو ہمارے لیے ہے اور تم پر وہی کچھ واجب ہے جو ہم پر واجب ہے۔"
 

جبلہ غسان سے روانہ ہوا، اس کے جلو میں پانچ سو گھڑسوار تھے۔ وہ مدینہ کے قریب پہنچا تو اس نے شاہی لباس پہنا جس کے دامن پر سونے کی دھاریاں تھیں، پھر اس نے ہیروں اور جواہرات سے مرصع تاج سر پر رکھا۔ اس کے گھڑسواروں نے بھی بہترین لباس پہنے۔ جب وہ مدینہ میں داخل ہوا تو اہل مدینہ یہ منظر دیکھنے کے لیے باہر نکل آئے۔
جب وہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچا تو انہوں نے اس کی عزت افزائی کی، اس کا پرتپاک استقبال کیا اور اپنے پاس ٹھہرایا۔
اسی دوران حج کے دن آ گئے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ حج کے لیے روانہ ہوئے، جبلہ بھی ان کے ساتھ تھا۔ جبلہ نے بیت الله شریف کا طواف شروع کیا۔ بنو فزارہ کا ایک مسکین شخص طواف کر رہا تھا کہ اتفاق سے اس کا پائوں جبلہ کی چادر پر آ گیا۔ جبلہ کو بڑا غصہ آیا۔ اس نے اسے ایسا زوردار تھپڑ مارا کہ اس کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی۔

فزاری کو بھی سخت غصہ آیا مگر وہ جوابی کاروائی نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے فورا اپنا مقدمہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش کر دیا۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جبلہ کو بلوایا اور جواب طلبی  کی کہ تم نے دوران طواف اپنے مسلمان بھائی کو تھپڑ کیوں مارا؟ تم نے تو تھپڑ رسید کر کے اس کی ناک ہی توڑ ڈالی۔ آخر تم نے ایسا کیوں کیا؟
جبلہ نے بڑے غرور سے کہا کہ اس نے میری چادر کو اپنے پیروں سے مسل دیا، اسکی یہ مجال! اگر مجھے مقدس گھر کی حرمت اور عزت کی پرواہ نہ ہوتی تو میں اسکی گردن اڑا دیتا۔
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جبلہ! تم نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا ہے کہ واقعی تم نے اسے تھپڑ مارا ہے، اب تمہاری نجات کے لیے ایک ہی حل ہے کہ کسی طریقے سے اسے راضی کرو ورنہ.......
جبلہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ اس سے بھی بدلہ لیا جا سکتا ہے۔ اس نے فورا پوچھا: ورنہ کیا ہوگا؟
ارشاد ہوا کہ اس فزاری سے کہا جائے گا کہ وہ آگے بڑھے اور تمھارے منہ پر ویسا ہی تھپڑ مار کر اپنا بدلہ لے لے!
جبلہ کہنے لگا: اچھا! تو کیا وہ مجھ سے بدلہ لے گا؟ .... میں ایک بادشاہ ہوں اور وہ ایک ادنٰی سا بے حیثیت آدمی!
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: اسلام نے سب کو برابر کے حقوق دیے ہیں۔ تم اور فزاری دونوں برابر ہو۔ اسلام کی نظر میں صرف وہی شخص افضل و اعلیٰ ہے جو تقویٰ کے لحاظ سے بہتر ہے۔[سبحان الله ! یہ تھا اسلام کا انصاف]

جبلہ کو اس قسم کے مساوی سلوک کا وہم و گمان بھی نہ تھا ۔ اس نے کہا کہ میں اس صورت میں دوبارہ عیسائی بن جاتا ہوں۔
ارشاد ہوا: جو شخص اپنے دین، یعنی اسلام سے پھر جائے، اسلام کی رو سے اسکی سزا موت ہے۔
جبلہ کہنے لگا : امیر المومنین اس صورت حال پر غور کرنے کے لیے مجھے کل تک کی مہلت عطا فرمائیں۔
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مہلت دے دی۔
رات کا کچھ حصہ گزرا تو جبلہ اپنے ہمرائیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ سے نکل بھاگا۔۔ وہ قسطنطنیہ پہنچا جہاں اس نے دوبارہ عیسائیت قبول کر لی۔
زمانہ بیت گیا..... اسکی جوانی کا رنگ اڑ گیا... نقوش ماند پڑ گئے، شان و شوکت دھندلا گئی۔ اسے اسلام کے ایام یاد آ گئے۔ نماز اور روزے کی لذت بیدار ہونے لگی... اسے اسلام چھوڑنے پر ندامت ہوئی .... زیادہ ندامت اس بات پر ہوئی کہ میں اسلام میں داخل ہونے کے بعد دوبارہ مشرک ہو گیا۔ اس إحساس کے باوجود وہ آخری عمر تک عیسائیت پر قائم رہا۔ اس نے آخری عمر میں کچھ اشعار کہے جن کا مفہوم یہ ہے:
"شریف خاندان کے ایک چشم و چراغ نے ایک تھپڑ کے بدلے تھپڑ کھانے میں سبکی محسوس کی جس کی وجہ سے اسلام سے برگشتہ ہو کر عیسائی بن گیا، حالانکہ تھوڑا سا صبر کر لینے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ کاش! میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا، کاش! میں عمر رضی اللہ عنہ کی بات مان لیتا۔ کاش! شام میں میری معیشت کا ادنٰی سا سامان بھی ہوتا تو میں اپنی قوم کے افراد کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا۔ اب تو میری سماعت بھی ختم ہو رہی ہے اور بصارت بھی۔
مگر اس احساس کے باوجود اس نے توبہ کر کے دوبارہ اسلام قبول نہیں کیا۔ اسے شرک اور کفر ہی کی حالت میں موت آئی۔
 

الاستقصا    لاخبار دول المغرب الاقصى / احمد بن خالد الناصري 83/1
سنہرے نقوش: 332

فیصلہ کس کے حق میں ہو گا

 
ایک دن قاضی شریح سے ان کے بیٹے نے کہا؛
"اے اباجان! میرے اور فلاں قوم کے درمیان جھگڑا ہوا ہے، اگر فیصلہ میرے حق میں ہو تو انہیں گھسیٹ کر عدالت میں لے آؤں اگر فیصلہ ان کے حق میں ہو تو صلح کرلوں"۔
اور پھر جھگڑے کی تفصیل بیان کر دی۔
آپ نےکہا:"جاؤ انہیں عدالت میں لے آؤ"۔
وہ خوشی خوشی ان کے پاس گیا اور انہیں عدالت میں چلنے کے لیے کہا، وہ عدالت میں پیشی کے لیے تیار ہوگئے، جب قاضی شریح کی عدالت میں پہنچے تو انہوں نے مقدمہ کی سماعت کے بعد اپنے بیٹے کے خلاف سنادیا۔ وہ لوگ خوش و خرم واپس لوٹے اور بیٹا شرمندہ منہ لٹکائے ہوئے عدالت سے باہر آیا۔

باپ کا فیصلہ بیٹے کے خلاف،،،،؟؟؟ اﷲاکبر

جب قاضی شریح اور ان کا بیٹا گھر پہنچے تو بیٹے نے کہا:
'اباجان آپ نے مجھے رسوا کردیا، اگر میں نے آپ سے مشورہ نہ کیا ہوتا تو کوئی بات نہ تھی۔ افسوس یہ ہے کہ میں نے آپ سے مشورہ لے کر عدالت کا رخ کیا اور آپ نے میرے ہی خلاف فیصلہ سنا دیا۔ لوگ میرے متعلق کیا سوچتے ہوں گے'۔

قاضی نے کہا:"بیٹا دنیا بھر کے لوگوں سے تو مجھے عزیز ہے، لیکن یاد رکھوا ﷲ کی محبت میرے دل میں تیرے پیار پر غالب ہے۔ مجھے اس بات کا اندیشہ تھا کہ اگر میں تجھے مشورے کے وقت بتا دیتا کہ فیصلہ ان کے حق میں ہے تو تم ان سے صلح کر لیتے اور وہ لوگ اپنے حق سے محروم رہ جاتے۔
اس لیے میں نے کہا انہیں عدالت میں لے آؤ تاکہ عدل و انصاف سے ان کا حق انہیں مل جائے"۔ 


 

2 مئی، 2014

اب دیکھ ہم مردوں کو زندہ کیسے کرتے ہیں


میلوں کا سفر کرنے کے بعد تھکان کے آثار چہرے پر عیاں تھے مسافر اس وقت آرام کا طلبگار ایک بستی میں داخل ہوا، اجڑی ویران بستی جہاں زندگی کا وجود دور دور تک نظر نہیں آرہاتھا۔ ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ برسوں پہلے یہاں پر انسان آباد تھے مگر کسی حادثے یا عذاب کی وجہ سے انسان زندہ نہ رہے تھے۔گرے مکان،بوسیدہ کمرے اور کھلے دروازے یہی منظر پیش کررہےتھے۔ایک سفر کی تھکان دوسرا خالی اجڑی بستی دیکھ کر کچھ بات منہ سے نکال بیٹھا،

"اس ویران بستی کو الله کیسے آباد کرے گا"

سامنے ایک درخت نظر آیا اس کے نیچے آرام کے خیال سے کچھ لیٹنے کا ارادہ کیا۔ ایک طرف اپنے گدھے کو باندھا کھانے کا سامان سامنے اپنے پہلو میں رکھ لیا، اس غرض سے کہ تھوڑی دیر سستانے کے بعد اٹھ کر کھالوں گا۔ ابھی لیٹا ہی تھا ہوا کے نرم جھونکوں نے تھکاوٹ سے چور بدن کو آرام پہنچایا اور پھر پتہ ہی نہ چلا کہ نیند کب اس پر مہربان ہو گئی۔ جب آنکھ کھلی تو سورج ڈھل رہاتھا تھکے جسم کو آرام مل چکا تھا، اب بھوک نے بے چین کیا اپنے کھانے کو ویسا ہی تازہ پایا۔ مگر جب اپنے گدھے کی جانب دیکھا تو حیرت اور پریشانی سے منہ کھلا ہی رہ گیا، یہ کیا !! گدھا کہاں چلا گیا۔
ابھی حیرت سے باہر نہ آ پایا تھا کہ اپنے ارگرد نظر پڑی، کیا دیکھتا ہے لوگ آجا رہے ہیں دور دور تک آبادی ہی آبادی نظر آئی۔ ایک الجھن سے ابھی نکلا نہ تھا کہ دوسری الجھن سامنے تھی مگر الله تعالی یہ سب منظر دیکھ رہےتھے، اپنے بندے کو پکار کر کہا،

اے میرے بندے! کیا تمہیں معلوم ہے کہ کتنے عرصے تک سویا رہا۔ کہنے لگا؛

"اے الله! ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔"

مگر الله رب العالمین نے کہا: اے میرے بندے تو ایک دن نہیں بلکہ تو ایک سو برس سویا رہا۔ اپنے گدھے کو دیکھ اس کی ہڈیاں مٹی میں گل سڑ چکی ہیں جبکہ کھانا صیح سلامت ہے"

پھر فرمایا: اب دیکھ ہم مردوں کو زندہ کیسے کرتے ہیں، گدھے کی ہڈیاں جو مٹی میں مل چکی تھیں گوشت جو سڑ کر مٹی ہو چکا تھا مگر اپنے رحمان کا حکم ملتے ہی سب ہڈیاں اڑ اڑ کر دوبارہ جسم بنناشروع ہو گیا، گوشت ان ہڈیوں کو دوبارہ پہنا دیا گیا، گدھا اپنی اصلی حالت میں آگیا اور دوبارہ کھڑا ہو گیا۔

یہ معجزہ دکھا کر ﷲ تعالی نے تمام انسانیت کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ ﷲ رب العالمین ہرچیز پر قادر ہے۔

قرآن کریم میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے ۔

2:259
 

ترجمہ:
"یا اس شخص کے مانند کہ جس کا گزر اس بستی سے ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی،وہ کہنے لگا اس کی موت کے بعد ﷲ تعالی اسے کس طرح زندہ کرےگا؟ تو ﷲ تعالی نے اسے ماردیا سو سال کے لیے پھر اسے اٹھایا، پوچھا کتنی مدت تجھ پرگزری؟ کہنے لگا دن یا دن کا کچھ حصہ۔ فرمایا بلکہ تو سو سال تک رہا پھر اپنے کھانے پینے کو دیکھ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو دیکھ ہم تجھے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دیتے ہیں تو دیکھ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، جب یہ سب ظاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ الله ہر چیز پر قادر ہے"۔

سورة البقرة- 259